تیرہویں صدی کے ایک بزرگ حضرت بہاؤالدین زکریا کا مزار ملتان قلعے میں شان و شوکت سے کھڑا ہے، جہاں عقیدت مند اپنی آسوں اور آدرشوں کے چڑھاوے چڑھا رہے ہیں۔
مگر اسی دربار سے متصل ملتان کا ہزاروں سالہ قدیم تاریخی حوالہ پرہلاد کا مندر زمین بوس پڑا ہے۔ وقت اپنے سینے پر بوجھ بن جانے والی تہذیبیوں کو اتار پھینکتا ہے مگر عقیدتیں اور آدرش اپنا نام بدل کر نیا آہنگ اختیار کر لیتے ہیں۔
تقسیم کے وقت پاکستان میں ہندوؤں کے تین سو سے زیادہ مندر موجود تھے، جو لوٹ مار اور کشت و خون کے باوجود اپنی جگہ کھڑے تھے مگر 1992 میں ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد پاکستان میں بدلے کی جو آگ بھڑکی اس نے ایک ہی روز میں 245 سے زائد مندر تباہ کر دیے، جن میں ملتان قلعے میں واقع پرہلاد کا یہ تاریخی مندر بھی ہے۔
اس مندر سے ہندوؤں کے مقدس تہوار ہولی کی داستان جڑی ہوئی ہے جو ہر سال ہندو مہینہ پھلگونا کے پورے چاند کی رات منایا جاتا ہے اور یہ دنیا کے دس بڑے رنگین تہواروں میں شامل ہے۔ اس سال یہ دن 25 مارچ کو آ رہا ہے۔
پرہلاد، جو باپ کی بادشاہت کے لیے چیلنج بن گیا۔۔
ہزاروں سال پہلے دریائے راوی ملتان کے قلعے کو چھوتے ہوئے گزرتا تھا۔
ملتان کی قدامت کتنی ہے، اس کو اگر سینکڑوں ہزاروں سے نہ بھی ناپا جائے تو اساطیری روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ بہت ہی پرانا شہر ہے، جس کی ایک گواہ ویدک دور سے چلی آئی پرہلاد کی کہانی بھی ہے۔
ملتان کے معروف ادیب شاکر حسین شاکر نے اپنی تصنیف ’ملتان عکس و تحریر‘ میں بھی اسے بیان کیا ہے۔ طوفانِ نوح کے بعد شمالی ہندوستان میں ہرناکشپ نام کا ایک بادشاہ گزرا ہے جس کی سلطنت کشپ میر کہلاتی تھی جہاں طوفان نوح کا پانی پہاڑوں میں ایک بہت بڑی جھیل کی صورت جمع ہو گیا تھا۔ بادشاہ نے اپنی طاقت سے جھیل میں شگاف ڈال دیا جس سے پنجاب کے پانچ دریا بنے۔ بادشاہ کی سلطنت پہاڑوں سے میدانوں تک پھیل گئی۔
وہ لوگوں میں اپنے دیو مالائی کردار کی وجہ سے دیوتا کا روپ دھار گیا۔ اس کے بت بنا کر مندروں میں رکھے گئے، لیکن جس طرح فرعون کے گھر موسیٰ پروان چڑھا اسی طرح ہرنا کشپ کے گھر ایک راج کمار پرہلاد نے جنم لیا، جس نے بڑے ہو کر اپنے باپ کی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا۔
کہتے ہیں کہ ایک روز وہ کمہار کے آوے کے قریب بیٹھا برتنوں کی پکائی کا مشاہدہ کر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ بھٹی کی جلتی ہوئی آگ سے جو برتن پک کر نکلا ہے اس کے اندر سے ایک بلی اپنے بچوں کے ساتھ میاؤں میاؤں کرتی باہر نکل آئی ہے۔
اس واقعے نے شہزادے پر ہلاد کی سوچ بدل ڈالی۔ اس نے ایک روز اپنے اتالیق سے کہا کہ میرا باپ جو بادشاہ ہے وہ خدا نہیں ہے بلکہ خدا وہ ہے جو ایک دہکتی ہوئی بھٹی میں بھی بلی اور اس کے بچوں کو سلامت رکھتا ہے۔
اتالیق نے یہ واقعہ بادشاہ کو سنایا۔ بادشاہ نے راج کمار کی ڈانٹ ڈپٹ کی۔ جب وہ باز نہیں آیا تو اسے اپنے محل کی اونچی دیوار سے نیچے پھینکوا دیا۔ راج کمار آرام سے اٹھا اور چل پڑا، جس پر بادشاہ کو حیرت ہوئی۔
اس کے بعد اس نے تیل کا کڑاہ گرم کروا کر شہزادے کو اس میں ڈال دیا۔ یہاں بھی لگتا تھا کہ راج کمار ابلتے ہوئے تیل کی بجائے ٹھنڈے پانی میں تیر رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بادشاہ کی بہن رانی ہولکا نے تجویز دی کہ وہ راج کمار کو لے کر آگ میں بیٹھے گی کیونکہ وہ دیوتا کی بہن ہے، اس لیے آگ اسے کچھ نہیں کہے گی اور راج کمار جل کر راکھ ہوجائے گا۔
چنانچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ روشن کیا گیا۔ رانی ہولکا ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں راج کمار پرہلاد کو گود میں بٹھا کر آگ میں کود گئی۔ رانی تو جل کر راکھ ہو گئی اور راج کماراٹھکیلیاں کرتا ہوا بادشاہ کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
جب بادشاہ نے اپنی بہن ہولکا کو کوئلہ ہوتا ہوا دیکھا تو فوراً حکم دیا کہ مندر کے اندر لوہے کے ستون کو آگ لگا کر گرم کر کے شہزادے کو اس سے باندھ دیا جائے۔ جب آگ سے ستون مکمل سرخ ہو گیا اور شہزادے کو اس کے ساتھ باندھا گیا تو اچانک ستون پھٹ گیا اور اس میں سے وشنو اوتار کی شکل میں شیر بر آمد ہوا، جس نے بادشاہ ہرناکشپ کو ہڑپ کر لیا۔
یہ منظر دیکھتے ہی لوگ شہزادے کے گرد اکٹھے ہوگئے اور اس کی تعظیم بجا لانے لگے۔ پرہلاد نے مندر سے باپ کی مورتی اٹھا کر وہاں ایک مدرسہ بنا دیا اور ملتان کا نام کشپ پور سے پرہلاد نگر ہو گیا۔ ملتان میں اگلے دو سو سال تک پرہلاد کے خاندان کی حکمرانی رہی۔
ہولی کا تہوار اسی رانی ہولکا سے منسوب ہے جسے آگ نے جلا کر راکھ بنا دیا مگر اسی آگ نے پرہلاد کو محفوظ رکھا۔ آج ہم ’خون کی ہولی کھیلنا‘ جیسے محاورے کے معنی تو جانتے ہیں لیکن اس تہوار سے نسبت رکھنے والی اس قدیم داستان کے بارے میں نہیں جانتے۔
اسی پرہلاد کی یاد میں ملتان میں یہ مندر ہزاروں سال سے موجود رہا۔ گذشتہ ایک ہزار سال میں آنے والے مسلمان صوفیا نے بھی اسی مندر کے ارد گرد اپنے ڈیرے جمائے جن کے در پر ہندو اور مسلمان عقیدت مند حاضری دیتے رہے مگر پھر وہ مذہبی انتہا پسندی جو آر پار سرایت کر چکی تھی اس نے اس تاریخی مندر کو تباہ کر دیا۔
کیا پرہلاد اوتار تھا؟
نمردو کی آگ جن پر کوئی اثر نہیں کر سکی وہ پیغمبر حضرت ابراہیم تھے۔ ہرناکشپ کی آگ سے بچ جانے والے پرہلاد کو بھی ہندو دھرم میں اوتار کا مرتبہ حاصل ہے۔ پرہلاد جب پاٹھ شالہ میں زیر تعلیم تھا تو ایک دن اس کے باپ نے پوچھا کہ تم نے کیا پڑھا ہے؟
اس پر پرہلاد نے جواب دیا: ’میں نے صرف اس کی حمد و ثنا کہنا سیکھا ہے جس کی نہ ابتدا ہے، نہ وسط ہے اور نہ ہی آخر ہے۔ جو نہ گھٹتا ہے نہ ہی بڑھتا ہے جو دنیا کا لازوال آقا و مالک ہے پوری کائنات کا مسبب الاسباب۔‘
یہ سنتے ہی ہرناکشپ کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا اور اس نے پرہلاد کے استاد کو گالیاں دیں کہ تم نے یہی سکھایا ہے میرے بیٹے کو، اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’او کوڑھ مغز، کون ہے یہ وشنو جس کا نام تم بار بار میرے سامنے دہرا کر گستاخی کر رہے ہو۔ ان تینوں دنیاؤں کا بادشاہ تو میں ہوں۔‘
پرہلاد نے جواب دیا: ’وشنو کی شان اور عظمت پر تو صرف عارف لوگ ہی مستغرق رہ سکتے ہیں، اسے الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سب سے اعلیٰ و ارفع آقا ہے۔ وہی ہر چیز ہے اور اسی سے ہر چیز وجود پاتی ہے۔‘
پرہلاد نے ہر حال میں خدا کی وحدانیت کا پرچار کیا۔ جب اسے آگ میں ڈالا جا رہا تھا تو اس نے کہا کہ ’ہوائیں اس آگ کو جتنا بھڑکائیں یہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی بلکہ میں تو اپنے ارد گرد آسمانی اپسراؤں کا چہرہ دیکھ رہا ہوں، کنول کے پھولوں کی تازہ تازہ ٹھنڈی ٹھنڈی خوشبوئیں آ رہی ہیں۔‘
یہ کہانی کتنی پرانی ہے؟
پرہلاد اور اس کے باپ ہرناکشپ کا واقعہ کتنا پرانا ہے، اس کے بارے میں ممتاز ناول نگار اور محقق حفیظ خان اپنی کتاب ’ملتان نصف جہان‘ میں تفصیل بیان کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ بہت سے مؤرخین اسے 1537 ق م کا بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مہا بھارت میں بیان کردہ واقعات کے بعد وقوع پذیر ہوا ہے۔
آج ہندو دھرم کا ایک اوتار جو وحدانیت کا پرچار کرتا تھا، اس کا مندر ملتان قلعے میں ریزہ ریزہ ہوا پڑا ہے۔ اہلیان ملتان اس سے بے خبر ہیں کہ پرہلاد اپنے وقت کا اوتار تھا، جو حضرت ابراہیم کی طرح آگ سے زندہ سلامت نکل آیا تھا مگر ہزاروں سال بعد انتہا پسندی کی آگ سے بچ نہیں سکا۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)