پانی ہماری بنیادی ضروریات میں سرفہرست ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے۔ پانی کی اہمیت کے پیشِ نظر اقوام متحدہ ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن مناتی ہے۔ اس بار پانی کے عالمی دن کے موقع ادارے کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آبی وسائل پر تصادم کا بڑھتا ہوا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ عالمی ماہرین کی طرف سے ہمیشہ سے یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ اکیسویں صدی میں ماحولیات کی تیز رفتار ابتری کے سبب لگ بھگ آدھی جنگیں پانی پر قبضے یا زیادہ سے زیادہ حصہ ہتھیانے یا بٹورنے کی کوشش میں ہوں گی۔
حال ہی میں پانی کے حوالے سے جاری کردہ اپنی رپورٹ میں غیر سرکاری امدادی ادارے آکسفوم نے عالمی کارپوریشنوں پر اپنے منافع کو بڑھانے کے لئے غریب ملکوں سے پانی ہتھیانے کا الزام عائد کیا ہے۔
اس سال کے تھیم ’پانی برائے امن‘ کا اعلان کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ جب پانی کی قلت ہو، یا پانی آلودہ ہو، یا جب لوگوں کی پانی تک رسائی غیر مساوی ہو یا بالکل نہ ہو، تو کمیونٹیز اور ممالک کے درمیان تناؤ بڑھ سکتا ہے۔
پانی کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں جمعے کو خبردار کیا گیا کہ دنیا کو اپنے میٹھے پانی کے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، تاہم ان مسائل کو حل کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال سنگین مسائل پیدا کر سکتا ہے ۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں تین ارب سے زیادہ لوگوں کا ایسے پانی پر انحصار ہے، جو قومی سرحدوں کے پار سے آتا ہے، لیکن صرف چوبیس ممالک ایسے ہیں، جن کے آبی اشتراک کے تعاون کے معاہدے ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں جب موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بڑھ رہے ہیں اور ساتھ ہی آبادی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، ممالک کے اندر اور ان کے درمیان ہمارے انتہائی قیمتی وسائل کے تحفظ اور اسے بچا کر رکھنے کے لئے متحد ہونے کی فوری ضرورت ہے
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی بدتر ہوتی ہوئی صورت حال، جنوبی افریقہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں میں بھی آبی ذخیروں کے خشک ہو جانے کا سبب بن رہی ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی افریقہ کے سب سے بڑے شہر جوہانسبرگ میں پانی کے نلکے کئی ہفتوں سے خشک ہیں جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہو ر ہے ہیں
سوئیٹو شہر کے مضافات میں ہزاروں لوگ ان ٹینکروں سے جو شہر سے باہر سے پانی لے کر آتے ہیں، بوتلوں اور بالٹیوں میں پانی لینے کے لئے قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ دنیا کے دو اعشاریہ دو ارب لوگ پینے کے محفوظ پانی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کی کوئی نصف آبادی کو سال کے کم از کم کچھ حصے میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور گلوبل ساؤتھ کے غریب ملک اس سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
جمعرات کو شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں آکسفوم نے بڑی عالمی کارپوریشنوں پر پانی کے اہم وسائل ہتھیانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ نجی شعبہ منافع کمانے کے لئے مقامی آبادی کی قیمت پر ان وسائل کو ہتھیا رہا ہے اور آلودہ کر رہا ہے۔ جس سے عدم مساوات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے
آکسفوم نے امیر ممالک اور کثیر القومی کارپوریشنوں پر پانی کی کمی کو غریب خطوں کی جانب منتقل کرنے کا الزام لگایا ہے، جس کے لئے وہ ان علاقوں سے ایسی مصنوعات درآمد کرتے ہیں جن کے لئے پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، جیسے پھل، سبزیاں، گوشت، پھول اور بوتلوں میں پانی وغیرہ۔
اس حوالے سے آکسفوم فرانس کے زراعت اور خوراک کے ماہر کوئنٹن گیسکر کہتے ہیں کہ تین سو پچاس کارپوریشنوں میں سے، جن کا ڈیٹا بیس کے ذریعے تجزیہ کیا گیا اور جو دنیا میں زرعی آمدنی کے نصف حصے کو کنٹرول کرتی ہیں، ان میں چار میں سے صرف ایک یہ اعلان کرتی نظر آتی ہے کہ وہ پانی کے استعمال اور آلودگی کو کم کر رہی ہے۔
آکسفوم کی کی رپورٹ میں سخت ضابطوں کی سفارش کی گئی ہے اور ترقی پذیر ملکوں میں اس مد میں بھاری فنڈنگ اور پانی تک عالمی رسائی کے لئے کہا گیا ہے۔
پانی کے بحران کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرہِ ارض کی تقریباً نصف آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، موسمیاتی تبدیلی سے منسلک خشک سالی نے 2002 اور 2021 کے درمیان ایک ارب چالیس کروڑ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 2022 تک، دو ارب سے زیادہ لوگ پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم تھے، جب کہ ساڑھے تین ارب لوگوں کے پاس مناسب بیت الخلاء کا فقدان تھا۔
اور اس پر مستزاد یہ کہ دنیا بھر کے دریاؤں میں ، دواسازی، ہارمونز اور صنعتی کیمیکلز شامل ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کی سپلائی، پانی کے با کفایت استعمال اور گندے پانی کی نکاسی کی سروسز کے معیار اور توسیع کو بہتر کرنے کے لیے متعدد ٹکنالوجیز دستیاب ہیں لیکن تیزی سے ابھرتی ہوئی بہت سی ٹیکنالوجیز بہت زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں اور اگر ان پر نظر نہ رکھی گئی تو مستقبل قریب میں سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آرٹیفشل انٹیلیجینس (AI) دریا ئی نظاموں کو مینیج کرنے، ہنگامی ردعمل، اور پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی صفائی کے پلانٹس کے آپریشن اور دیکھ بھال کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے
لیکن مصنوعی ذہانت یا اے آئی اور متعلقہ ٹیکنالوجیز کو کمپیوٹر کولنگ سسٹم کے لیے پانی کی بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ ان کے آلات کو چلانے کے لیے بہت زیادہ (اکثر پانی کے بہت زیادہ استعمال سے حاصل شدہ) توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے برسوں میں ریکارڈ بارش اور شدید خشک سالی کے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے طریقوں میں بھی بہت زیادہ پانی استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایسی ہی ایک تکنیک، جسے ’کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج‘ کہا جاتا ہے، کرہ ارض کی کاربن آلودگی کو کم کرنے کے لیے معدنی ایندھن سے چلنے والے پاور پلانٹس اور اسٹیل اور سیمنٹ جیسی بھاری صنعتوں کے کارخانوں کے اخراج سے کاربن ڈائی آکسائڈ کو اکٹھا کر لیتی ہے
لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کاربن کو جذب اور اسٹور کرنے کے سسٹمز میں توانائی اور پانی کی بہت زیادہ مقدار استعمال ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق معدنی ایندھن نکالنےاور تھرمل اور نیوکلیئر پاور اسٹیشنوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جو توانائی خرچ ہوتی ہے، اسے پیدا کرنے کے لیے عالمی سطح پر نکالے جانے والے پانی کا 10 سے 15 فی صد خرچ ہوتا ہے۔
اگرچہ ونڈ، سولر اور جیوتھرمل انرجی سسٹمز میں پانی کم استعمال ہوتا ہے لیکن ان سے پیدا کردہ توانائی کو ذخیرہ کرنے کے لیے لیتھیم بیٹریوں کی ضرورت ہوتی ہے اور لتھیم ایک انتہائی قیمتی اور کمیاب دھات ہے
پھر سولر پینلز کے لیے لیتھیم اور دوسری اہم معدنیات زمین سے نکالنے کے لیے عام طور پر بہت زیادہ پانی خرچ ہوتا ہے، جب کہ اس کے نتیجے میں پانی ، خاص طور پر گراؤنڈ واٹر کی کوالٹی ، ایکو سٹمز اور مقامی آبادی کے لیےاہم خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔