یہ سولہ سترہ سال پہلے کی بات ہے۔ لاہور کے چند صحافیوں، دانشوروں کی ایک ہفتہ وار محفل میں راجن پور کے معروف سیاست دان اور دریشک بلوچ قبیلے کے سردار نصراللہ خان دریشک بطور مہمان شریک ہوئے۔
سردار نصراللہ دریشک پرانے سیاست دان ہیں، کئی بار رکنِ اسمبلی بن چکے ہیں، تب ان کے صاحبزادے حسنین بہادر دریشک پرویز الٰہی کی کابینہ میں صوبائی وزیرِ خزانہ تھے۔ یہ پرویز مشرف کا دور تھا۔ دریشک صاحب نے اپنی سیاست کے کئی واقعات سنائے اور اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ شیئر کرتے رہے۔
نصراللہ دریشک نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک بار رحیم یار خان کی بزرگ شخصیت مخدوم غلام میراں شاہ مجھے ملنے گھر آئے۔ (یاد رہے کہ مخدوم غلام میراں شاہ کے صاحبزادے مخدوم زادہ حسن محمود ریاست بہاولپور کے آخری وزیراعلٰی تھے۔ حسن محمود بھٹو دور میں پنجاب اسمبلی کے قائدِ حزبِ اختلاف بھی رہے، ان کے بیٹے اور میراں شاہ کے پوتے مخدوم احمد محمود آصف زرداری حکومت میں گورنر پنجاب رہ چکے ہیں، حالیہ انتخابات میں احمد محمود کے دو بیٹے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں)۔
دریشک صاحب نے بتایا کہ وہ اپنے ڈرائنگ رُوم میں بیٹھے تھے، ان کے ایک سکیورٹی گارڈ نے مخدوم صاحب کے تشریف لانے کی اطلاع دی۔ دریشک صاحب نے انہیں فوری لے آنے کا کہا۔
گارڈ سمجھدار آدمی تھا، وہ ایک لمحہ خاموش رہا اور پھر اس نے دھیرے سے کہا، سردار صاحب مخدوم سائیں بزرگ اور بڑے آدمی ہیں، اگر آپ ان کا استقبال باہر آ کر کریں گے تو انہیں اچھا لگے گا۔
یہ بات سردار نصراللہ دریشک کے دل کو لگی۔ وہ فوری اٹھے اور باہر آ کر مخدوم غلام میراں شام کا استقبال کیا، بلوچ، سرائیکی روایت کے مطابق ان کے گھٹنے چھوئے اور احترام سے اندر لے گئے۔
سردار نصراللہ دریشک نے بتایا کہ اس دن کے بعد سے انہوں نے اس گارڈ کی بات کو اہمیت دینا شروع کر دی۔ انہیں لگا کہ یہ معقول آدمی ہے۔ ادب آداب، رکھ رکھاﺅ، وضع داری کا سلیقہ ہے، سب سے بڑھ کر جرأت بھی ہے کہ اپنی رائے دے سکے۔
سردار صاحب بتانے لگے کہ حسنین بہادر دریشک آج کل صوبائی وزیر خزانہ ہیں، لاہور میں رہنا پڑتا ہے۔ میں نے اسی گارڈ کو حسنین بہادر کے ساتھ لگا دیا ہے کہ وہ نوجوان حسنین کو ضرورت پڑنے پر بہتر مشورہ دے سکتا ہے۔
اتنے سال گزر گئے، مگر یہ واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولا۔ جہاں دیدہ بزرگ بلوچ سردار نے اس دن ہمیں اس واقعے کے ذریعے یہ سبق دیا کہ کس طرح اچھے مشورے کے لیے اپنے کان کھلے رکھنے چاہییں اور ایسے لوگوں کی بھی قدر کرنی چاہیے جو اچھا اور صائب مشورہ دے سکیں۔
یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ مشورہ سننا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔آپ میں اتنی برداشت اور ہمت ہے کہ کسی کے درست مشورے پر اپنا فیصلہ یا رائے تبدیل کر سکیں؟ دراصل یہی طے کرتا ہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں آپ کا مشاورتی سسٹم کتنا مضبوط اور مفید ہے؟
سیاست اور خاص کر اقتدار میں ایک بامعنی، بامقصد اور بے لاگ مشاورتی نظام بنانا کامیابی کی کنجی ہے۔ وہی حکمران زیادہ کامیاب رہتے ہیں، جو اچھے مشیر اپنے ساتھ رکھتے اور اُن کی بات پر کان دھرتے ہیں۔
مختلف نقطہِ نظر سننے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور قائل ہونے پر اپنے فیصلے تبدیل بھی کر لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے البتہ ہمارے ہاں ایسے حکمرانوں کی اکثریت رہی، جو ایسے لوگوں کو اپنے اردگرد رکھتے ہیں جو صرف ان کی تائید کریں۔ بھولے سے بھی تنقیدی رائے نہ دیں۔ پھر بلنڈرز ہوتے ہیں۔ بظاہر رواں سفر پر گامزن اقتدار کی کشتی اچانک بھنور میں پھنس جاتی ہے اور کئی بار تو ناﺅ ساحل تک پہنچے بغیر ہی ڈوب جاتی ہے۔
آخر میں جنوبی پنجاب کے ایک اور اہم سیاست دان کا سنایا گیا واقعہ۔ نام لینا مناسب نہیں، وہ آج کل بھی سیاست میں فعال ہیں۔ یہ 1997 کے الیکشن کے فوری بعد کی بات ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی مرکزی کونسل کا اجلاس طلب کیا۔
الیکشن میں پی پی پی کو بدترین شکست ہوئی اور محض چند سیٹیں مل سکیں۔ تب یہ تاثر بھی بنا کہ پیپلز پارٹی کا ووٹر پارٹی کارکردگی سے اتنا مایوس تھا کہ وہ باہر نکلا ہی نہیں۔ خیر اجلاس سے پہلے چند مرکزی رہنماﺅں کی بی بی سے ملاقات تھی۔ وہ لوگ ڈرائنگ روم میں جمع ہوئے، بی بی کے آنے میں ابھی دیر تھی۔ وہاں سب ہی مایوس اور شکست خوردہ تھے۔
انہوں نے آپس میں خاصا کُھل کر باتیں کیں اور یہ فیصلہ کیا کہ آج کُھل کر بی بی کے سامنے صورت حال رکھی جائے، انہیں بتایا جائے کہ فلاں فلاں بندے کی وجہ سے پارٹی کو اتنا نقصان ہوا اور کارکن اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ وہ ووٹ کے لیے باہر ہی نہیں نکلا اور یوں اِتنی بُری شکست ہم سب کو مل گئی۔
ان سب نے جنوبی پنجاب کی اس اہم سیاسی شخصیت سے کہا کہ ’ہماری طرف سے آپ ترجمانی کیجیے گا، آپ کا بی بی احترام بھی کرتی ہیں اور بات کو وزن بھی دیتی ہیں۔‘
ان صاحب نے سر ہلا دیا۔ چند منٹ کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو تشریف لے آئیں۔ وہ الیکشن میں شکست پر سخت غم وغصہ کا شکار تھیں۔
انہوں نے صدر فاروق لغاری پر سخت تنقید کی، لغاری نواز شریف گٹھ جوڑ پر بھی بولتی رہیں اور اس شکست کی وجہ دھاندلی کو قرار دیا۔ اس کے لیے جھرلو کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی۔ پھر انہوں نے باری باری سب سے پوچھنا شروع کیا۔
بسم اللہ کر کے پہلے بندے سے آخری تک ہر ایک نے بی بی کی بھرپور تائید کی، دھاندلی کے الزامات لگائے اور جوش وخروش سے کہا کہ اگر شفاف الیکشن ہوتے تو ہم نے بڑی اکثریت سے جیت جانا تھا۔
میٹنگ ختم ہوئی، بی بی نے ہدایت کی کہ اگلی میٹنگ میں دھاندلی کے شواہد بھی لے آئیں تاکہ ہم وائٹ پیپر شائع کریں وغیرہ وغیرہ۔ باہر نکلے تو باقی لوگوں نے ان صاحب کی طرف دیکھا اور شکوہ کیا کہ آپ نے تو کہا تھا کہ سب باتیں کھل کر بتاﺅں گا، آپ نے بھی بی بی کی ہاں میں ہاں ہی ملائی۔
وہ صاحب مسکرا کر بولے، ”مجھے اتنا بے وقوف سمجھ رکھا ہے؟ تم سب نے تو وہ باتیں کیں جو محترمہ بے نظیر بھٹو سننا چاہتی تھیں اور مجھ سے توقع کر رہے ہو کہ میں انہیں وہ سب کہوں جو وہ سننا نہیں چاہتیں اور جنہیں سننے کے بعد وہ برہم ہوجائیں۔ لالہ سائیں ایویں نہیں ہوندا۔۔ میں نے بھی وہی کہا جو تم سب نے کہا۔“
یہ وہ کلاسیکل مثال ہے، جس پر ہمارا پورا سیاسی نظام اور سیاسی مشاورت کا سسٹم قائم ہے۔ قائدین وہی سننا چاہتے ہیں، جو ان کے دل کی آواز ہے۔
انہیں اپنی رائے سے مخالف کچھ نہیں سننا۔ وہ سب خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں۔مشورہ لینے کے نام پر انہیں صرف تائید چاہیے، وہ دلائل درکار ہیں جو ان کے فیصلے کو تقویت پہنچائیں۔ بس، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
انہیں صرف اپنی کھلی آنکھوں پر بھروسہ ہے۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ کامیابی کے لیے صرف آنکھوں کا دیکھا ضروری نہیں، اپنے کان بھی کُھلے رکھنا پڑتے ہیں۔ اچھا، صائب، معقول مشورہ سننے کی ہمت چاہیے اور ایسا آزاد ماحول بھی، جس میں ساتھی کُھل کر مشورہ دے سکیں۔
بشکریہ اردو نیوز۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)