سرتاج الشعراء حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ کے ابیات میں کراچی کی قدیم لوک داستان ’’موکھی اور متارا‘‘ کا تذکرہ موجود ہے ۔ شاہ لطیف نے جو شاعری کی ہے، اس نے اس لوک داستان کو امر بنا دیا ہے۔ اگر بھٹائی اس لوک داستان کو اپنی شاعری میں خاص اہمیت نہ دیتے تو یقیناً یہ داستان فنا ہو جاتی۔ شاہ لطیف جب بھٹ شاہ سے لاہوت لامکان اور ہنگلاج کے لئے روانہ ہوئے تو کراچی سے گزرتے ہوئے موکھی اور متارا کے مقام کا مشاہدہ کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے تھے۔
متاروں کی قبور پر جانے کے لئے سپر ہائی وے ٹول پلازا سے بقائی یونیورسٹی کے قریب شمال کی طرف گڈاپ کو ایک راستہ جاتا ہے۔ اس راستے پر مغرب میں گوٹھ چنیسر جوکھیو سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر ناراتھر نامی ایک پہاڑی ہے، جس کے مغربی سرے پر متاروں کی قبریں ہیں، اس سے تقریباً چار کلومیٹر دور مغرب میں خاصخیلی گوٹھ کے قبرستان میں ایک چھوٹے سے ٹیلے پر موکھی کی قبر ایک کمرہ نما عمارت میں موجود ہے۔
سندھ میں حکمران جام بابینو نے 1348ع سے 1383ع تک حکومت کی۔ اس کے بعد جام خیر الدین بن جام تماچی تخت نشین ہوئے۔ موکھی اور متاروں کا واقعہ جام بابینو یا جام خیرالدین کے عہد حکومت سے ہے۔
موکھی اور متارا کا سندھ کی ایک اور مشہور عشقیہ داستان مومل رانو سے گہرا ربط ہے۔ موکھی، مومل کی ایک خاص خادمہ ناتر کی بیٹی تھی۔ ناتر نے مومل کے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے سیکڑوں بہادر نوجوانوں اور شہزادوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
ان دنوں ریاست میر پور ماتھیلو (موجودہ ضلع گھوٹکی) کے حاکم راجا نند تھے۔ وہ بڑے دولت مند لیکن بے حد کنجوس حکمران تھے۔ مومل اس کی بڑی بیٹی تھی۔ ایک دفعہ ایک چالاک جادوگر نے دھوکے سے اس حاکم کی ساری دولت مومل سے ہتھیا لی۔ اپنے والد کی ناراضگی دور کرنے اور اس کی دولت لوٹانے کی خاطر مومل اور اس کی چھوٹی بہن نے لڈانو شہر (جیلسمیر ہندوستان) کے قریب کاک ندی کے کنارے ایک خطر ناک محل تعمیر کروایا۔
سیکڑوں عاشق مزاج اور بہادر صفت نوجوانوں کے علاوہ کئی دوسری ریاستوں کے شہزادے، مومل کو حاصل کرنے کے لئے اپنے ساتھ دولت لے کر محل پہنچ گئے لیکن محل کے طلسم اور خوفناک جانوروں کے خوف سے سب ناکام ہو گئے، اس ناکامی کا مطلب زیادہ تر موت تھی۔ اس طرح ان کی چھوڑی ہوئی دولت مومل اپنے والد کو بھیجتی رہی۔ بالآخر عمرکوٹ کے بادشاہ ہمیر سومرو کے بے انتہا ذہین اور چالاک وزیر، رانوں میندھرو نے مومل کو حاصل کر لیا اور واپس عمر کوٹ چلا گیا۔
ہمیر سومرو بادشاہ نے حسد کے مارے رانو میندھرو پر پابندی لگا دی کہ وہ مومل سے ملنے نہیں جائے گا۔ اس طرح مومل اور رانو میں ہجر و فر اق کے فاصلے پیدا ہو گئے۔ مومل اپنے محبوب کے انتظار میں بے قرار رہنے لگی۔ اس کی بہن سومل نے جب یہ دیکھا کہ مومل دن رات تڑپتے گزارتی ہے تو اس کا دل بہلانے کے لئے وہ رات کو رانو کا بھیس بدل کر ساتھ سونے لگی۔
ایک رات رانو جب غیر متوقع طور پر مومل کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ کسی اور کے ساتھ سوئی ہوئی ہے۔ پہلے تو خیال آیا کہ تلوار کے ایک ہی وار میں دونوں کا کام تمام کر دے، لیکن مومل کی من موہنی صورت دیکھ کر نہ جانے کیا سوچا اور پلنگ کے قریب نشانی کے طور پر اونٹ کو ہانکا لگانے والی چھڑی رکھ کر الٹے پاؤں واپس چلا گیا۔ صبح کو جب مومل سو کر اٹھی تو دیکھا کہ رانو کی لاٹھی اس کے سرہانے رکھی ہوئی ہے۔ اس نے سوچا کہ رات کو رانو میرے پاس آیا ہوگا، لیکن مجھے کسی دوسرے کے ساتھ دیکھ کر واپس لوٹ گیا ہوگا۔
مومل نے رانو کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے کئی قاصد بھیجے، بہت سے جتن کئے، لیکن رانو کا غصہ ختم نہ ہوا۔ محبت سے مجبور ہو کر مومل نے خود سوزی کا ارادہ کر لیا۔ اس نے ایک بڑی چتا جلوائی اور جب ہر طرف سے شعلے بلند ہونے لگے تو وہ ان شعلوں میں بے خطر کود پڑی۔ ادھر رانو کو بھی مومل کے اس ارادے کا علم ہو چکا تھا۔ وہ حیران و پریشان جب وہاں پہنچا تو دیکھا، ہر طرف آگ ہی آگ ہے اور مومل اس میں جل کر خاک ہو چکی ہے۔ رانو کا دل اس آگ کی طرف کھینچنے لگا اور وہ بھی دہکتے ہوئے شعلوں کی بھینٹ چڑھ گیا اور اپنی محبوبہ سے جا ملا۔
داستان کے مرکزی کرداروں کے خاتمے اور کاک محل کے اجڑنے کے بعد مومل کی خاص خادمہ ناتر وہاں سے ہجرت کر کے سندھ کے مغربی حصے یعنی کراچی کے پاس گڈاپ کے ایک گاؤں میں آ گئی اور پھر وہاں کے ایک باسی ہیبت خان خاصخیلی سے شادی کر لی، جس سے اس کی آٹھ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ناتر نے اپنی گزر بسر کے لیے ایک شراب خانہ کھولا۔ ان دنوں سندھ اور ایران میں شراب خانوں کا رواج عام تھا۔ اس نے اپنی سات بیٹیوں کی شادیاں کر دیں، جب کہ بڑی بیٹی موکھی کو اپنے شراب خانے والا کام سکھایا۔ موکھی بے حد حسین و جمیل اور حسنِ انتظام میں بھی اپنی مثال آپ تھی۔
موکھی کا شراب خانہ مشہور ہو گیا تھا۔ قرب و جوار کے علاوہ دور دراز علاقوں کے لوگ اس شراب خانے کی شہرت سن کر کھنچے چلے آتے اور اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ یہ شراب خانہ ایک سرائے بن گیا تھا، جہاں آنےوالے لوگوں کے لئے مے نوشی اور طعام و قیام کا بھر پور انتظام کیا جاتا تھا۔ شراب خانے کی شہرت سن کر کچھ دوستوں کا ایک گروہ وہاں آ پہنچا۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے ان کو ’متاروں‘ کے نام سے اپنی شاعری میں یاد کیا ہے۔ سب دوست موکھی کو بے حد پسند کرتے تھے۔ موکھی بھی ان کا انتظار کرتی تھی اور جب بھی وہ آتے، موکھی کے خاص مہمان ہوتے تھے۔ موکھی دل و جان سے ان کی مہمان نوازی کرتی۔ بقول شاہ لطیف ؒ کے؎
مرا انگ انگ مسکائے، مرے دوارے ساجن گائے
دن پریت ملن کے آئے
دن ڈھلتے ہی مرے ساجن، کتنی سندرتا آئے
دن پریت ملن کے آئے
پھر بھاگ نے کایا پلٹی، برہا کے روگ مٹائے
دن پریت ملن کے آئے
وہ پاس ہے میرے من کے، جگ جس کو دور بتائے
دن پریت ملن کے آئے
موکھی کے بارے میں تو کچھ معلومات مل جاتی ہے، لیکن متاروں سے متعلق کچھ روایات ہی ملتی ہیں۔ متاروں کی تعداد پر بھی محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ تاریخ دانوں نے متاروں کی تعداد چھ بتائی ہے، جبکہ کچھ کے خیال میں آٹھ تھے لیکن اکثر کتب اور سندھ کے کلاسیکی شعراء، سگھڑ اور بیت بازوں نے متاروں کی تعداد چھ ہی بتائی ہے۔
متارا سندھی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی صحت مند نوجوان یا پہلوان کے ہیں۔ سومرو اور سمہ دور میں سندھ کے سرحدی محافظوں کو بھی متارا کہا جاتا ہے۔ یہ باقاعدہ سرکاری تنخواہ دار ہوتے تھے۔ اس لوک داستان میں متاروں کے لئے بیت بازوں نے اپنی شاعری میں سردار، داتا سری کے سردار وغیرہ جیسے القاب سے یاد کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے خاص منصب پر فائز تھے یا پھر اپنے علاقے کے سردار تھے۔ متاروں کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے علاقوں کے سردار یا حریت پسند تھے۔
ایک روایت کے مطابق یہ متارے حسب معمول رات کے وقت موکھی کے پاس گئے اور اس سے کوئی پرانی شراب پلانے کی فرمائش کی۔ موکھی کی سب بھٹیاں خاموش ہو چکی تھیں، شراب بھی ختم ہو گئی تھی، البتہ ایک پرانے بڑے مٹکے میں شراب تھی، لیکن اس میں ایک زہریلے سانپ کی کھال تیر رہی تھی۔ موکھی سمجھ گئی کہ شراب زہریلی ہو گئی ہے، دوسری طرف متارے بضد تھے کہ ان کو ہر صورت شراب پلائی جائے۔ مجبوراً موکھی نے انہیں وہی زہریلی شراب پلا دی۔ رات گزار کر وہ وہاں سے چلے گئے۔
متارے عموماً سال میں تین چار مرتبہ موکھی کے ہاں آتے اور اس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے تھے، لیکن اس مرتبہ سال بیت گیا، وہ نہیں لوٹے۔ موکھی سوچتی رہتی کہ نہ جانے متارے زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔ ایک سال گزرنے کے بعد متارے اچانک آ گئے۔ موکھی اپنے خاص مہمانوں کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔ متاروں نے اسی شراب کی فرمائش کی، جو انہوں نے گزشتہ سال پی تھی۔ موکھی نے انہیں بے شمار دوسری شرابیں پیش کیں، لیکن وہ بضد رہے کہ انہیں وہی شراب پلائی جائے۔
مجبوراً موکھی کو بتانا پڑا کہ جو شراب ان لوگوں نے پچھلے سال پی تھی، اس کے زیادہ نشے کا سبب یہ تھا کہ وہ بہت پرانی تھی، دوسرے یہ کہ اس مٹکے میں زہریلا کاریہر سانپ گر گیا تھا اور اس میں زہر ملا ہوا تھا۔ یہ سنتے ہی متاروں نے سوچا کہ انہوں نے سانپ کا زہر پیا تھا، اس کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ سانپ کی اس دہشت سے سب پر دل کا دورہ پڑا اور فوری دم توڑ دیا۔
موکھی کو متاروں سے بے حد محبت تھی۔ ان کے مرنے کا اسے بہت صدمہ ہوا۔ اس نے ان متاروں کی قبریں شراب خانے سے تقریباً چار کلو میٹر دور ناراتھر پہاڑی پر بنوائیں، جو آج بھی وہاں موجود ہیں۔ متاروں کے مرنے کے بعد موکھی کے شراب خانے کا زوال شروع ہو گیا اور باقی زندگی موکھی نے بڑی مفلسی اور تنگ دستی میں گزاری۔ اسی عرصے میں اس کی ماں ناتر بھی فوت ہو گئی۔ موکھی نے اپنی باقی زندگی اس شراب خانے کے پاس گزاری اور وہیں مر گئی۔ آج بھی اس کی قبر شراب خانے کے پاس موجود ایک قبرستان میں ہے۔
ناراتھر پہاڑی پر ایک چھوٹی چار دیواری میں چھ قبریں اندر اور ایک قبر باہر ہے۔ ان میں کچھ قبروں پر متاروں کے نام بھی درج ہیں۔ ایک قبر پر حاجی حالار لکھا ہوا ہے۔ دوسری قبر پر محمد اسماعیل، تیسری قبر پر اسحاق خان، چوتھی قبر پر رستم آدم اور پانچویں قبر پر یادگار اسماعیل حاجی لکھا ہوا ہے، دیگر قبروں پر نام درج نہیں۔ یہ سب قبریں ایک جیسی ہیں۔ چار دیواری میں ایک پتھر کو اس طرح تراشا گیا ہے کہ وہ پیالے کی طرح گول سا لگتا ہے۔ یہ پتھر اب دو ٹکڑے ہو گیا ہے۔
متاروں کی قبروں پر درج ناموں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ یا تو ایک ہی خاندان کی قبریں ہیں اور ان میں سے تین بھائی ہیں، جو حاجی کے بیٹے ہیں یا پھر ان کی ذات حاجی ہے۔ ان میں سے ایک قبر پر حاجی حالار کے الفاظ ابھرے ہوئے تحریر ہیں، جبکہ باقی نام پتھر کو تراش کر لکھے گئے ہیں۔یہ قبریں چوکنڈی کی طرز پر تعمیر کی گئی ہیں اور اوائلی دور کی معلوم ہوتی ہیں۔
اس طرح کی طرز تعمیر کو سندھی زبان میں ’’گھاڑی‘‘ بھی کہتے ہیں، جس کے معنی ’’گھڑی ہوئی‘‘ کے ہیں۔ اس طرز کی قبریں ساحل مکران سے لے کر میر پور ساکرو (ضلع ٹھٹہ) تک ہیں، کہیں کہیں ان کو ’’رومیوں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی قبریں زیادہ تر جوکھیہ، کلمتی اور برفت قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہیں۔ متاروں کی قبریں بھی گھاڑی طرز کی ہیں۔
موکھی کی قبر سہراب گوٹھ سے 18 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ متاروں کی قبریں پتھر کی بنی ہوئی ہیں، لیکن ان کے برعکس موکھی کی قبر بالکل سادہ اور عام قبروں کی طرح بغیر کسی کتبے کے ہے۔ پہلے چار دیواری میں تھی، لیکن حال ہی میں مجاور حاجی خان خاصخیلی نے اسے سیمنٹ سے مضبوط کروا کے اس کو ایک چھوٹے سے کمرے کی شکل دلوائی ہے۔
کراچی کی قدیم لوک داستان موکھی اور متاروں کا تذکرہ فقط شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ ہی کی شاعری میں نہیں، بلکہ شاہ لطف اللہ قادری اور میاں شاہ عنایت کی شاعری میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ جدید دور کے شعراء میں شیخ ایاز، استاد بخاری، تاجل بیوس، ابراہیم منشی، ج ۔ ع منگھانی اور دیگر کئی شاعروں نے اس داستان سے متعلق شاعری کی ہے۔ اس طرح اس داستان کو ہمیشہ کے لیےامر اور محفوظ کر دیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)