برطانوی ایمپیریل ازم ختم مگر کلچراب بھی زندہ

ڈاکٹر مبارک علی

برطانوی ایمپیریل ازم اپنا تاریخی کردار ختم کر کے جا چکا ہے۔ اب مورخین اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ خاص طور پر کمبریج اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں کی جانب سے اس موضوع پر کئی جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں مورخین نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے ورثے اور اثرات پر تحقیق کی ہے۔ مورخوں نے یہ سوال بھی اُٹھایا ہے کہ نو آبادیاتی تاریخ اور برطانوی تاریخ کو علیحدہ کر کے دیکھا جائے یا ان دونوں میں جو اشتراک ہے، اس کی مدد سے برطانوی ایمپیریل ازم کو سمجھا جائے۔ مورخین کی اکثریت اس پر مُتفق ہے کہ ان دونوں تاریخوں کو علیحدہ کر کے کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا ہے۔

برطانوی ایمپیریل ازم کی بنیاد قوم پرستی سے شروع ہوئی۔ قوم پرستی نے برطانوی فتوحات اور کالونیز سیاسی اقتدار کو قوم کی صلاحیتوں، اُس کی بہادری، قابلیت اور ذہانت سے مُنسلِک کر کے فخر کے جذبات کو اُبھارا۔ اُن میں یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ وہ نسلی اعتبار سے برتر اور افضل ہیں اور مسیحیت نے اُن میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کی ہیں۔ ان جذبات نے اُن میں مضبوط شناخت کو پیدا کیا، لہٰذا قوم پرستی نے اشرافیہ اور ورکنگ کلاس کو ایک کر کے برطانوی ایمپیریل ازم کا حامی بنا دیا۔

قوم پرستی کے لیے یہ ضروری تھا کہ قومی ہیروز کی تشکیل کی جائے، چنانچہ لندن میں پورٹریٹ گیلری بنائی گئی، جس میں فوجی اور سِول ہیروز کی تصاویر تھیں۔ نیشنل آرٹ گیلری قائم کی گئی، جس کا خرچہ غلاموں کے کاروبار کے فنڈز سے حاصل کیا گیا۔ برطانوی ایمپیریل ازم کے ہیروز پر کتابیں شائع کی گئیں، خاص طور سے 1857ء میں فتح یاب ہونے والے جنرلوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ برطانوی فوج اور عام لوگوں کے درمیان جو تعلم تھا، اُس کا اظہار جلیاں والا باغ کے خون آشام واقعے سے ہوتا ہے، جو جنرل ڈائر نے کروایا تھا۔ برطانوی پبلِک نے اسے ہیرو بنا لیا اور چندہ جمع کر کے اسے تحفے دئیے۔

برطانوی فوج، جس نے فتوحات حاصل کیں، اُس کے عام فوجیوں کے بارے میں یہ رائے تھی کہ یہ نچلے طبقے کی تلچھٹ ہیں، ان میں نہ کوئی اخلاقی قدریں ہیں اور نہ کوئی مذہب سے عقیدت۔ اس وجہ سے مِشنریوں نے برطانوی افواج میں مسیحیت کی تبلیغ شروع کی تا کہ فوجیوں کے کردار کی اصلاح کی جائے اور اُن میں مذہبی اور قومی تفاخر پیدا کیا جائے۔

برطانوی ایمپیریل ازم کو مقبول بنانے کے لیے لندن اور دوسرے شہروں میں نمائشوں کا اہتمام کیا گیا۔ ان نمائشوں میں برطانیہ کی نئی ایجادات اور صنعت میں استعمال ہونے والی مشینیں رکھیں گئیں۔ 1851ء میں لندن میں ہونے والی ایک نمائش میں کوہِ نور ہیرے کو بھی رکھا گیا۔ برطانیہ اور اس کے زیرِ تسلط کالونیوں کے تضاد کو پیش کیا گیا۔ اس نمائش کو دیکھنے کے لیے ریلوے کے قیام کے بعد بڑی تعداد میں چھوٹے شہروں اور قصبوں کے لوگ آئے اور برطانیہ کی برتری پر اُن میں تہذیبی اور سیاسی فخر کا احساس پیدا ہوا۔

برطانوی ایمپیریل ازم کو مقبول بنانے میں قائم ہونے والی مختلف علمی اور ادبی سوسائٹیوں کا کردار بھی نمایاں تھا۔ ان میں رائل ایشیاٹِک سوسائٹی، رائل جغرافیکل سوسائٹی اور سائنس میں جیالوجیکل، بوٹیکنیکل وغیرہ شامل تھیں۔ لندن میں ایک بوٹینیکل گارڈن قائم کیا گیا، جس میں کالونیز سے لائے گئے مختلف قِسموں کے پودے لگا کر ان پر تجربے کیے گئے۔

برطانوی حکومت نے اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے کالونیز میں نیا تعلیمی نظام شروع کیا۔ جب انگریزی زبان تعلیم کا ذریعہ بنی اور نصاب میں انگریزی اَدب اور انگلستان کی تاریخ کو پڑھایا جانے لگا تو اُس نے ایک ایسا تعلیمی طبقہ پیدا کیا، جو انگریزی سے مرعوب تھا۔ وہ اپنی روایات سے دُور ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ اُس کے لباس اور رہائش میں بھی تبدیلی آ گئی۔ انگریزی تعلیم کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوان طالبِ علم مغربی خیالات اور افکار سے واقف ہوئے اور ان میں سیاسی شعُور پیدا ہوا، جو قومی آزادی کا حامی تھا۔ اس پر برطانوی حکومت کو تشویش ہوئی۔ لارڈ کرزن جو وائسرائے ہو کر آیا تھا۔ طالبِ علموں کے اس خطرے کو روکنے کے لیے یہ سوچا گیا کہ ہندوستان سے یونیورسٹی تعلیم کو ختم کر دیا جائے، لیکن بعد میں فیصلہ ہوا کہ یونیورسٹیوں میں کم تعداد میں نوجوان کو داخلہ دیا جائے۔ لارڈ کرزن کلکتہ یونیورسٹی کے کانووکیشن کے موقع پر طالبِ علموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت کے وفادار رہیں، جو ہندوستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔

برطانیہ اور کالونیز میں برطانوی ایمپیریل ازم کے کارناموں کو پیش کرنے کے لیے اخباروں اور رسالوں کو پوری طرح استعمال کیا گیا۔ ان میں جنگ کی خبریں شائع ہوتی تھیں اور ان میں سے کچھ اخبارات محاذ پر اپنے نمائندوں کو بھیج کر چشم و دید واقعات کی تفصیل حاصل کیا کرتے تھے۔ چونکہ برطانوی معاشرے کی خواندگی کی شرح بڑھ گئی تھی، اس لیے اخباروں کی خبروں سے اکثریت تازہ معلومات حاصل کرتی تھی اور برطانیہ کی فتوحات سے آگاہ رہتی تھی۔

برطانوی ایمپیریل ازم نے نہ صرف اپنے مُلک کے سیاسی معاشی اور سماجی حالات پر اَثر ڈالا بلکہ اس سے کالونیز کے معاشرے بھی بے انتہا مُتاثر ہوئے۔ ان میں جدید اور قدیم کے درمیان جو تصادُم شروع ہوا اور اب تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔

برطانوی ایمپیریل ازم کے خاتمے کے بعد بھی اس کا کلچر اب بھی اس کی سابقہ کالونیوں میں جاری ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close