کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ کی زیر ملکیت یا زیر استعمال کوئی شے ٹوٹ جائے، کھو جانے یا چرا لی جائے تو آپ افسوس اور اداسی کیوں محسوس کرتے ہیں؟
یہ اداسی اور افسوس صرف معاشی نقصان پہنچنے کا نہیں ہوتا، بلکہ در حقیقت اس شے سے ہماری جذباتی وابستگی ہوتی ہے، جسے دھچکا پہنچتا ہے۔
بچوں میں یہ وابستگی زیادہ ہوتی ہے، جب ان کی کوئی چیز ان سے دور کردی جائے تو وہ چیخنا چلانا اور دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیتے ہیں اور جب انہیں ان کی چیز واپس کر دی جائے تو وہ خاموش ہو کر سکون سے بیٹھ جاتے ہیں۔
لیکن یہ احساس کیوں ہوتا ہے؟
بچوں کی نفسیات کے بانی جین پیژے نے انسانی نفسیات کی ایک انوکھی چیز کا مشاہدہ کیا تھا
انہوں نے دیکھا کہ ہمارے اندر احساسِ ملکیت بہت جلدی جنم لے لیتا ہے، جیسے ہی کوئی چیز ہمارے تصرف میں آتی ہے، ہمارے اندر اس کے استحقاق کا احساس پیدا ہو جاتا ہے اور ہم اسے خود سے دور نہیں کرنا چاہتے۔
اس احساس کو انڈومنٹ افیکٹ کہا جاتا ہے اور یہ انسانی نفسیات کا ایک ثابت شده نظریہ ہے
اس نفسیات کا مظاہرہ ایک تجربے کے ذریعے کیا گیا۔ اس تجربے میں کچھ طلبا کو ایک تحقیق میں مدد دینے کے لیے دو انعامات کے درمیان انتخاب کرنے کا کہا گیا، کافی کا مگ اور سوئس چاکلیٹ بار۔۔
کچھ طلبا نے کافی جگ لینے کی خواہش ظاہر کی اور کچھ نے چاکلیٹ بار، جب یہ چیزیں ان کے حوالے کردی گئیں، تو غیر متوقع طور پر ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنی منتخب کردہ شے کو دوسرے انعام کے ساتھ بدلنا چاہیں گے؟
یعنی کافی مگ جیتنے والوں کو اس کی جگہ چاکلیٹ اور چاکلیٹ جیتنے والوں کو اس کی جاگہ کافی مگ دینے کی پیشکش کی گئی، لیکن صرف 11 فیصد طلبا نے اس تبادلے کے لیے ہامی بھری۔
اس سے ایک چیز یہ ثابت ہوئی کہ جب کسی شخص نے ابتدا سے کوئی چیز اپنی سمجھ کر حاصل کرلی تو پھر اسے اس سے ایک قسم کی نسبت ہوگئی اور اس نے اسے خود سے دور کرنا مناسب نہیں سمجھا.
لیکن یہ معاملہ صرف جذبات کا ہی نہیں، دماغ اور جسم کا بھی اس سے تعلق ہے۔
ایک تجربے میں نیورو سائنسدانوں نے کچھ افراد کے گروپ کو چند اشیا دیں، جیسے باسکٹ، مگ، قلم وغیرہ اور کہا کہ وہ اپنی پسند کی چیزوں پر ”میری“ یا ”اپنی“ کا لیبل لگائیں اور بویث چیزوں پر کسی اور کے نام کا لیبل۔۔
جب ان افراد کے دماغ کا اسکین کیا گیا تو سائنس دانوں نے دیکھا کہ ”میری“ کے لیبل والی اشیا کو دیکھتے ہوئے ان افراد کے دماغ کا وہ حصہ فعال ہو گیا، جو اس وقت حرکت کرتا ہے جب انسان اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے۔
گویا اپنی ملکیتی اشیا کو در اصل اپنی ذات کا بی حصہ سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ بچپن میں اپنی زیرِ ملکیت چیزوں کے بارے میں بچوں کو یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ کچھ خاص ہیں۔
اس بات کو ثابت کرنے کے لیے سائنس دانوں نے تین سے چھ سال کے بچوں کے زیرِ استعمال کھلونوں اور اشیا کی نقول تیار کیں۔
پھر ان بچوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی چیز یا اس کی نقل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں، تقریباً پر بچے نے اپنی چیز ہی چُنی، بلکہ کچھ بچے اپنی چیز کی جگہ اس کی بالکل ویسی ہی نقل لے جانے کے خیال سے خوف زدہ تک ہو گئے اور رونا شروع کر دیا۔
اپنی زیرِ ملکیت اشیا سے یہ وابستگی بعد کی عمر میں بھی قائم رہتی ہے، جیسے کچھ افراد اپنی خاندانی اشیا کو خود سے دور کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ دراصل انہیں لگتا ہے کہ ان اشیا کے ذریعے وہ اپنے گزر جانے والے پیاروں سے جڑے ہوئے ہیں۔
لیکن مادی اشیا سے ایسی وابستگی بعض اوقات پریشان کن صورتحال بھی اختیار کر لیتی ہے۔
وابستگی کی ایسی ایک کیفیت ’ہورڈنگ ڈس آرڈر کہلاتی‘ ہے، جس میں کسی شخص کے لیے اپنی زیرِ تصرف اشیا کو پھینکنا بہت مشکل ہوتا ہے اور وہ انہیں ٹوٹ پھوٹ جانے یا خراب ہو جانے کے بعد بھی اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا ہے۔
اس وابستگی کی ایک وجہ ثقافت بھی ہو سکتی ہے۔
شمالی تنزانیہ میں جدید دنیا سے الگ تھلگ رہنے والے امیلی ہادزا کے چند افراد پر کی گئی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ ان میں اشیا کے لے یہ احساس یا وابستگی نہیں ہوتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قبیلے میں کسی بھی شے پر سب کا حق تسلیم کیا جاتا ہے اور وہ کسی ایک کی ملکیت نہیں ہوتی۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ جدید دور میں ٹیکنالوجی کے عروج کے ساتھ ساتھ مادی اشیا کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا رہے گا اور ہماری نفسیات میں کیا تبدیلی آئے گی۔۔
جسے کہا جاتا ہے کہ تحریری مواد اور موسیقی کی انٹرنیٹ پر دستیابی کے بعد کتابوں اور موسیقی کے ریکارڈز جمع کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے، اور ایک وقت آئے گا کہ ان کا ظاہری وجود غائب ہو جائے گا لیکن فی الحال یہ پیشن گوئی قبل از وقت لگتی ہے۔
شاید چیزوں کے طبعی وجود میں ہونے، اور انہیں اپنے پاس رکھنے کا احساس کچھ انوکھا اور مطمئن کر دینے والا ہے، اور شاید انسانی نفسیات اس احساس سے کبھی دامن نہ چھڑا سکے۔