وِل ڈیورا، جو دنیا کے جانے مانے تاریخ دان سمجھے جاتے ہیں، اپنی کتاب دی اِسٹوری آف سویلائزیشن میں لکھتے ہیں ’’جب خوفو نے پہلا احرام تعمیر کروایا تو ’موہن جو دڑو‘ اپنے عروج پر تھا۔‘‘
مجھے وِل ڈیورا کی دریائےِ سندھ کی ترائی پر آباد، اِنڈس ویلی سویلائزیشن کے بارے میں کی گئی اس بات کی اصل گہرائی کا اندازہ اس وقت ہوا، جب میں نے متعلقہ کتب میں پڑھا کہ لاہور سے ملتان جاتے ہوئے سب سے پہلے جو ریلوے ٹریک 1856 میں بچھایا گیا تھا، اس میں تقریباً 100 میل تک ہڑپہ سے چوری شدہ اینٹوں کا استعمال کیا گیا۔
اس بات کا علم ہوتے ہی میں نے بغیر کسی وقفے کے گوگل پر ہڑپہ کی تصاویر ملاحظہ کیں۔ ہڑپہ کے موجودہ کھنڈرات کی تصاویر دیکھ کر دل اس بات پر گریہ کن ہوا کہ ہم کس قدر بے حس واقع ہوئے ہیں۔ میں ان تصاویر پر اپنی نظریں جمائے اس سوچ میں گم تھا کہ اگر وہ اینٹیں جو آج ریل کی پٹریوں کے نیچے دبی پڑی ہیں، وہ اپنی صحیح جگہ پر موجود ہوتیں تو ہڑپہ میں کھنڈرات کی صرف بنیادیں ہی موجود نہ ہوتیں، بلکہ وسیع پیمانے پر تباہ شدہ عمارتوں کے آثار بھی موجود ہوتے۔
اپنے لوگوں کی بے حسی پر جب دل آنسو بہا چکا تو خیال ہوا کہ کیوں نہ اس بات پر تحقیق کی جائے کہ کیسے یہ عظیم تہذیب منظرِعام پر آئی اور وہ کون لوگ تھے، جن کی وجہ سے آج تک کچھ باقیات اب بھی اِنڈس ویلی سویلائزیشن کی مختلف سائٹس پر موجود ہیں۔ کچھ دنوں تک تو تحقیق کا یہ خیال میرے تخیلات میں صرف غوطے ہی لگاتا رہا مگر چند دنوں کی ٹال مٹول کے بعد میں نے تحقیق کا آغاز کرہی دیا۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کو یہ تحقیق ایک کہانی کی طرح سناؤں۔
برطانوی جاسوس جیمز لِیوس کی ہڑپہ آمد:
اس کہانی کا آغاز جیمز لِیوس نامی برطانوی فوجی سے ہوتا ہے۔ چونکہ یہ حضرت ایک جاسوس بھی تھے، اسی وجہ سے ان کا ایک فرضی نام چارلس میسن بھی تھا۔ تاریخ میں یہ شخص چارلس میسن کے نام سے زیادہ مشہور ہے، اس وجہ سے میں اس تحریر میں اس کا یہی نام استعمال کروں گا۔ چارلس کو سکے اور پرانے نوادرات جمع کرنے کا بہت شوق تھا اور اسی شوق کے تحت 1826 میں اپنے سفر کے دوران یہ پنجاب کے کچھ علاقوں سے بھی گزرے۔ ملتان کی طرف جاتے ہوئے مقامی لوگوں سے پوچھتے ہوئے جنگلوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے ایک ایسی جگہ پر پہنچے، جہاں کچھ کھنڈرات موجود تھے۔ جب لوگوں سے اس جگہ کا نام دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ جگہ ہڑپہ کہلاتی ہے۔
چارلس نے کچھ وقت ہڑپہ میں قیام کیا اور اپنے قیام کے دوران کھنڈرات کی تصاویر اپنے پاس موجود ڈائری کے کچھ صفحات پر بنالیں۔ اس وقت تک وہ یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ ہڑپہ اصل میں کیا ہے اور ماضی کی کس تہذیب سے تعلق رکھتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ وہ زندگی بھر ہڑپہ کی اصلیت سے بے خبر ہی رہے۔
خیر! کچھ عرصے بعد وہ برطانیہ واپس چلے گئے اور وہاں جاکر انہوں نے ایک کتاب نیریٹو آف ویریئس جرنیز اِن بلوچستان، افغانستان، پنجاب اینڈ قلات لکھی۔ اس کتاب میں چارلس نے ہڑپہ کی باقیات کا ذکر کچھ اس طرح کیا۔
’’میں نے اسے گاؤں اور اینٹوں کے تباہ حال قلعے کے سامنے پایا۔ ہمارے پیچھے ایک دائرہ نما بڑا ٹیلا یا اونچائی تھی۔ اور مشرق کی طرف ایک بے ترتیب چٹانی اونچائی تھی جو عمارتوں کی باقیات اور دیواروں کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی تھی۔‘‘
چارلس سمجھ رہے تھے کہ ہڑپہ میں موجود باقیات آریائی قوم کے آباد کردہ سنگالا نامی شہر کی باقیات ہیں، جسے سکندرِاعظم نے زمین بوس کیا تھا۔ مگر یہ محض اِن کی غلط فہمی تھی۔
الیگزینڈر برنز کی ہڑپہ آمد:
چارلس کے ہڑپہ جانے کے پانچ سال بعد ایک اور سیاح جن کا نام الیگزینڈر برنز تھا، ہڑپہ کی طرف سے گزرے۔ انہوں نے جو کچھ وہاں دیکھا اپنی کتاب ٹریولز اِن ٹو بخارہ کی تیسری جلد، صفحہ نمبر 137 میں درج کیا۔
’’تلمبہ سے تقریباً پچاس میل مشرق کی طرف، ہڑپہ نامی ایک قدیمی شہر کی باقیات کا جائزہ لینے کےلیے میں نے چار میل کا فاصلہ ملک کے اندرونی علاقوں کی طرف کیا۔ تقریباً تین میل کے گھیراؤ میں موجود یہ وسیع باقیات اینٹوں سے بنائی گئی ہیں۔ شہر میں دریا کے کنارے پر ایک تباہ شدہ قلعہ ہے مگر علاوہ ازیں ہڑپہ ایک مکمل تباہی کی تصویر ہے جس میں ایک بھی عمارت سالم نہیں ہے۔‘‘
الیگزینڈر برنز مزید لکھتے ہیں
’’روایت کے مطابق ہڑپہ کے زوال کا زمانہ 1300 سال پہلے کا وہی زمانہ ہے جس میں شورکوٹ تباہی کا شکار ہوا تھا اور لوگ ہڑپہ کی تباہی کا باعث اس پر خدا کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب سے منسوب کرتے ہیں۔‘‘
الیگزینڈر برنز اس تباہی کی وجہ بھی آگے بیان کرتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہڑپہ کا حکمران کچھ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مگن تھا اور مقامی لوگوں کے مطابق یہی ہڑپہ کی تباہی کی وجہ بنی۔
چارلس میسن اور الیگزینڈر برنز دونوں نے ہی اپنی کتابوں میں ہڑپہ کے بارے میں لکھا۔ گو کہ ان دونوں حضرات کو اس شہر کی اصلیت معلوم نہ تھی مگر پھر بھی ان کے اپنی اپنی کتابوں میں لکھے گئے الفاظ ہڑپہ یا یوں کہہ لیجئے کہ اِنڈس سویلائزیشن کے بارے میں سب سے اولین حوالہ جات بن گئے۔
الیگزینڈر کننگھم کا ہڑپہ کو بچانا:
اسی دور میں جب چارلس میسن اور الیگزینڈر برنز نے یہ کتابیں لکھیں تو برطانوی فوج کے ایک میجر جنرل الیگزینڈر کننگھم، جو بنگال انجینئرنگ گروپ میں انجینئر کے فرائض سرانجام دے رہے تھے، انہوں نے برصغیر کی تاریخ میں دلچسپی لینا شروع کی اور 1853 سے 1856 تک ہڑپہ کے لگاتار دورے کرتے رہے۔ ان کی اسی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے برطانوی سرکار نے 1961 میں آرکیالوجیکل سرویئر کی پوسٹ ان کو دے دی۔ اس پوسٹ کو ان کے حوالے کرنے کی ایک خاص وجہ بھی تھی اور وہ یہ تھی کہ 1856 میں برطانوی سرکار نے کراچی سے لاہور تک کے ریلوے ٹریک پر کام شروع کیا اور ملتان سے لاہور تک کے ریلوے ٹریک بچھانے کےلیے پنجاب ریلوے کا ادارہ تشکیل دیا۔ ان ٹریکس پر چلنے والی ٹرینوں کو مسافروں کو ملتان سے لاہور اور پھر لاہور سے امرتسر لے کر جانا تھا۔ اب جب ان ٹریکس کو بچھانے کےلیے اینٹوں کی ضرورت پڑی تو ہڑپہ کے کھنڈرات کو اینٹوں کی کان کے طور سے دیکھا جانے لگا۔ لوگوں نے یہاں سے اتنی اینٹیں چرائیں کہ ان اینٹوں سے ملتان سے لاہور کے درمیان سو میل تک کی ریلوے لائن بچھانے میں مدد لی گئی۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی 1872-73 کی رپورٹ میں صفحہ نمبر 107 پر لکھا ہے:
’’شاید! ہڑپہ کے تباہ شدہ اینٹوں کے ٹیلوں کی وسعت کا بہترین اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اینٹیں لاہور اور ملتان کے درمیان تقریباً سو میل تک کی ریلوے لائن بچھانے کےلیے اینٹوں کی گٹیوں کی فراہمی کےلیے کافی ہیں۔‘‘
شیخ نوید اسلم اپنی کتاب پاکستان کے آثار قدیمہ میں لکھتے ہیں کہ انہی اینٹوں سے ساہیوال اور خانیوال تک ریل کی پٹری اور چھوٹے بڑے اسٹیشن تعمیر کیے گئے۔ جنرل کننگھم کی مداخلت پر ہی یہاں سے اینٹوں کی کھدائی رکوائی گئی لیکن اس وقت تک تقریباً آدھے کھنڈرات تباہ ہوچکے تھے۔
حیران کن طور سے ان اینٹوں کی چوری صرف ہڑپہ کے کھنڈرات سے نہیں ہو رہی تھی بلکہ ان تاریخی اینٹوں کی چوری اںڈس سویلائزیشن کے دوسرے شہروں سے بھی جاری تھی۔ جیسے موہنجودڑو سے اینٹیں نکال کر سندھ ریلوے کو پروان چڑھایا جارہا تھا اور کالی بنگن سے اینٹیں نکال کر بِکنار ریلوے لائن بچھائی جارہی تھی۔ اینٹوں کی اتنی بڑی مقدار میں چوری اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ہڑپہ میں کھنڈرات کی صرف بنیادیں ہی موجود نہیں تھیں بلکہ یہاں وسیع پیمانے پر تباہ شدہ عمارتیں موجود تھیں جنہیں کم عقل لوگوں نے انتہائی کم منافِع کی خاطر تباہ کردیا۔
جنرل کننگھم کی ہڑپہ کو بچانے کی انہی کاوشوں کی وجہ سے انہیں آرکیالوجیکل سرویئر کی پوسٹ دی گئی اور پھر بعد میں انہی حضرت نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا جیسے ادارے کی بنیاد رکھی۔ کچھ وقت گزرا اور پھر جنرل کننگھم نے ہڑپہ کی کھدائی شروع کروائی۔ چونکہ یہ کھدائی محدود پیمانے پر کی گئی، لہٰذا تحقیق کا دائرہ بھی محدود ہی رہا اور جو تحقیق ہوئی اس میں سے بھی بہت سی باتیں بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔
جیسے کہ جنرل کننگھم ہڑپہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی 1872-73 کی رپورٹ میں لکھتے ہیں:
’’لوگ ہڑپہ کی بربادی کو ہرپال، یا ہرا پالا نامی راجہ کی بدکرداری سے تعبیر کرتے ہیں، جو (ہڑپہ میں) ہر دلہن پر خودمختاری کے حقوق کا دعویٰ کرنے کا عادی تھا۔ یہاں تک کہ اپنے اسی شاہی استحقاق کے زور پر یہ اپنے قریبی رشتے داروں کے ساتھ بھی بدفعلی کا ارتکاب کر بیٹھا۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ اس کی اپنی بہن تھی، دوسرے کہتے ہیں کہ وہ اس کی بیوی کی بہن تھی یا پھر اس کی بیوی کی بہن کی بیٹی تھی۔ اسی لڑکی نے انتقام کےلیے دعا کی اور پھر ہڑپہ شہر فوری طور پر تباہ ہوگیا۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ آگ سے تباہ ہوا تھا اور کچھ اس کی تباہی کی وجہ زلزلہ بتاتے ہیں۔
دوسروں کا کہنا ہے کہ ایک حملہ آور اچانک نمودار ہوا، اور شہر کو تباہ کردیا اور راجہ مارا گیا۔ غیر واضح طور سے اس کی تباہی کا دور 1,200 یا 1,300 سال پہلے کا دور بتایا جاتا ہے۔ اگر یہ زمانہ درست ہے تو ہڑپہ شہر کو محمد بن قاسم نے 713 عیسوی میں 1,260 سال پہلے تباہ کیا ہوگا۔ میں لوگوں کے اس عقیدے پر کچھ یقین کرنے کی طرف مائل ہوں۔‘‘
چونکہ جنرل کننگھم کی یہ رائے ہڑپہ پر کسی بھی وسیع پیمانے پر کی گئی ریسرچ کے بغیر تھی اور مقامی لوگوں کی کہانیوں سے متاثر تھی، لہٰذا غلط تھی۔ بہرحال! الیگزینڈر کننگھم نے ابتدائی کھدائی کے نتیجے میں برآمد ہونے والی کچھ چیزیں، جن میں چند مہریں اور برتن شامل تھے، حاصل کیے اور ان کی لکھائی کو انڈس اسکرپٹ کا نام دیا۔
جان مارشل کی ہڑپہ اور ’موہن جو دڑو‘ میں کھدائی:
وقت گزرتا رہا اور کچھ عرصے تک ہڑپہ میں کسی قسم کی کھوج کا کام نہیں ہوا۔ 18 مارچ 1904 میں ایک قانون پاس کیا گیا، جس کا نام تھا اینشینٹ پریزرویشن ایکٹ۔ اس ایکٹ کے آنے سے دو سال پہلے ہی 26 سالہ جان مارشل کو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی سرپرستی سونپ دی گئی تھی اور اب قانون سازی کی وجہ سے جان مارشل کے ہاتھ اور مضبوط ہوگئے تھے۔
جان مارشل کے آنے سے پہلے تک انڈس سویلائزیشن کی دریافت شدہ تمام سائٹس کی قدر و قیمت کا کسی کو اندازہ تک نہ تھا۔ اسی وجہ سے سندھ کی اس قدیم تہذیب کی دریافت کو سر جان مارشل کے نام کے ساتھ ہی نتھی کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سر جان مارشل کا مختلف وسائل کو کھوج لگانے کےلیے یکجا کرنا اور پھر اس کھو ج کے نتیجے میں ایک سیرِ حاصل نتیجہ اخذ کرنا تھا، جو انہوں نے بخوبی کیا۔ انہوں نے رائے بہادر دیا رام ساہنی کو اپنے نمائندے کے طور پر ہڑپہ اور آر ڈی بنرجی کو ’موہن جو دڑو‘ بھیجا، تاکہ مزید کھدائی کی جاسکے۔ خود جان مارشل ٹیکسلا کی کھدائی میں مصروف رہے اور پھر کچھ عرصے بعد خود بھی ہڑپہ جا پہنچے۔
ہڑپہ کی کھدائی کے دوران سر جان مارشل کو آر ڈی بنرجی، جو ’موہن جو دڑو‘ میں موجود تھے، کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا جس کے بعد وہ خود ’موہن جو دڑو‘ چلے گئے۔ سر جان مارشل نے جب یہاں ملنے والے شروعاتی نوادرات کا معائنہ کیا تو بہت سی مماثلت ان نوادرات سے پائیں جو ہڑپہ میں ملی تھیں۔ 1925 سے 26 کے دوران جان مارشل نے ہیری ہارگریوز کو ’موہن جو دڑو‘ معائنے کےلیے بھیجا۔ انہوں نے وہاں جاکر مزید کھدائی کی اور کچھ مہریں اور دریافت کرلیں۔ حیرت انگیز طور سے اِن مہروں میں سے کچھ مہریں بالکل ان مہروں سے مماثلت رکھتی تھیں جو میسوپوٹیمیا (قدیم عراق میں دریائے دجلہ و فرات کا درمیانی علاقہ) سے دریافت کی گئی تھیں۔
1927 سے 1931 کے درمیان ارنسٹ جے مکوئے نے ہڑپہ اور ’موہن جو دڑو‘ جاکر وہاں سے ملنے والے نوادرات کا معائنہ کیا۔ ارنسٹ جے مکوئے، جو میسوپوٹیمیا کے علاقے کِش کی کھدائی کے دوران وہاں تحقیقی کاموں میں حصہ لے چکے تھے، ان کی رائے نے اس بات پر مہر لگادی کہ ہڑپہ اور ’موہن جو دڑو‘ 1200 سے 1300 سال پرانے کسی دور سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ یہ دونوں شہر کسی انجانی اور پرانی تہذیب کا حصہ ہیں، جن کا کسی زمانے میں میسوپوٹیمیا کے ساتھ کاروباری تعلق بھی تھا۔ دوسری طرف سر جان مارشل پر دونوں شہروں میں اتنی مماثلت ہونے کی وجہ سے یہ بات عیاں تھی کہ موہن جو دڑو اور ہڑپہ کسی ایک ہی تہذیب کا حصہ ہیں۔
دریائے سندھ کے کنارے بسنے والی اس تہذیب کا نام بھی سر جان مارشل نے ہی دیا جو تھا ’دا اِنڈس ویلی سویلائزیشن‘۔
یہ تھی دریائے سندھ کی تہذیب کے منظرِ عام پر آنے کی مختصر سی کہانی۔۔ لیکن کیا ہم اس کہانی سے سبق سیکھیں گے؟ کیا ہم ماضی میں اپنی کی گئی غلطیوں کو نہ دہرانے کی قسم کھائیں گے؟ کیا اپنے ورثے کو محفوظ رکھنے کا بیڑا اٹھائیں گے؟ شاید ان سوالوں کا جواب نہ آپ کے پاس ہے اور نہ ہی مجھے اب تک ان کا جواب ملنے میں کامیابی ہوئی ہے۔ دعا ہے کہ ہم بس اتنے ہی قابل ہوجائیں کہ جو قیمتی چیزیں ہمیں ورثے میں ملی ہیں اسی کو صحیح سے سنبھال سکیں۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)