ایک ایسے وقت میں، جب ہمارا کرہِ ارض ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو جھیل رہا ہے، اور برصغیر کے بیشتر حصوں میں گرمی کا قہر برپا ہے، انڈیا کے ایک معروف اسلامی ادارے لکھنؤ کے اسلامک سینٹر آف انڈیا کے چیئرمین نے اپنے ایک فتوے میں لوگوں سے کہا ہے کہ وہ درختوں کو کاٹنے اور فصلوں کے باقیات کو جلانے سے گریز کریں۔
معروف اسلامی ادارے فرنگی محل کے رہنما اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن خالد رشید نے یہ فتویٰ محمد طارق خان نامی ایک شخص کے سوال کے جواب میں دیا، جنہوں نے اپنے سوال میں پوچھا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مسلسل بڑھتی ہوئی گرمی کے متعلق اسلام کی ہدایات کیا ہیں؟
اس سوال کے جواب میں مولانا خالد رشید فرنگی محلی کا کہنا تھا ”قرآن کے مطابق سبزہ اور ہریالی کی حفاظت کرنا، پانی بچانا اور ان کے ضیاع کو روکنا مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔ ہر مسلمان کو اس امر کو یقینی بنانا چاہئے کہ کسی بھی ہرے بھرے درخت کو نہ تو کاٹا جائے اور نہ ہی انہیں جلایا جائے۔“
یوں مولانا خالد رشید نے فصلوں کے باقیات کو جلانے سے بھی منع کیا۔
پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا خالد رشید نے لوگوں سے زیادہ سے زیادہ پودے لگانے کی بھی اپیل کی۔ انہوں نے کہا، ”اللہ نے ایسے لوگوں کو انعام سے نوازنے کا وعدہ کیا ہے جو ایسے پودے لگاتے ہوں جو انسانوں اور جانوروں سمیت تمام مخلوقات کے لیے مفید ہیں۔“
مولانا خالد رشید نے اپنے فتوے میں مزید کہا ہے کہ تمام ندیوں، تالابوں اور سمندروں کو آلودہ ہونے سے بچانے کی مخلصانہ کوشش کی جانی چاہئے۔
انہوں نے کہا ”اسلام میں درختوں اور فصلوں کو جلانا ممنوع ہے۔ یہ ایک بڑا گناہ ہے۔ حتٰی کہ جنگ کے زمانے میں بھی درختوں، باغوں اور کھیتوں کو جلانے یا نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔“
اس فتویٰ کے بارے میں لکھنؤ میں واقع ’نامہ‘ نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر شبلی بیگ کا کہنا ہے کہ یہ ایک مثبت پیغام ہے۔ یوں بھی اسلام نے ماحولیات کو درست رکھنے پر کافی زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا ”پیغمبر اسلامﷺ کے اقوال میں یہ باتیں بھی ملتی ہے کہ اگر کوئی شخص زمین پر درخت لگاتا ہے تو اسی وقت فرشتوں سے کہا جاتا ہے اس شخص کے نام پر جنت میں درخت لگادو اور زمین کا درخت سوکھ جائے تب بھی جنت کا درخت نہیں سوکھتا۔“
شبلی بیگ نے مزید کہا کہ یہ حدیث بھی ملتی ہے کہ اگر تمہیں معلوم ہو کہ قیامت آن پڑی ہے اور درخت لگانے کا موقع ہے تو درخت لگا دو۔
شبلی بیگ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج بالخصوص انڈیا میں ترقی کے نام پر درختوں کی اندھا دھند کٹائی ہو رہی ہے، جس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور آنے والے دنوں میں حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ”برصغیر میں مغل دور حکومت میں تمام شاہراہوں کے دونوں طرف بڑے پیمانے پر درخت لگائے جاتے تھے، سڑکیں درختوں کی چھاؤں میں ہوتی تھیں۔ اس وجہ سے ان سڑکوں کو ’ٹھنڈی سڑک‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اور مئی جون جیسے گرمی کے موسم میں بھی سفر کرنے والے لوگوں کو گرمی سے پریشانی نہیں ہوتی تھی، لیکن اب ریاستی اور قومی شاہراہوں کے نام پر جو ترقی ہوئی ہے، ان میں ان تمام درختوں کو ختم کردیا گیا ہے اور شاذ و نادر ہی سڑکوں کے کنارے درخت دیکھنے کو ملتے ہیں۔“