ہاتھیوں کے بارے میں کی گئی ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ افریقہ کے ہاتھی ایک دوسرے کو ناموں سے پکارتے اور اس کا جواب دیتے ہیں۔ ممکنہ طور پر یہ ایسا کرنے کے لیے جانی جانے والی چند جنگلی جانوروں کی انواع میں سے ایک ہے۔
یہ تحقیق اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ جانوروں کی تمام انواع میں زبان کے ارتقا پر مزید روشنی ڈالتی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پیر کو شائع ہونے والی تحقیق کی تفصیلات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ افریقی ہاتھی ایک دوسرے کو منفرد ناموں سے پکارتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس تحقیق کے متعلق ابتدائی معلومات گزشتہ سال نومبر میں سامنے آئی تھیں۔
ہاتھی جب کھلے وسیع جنگلات میں ہلکی آواز میں چنگھاڑتے ہیں تو ایک دوسرے کو ناموں سے پکارتے ہیں۔
سائنسدان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جن جانوروں کا سماجی ڈھانچہ پیچیدہ ہوتا ہے اور جن کے فیملی گروپ بچھڑتے اور دوبارہ ملتے رہتے ہیں، اُن میں ایک دوسرے کو ناموں سے پکارنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
ڈیوک یونیورسٹی کے ایکولوجسٹ اسٹورٹ پِم کہتے ہیں ”جیسے آپ کسی بڑے خاندان میں رہتے ہیں تو وہاں آپ کسی کو بلائیں گے تو کہیں گے ہیلو، ورجینیا، ذرا ادھر آؤ۔“
ایسے بہت ہی کم جنگلی جانور ہیں جو ایک دوسرے کو ناموں سے پکارتے ہیں۔ انسانوں کے نام ہوتے ہیں۔ اسی طرح پالتو کتوں کے نام اُن کے مالک رکھتے ہیں۔
بیبی ڈولفنز بھی اپنے نام کے ساتھ ساتھ منفرد سیٹیاں ایجاد کرتی ہیں، جبکہ طوطے بھی ناموں کا استعمال کرتے ہیں۔
ہاتھیوں سمیت ایسے تمام حیوان زندگی بھر نئی آوازیں لگانا سیکھتے رہتے ہیں۔
حالیہ تحقیق میں سائنس دانوں نے یہ جاننے میں خاص طور پر دلچسپی لی کہ آیا ایک ہاتھی کی طرف سے دوسرے کے لیے پکارنے والے کی آواز اس کی اپنی آواز کی نقالی تو نہیں کر رہے، جیسا رجحان ڈولفن اور طوطوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔
انہوں نے محسوس کیا کہ ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ ہاتھی پکارے جانے والے ساتھی کی نقل نہیں کر رہے تھے۔
تحقیق میں شامل امریکہ کی کولوراڈو سٹیٹ یونیورسٹی اور دیگر محققین نے مطالعے میں لکھا: ”ہماری معلومات کے مطابق یہ مطالعہ انسانوں کے علاوہ دیگر ایک ہی انواع کے جانوروں میں پکارے جانے والوں کی نقل کے بغیر ایک دوسرے کو نام سے پکارنے کا پہلا ثبوت پیش کرتا ہے۔“
انہوں نے مزید لکھا ”یہ (تحقیق) زبان کے ارتقا کے بارے میں ہماری فہم میں اضافے کے لیے اہم ہو سکتی ہے۔“
نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولُوشن کی تحقیق میں بائیولوجسٹ کی ٹیم نے کینیا کے سمبُورُو نیشنل ریزرو اینڈ امبوسیلی نیشنل پارک میں ہاتھیوں کو ایک دوسرے کا نام لے کر پکارنے کے عمل کو مشین کے ذریعے ریکارڈ کیا۔
ان سائنسدانوں نے ایک جیپ میں سوار ہو کر ہاتھیوں کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ کون ایک دوسرے کو ناموں پر جواب دیتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہتھنی نے اپنے بچے کو پکارا یا نر ہاتھی نے خاندان سے بچھڑنے والے ہاتھی کو نام سے بلا کر آواز دی تو وہ واپس آ کر خاندان سے مل گیا۔
پروفیسر اور شریک مصنف، جارج وٹیمیئر کا کہنا تھا، ”ہاتھی واقعی یہ دلچسپ سلوک کرتے ہیں، جہاں کبھی کبھی جب وہ خواتین کے بڑے گروپ میں ہوتے ہیں یا کسی گروپ کا ساتھی چیک کرتا ہے تو پورا گروپ جواب دیتا ہے، وہ اس کے ارد گرد گروپ بناتے ہیں یا وہ اس کی پیروی کرتے ہیں۔“
”پھر دوسرے اوقات میں، وہ بظاہر اسی طرح کی کال دیتی ہے اور کوئی بھی جواب نہیں دیتا، کوئی بھی ردعمل نہیں دیتا، سوائے ایک ہاتھی کے۔۔ تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس ایک ایسا ذریعہ ہے، جس کے ذریعے وہ صرف اس بات چیت کر سکتے ہیں، جس سے وہ بات کرنا چاہتے ہیں۔“
کورنل یونیورسٹی کے بائیولوجسٹ مِکی پارڈو کہتے ہیں ”انسانوں کی طرح ہاتھی بھی ناموں کا استعمال کرتے ہیں لیکن وہ ہر مرتبہ ایک دوسرے کو نام لے کر نہیں پکارتے۔“
واضح رہے کہ بعض اوقات ہاتھیوں کے چنگھاڑنے کی آواز اتنی کم بھی ہوتی ہے کہ انسانوں کو سنائی بھی نہیں دیتی۔
جارج وٹیمیئر نے کہا کہ انہیں تمام پیچیدگیوں میں آوازیں ریکارڈ کرنے کے لیے جانوروں کے قریب جانا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا، ”وہ انسانی سماعت سے بہت ہی کم آواز سے بولتے ہیں۔ ان کی کال میں تقریباً آدھی آواز ہماری سماعت کی سطح سے نیچے ہے، اس لیے ہم اسے حقیقت میں سن نہیں سکتے۔ اس لیے ہمیں ان کالز کو ریکارڈ کرنے کے لیے اس خصوصی مائیکروفون کا استعمال کرنا پڑا‘‘
ان انفرادی آوازوں کا تجزیہ کرتے ہوئے سائنس دانوں نے ان آوازوں کے لیے مخصوص صوتی خصوصیات کی پیمائش کی اور ڈیٹا کے مطابق ان کی جانچ کی کہ آیا پکارے جانے والے ہاتھی کی آواز کی شناخت کا اندازہ لگانا ممکن تھا یا نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی ہاتھی کو مختلف ہاتھیوں کی جانب سے ایک جیسی آوازوں سے پکارا جا رہا تھا۔
سائنس دانوں نے کہا کہ ’پکارے جانے والے ہاتھی کے لیے استعمال ہونی والی آواز ساختی طور پر درست طریقے سے شناخت کیا جا سکتا ہے جو کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے کسی گمان سے بہتر ہے۔‘
مجموعی طور پر سائنس دان 114 منفرد آوازیں نکالنے والے اور 119 منفرد پکارے جانے والے ہاتھیوں کی تلاش کر سکے۔
محققین نے ہاتھیوں میں سے 17 کو خصوصی طور پر مخاطب کی گئی آوازوں کی ریکارڈنگ چلائی تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ انہوں نے اس پر کیا ردعمل دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ (ردعمل) ناموں سے ملتے جلتے صوتی لیبلز کے وجود کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ کنٹرول پلے بیک کے مقابلے میں ٹیسٹ پلے بیک کے ردعمل میں پکارے جانے والے ہاتھی زیادہ تیزی سے اسپیکر تک پہنچے اور زیادہ تیزی سے جواباً آوازیں نکالیں۔
ہاتھیوں میں پہلی بار مشاہدہ کیا گیا یہ طرز عمل ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ کے قریبی پھنسے ہوئے اس انواع کے ارکان چنگھاڑنے کے ذریعے طویل فاصلے تک بات چیت اور ہم آہنگی پیدا کر سکتے ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ نام رکھنے سے ہاتھیوں کو ایک مخصوص ہاتھی کی توجہ مبذول کرنے میں مدد ملتی ہے اور جب وہ ایک دوسرے سے نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں تو اس سے ان کو (خوراک کے) وسائل کی طرف جانے یا وہاں سے آنے کے لیے ان کی ہم آہنگی کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
مزید مطالعات سے سائنس دانوں کو مزید سمجھنے کی امید ہے کہ ماحول کے کس قسم کے دباؤ نے ہاتھیوں کو ناموں کو استعمال کرنے کے لیے اس طریقہ کار کو اپنانے پر مجبور کیا۔