17ویں صدی کا انگریز معاشرہ بادشاہ اور پارلیمنٹ کی خانہ جنگی سے گزرا۔ اس نے پیورٹین مذہبی خیالات کا تجربہ کیا۔ اس پسِ منظر میں کئی نئی تحریکیں ابھریں، جن میں سے ایک ’لیولرز‘ (Levellers) تھی جو امیر اور غریب کے فرق کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
اس کے علاوہ ’ڈگرز‘ (Diggers) تھے جو اس بات کے حامی تھے کہ وہ زمینیں، جہاں کھیتی باڑی نہیں ہوتی، انہیں کسانوں کے حوالے کر دینا چاہیے، جس کے نتیجے میں وہ زرعی پیداوار کو بڑھائیں گے اور ملک سے غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
نئے مذہبی فرقوں میں اینا بیپٹسٹ تھے، جن کا عقیدہ تھا کہ بپتسمہ بچوں کو نہیں بالغوں کو دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ ’کویکرز‘ تھے جو جنگوں کے خلاف اور پرامن زندگی کے حامی تھے۔
کرسٹوفر بِل نے اپنی کتاب The World Turned Upside Down میں 17ویں صدی کا تجزیہ کیا ہے۔ اس کے مطابق اس کے عہد میں چرچ کے خلاف لوگوں میں سخت ناققدانہ جذبات تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بادشاہت اور چرچ دونوں مل کر حکومت کرتے تھے، اس لیے عام لوگ معجزوں سے منکر ہو گئے تھے اور چرچ میں عبادت گزاروں کی تعداد کم ہو گئی تھی۔
بعض اوقات لوگ چرچ میں جا کر اولیا کے مجسموں کو توڑتے تھے اور تبرکات لوٹ کر لے جاتے تھے۔ چرچ کے پادریوں کی کوئی عزت نہیں رہی تھی۔ بعض جماعتیں تو اس کی حامی تھیں کہ پادریوں کے طبقے (کلرجی) کو ختم کر دینا چاہیے، کیونکہ یہ عوام کے ٹیکسوں پر عیاشی کرتے ہیں جبکہ مذہب سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
کرسٹوفر بِل نے انگریز معاشرے کی بے ترتیبی کے بارے میں لکھا ہے کہ 17ویں صدی میں زمین کی بڑی اہمیت تھی۔ زرعی معاشرہ ہونے کی وجہ سے فرد کے سماجی درجے کا تعین اس پر ہوتا تھا کہ اس کے پاس کتنی زمین ہے اور اس زمین کی پیداوار کتنی ہے۔
دیہی معاشرے میں یہ تبدیلی آ رہی تھی کہ فیوڈل لارڈز کی زمین سے ملی ہوئی زمین جو انکلوژر کہلاتی تھی، اس پر کھیتی باڑی نہیں ہوتی تھی اور دیہاتی لوگ یہاں اپنے مویشی چراتے تھے۔
لاطینی امریکہ میں آبائی باشندوں کا استحصال
لیکن بعد میں فیوڈل لارڈز نے ان زمینوں کو اپنے کھیتوں میں شامل کر کے باڑ لگا دی، جس کی وجہ سے کسانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی غذائی ضروریات سے محروم ہو گئی۔
جب دیہاتوں میں کوئی کام نہیں رہا تو ان بےروزگار کسانوں نے آوارہ گردوں کی شکل اختیار کر لی۔ یہ دیہاتوں اور شہروں میں ٹولیاں بنا کر جاتے تھے۔ بھیک مانگتے تھے یا تھوڑی بہت مزدوری کر لیتے تھے۔
جب ان آوارہ گداگروں کی تعداد بڑھی تو انہوں نے لندن جیسے بڑے شہر کا رخ کیا۔ یہاں یہ پلوں کے نیچے، درختوں کے سائے میں یا کسی مجسمے کے نتیجے سو کر رات گزار دیتے تھے۔
جب امرا اور اشرافیہ میں ان کے خلاف نفرت پھیلی تو انہوں نے جنگلوں میں پناہ لی۔ خالی زمینیں جہاں کاشت نہیں ہوتی تھی۔ اس کے اردگرد انہوں نے اپنے کاٹیج بنائے اور زمین پر کھیتی باڑی شروع کر دی۔
اس پر حکومت کو بڑی تشویش ہوئی لیکن جنگل میں ان کی آبادی بڑھتی گئی۔ اس میں کاریگر، چور، ڈاکو اور مجرم میں شامل ہو گئے۔ جنگل کی یہ آبادیاں حکومتی قانون اور انتظامیہ سے آزاد تھیں، اس لیے ان افراد میں حکومت کی وفاداری کا کوئی جذبہ نہیں تھا۔
بعد میں اسی قسم کے کاٹیجز معدنیات کی کانوں کے اردگرد پھیل گئے۔ عام لوگ کان کنی کر کے اپنا گزارہ کرتے تھے۔
اسی عہد میں ایک اور تبدیلی جو آئی، وہ کاریگروں کی بےروزگاری تھی کیونکہ قانون کے تحت یہ لازمی تھا کہ ہر پیشہ ور کاریگر گِلڈ (پروفیشنل تنظیم) سے اپنی تربیت ختم کر کے یا تو نئی گِلڈ بنائے اور اس کا ماسٹر منتخب ہو، دوسری صورت میں وہ کاروبار نہیں کر سکتا تھا۔
انگلستان کی حکومت نے اپنے ہاں سے غریبوں کو کم کرنے کا ایک طریقہ ڈھونڈا کہ انہیں جہازوں میں بھر کر امریکہ اور آسٹریلیا بھیج دیا گیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کاریگر بری تعداد میں بےروزگار ہو گئے۔ کام کی تلاش میں یہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں چکر لگاتے تھے۔ جنگوں میں جا کر وہاں بھی انہیں کام کی تلاش ہوتی تھی۔
ان حالات میں ریاست کی جانب سے بےروزگاری کے خاتمے کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے۔ اس مقصد کے لیے غریبوں کے لیے House of Correction بنائے گئے، جہاں وہ کام کریں یا رہائش اختیار کریں اور اس کے عوض انہیں کھانا دیا جائے۔
مگر یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا، کیونکہ اس ادارے میں بد نظمی تھی، جس کی وجہ سے غریب لوگ چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے۔
غریب لوگوں پر نئی مصیبت اس وقت آئی جب ریاست نے یہ فیصلہ کیا کہ جنگل کی زمینوں کو ان کے قبضے سے چھڑوایا جائے، لہٰذا ان لوگوں کے کاٹیج مسمار کر دیے گئے۔
انہیں زمینوں سے نکال دیا گیا۔ ایک بار پھر یہ لوگ بےگھر ہو گئے۔ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ لندن جا کر قسمت آزمائی کریں۔ چنانچہ ایک بار پھر لندن شہر میں گداگروں کے ہجوم ہو گئے۔
ریاست اور امرا کے پاس ان کی غربت کو دور کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا، لہٰذا یہ سوچا گیا کہ ان کو بحری جہازوں میں بھر کر امریکہ کی نوآبادیوں میں بھیج دیا جائے۔
امریکہ کے علاوہ انہیں زبردستی آسٹریلیا بھیجا گیا، جہاں ان سے کھیتی باڑی کروائی گئی۔
جب انگلستان نے افریقہ میں اپنی نوآبادیاں بنائیں تو بقیہ بےروزگار غریبوں کو وہاں آباد کروایا گیا۔ اس طریقہ کار کی وجہ سے انگلستان نے اپنے غریبوں کی اکثریت سے چھٹکارا حاصل کیا۔
تاریخ میں جب بھی بحران آتے ہیں تو ان کا معاوضہ غریبوں ہی کو ادا کرنا ہوتا ہے۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)