جب ہم اپنی سانس روک کر پانی کے اندر جاتے ہیں، تو ہمارا جسم خود بخود متحرک ہوجاتا ہے جسے ڈائیونگ ریسپانس کہا جاتا ہے۔ دل کی دھڑکن سست ہو جاتی ہے، تلی اور خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں، یہ ہمارے جسم کا وہ رد عمل ہے، جو آکسیجن کم ہونے پر توانائی بچانے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن چند منٹوں کے بعد، ہم میں سے اکثر آکسیجن سے محروم ہو جائیں گے، جو کہ اعضاء، خاص طور پر دماغ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ صورت حال اکثر تنفس کے عمل کے رکنے اور ہارٹ اریسٹ اور آخر کار موت کا باعث بنتی ہے۔
زیادہ تر لوگ پانی کے اندر اپنی سانسیں چند سیکنڈ کے لیے روک سکتے ہیں، کچھ چند منٹ کے لیے۔۔ تاہم فری ڈائیونگ کی اچھی خاصی تربیت کے بعد ہم پانی کے اندر گزارنے کے وقت کو چند منٹ تک بڑھا سکتے ہیں۔ تاہم، اس حوالے سے سما باجاؤ کا مقابلہ کرنا پھر بھی لگ بھگ ناممکن ہے، جو 230 فٹ (70 میٹر) کی گہرائی میں 13 منٹ تک ایک سانس کے ساتھ پانی کے اندر رہ سکتا ہے۔
سما باجاؤ ایک اجتماعی اصطلاح ہے، جس سے مراد متعدد قریبی تعلق رکھنے والے مقامی لوگ ہیں، جو خود کو ایک الگ نسلی گروہ یا قوم سمجھتے ہیں۔ ’سی نومیڈز‘ یا سمندری خانہ بدوش کہلانے والے اس قبیلے کے لوگ صدیوں سے جنوب مشرقی ایشیا کے پانیوں پر رہتے ہیں، جہاں وہ سمندر میں رہنے والے ایسے اجسام میں تبدیل ہو گئے ہیں، جیسے وہ ہمارے سیارے کے انسان نہیں۔۔ ماہی گیری کے لیے مشہور باجاؤ لمبی گھریلو کشتیوں پر رہتے ہیں، جنہیں لیپا کہا جاتا ہے، یا لکڑی کے کیبن جو ساحل کے قریب سمندر پر بنائے جاتے ہیں۔
بنیادی طور پر انڈونیشیا، ملائیشیا اور فلپائن کے پانیوں پر رہنے والے یہ لوگ صرف سمندری طوفانوں کے دوران تجارت یا پناہ حاصل کرنے کے لیے ساحل پر جاتے ہیں۔ اس لیے باجاؤ کو اکثر ’سمندری خانہ بدوش‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے تیرتے گھر انہیں ہر وقت سمندر سے جوڑے رکھتے ہیں، جدید عالمگیریت کے باوجود سرزمین سے ان کی یہ دوری، انہیں جدید تہذیب سے منقطع رکھتی ہے۔
باجاؤ کے لوگوں کی اصل نامعلوم ہے۔ لیکن ہم ان کی کہانی کے بنیادی راستے کا پتہ لگانے کے لیے کافی کچھ جانتے ہیں۔ مالائی نسل کا ایک نسلی گروہ، باجاؤ کے لوگ صدیوں سے تقریباً صرف پانی پر ہی رہتے ہیں۔ اگرچہ سمندر کے ساتھ اتنے قریب رہنے والے دوسرے گروہ تاریخ میں موجود رہے ہیں، لیکن باجاؤ شاید آخری سمندری لوگ ہیں، جو آج بھی موجود ہیں۔
ان کے پاس وقت اور عمر کا بہت کم احساس ہوتا ہے — شاید ہی کوئی گھڑیاں، کیلنڈر، سالگرہ اور اس طرح کی چیزیں ان کی زندگی میں کوئی اہمیت رکھتی ہوں۔ باجاؤ اپنی عمریں سالوں میں نہیں گنتے۔ موجودہ لمحہ اہم ہے۔ ان کا طرزِ زندگی دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ سمندر پر زندگی گزارنے کے لیے ہی تیار ہوئے ہیں، حتٰی کہ ہمارے اندرونی اعضاء اور جسمانی صلاحیتوں کے برعکس!
لیکن ہاں، اس قبیلے کے مرد ہوں یا خواتین، وہ بورک استعمال کرتے ہیں، جو مقامی طور پر تیار کردہ ہلدی کا پیسٹ ہے، جسے باجاؤ اپنی جلد کو دھوپ سے بچانے کے لیے ہر روز استعمال کرتے ہیں۔
2015 میں باجاؤ کے علاقوں کا دورہ کرنے والے معروف فوٹوگرافر ریحان لکھتے ہیں، ”جیسا کہ ایشیا کے بہت سے حصوں میں، صاف رنگت کو زیادہ خوبصورت سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس چھوٹے سے جزیرے پر بھی خواتین زیادہ پرکشش ہونے کی امید میں بورک کا استعمال کرتی ہیں۔ مائیں بھی اسے اپنے بچوں کی جلد کی حفاظت کے لیے استعمال کرتی ہیں۔“
باجاؤ جنوب مشرقی ایشیا میں پانیوں میں ایک سے دوسری جگہ ہجرت کرنے والے لوگ ہیں، وہ جگہ جگہ بہتے رہتے ہیں اور کسی بھی سرکاری لحاظ سے کسی بھی پڑوسی ملک سے منسلک نہیں ہیں۔
سرکاری ریکارڈ کے بغیر یا اپنی تحریری تاریخ کے بغیر، باجاؤ کے لوگوں کی کہانی ان کی اپنی منفرد لوک داستانوں اور روایات میں جڑی ہوئی ہے، جس کی زبانی تاریخ نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔
ایسی ہی ایک کہانی میں ایک ایسے شخص کا ذکر ہے، جس کا اصل نام باجاؤ تھا۔ ایک بہت بڑا آدمی، اس کے لوگ پانی میں اس کا پیچھا کرتے تھے کیونکہ اس کے جسم کا حجم اتنا بڑا تھا کہ پانی میں گھماؤ پیدا کر دیتا تھا کہ دریا بہہ جاتا تھا، جس سے لوگوں کے لیے مچھلیاں جمع کرنا آسان ہو جاتا تھا۔
آخرکار، وہ مچھلی کے شکار میں مدد کے واحد مقصد کے لیے اُس سے ملاقات کرنے آئے۔ اس نے اپنے لوگوں کو جو فائدہ پہنچایا، پڑوسی قبائل نے اس بات پر اس سے حسد کرتے ہوئے باجاؤ پر زہریلے تیر پھینک کر اسے قتل کرنے کی سازش کی۔ لیکن وہ بچ گیا، ساتھی قبائل نے ہار مان لی، اور باجاؤ کے لوگ زندہ رہے۔ یہ ہے وہ کہانی، جو ان کی سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی واحد تاریخ ہے۔
محققین کے مطابق سی نومیڈز (سمندری خانہ بدوشوں) نے مکمل طور پر سمندر پر ہی زندگی گزاری ہے اور وہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے جنوب مشرقی ایشیائی سمندروں میں ہاؤس بوٹس پر سفر کر رہے ہیں۔ فلپائن، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں رہنے والے یہ افراد مچھلی کے شکار یا قدرتی اشیا کی تلاش کے لیے پانی میں غوطہ لگاتے ہیں۔
بنیادی طور پر ماہی گیری سے جڑے ہونے کی وجہ سے، وہ ماہر غوطہ خور ہیں۔ درحقیقت، باجاؤ غوطہ خور روزانہ کی بنیاد پر پانچ گھنٹے سے زیادہ پانی میں ڈوب کر گزارتے ہیں، اور وہ تمام انسانوں میں سانس لیے بغیر پانی کے اندر سب سے طویل وقت گزارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ غوطہ خوری کے علاوہ، وہ مچھلیوں کے لیے جال اور لائنوں کے ساتھ ساتھ نیزہ بازی کے لیے ہاتھ سے بنی نیزہ بندوقوں کا استعمال کرتے ہیں۔
باجاؤ کے بچے چھوٹی عمر میں ہی تیراکی اور غوطہ خوری میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں اور جب وہ صرف 8 سال کے ہوتے ہیں تو مچھلی پکڑنا اور شکار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے فارغ وقت میں، وہ گھر کے ارد گرد اپنے بڑوں کی مدد کرتے ہیں یا ساحل سمندر پر کھیلتے ہیں۔
چونکہ باجاؤ اپنا زیادہ وقت غوطہ خوری میں صرف کرتے ہیں، اس لیے پانی کے اندر دباؤ کی بدولت باجاؤ کے بہت سے لوگوں کے کان کے پردے پھٹ جاتے ہیں — اور کچھ باجاؤ مزید موثر غوطہ خوری کی صلاحیتوں کو حاصل کرنے کی غرض سے جان بوجھ کر سمندر کے دباؤ کو بہتر طریقے سے برداشت کرنے کے لیے اپنے کانوں کے پردے پھاڑ دیتے ہیں۔ لہذا، بہت سے بوڑھے غوطہ خور سننے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں کی مستقل آزادی اور پانی سے قربت نے سما باجاؤ کو سائنسی طور پر دوسرے لوگوں سے ممتاز کر دیا ہے۔ سائنسی جریدے سیل میں 2018 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ان کی غیر معمولی خصوصیات جینیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیں۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ باجاؤ کے لوگوں کی تلی اوسط زمین پر رہنے والے لوگوں کے سائز سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ یہ جینیاتی موافقت ممکنہ طور پر قدرتی انتخاب کا نتیجہ ہے، اور یہی چیز انہیں سمندر پر اپنی زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہے۔
محققین کے مطابق ’پی ڈی ای ٹین اے‘ جین جیسے جینیاتی تغیرات تلی کے سائز کو بڑھاتے ہے، جس سے آکسیجن کے ذخیرہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ باجاؤ لوگوں میں ’بی ڈی کے آر بی ٹو‘ جین میں جینیاتی تغیرات ہیں، جو انسانی ڈائیونگ ریفلیکس کو متاثر کرتے ہیں۔
اس تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ باجاؤ قبیلہ پانی کے نیچے طویل عرصے تک سانس روکنے کی صلاحیت جینیاتی طور پر حاصل کر چکا ہے۔
تحقیق کے دوران اس بات کو نوٹ کیا گیا کہ انسانی ہائپوکسیا (آکسیجن کی کمی) کے خلاف مزاحمت کی فزیولوجی اور جینیات کو سمجھنا اہم طبی نتائج رکھتا ہے۔
ہمارے جسم کے تمام اعضاء میں، تلی شاید سب سے زیادہ دلکش نہیں ہے۔ ہم تکنیکی طور پر اس کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں، لیکن جب ہمارے پاس یہ ہوتی ہے، تو یہ عضو ہمارے مدافعتی نظام کی مدد کرتا ہے اور خون کے سرخ خلیوں کو ری سائیکل کرتا ہے۔
غیر معمولی طور پر بڑی تلیوں والے لوگ آکسیجن سے محروم ماحول جیسے پانی کے اندر یا کسی بلند پہاڑی چوٹی پر زیادہ دیر تک زندہ رہنے کا امکان رکھتے ہیں۔
اس سلسلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ تلی مدافعتی نظام کو سہارا دینے میں مدد کرتی ہے اور یہ خون کے سرخ خلیات کو دوبارہ تخلیق اور ذخیرہ کرتی ہے۔ جب لوگ پانی کے اندر جاتے ہیں، تو تلی سکڑتی ہے اور آکسیجن والے سرخ خون کے خلیات کو خون کے دھارے میں چھوڑ دیتی ہے۔ لہٰذا، تلی کا ایک بڑا سائز طویل سانس لینے کو ممکن بناتا ہے، کیونکہ یہ خون کے سرخ خلیات کا ایک بڑا ذخیرہ رکھتا ہے، جس سے جسم زیادہ آکسیجن لے سکتا ہے۔ غیر معمولی تلیوں کے علاوہ، باجاؤ پانی کے اندر بہترین بینائی بھی رکھتے ہیں اور بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن لوگوں کے اس خاص گروہ کا وجود، بڑے پیمانے پر ماہی گیری کو لاحق خطرات کی وجہ سے داؤ پر لگا ہوا ہے، جس کے باعث باجاؤ کے لیے روزی کمانا اور صرف ماہی گیری پر انحصار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ آس پاس کے علاقوں کے لوگوں کی طرف سے انہیں حقیر نظر سے بھی دیکھا جاتا ہے اور انہیں کمتر سمجھا جاتا ہے۔
نتیجے کے طور پر، زیادہ سے زیادہ لوگ سمندروں کو چھوڑ رہے ہیں، اور بظاہر سما باجاؤ اور ان کی حیرت انگیز خوبیوں کے غائب ہونے میں صرف وقت کی بات ہے۔
باجاؤ لوگ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے ہی مشہور ہیں وہ شکار کے لئے ایک لمبی سی لکڑی رسی اور چشمے کے ساتھ سمندر کی 70 میٹر سے زیادہ گہرائی میں غوطہ لگا سکتے ہیں اور یہ لوگ روزانہ اپنا 60فیصد کام کا وقت پانی کے نیچے گزارتے ہیں۔
پچھلے کام سے پتہ چلتا ہے کہ سمندری ممالیہ جو اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ پانی کے اندر گزارتے ہیں ، ان میں تلی غیر متناسب طور پر بڑی ہوتی ہے۔
میلیسا ایلارڈو، ایک جینیاتی ماہر ہیں، جس نے باجاؤ کے لوگوں کے ساتھ تین گرمیاں گزاریں، میلیسا لارڈو یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ کیا یہی خصوصیت غوطہ خوری کرنے والے انسانوں کے لیے بھی درست ہے۔ تھائی لینڈ کے سفر کے دوران، اس نے سمندری خانہ بدوشوں کے بارے میں سنا اور ان کی افسانوی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئیں۔
انہوں نے انڈونیشیا کی سرزمین پر رہنے والے سلوان نامی لوگوں کی تلیوں کی تصاویر لیں، ان کے ایک متعلقہ گروپ سے ڈیٹا بھی لیا۔ کوپن ہیگن میں واپس آنے والے دونوں نمونوں کا موازنہ کرتے ہوئے، اس کی ٹیم نے پایا کہ باجاؤ کے ایک شخص کی تلی کا درمیانی سائز سلوان فرد کے اسی عضو سے 50 فیصد بڑا تھا۔
وہ کہتی ہیں، ”اگر جینیاتی سطح پر کچھ ہو رہا ہے، تو آپ کے پاس ایک مخصوص سائز کی تلی ہونی چاہیے۔ وہاں ہم نے یہ انتہائی اہم فرق دیکھا،‘‘
میلیسا کا نظریہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، قدرتی انتخاب نے باجاؤ کو، جو ایک ہزار سال سے اس خطے میں مقیم ہیں، کو جینیاتی فائدہ حاصل کرنے میں مدد دی ہوگی۔
ڈیوک یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن سے تعلق رکھنے والے رچرڈ مون کا کہنا ہے کہ اگرچہ تلی جزوی طور پر اس بات کی وضاحت کر سکتی ہے کہ باجاؤ اتنی اچھی طرح سے کیسے غوطہ لگاتے ہیں، لیکن دیگر موافقتیں بھی کام کر سکتی ہیں۔ رچرڈ مون اس بات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ انسانی جسم اونچائی اور انتہائی گہرائی دونوں پر کیسے ردعمل ظاہر کرتا ہے۔
غوطہ خوری کا ردعمل شدید ہائپوکسیا نامی طبی حالت سے ملتا جلتا ہے، جس میں انسانوں کو آکسیجن کی تیزی سے کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ حالت اکثر ہنگامی کمروں میں موت کا سبب بنتی ہے۔ باجاؤ کا مطالعہ ہائپوکسیا کو سمجھنے کے لیے ایک نئی تجربہ گاہ کے طور پر مؤثر طریقے سے کام کر سکتا ہے۔
میلیسا کہتی ہیں کہ ”باجاؤ کا اپنی سانس اور جسم پر مکمل کنٹرول ہے۔“
انہیں اپنی سانس پر تو کنٹرول حاصل ہے لیکن بدقسمتی سے اپنی زندگی پر نہیں۔۔ اب وقت تیزی سے بدل رہا ہے۔ آج، زیادہ سے زیادہ باجاؤ کے لوگوں کو زمین پر رہنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے (کچھ گروہ طویل عرصے سے زمین پر رہتے ہیں کیونکہ باجاؤ کے نام سے شناخت شدہ لوگوں کا کوئی مکمل طور پر متحد گروپ نہیں ہے)۔ کئی وجوہات کی بنا پر، یہ ممکن ہے کہ موجودہ نسل پانی پر رہنے والی آخری نسل ہو۔
ایک تو، صنعتی ماہی گیری میں اضافہ ان کے لیے مقامی ذخائر پر گزارا مشکل بنا رہا ہے۔ مچھلی کی عالمی تجارت نے باجاؤ کے لوگوں کی ماہی گیری کی روایات اور ماحولیاتی نظام کو متاثر کیا ہے۔ نتیجے کے طور پر، بہت سے لوگ سمندر چھوڑنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ماہی گیری کے حوالے سے زیادہ مسابقت نے باجاؤ کو مچھلیاں پکڑنے کے لیے مزید تجارتی حربے استعمال کرنے پر مجبور کر دیا ہے، بشمول سائینائیڈ اور ڈائنامائٹ کا استعمال۔
باجاؤ نے اب اپنی کشتیاں بنانے کے لیے بھاری لکڑی کا استعمال کرنا بھی شروع کر دیا ہے کیونکہ وہ جو ہلکی لکڑی استعمال کرتے تھے، وہ ایک ایسے درخت سے آتی تھی، جو اب معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ بھاری لکڑی سے بنی نئی کشتیوں کو انجن کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے ایندھن کے لیے پیسے!
خانہ بدوش ہونے سے جڑے ’بدنما داغ‘ نے بھی بہت سے لوگوں کو اپنا طرزِ زندگی ترک کرنے پر مجبور کیا ہے۔ آس پاس کی ثقافتوں کی طرف سے قبول کیے جانے سے انہیں حکومتی پروگراموں تک رسائی ملتی ہے، جو امداد اور فوائد فراہم کرتے ہیں جو انہیں دوسری صورت میں حاصل نہیں ہوتے۔
لیکن باجاؤ کے لوگوں کے لیے ماہی گیری صرف ایک تجارت نہیں ہے اور پانی صرف ایک وسیلہ نہیں ہے۔ ان کی شناخت کے مرکز میں سمندر اور اس کے باشندوں کے ساتھ ان کا رشتہ ہے۔ لہٰذا جب تحفظ کی بات آتی ہے، تو یہ صرف سمندری زندگی کے تحفظ کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ان کی ثقافت بھی – اور وہ پانی جسے وہ صدیوں سے گھر کہتے ہیں۔
حوالہ جات: نیشنل جیوگرافک۔ آل دیٹز انٹریسٹنگ، ارتھلی مشن۔ ریحان فوٹوگرافی۔
ترجمہ و ترتیب: امر گل