کراچی میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی شناخت کیسے کی جاتی ہے؟

ویب ڈیسک

پاکستان دنیا کے ان چند ہی ممالک میں شامل ہے جہاں مختلف علاقوں اور خطوں میں الگ الگ قانون اور معیار رائج ہیں، جن میں سے ایک مختلف علاقوں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی اجازت کا معاملہ بھی ہے۔

اگر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بات کی جائے تو یہاں کی سڑکوں پر بھی دیگر بڑے شہروں کی طرح ہر لمحہ ہزاروں گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں، ان میں سے زیادہ تر گاڑیاں قانونی طریقے سے خریدی گئی ہیں لیکن بہت سی گاڑیاں ایسی بھی ہیں جو ٹیکس ادا کیے بغیر شہر میں لائی گئیں اور ان کی نمبر پلیٹس جعلی ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں بعض قبائلی علاقوں کے علاوہ کہیں بھی نان کسٹم پیڈ گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ملک کے بیشتر شہروں میں بااثر افراد نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔

جمید خان گزشتہ پندرہ برسوں سے نان کسٹم گاڑیوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر پراڈو، ویگو وی 8، لکسیل اور بی ایم ڈبلیو جیسی بڑی گاڑیوں کی خریدو فروخت کرتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ گاڑیاں جاپان سے دبئی آتی ہیں اور پھر انہیں افغانستان لے آیا جاتا ہے۔ ”ان گاڑیوں کا مرکز دبئی ہوتا ہے، وہاں پر جاپان سے گاڑیاں لائی جاتی ہیں، دبئی سے کنٹینرز کے ذریعے ایران اور پھر افغانستان بھجوائی جاتی ہیں۔“

”افغانستان میں چمن کے قریب ویش اور طورخم میں جبکہ پاکستان کے شمالی وزیرستان کا صدر مقام میران شاہ ان گاڑیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں پر ہزاروں کی تعداد میں تقریباً ہر قسم کی نئی اور پرانی گاڑیاں دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ ری کنڈیشنڈ گاڑیاں بھی یہاں مل جاتی ہیں۔“

شیریں حیات خان کے مطابق، افغانستان میں گاڑیاں خریدنے کے بعد وہاں پر موجود کچھ افراد کو انہیں پاکستان پہنچانے کے لیے کرایہ ادا کیا جاتا ہے جو اپنے رسک پر سرحد کے اطراف مخصوص راستے اور ذرائع استعمال کرتے ہوئے انہیں پاکستان لے آتے ہیں۔ ان گاڑیوں کو کرائے پر افغانستان سے ملاکنڈ تک پہنچاتے ہیں۔“

جمید خان کے مطابق اگرچہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ملاکنڈ، قبائلی علاقوں اور دوسرے ٹیکس فری مقامات سے باہر نکلنے پر پابندی ہے اور اس کے لیے بہت سی چیک پوسٹیں بھی قائم کی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں پہنچ جاتی ہیں۔

”کئی دولت مند، اثر ورسوخ رکھنے والے بااختیار افراد یہ گاڑیاں یہاں سے سستے داموں خرید کر دوسرے شہروں میں لے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ رشوت کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے شہر پہنچ کر وہ کسی دوسری گاڑی کی نمبر پلیٹ لگا کر اسے چلاتے رہتے ہیں۔“

جمید خان کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے بہت سے تاجر بھی گاڑیاں دوسرے شہروں کے رہائشی گاہکوں کے گھروں تک پہنچانے کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ”قبائلی علاقوں میں ان گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے کئی تاجر یہ گاڑی پاکستان کے کسی بھی کونے میں خریدار کے گھر تک پہنچانے کی ذمہ داری معمولی سے رقم کے عوض لیتے ہیں۔ خریدار کو صرف گاڑی پسند کرنا اور ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ گاڑی چند روز میں ان کے مکان کے باہر کھڑی ملتی ہے۔“

اس ضمن میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا نان کسٹم پیڈ گاڑی کی ڈیوٹی ادا کر کے استعمال کی جا سکتی ہے؟ اس بارے میں ڈپٹی کمشنر انسداد اسملنگ سیل کراچی رضا نقوی کا کہنا ہے کہ ہمارے قانون میں یہ گنجائش نہیں ہے کہ کوئی شہری نان کسٹم پیڈ گاڑی خریدے اور بعد میں اس کی ڈیوٹی ادا کرے۔

وہ کہتے ہیں، ”قانون کے مطابق اگر کوئی گاڑی ملک میں درآمد کی جا رہی ہے تو اس کے درآمد کیے جانے کے وقت اس کی ویلیو کے حساب سے جو ڈیوٹی بنتی ہے، وہ ادا کر کے ہی گاڑی کو کلیئر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سرحدی علاقوں سے غیرقانونی طور پر گاڑی درآمد کر کے ان کی خرید و فرخت کرنا یا پھر انہیں ٹیکس میں چھوٹ دیے گئے علاقوں سے باہر استعمال کرنا غیرقانونی عمل ہے۔“

انہوں نے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور سامان کے بارے میں مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا ”پاکستان کے قانون کے مطابق جو بھی سامان امپورٹ کے تقاضے پورے کیے بغیر ملک میں درآمد کیا جائے گا، وہ غیر قانونی ہوگا، چاہے وہ گاڑی ہو، الیکٹرانک آئٹم ہو یا روز مرہ استعمال کی دیگر اشیا ہوں۔“

رضا نقوی کے بقول ”ملک میں دو طرح کی گاڑیاں عام طور پر کسٹمز حکام تحویل میں لیتے ہیں۔ ایک تو وہ گاڑیاں ہیں جن کا چیسز نمبر ٹیمپرڈ ہوتا ہے یا پنج ہوتا ہے۔ دوسرا وہ گاڑیاں جو پرانی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ لگا کر چلائی جا رہی ہوتی ہیں۔“

جہاں تک ان گاڑیوں کی پہنچان کا سوال ہے تو کسٹمز انٹیلیجنس حکام کے مطابق اب ان کے پاس ایک آن لائن سافٹ ویئر موجود ہے، جس کی مدد سے وہ بآسانی کسی بھی گاڑی کی تفصیلات حاصل کر لیتے ہیں۔ اس سے قبل گاڑی کی پہچان کرنا ایک مشکل عمل تھا۔ کئی بار عملے کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا

یہاں اہم بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ان گاڑیوں کو زیادہ تر عام لوگ نہیں بلکہ بااثر اور سیاسی شخصیات ہی استعمال کرتے ہیں

رضا نقوی نے ایک ریڈ کا احوال کچھ یوں بیان کیا ”کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں ایک خفیہ ذریعے سے اطلاع موصول ہوئی کہ ایک نان کسٹمز پیڈ گاڑی کچھ وقت علاقے میں استعمال کی جا رہی ہے۔ ہم اپنی ٹیم کے ہمراہ دو روز تک اس گاڑی کی نگرانی کرتے رہے۔ یہ گاڑی ایک فیملی کے استعمال میں تھی۔ اس گھر کی خواتین بازار، اسکول اور دیگر مقامات پر جانے کے لیے یہ گاڑی استعمال کر رہی تھیں۔ یہ ایک مشکل کام تھا کہ سڑک پر کسی خاتون کو روک کر گاڑی کی ویریفیکشن کی جاتی۔“

کسٹم حکام نے دو روز کی ریکی کے بعد تین دن مزید گاڑی کا تعاقب کیا اور گاڑی کو چیک کرنے کے لیے اس وقت روکا جب گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ گاڑی کو روک کر جب اسے چیک کیا گیا تو گاڑی کا چیسز ٹیمپرڈ تھا۔

رضا نقوی بتاتے ہیں ”ہم نے گاڑی کو اپنی تحویل میں لیا۔ اس دوران گاڑی کا ڈرائیور گاڑی چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا۔ گاڑی کی مکمل اسکینگ کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایک پرانی گاڑی کی نمبر پلیٹ اس گاڑی پر لگا کر گاڑی استعمال کی جا رہی تھی۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ، رنگ اور کمپنی ایک ہونے کی وجہ سے گاڑی کو آن لائن ایکسائز میں چیک کرنے پر گاڑی بالکل کلیئر تھی۔“

محکمہ کسٹمز کے حکام کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی تلاش کوئی آسان کام نہیں ہے۔ شہر میں ہزاروں نہیں لاکھوں گاڑیاں چل رہی ہیں۔ ان کے قانونی اور غیرقانونی ہونے کا تعین کرنا آسان نہیں ہے۔ محکمے کی افرادی قوت بھی اتنی نہیں ہے کہ ہر سڑک یا علاقے میں اہلکار تعینات کیے جائیں۔

رضا نقوی کے مطابق ”ہم نے کچھ پوائنٹس بنائے ہیں، جہاں مانیٹرنگ کا ایک مؤثر نظام قائم کیا گیا ہے۔ شہر کے وہ مقامات جو داخلی اور خارجی ہیں وہاں کیمروں کی مدد سے سخت نگرانی کر رہے ہیں کہ شہر میں داخل ہونے والی گاڑیوں کا پتا لگایا جا سکے۔ اس کے علاوہ شہر میں گاڑیوں کی باڈی کی تبدیلی کا کام کرنے والوں کو بھی مانیٹر کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ افراد باہر سے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں منگوا کر اپنی پرانی گاڑیوں کو اپ ڈیٹ کر لیتے ہیں۔“

تحویل میں لی گئی گاڑیوں کے بارے میں سوال پر محکمہ کسٹمز کے ترجمان سید عرفان علی نے بتایا ”قانون کے مطابق تحویل میں لی گئی گاڑی عام نیلامی میں پیش کی جائے گی۔ اس نیلامی میں گاڑی کے ماڈل اور کمپنی کے حساب سے گاڑی کی قیمت کا تعین کیا جائے گا اور نیلامی میں کوئی بھی شہری شریک ہو کر زیادہ بولی لگا کر گاڑی خرید سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ گاڑیاں قومی اداروں کو استعمال کے لیے دی جاتی ہیں۔ یہ وہ گاڑیاں ہوتی ہیں جن کے چیسز نمبر کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان دو راستوں سے ہی گاڑی محکمے سے باہر جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ ان غیرقانونی گاڑیوں کو سڑک پر چلنے کی اجازت دی جائے۔“

لیکن ان کے اس دعوے کے برعکس بعض حلقوں کے کہنا ہے کہ کراچی، اسلام آباد، لاہور اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں یہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چل رہی ہیں، لیکن چونکہ یہ اشرافیہ کا ملک ہے اس لیے ان کو کھلی چھوٹ ہے۔ جو گاڑیاں پکڑی جاتی ہیں وہ پکڑنے والے ادارے سپرداری کے نام سے آپس میں اور رشتہ داروں میں بانٹ دیتے ہیں اور یوں وہ گاڑیاں دوبارہ سڑکوں پر ہوتی ہیں اور حکومت کی اجازت سے ہوتی ہیں۔

کیا یہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوتا ہے۔ ایسا کسی بھی ملک میں ہونا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہاں کا قانون سب پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں سرکاری اہلکار کسی بھی اختیار کو اپنے یا اپنی فیملی کے فائدہ یا سہولت کے لیے استعمال نہیں کر سکتے، مگر ہمارے ملک میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے ۔

اس معاملے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ مختلف علاقوں میں اس غیر قانونی کاروبار سے وابستہ جرائم پیشہ افراد کا ایک مافیا بن چکا ہے، جو ملک سے ہزاروں گاڑیاں چرا کر ملک کے مختلف علاقوں میں پہنچاتا ہے اور ان کو نان کسٹم پیڈ ظاہر کرکے فروخت کیا جاتا ہے چونکہ وہاں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں ہے اس لیے ان چوری کی گاڑیوں کو پکڑنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا اور ملک میں گاڑیوں کی چوریوں میں اس وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کو رجسٹرڈ کرنے سے ملک میں گاڑیاں چوری کرنے اور چوری شدہ گاڑیوں کی بازیابی ممکن ہوجائے گی۔ ان گاڑیوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اسپیر پارٹس بھی اسمگلنگ کے ذریعے ان علاقوں تک آتے ہیں

یہ گاڑیاں اس ملک کے سسٹم کے منہ پر لگی وہ کالک ہے جسے دھونا بہت ضروری ہے، اس لیے کہ دس لاکھ سے زیادہ گاڑیاں ملک کی سرحدوں سے گزر کر اس ملک میں آنا اور پھر بلوچستان سے ہزاروں میل دور ملاکنڈ میں پہنچنا اس بات کی دلیل ہے کہ سرحدوں کی صورتحال کیا ہے اور ملک کے اندر قانون نافذ کرنے والے اداروں یا اس کام پر متعین لوگوں کا کیا کردار ہے اور اس ملک کا انتظام سنبھالنے والے کتنے کمزور اور کرپٹ ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close