ماضی میں کچھ حکمرانوں کی خواہش رہی تھی کہ وہ آبِ حیات پی کر ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں۔ آبِ حیات تو نہ مِلا لیکن اُس کے بجائے اُنہوں نے اپنی یادگاریں تعمیر کرائیں تا کہ لوگ اُنہیں بھلا نہ سکیں۔
تاریخ میں حکمران اور فاتح اپنی یادگاریں جن میں مینار، ستون، دروازے، مجسمے، محلات اور مقبرے تعمیر کراتے تھے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ اُن کا عہد زندہ رہے اور وہ تاریخ میں گُم نہ ہو جائیں۔ لیکن خواہشات اور وقت کے اثرات مُتضاد ہوتے ہیں۔ وقت نے ان بہت سی یادگاروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا اور اس کے بنانے والے بھی یادوں سے نکل کر تاریخ کے صفحات پر رہ گئے۔
یادگاریں تعمیر کرنے کے مقاصد مختلف ہوتے تھے۔ کچھ حکمران اپنی طاقت اور رعونت کے اظہار کے لیے یادگاریں چھوڑتے تھے۔ میسوپوٹامیہ کی ریاست اسیریا کے حکمران بڑے ظالم اور خونریز تھے۔ انہوں نے اپنی فتوحات کے جو نشانات ستونوں پر چھوڑے ہیں، اُن میں اِن کے رَتھ دُشمن کی لاشوں کو روندتے ہوئے نظر آتے ہیں، زندہ انسانوں کی کھالیں کھچوائی جا رہی ہیں، دُشمنوں کے کٹے ہوئے سروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ نقوش رعایا میں ڈر اور خوف کو پیدا کرتے ہیں، مگر اِن سے محبت اور لگاؤ نہیں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ بہت جلد انہیں فراموش کر دیتے ہیں۔
رومی حکمرانوں کا بھی یہ دستور تھا کہ وہ اپنی فتوحات کی نشانیاں ستونوں پر نقش کرا کے اُنہیں فورم میں عام لوگوں کے ساتھ کھڑا کروا دیتے تھے۔ ہر نیا حکمراں اپنی فتوحات کی تشہیر کے لیے ستون تعمیر کراتا رہا تھا۔ اب یہ تاریخی یادگاریں زوال کی علامت بن کر بکھری ہوئی ہیں۔
تاریخی یادگاریں تعمیر کرنے کا یہ سلسلہ قدیم عہد میں بھی جاری رہا اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ نیپولین نے اپنی فتوحات کی یادگار پیرس میں شانزے لیزے پر ایک بڑا دروازہ تعمیر کروا کر کی۔ دوسری جانب انگلستان نے نیپولین کے خلاف فتوحات کی یاد میں نیلسن کا بڑا مجسمہ ایک اونچے مینار پر بنوایا، جو تقریباً آسمان کو چھو رہا ہے۔ ٹرافَلگر کی فتح کا نام ایک چوک پر رکھا، جو ٹرافلگر اسکوائر کے نام سے جانا جاتا ھے۔ واٹرلو کا نام ایک ریلوے اسٹیشن کا ہے۔ یورپین یونین بننے کے بعد فرانس نے انگلستان سے کہا تھا کہ وہ اِن ناموں کو بدل دے کیونکہ اِن سے ماضی کی تلخ یادیں سامنے آتی ہیں مگر انگلستان کی گورنمنٹ نے اسے رَد کر دیا۔
تاریخی یادگاریں کبھی کبھی تفادات کا شکار بھی ہو جاتیں ہیں۔ جیسے 1861ء سے 1865ء تک ہونے والی امریکہ کی خانہ جنگی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد یونین اور کنفیڈریشن (confederation) یعنی فاتح اور مفتوح نے جو یادگاریں تعمیر کرائیں وہ ایک دوسرے سے تضاد کا شکار تھیں۔ مثلاً کنفیڈریشن نے شکست کے بعد اُن مقامات پر یادگاریں تعمیر کیں جہاں وہ ہارے تھے۔ خاص طور سے قبرستانوں میں جہاں مرنے والے ہزاروں فوجی دفن تھے۔ اُن کی یاد میں یادگاریں بنائیں اور ایک بکس میں کنفیڈریشن کا جھنڈا، سِکّہ اور فوجیوں کی وردی کے بٹن رکھ کر اُس کو قبرستان کی ایک عمارت میں محفوظ کر دیا۔ کنفیڈریشن کا جنرل ’لی‘ جو لڑتے ہوئے مارا گیا تھا، اُس کا مجسمہ بنا کر رکھا گیا۔ دوسری جانب یونین کے فاتحین نے اُن مقامات پر اپنی یادگاریں تعمیر کرائیں جہاں اُنھیں فتح حاصل ہوئی تھی۔ کنفیڈریشن کی یہ یادگاریں تعصب کی وجہ سے محفوظ نہیں ہیں۔ امریکہ کے افریقی باشندے اِن یادگاروں میں اپنی غلامی کا عکس دیکھتے ہیں اور جب بھی فسادات ہوتے ہیں وہ اِن یادگاروں کو توڑ کر اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہیں۔
یورپی کلونیل ازم نے بھی اپنی کالونیز میں اپنی فتح کی یادگاریں چھوڑی ہیں۔ مثلاً برصغیر ہندوستان میں برطانوی حکمرانوں، جنرلوں اور سیاستدانوں کے مجسمے جگہ جگہ ایستادہ کرائے گئے تا کہ لوگ ان کو دیکھ کر اپنی شِکست کو یاد رکھیں۔ شہروں اور شاہراہوں کے نام انگریزوں کے ناموں پر رکھے گئے۔ سندھ کی فتح جو 1843 میں ہوئی تھی۔ کمپنی نے ایک ستون بنا کر اُس پر اپنی فتح کا اعلان کیا جو آج بھی موجود ہے۔ پنجاب میں لارنس برودرز کے نام پر باغ بھی ہے، سڑکیں بھی ہیں اور عمارتیں بھی۔
آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان کی ریاستوں نے نو آبادیاتی دور کی ان یادگاروں کو ختم کرنے کی مہم شروع کی اور ان کی جگہ نئے نام رکھے گئے، لیکن یہ تاریخ کو بدلنے کی ایک کوشش ہے۔ ان یادگاروں کو باقی رکھنا چاہیے تا کہ ان کو دیکھ کر قوم کو اپنی کمزوریوں کا احساس ہو اور جن افراد نے آزادی کی جدوجہد کی تھی، اُن کی یادگاریں تعمیر کر کے تاریخ کو نئے سِرے سے لِکھنا چاہیے۔۔ لیکن اس کے برعکس اُن شخصیتوں کے نام پر یادگاریں تعمیر ہو رہی ہیں یا پرانی یادگاروں کو نئے نام دیئے جا رہے ہیں، جنہوں نے اس مُلک کی ترقی میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ اب یہ افراد اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے عمارتوں پر اپنے نام کے کتبے لگوا رہے ہیں اور اُن عِمارتوں کو اپنا نام دے کر مقبول ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔ لیکن تاریخ کا یہ سبق ہے کہ وہی یادگاریں قائم رہتی ہیں، جن سے عام لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے، ورنہ یہ کھنڈر بن کر عبرت کا باعث ہو جاتی ہیں۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)