چندراوتی سے میری محبت کا جب آغاز ہوا، اُسے مرے ہوئے تیسرا یا چوتھا دن تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اسے ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر شعلوں میں رکھ دیا گیا تھا اور بہت دیر تک ہمیں چرمر، چرمر کی سی آواز آتی رہی تھی۔۔۔۔ پھر اس کی راکھ بھی گنگا کی لہروں میں گھل مِل گئی اور دو تین دن چندرا کی ماں کے سوا جیسے ساری دنیا نے اسے بھلا دیا ہو۔۔۔ لیکن پھر مجھے اس سے محبت ہو گئی اور رات دن اس کی یاد ستانے لگی۔
اس کہانی کے اہم کرداروں میں سے ایک چندراوتی ہے۔ دوسرے شیاما اور تیسرے یہ خاکسار۔۔۔ یعنی اندر بی اے۔
اگر آپ چندراوتی کو اس افسانے کی ہیروئن سمجھیں تو محض آپ کا حسنِ ظن ہوگا، ورنہ اس بے چاری میں خود اس قسم کی کوئی صلاحیت نہ تھی۔ یہی دیکھ لیجئے کہ فقط ہیروئن کی زندگی پر کہانی کا مدار ہوتا ہے اور اس کے سانس کی گرمی اس میں روح پھونکتی ہے لیکن جس وقت میری محبت کا آغاز ہوتا ہے، اس سے تین چار دن پہلے چندرا کی زندگی کی جوت بجھ چکی تھی اور اس کا جسم چِتا کی آگ میں جل جل کر راکھ ہو چکا تھا۔۔ اور پھر وہ ایک معمولی غریب سی لڑکی تھی۔۔ نہ اتنی معمولی کہ اس کی بے مائیگی کا کائنات کی وسعتوں کے سامنے ایک عام انسان کی زندگی سے مقابلہ ہو اور اسے امتیازی نشان حاصل ہو، اور نہ اس قدر غریب کہ وہ بھوک اور افلاس کی ملکہ کہلا سکے یا کسی مرتے ہوئے جفا کش فاقہ زدہ مزدور کے جیون میں ہیروئن کا پارٹ کھیل سکے۔ وہ عام لڑکیوں کی طرح محض ایک لڑکی تھی، جسے ایک بیوہ ماں کے ساتھ کسی تنگ و تاریک گلی میں رہنا پڑتا تھا اور جس کی زندگی میں گھر کی چار دیواری کے سوا اور کسی ماحول کا سایہ نہ پڑا تھا۔
وہ اچھی خاصی خوبصورت تھی۔۔۔ جس طرح عام نوجوان لڑکیاں خوبصورت نظر آتی ہیں، لیکن نہ تو اس کے گالوں میں قوسِ قزح کی گلابی پینگیں تھیں اور نہ اُس کی آنکھیں شراب کی مستی سے بھرے ہوئے پیمانے۔۔۔ جب وہ ہنستی تھی تو صرف ہنستی تھی اور اس کی مسکراہٹ پر ساری کائنات رقص کرتی ہوئی نظر نہ آتی تھی اور پھر اس کے بال بھی صرف سیاہ بال تھے، سورج کی کرنیں اس کے بالوں میں چاندی اور سونے کے تار نہ پروتی تھیں۔۔۔
میرے مطالعے کے کمرے کی کھڑکی سے سب سے پہلے چندرا کے گھر میں نگاہ پڑتی تھی۔ میں نے بی اے کا امتحان دے دیا تھا اور اب میں اس ذہنی کشمکش کو دور کرنے کی کوشش میں تھا، جو امتحان اور نتیجے کے درمیانی وقفے میں ہر طالبِ علم کا پریشان ترین خواب بن جاتی ہے۔ ایک جوانی، دوسرے فرصت، ضروری تھا کہ حسن اور عشق کے جذبات بیدار ہو جاتے۔ چنانچہ میں نے اپنے تخیل میں ایک علیحدہ رومانی دنیا بنا لی تھی، جس کی سب رنگینیوں اور مسرتوں کا مرکز عورت تھی۔ سینما کے پردے پر تھر تھراتی ہوئی نازک بدن عورتیں؟ بازاروں اور پارکوں میں چہچہانے والی خوش نما عورتیں؟ اور پھر عشقیہ ناولوں کی جاذبِ نظر ہیروئنیں جو چلنے کی بجائے ہوا میں تیرتی ہیں اور بولنے کی بجائے گاتی ہیں۔۔۔ لیکن جب میری نظر کمرے کی چار دیواری سے گھبرا کر آسمان کی وسعتوں میں کھو جانا چاہتی تھی، تو کھڑکی سے سر نکالتے ہی سب سے پہلے چندرا دکھائی دیتی تھی۔۔ جو پھکنی منہ سے لگائے گیلی لکڑیوں سے دھوئیں کے بادل اُڑاتی نظر آتی تھی یا دھوپ میں بیٹھی ہوئی پھٹے پرانے کپڑوں میں ٹانکے لگانے میں مصروف۔۔۔ یہ کثیف نظارہ مجھے روحانی بلندیوں سے گھسیٹ کر زمین پر پٹک دیتا تھا اور میرا طلسمی دنیا کا تصور تارِ عنکبوت کی طرح ٹوٹ جاتا تھا اور اس وجہ سے رفتہ رفتہ مجھے چندرا سے نفرت ہو گئی!
چنانچہ ایک دن میں نے ماں سے کہا کہ چندرا کی ماں نے چار ماہ سے مکان کا کرایہ ادا نہیں کیا، اس لئے اسے نوٹس دینا چاہئے کہ اگر دس دن کے اندر حساب بے باق نہ ہوا تو مکان خالی کرا لیا جائے گا۔
ماں نے حیران ہو کر اپنی بھنویں اٹھائیں اور بولی،
’’چھی چھ، بیٹا ایسا نہیں کیا کرتے۔ تُو نے آج یہ سبق کہاں سے سیکھ لیا۔ بے چاری ودھوا تو ہے، جب ہو سکے گا کرایہ دے دے گی اور اگر نہ بھی دیا تو چار روپے مہینے سے کون سا ہمارا۔۔۔۔‘‘
میں نے فوراً بات کاٹ دی اور کہا ’’لیکن اصولاً انہیں ہمارے مکان۔۔۔۔۔‘‘
’’ چل چپ رہ‘‘ ماں نے غصے سے کہا ’’آیا بڑا مکان والا۔۔۔‘‘
’’مکان کی بات نہیں ماں، میں تو اصول کی بات کہتا ہوں۔‘‘
’’مجھے زیادہ کالت نہیں آتی۔۔ لیکن میرے جیتے جی ایسا نہ ہوگا بعد میں جو جی میں آئے کرنا۔۔۔ اور کیا۔‘‘
لیکن میں بھی تہیہ کئے ہوئے تھا کہ آج اپنی بات منوا کے رہوں گا، اس لئے میں نے ایک اور حربہ استعمال کیا۔ ’’لیکن ماں! چندرا اور اس کی ماں کی شہرت بھی تو اچھی نہیں، ہمارے محلے میں شریف بہو بیٹیاں۔۔۔‘‘
ماں نے آنکھیں اٹھا کر مجھے مسکرا کر گھورا اور الفاظ خود بخود میرے گلے میں اٹک گئے جیسے ایک بھاگا ہوا بچہ استاد کے سامنے بہانہ تراشتے ہوئے بھول جائے کہ اب آگے کیا کہنا چاہئے۔۔
ماں کی تنی ہوئی پلکوں میں خدا جانے کیا چیز پوشیدہ تھی کہ میں دل ہی دل میں سخت نادم ہوا اور اس کے بعد کئی روز تک مجھے اس سے آنکھ ملانے کی جرأت نہ ہوئی۔
ماں کے سامنے میری اس ندامت کا باعث چندرا کے سوا اور کون تھا؟ میں کھڑکی میں کھڑے ہو کر بہت دیر تک اسے گھورتا رہا۔ میرے دل میں غم و غصے کی آندھی چل رہی تھی۔ میں اسے چوٹی سے پکڑ کر کسی تاریک کنوئیں میں دھکیل دینا چاہتا تھا، جہاں وہ ہمیشہ کے لئے میری نظر سے اوجھل ہو جائے۔ وہ چار پائی پر بیٹھی ہوئی دھوپ میں بال سکھا رہی تھی، مجھے گھورتے دیکھ کر کچھ جھینپ سی گئی اور اپنی کمر میں سلوٹیں پیدا کر کے میری طرف سے پیٹھ موڑ لی۔
’مغرور! ان عورتوں کو اپنی ذات کے متعلق کیا کیا خوش فہمیاں ہوتی ہیں۔۔۔ خواہ مخواہ!‘ میں اسی سوچ میں تھا کہ پیچھے سے آواز آئی، ’’یار اتنے ہی مصروف ہو تو چلا جاؤں؟‘‘
’’اوہو، کمار تم ہو؟ آؤ بیٹھو‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے کیا معلوم کہ تم چوروں کی طرح آئے کھڑے ہو۔۔!‘‘
’’ہاں دوست، چور نے آ کر تمہاری چوری پکڑ لی!‘‘
’’میری چوری؟‘‘
’’سچ ہے کہ عشق اور مشک چُھپائے نہیں چُھپتے۔۔‘‘
’’میں نہیں سمجھا کمار؟‘‘
’’تیرا ماتھا تو پہلے ہی ٹھنکا تھا لیکن۔۔۔؟‘‘
’’؟؟؟‘‘
’’اب اتنی بات کرو، اِندر۔۔۔ کہ شیاما کو میرے لئے چھوڑ دو۔ میں اسے دل سے چاہتا ہوں۔‘‘
’’؟؟؟‘‘
’’جی ہاں‘‘ آپ بیک وقت دو بازیاں نہیں کھیل سکتے!‘‘
کمار میرا ہم جماعت تھا اور کتابِ عشق کا زبردست عالم۔ شیاما کے معاملے میں میری اس کی نہیں بنتی تھی اور وہ خود بھی میری طرف زیادہ ملتفت تھی۔ کالج میں شیاما کی مسکراہٹوں کے پھول سب سے زیادہ میرے حصے میں آتے تھے۔ جب وہ میری بات سننے کے لئے اپنی گردن میں ایک ہلکا سا خم پیدا کرتی یا جب چھٹی ملنے پر ہم دونوں ایک دوسرے کے بائی سائیکل کا ہینڈل پکڑے ہوئے آہستہ آہستہ سڑک کے کنارے چلتے تو کمار کے سینے میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھتے تھے، جنہیں بجھانے کے لئے وہ مس لوسی یا پرتیما یا مس کپور کی بائی سائیکلوں کا بے تحاشا تعاقب کرتا تھا اور پھر شام کے وقت دو چار جام پی کر کسی کثیف بالا خانے پر پوڈر زدہ چہروں اور صابن کے بلبلوں میں بجھائے ہوئے حسن میں اپنی تلخیوں کو بھلانے کی ناکام سعی کرتا تھا۔
’’جی ہاں، بے شک‘‘ کمار نے دوبارہ کہا، ’’ آپ ایک وقت میں دو بازیاں نہیں کھیل سکتے‘‘ اور پھر وہ فاتحانہ انداز سے اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا واپس چلا گیا۔
ان دنوں دیوالی کی آمد آمد تھی۔ کالج میں ہم اس تہوار کا بڑے شوق سے انتظار کیا کرتے تھے۔ روشنی کے سیلاب میں تیرتی ہوئی رنگ برنگ ساڑھیاں۔۔ خلقِ خدا کا بے پناہ ہجوم۔۔ دھکے۔۔ ریل پیل۔۔ ہنسی مذاق۔۔۔ اور پھر یکا یک ہماری ٹھوڑیوں کا مشک بار زلفوں سے مس کرتے ہوئے گزر جانا۔ یا ہمارے بازوؤں کا نرم نرم، گداز گداز شانوں سے ٹکرانا۔۔۔ اوہ! لیکن مجھے سب سے زیادہ یہ خوشی تھی کہ اس بار شیاما نے میرے ساتھ دیوالی دیکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ میرے دماغ میں عجیب عجیب خوشگوار خیالوں کی پن چکیاں چل رہی تھیں جب شیاما فر والا کوٹ پہن کر میرے ساتھ نکلے گی تو دوسرے لڑکے میری طرف کس حسرت سے دیکھیں گے۔ کمار کے سینے پر تو زہریلے سانپ لَوٹیں گے اور جب ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے مسکراتے مسکراتے۔۔۔۔
لیکن دیوالی آئی۔ دنیا بھر کے چراغ روشن ہوئے اور میرا دل بجھا رہا۔ کمار کے چلائے ہوئے تیر اپنے نشانے پر ٹھیک بیٹھے تھے اور اس روز وہ شیاما کے ساتھ دیوالی دیکھنے گیا۔ انہوں نے ’نیو لائف‘ ریسٹوران میں چائے پی اور پھر ’الیگزینڈر یا ہوٹل‘ کے شاہانہ تکلفات میں گم ہو گئے۔۔۔
مجھ پر چندرا کا یہ تیسرا وار تھا۔ وہ ہمیشہ سے میرے روحانی تخیلّات میں دھوئیں کے بادل اور پرانے کپڑوں کے چیتھڑے بکھیرتی آئی تھی۔ پھر ایک بار وہ ماں کے سامنے میری سخت ندامت کا باعث بھی بنی اور آج اس نے میرا دل دُکھایا تھا۔ دنیا میں سب کچھ سہا جا سکتا ہے لیکن دل کے نشانے پر لگائی ہوئی چوٹ برداشت نہیں ہو سکتی۔ خدایا! میرے سر پر خون کا بھوت سوار تھا، میں چاہتا تھا کہ میں چندرا کی آنکھیں نکال کر شیاما کے پاس لے جاؤں اور کہوں، ’لو میری جان، انہیں اپنے پاؤں سے مسل ڈالو۔۔۔!‘ کیا شہر بھر کے بالا خانوں میں ایک چندرا کے لئے جگہ نہ تھی؟ کیا دنیا بھر کے مجرموں میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو اپنے جرم کی قیمت حاصل کرنا چاہتا ہو؟
لیکن پھر خود ہی مہربان قدرت میری مدد کے لئے تیار ہو گئی۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے چندرا کو نمونیا ہوا اور تیسرے روز وہ مر گئی۔۔۔ میں نے خود شیاما کے پاس جا کر خوشی سے ناچ ناچ کر خوشخبری سنائی اور اس نے فوراً اپنی نازک نازک لچکیلی بانہیں میرے گلے میں لٹکا کر مجھ سے اپنی غلط فہمی کی معافی مانگ لی۔
میری کھوئی ہوئی شیاما مجھے واپس مل گئی تھی اور اب میرے رومانی تصورات کی رنگینیاں پھر سے آباد ہو رہی تھیں۔ میں نے اپنے کمرے کی بکھری ہوئی چیزوں کو درست کیا اور کھڑکی کے پردے اٹھا کر کائنات کی وسعتوں کے پٹ کھول دیئے۔۔۔ دور دور تک اینٹوں اور پتھروں کے بنے ہوئے خشک خشک مکان۔۔ گلیوں میں آدمی، بچے، کتے۔۔ پھیکا پھیکا مٹیالا سا آسمان۔۔ دور کار خانے کی چمنیوں سے بھک بھک کرکے نکلنے والا بدبو دار دھواں۔۔۔ میری نگاہیں دہشت کھا کر خود بخود واپس آ گئیں۔ جیسے میں نے پہلے کبھی انہیں دیکھا ہی نہ تھا۔۔۔! سامنے چندرا کا مکان تھا، چندرا کی چار پائی دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی، چولہا ٹھنڈا پڑا تھا اور کوٹھے کی منڈیر پر پیوند لگے ہوئے چندرا کے کپڑے پڑے تھے۔۔۔ نہ معلوم میں کب تک یوں ہی کھڑا رہتا لیکن ماں نے آکر مجھے جگا دیا۔
’’اب یہ کھڑکی بند کر دو، بیٹا، چندراوتی تو ہمیں چھوڑ گئی۔‘‘
ماں ساڑھی کے پلُّو سے اپنے آنسو صاف کر رہی تھی اور پھر اس نے رومال اٹھا کر میری آنکھوں پر پھیرا۔۔۔ مجھے محسوس تک نہ ہوا تھا کہ میں بھی رو رہا تھا!
’’جی سنبھالو، بیٹا‘‘ ماں نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا،
’’تمہارا ہر روز کھڑکی میں کھڑے رہنا لوگوں کو اچھا نہ لگتا تھا لیکن مجھے بڑی خوشی تھی، غریب اور امیر کا ملاپ دنیا کو منظور نہ تھا۔ اس بیاہ پر سماج ضرور اُنگلیاں اٹھاتا لیکن بیٹا جہاں پریم ہو۔۔۔۔‘‘
نہ جانے کیوں میری آنکھوں سے آنسوؤں کا دھارا بہہ رہا تھا اور ماں کی آنکھوں سے بھی۔۔۔ اس بہتے ہوئے پانی میں بھی مجھے گیلی لکڑیوں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے بادل نظر آتے تھے۔۔۔ اور ان کی چادر میں لپٹی ہوئی ایک معمولی سی، ایک غریب سی لڑکی۔۔۔