ارشد ندیم کا گولڈ میڈل، انعامات کی بارش اور لیاری کا حسین شاہ

ویب ڈیسک

ہم اکثر کھیلوں پر مبنی فلموں میں دیکھتے ہیں کہ ایک باصلاحیت لیکن وسائل سے محروم شخص پر کسی قدر شناس شخص کی نظر پڑتی ہے اور پھر تربیت کی بھٹی سے گزر کر وہ بتدریج فاتح کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ یہ کہانیاں حقیقی ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہمیں متاثر کرتی ہیں۔

ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں اس طرح کی متعدد فلمیں بن چکی ہیں۔ 2015 میں ایسی ہی ایک پاکستانی فلم بھی منظر عام پر آئی تھی جو لیاری کے ایک سابق پاکستانی اولمپیئن باکسر سید حسین شاہ کی زندگی پر بنائی گئی تھی۔

اس باکسنگ کہانی فلم میں مایوسی پر فتح کی داستان بیان کیا گیا ہے۔ کراچی کے علاقے لیاری کے باکسنگ رنگز اور احاطوں پر شوٹ ہونے والی اس فلم ’شاہ‘ میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے گلی کوچوں میں پھرنے والا وسائل سے محروم بچہ پاکستان کا ایک قومی ہیرو بن کر ابھرا۔

یہ فلم اور اس کا حقیقی کردار حسین شاہ، حال ہی میں ارشد ندیم کی جانب سے اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے کے بعد کئی لوگوں کے ذہنوں میں پھر سے تازہ ہو گئے اور ان دنوں ہر طرف سے ارشد ندیم کے لیے انعامات کے اعلانات کی بارش ہو رہی ہے۔

لیکن ان اعلانات کے شور میں ایک آواز پاکستان کے لیے پہلی مرتبہ انفرادی کیٹیگری میں کوئی بھی بین الاقوامی تمغہ جیتنے والے باکسر حسین شاہ کی بھی ہے، جن کا کہنا ہے کہ ان کو میڈل جیتنے کے بعد حکومت کی جانب سے وعدہ کیا گیا رہائشی پلاٹ پینتیس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی نہیں مل پایا ہے۔

سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے کمہار واڑہ لیاری سے تعلق رکھنے والے حسین شاہ، جو گذشتہ کئی برس سے جاپان میں مقیم ہیں، نے 1988 میں جنوبی کوریا میں ہونے والی اولمپکس گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔

وہ پہلے پاکستانی ایتھلیٹ تھے، جنہوں نے اولمپکس گیمز میں انفرادی کیٹیگری میں کوئی بھی تمغہ جیتا ہو۔ وہ باکسنگ کے کھیل میں برونز میڈل (کانسی کا تمغہ) حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ یہ اولمپکس میں ہاکی کے علاوہ کسی دوسرے کھیل میں پاکستان کا محض دوسرا تمغہ ہے۔ سنہ 1960 کے روم اولمپکس میں پاکستانی پہلوان محمد بشیر نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں جاری اولمک گیمز میں جیولن تھرو میں لیے طلائی تمغہ جیتنے والے پاکستانی ارشد ندیم سے پہلے ملک کے لیے انفرادی کیٹیگری میں میڈل حاصل کرنے کا ریکارڈ باکسر حسین شاہ کے پاس تھا۔

1988 سے قبل کوئی پاکستانی ایتھلیٹ اولمپک گیمز میں انفرادی طور پر کوئی تمغہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کر پایا تھا۔

حسین شاہ کا کہنا ہے کہ 1988 میں کانسی کا تمغہ جیتنے کے بعد اس وقت کی حکومت نے ان کے لیے کراچی کے علاقہ گلستان جوہر میں ایک رہائشی پلاٹ کا اعلان کیا تھا۔

اولمپیئن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”پینتیس سال گزرنے کے باوجود وہ پلاٹ مجھے نہیں ملا، جب کہ میں نے پلاٹ کی رجسٹریشن کے سلسلے میں اس وقت پندرہ ہزار روپے بھی جمع کروائے تھے۔ جب میں پلاٹ لینے متعلقہ دفتر گیا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا اور مجھے بتایا گیا کہ میرے پلاٹ پر کسی نے قبضہ کر لیا ہے۔ وہ پلاٹ مجھے ابھی تک نہیں ملا۔“

رہائشی قطعہ اراضی کے علاوہ ان کے لیے اعلان کردہ دوسرے انعامات و تحائف سے متعلق دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا، ”پاکستان سپورٹس فیڈریشن کی جانب سے پچیس ہزار روپے ملے تھے، جب کہ مزید پچیس ہزار روپے ایک پاکستانی شہری نے ذاتی طور پر دیے تھے۔۔ اس کے علاوہ جتنے بھی اعلانات کیے گئے تھے وہ آج تک نہیں ملے۔“

حسین شاہ نے کہا کہ ان کے لیے حکومت کے اعلان کردہ پلاٹ پر وہ اپنا مکان اور باکسنگ کلب تعمیر کرنا چاہتے تھے، لیکن ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

باکسنگ اولمپیئن نے مزید بتایا کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی نے بھی ان کے لیے ایک عدد مکان بطور انعام دینے کا اعلان کیا تھا، جس پر کبھی عمل نہیں ہو سکا۔

باکسر حسین شاہ کا تعلق باکسنگ کے باعث شہرت پانے والے علاقے لیاری کے ایک غریب گھرانے سے تھا، جس کی وجہ سے انہیں کھیلنے کودنے کی عمر میں ہی محنت مزدوری کرنا پڑی تھی۔

وہ جب چھ سات سال کے تھے تو ان کے چچا نے انہیں باکسنگ کلب صرف اس خیال سے بھیجا کہ وہ باکسنگ سیکھ کر علاقے کے آوارہ لڑکوں کی غنڈہ گردی سے اپنا دفاع کر سکے۔

لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ اپنے دفاع کے لیے باکسنگ سیکھنے والا یہ لڑکا مستقبل میں پاکستان کا نہ صرف سب سے کامیاب باکسر بنے گا بلکہ اولمپکس میں بھی تمغہ جیت کر تاریخ رقم کرے گا۔

حسین شاہ نے اپنی زندگی میں بہت سختیاں جھیلیں۔ اُنہوں نے غربت میں آنکھ کھولی اور جب ہوش سنبھالا تو غربت کے ساتھ ساتھ لیاری کی نام نہاد ʹمنفی شہرتʹ بھی ان کا امتحان لینے کے لیے موجود تھی، لیکن اُنہوں نے اپنے لیے جو راستہ منتخب کیا، وہ اندھیروں میں گم ہونے کے بجائے روشنی کی طرف جاتا تھا۔

کم عمری میں پہننے والے باکسنگ گلووز ان کے حوصلے میں اضافہ کرتے گئے۔

حسین شاہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے لیاری میں باکسنگ شروع کی تھی اور نوجوانوں نے اس کھیل میں بہت زیادہ دلچسپی لی۔

حسین شاہ بتاتے ہیں ”میں چار سال کا تھا، جب میری ماں دنیا سے رخصت ہو گئیں، جب کہ میں نے سات سال کی عمر میں باکسنگ سیکھنا اور کھیلنا شروع کی تھی۔ ماں کی وفات کے بعد والد نے دوسری شادی کر لی اور سوتیلی ماں میرے باکسنگ کھیلنے کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ میں نے گھر چھوڑ دیا اور لیاری کے فٹ پاتھوں اور مزاروں میں وقت گزارنے لگا۔ میں اکثر راتوں کو گلیوں میں سویا کرتا تھا کیونکہ میرا کوئی گھر نہیں تھا۔“

حسین شاہ کی زندگی میں سنہ 1984 بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس سال انہیں باکسنگ کی بنیاد پر کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) نے کنٹریکٹ پر ملازمت دی۔

اسی سال وہ قومی باکسنگ چیمپیئن شپ کھیلنے فیصل آباد گئے تو ان کے پاس باکسنگ مقابلوں میں استعمال ہونے والے جوتے تک نہیں تھے۔ انہوں نے فائنل میں سلور میڈلسٹ آرمی کے فضل حسین کو شکست دی تھی۔ ”مجھے یاد ہے کہ جب میں نے پنچ مار کر اُنھیں گرایا تو میں خود یہ سوچ کر حیران رہ گیا کہ کیا میرے اندر اتنی طاقت ہے۔“

وہاں پاکستان باکسنگ فیڈریشن کے صدر پروفیسر انور چوہدری موجود تھے۔ اُنھوں نے حسین شاہ کی باکسنگ دیکھ کر انہیں فوراً ٹریننگ کیمپ میں بلانے کی ہدایت کر دی۔ ”یہ میرے کریئر کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جو میرے قومی اور بین الاقوامی کریئر کی شروعات کا سبب بنا۔“

حسین شاہ کہتے ہیں ”میں نے 1984 میں نیپال میں منعقدہ پہلے سیف گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے فائنل میں انڈین باکسر کشن کمار کو شکست دی تو اس وقت بھی میرے ساتھ یہی صورتحال تھی کہ باکسنگ کے جوتے نہیں تھے اور مجھے ننگے پیر یہ مقابلہ کرنا پڑا تھا۔“

انہوں نے 1987 میں کویت میں ہونے والی ایشیئن باکسنگ چیمپیئن شپ میں گولڈ میڈل جیتا۔ ان کی یہی کارکردگی انہیں سیئول اولمپکس میں لے جانے کا سبب بنی کیونکہ اس زمانے میں کوالیفائنگ مقابلوں کا سلسلہ نہیں ہوا کرتا تھا

حسین شاہ بتاتے ہیں ”اس زمانے میں سال بھر باکسنگ کا کیمپ لگا رہتا تھا اور پروفیسر انور چوہدری اس میں خود دلچسپی لیا کرتے تھے۔ کیوبا کے صدر کاسترو سے ان کی دوستی کی وجہ سے کیوبن کوچز باقاعدگی سے پاکستان آتے تھے۔ میری ٹریننگ میں بھی کیوبن کوچ کا بڑا ہاتھ تھا۔ پروفیسر صاحب نے سنہ 1986 میں مجھے اور ابرار حسین کو تین ماہ کی ٹریننگ کے لیے مشرقی جرمنی بھیجا تھا۔“

حسین شاہ کے مطابق ”میں اپنی دھن میں سخت ٹریننگ کر رہا تھا اور میرے ذہن میں صرف یہی بات ہوا کرتی تھی کہ جس ایونٹ میں جاؤں، اس میں تمغہ جیتوں۔ میں سیف گیمز ایشیئن چیمپیئن شپ اور پریذیڈنٹ کپ میں تمغے جیت رہا تھا لہٰذا جب میں کیمپ میں اپنے ساتھی باکسرز سے کہتا کہ ’میں اولمپکس میں بھی میڈل جیت کر آؤں گا‘ تو سب مجھ پر ہنستے تھے۔ صرف ہمارے کیوبن کوچ جولین میری بات کو سنجیدگی سے سُنتے تھے۔ اُنہیں پتہ تھا کہ میں کچھ کر سکتا ہوں۔ اس شخص نے مجھ پر بہت محنت کی تھی۔“

اور پھر وہ وقت آ گیا۔۔

حسین شاہ سیئول اولمپکس کی یادیں یوں بیان کرتے ہیں ”مجھے اولمپکس میں حصہ لینے کی خوشی تو تھی لیکن ان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ کتنے بڑے مقابلے ہوتے ہیں۔ میں اُنھیں سیف گیمز اور ایشیئن چیمپیئن شپ کی طرح کا مقابلہ سمجھ رہا تھا لیکن جب میں نے افتتاحی تقریب دیکھی تو میری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔ اس وقت مجھے پتہ چلا کہ اولمپکس مقابلے تو ایک الگ دنیا ہیں۔“

اور اس الگ دنیا، جسے وہ پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، وہاں سے وہ 1988 میں پہلی مرتبہ اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیت کر لوٹے

حسین شاہ بتاتے ہیں ”جب میں تمغہ جیت کر وطن واپس آیا تو جو لوگ مجھ پر ہنسا کرتے تھے، اب وہ مجھ سے آنکھیں نہیں ملا پا رہے تھے۔ مجھے اس وقت اندازہ ہوا کہ اولمپکس میں جیتے گئے کانسی کے تمغے کی اہمیت سیف گیمز اور ایشیئن چیمپیئن شپ کے طلائی تمغے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ جب میں سیف گیمز اور ایشیئن چیمپیئن شپ میں گولڈ میڈل جیت کر آتا تھا تو میری کوئی آؤ بھگت نہیں ہوا کرتی تھی لیکن جب میں اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیت کر آیا تو ہر طرف سے پذیرائی شروع ہو گئی۔“

اولمپکس میں تمغہ جیتنے کے بعد وطن واپسی پر حسین شاہ کا کراچی ایئرپورٹ پر ویسا ہی استقبال کیا گیا تھا، جیسا ہفتے اور اتوار کی درمیان شب لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ پر ارشد ندیم کا کیا گیا۔

حسین شاہ نے 1988 میں ان کے استقبال کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا، ”ایسا لگ رہا تھا کہ پورا کراچی شہر استقبال کے لیے ایئرپورٹ آیا ہوا تھا اور مجھے جلوس کی شکل میں لیاری لایا گیا، جب کہ راستے میں ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی کیے گئے تھے۔“

حسین شاہ کہتے ہیں ”مجھے فخر ہے کہ میں نے پاکستان کے لیے کانسی کا تمغہ جیتا ہے، لیکن اس زمانے میں حکومت نے بہت مایوس کیا تھا۔“

حسین شاہ بتاتے ہیں ”کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) کے لیے میں تقریباً سات سال تک باکسنگ مقابلوں میں حصہ لیتا رہا، پھر اُنھوں نے بھی گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعے دو ڈھائی لاکھ روپے دے کر جان چھڑا لی۔“

انہوں نے بتایا کہ اولمپک گیمز کے کچھ عرصہ بعد ان کے حالات اتنے خراب ہو گئے کہ دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہو پا رہی تھی۔ ”اس زمانے میں اسکواش چیمپیئن جہانگیر خان نے میری مدد کی، جس کی وجہ سے میں 1992 میں دو سال کے لیے باکسنگ کی تربیت حاصل کرنے لندن چلا گیا تھا۔“

حسین شاہ کا کہنا ہے ”ٹریننگ سے واپسی پر بھی حالات میں تبدیلی نہیں آئی، جب کہ حکومت کی جانب سے کسی قسم کا سپورٹ نہیں تھی۔ مجھے مجبوراً وزٹ ویزے پر جاپان آنا پڑا۔ میں مجبوری کی حالت میں بھاگ کر جاپان آیا کیونکہ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا۔“

جاپان پہنچتے ہی انہوں نے ایک باکسنگ اکیڈمی میں تربیت حاصل کی اور ٹریننگ ختم ہونے پر اکیڈمی نے انہیں باکسنگ کوچ کے طور ملازمت کی پیشکش کی، جو حسین شاہ نے قبول کر لی۔

حسین شاہ اس وقت جاپان میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ وہاں اپنے خاندان کے ساتھ خوش ہیں اور اچھا کما رہے ہیں۔

حسین شاہ کہتے ہیں ”مجھے پاکستان چھوڑنے کے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں کیونکہ پاکستان میں رہتا تو محنت مزدوری کر رہا ہوتا۔ آج میں ٹوکیو میں مطمئن زندگی گزار رہا ہوں۔ میرا ذاتی گھر ہے۔ میں تعلیم حاصل نہ کر سکا لیکن خوشی ہے کہ میرے دونوں بیٹوں نے ٹوکیو کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔“

حسین شاہ کہتے ہیں ”پاکستان جانے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں ہے، کیونکہ وہاں میں نے بہت مشکل حالات دیکھے ہیں۔“

حسین شاہ کہتے ہیں ”لوگ اکثر مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ’آپ اولمپک میڈلسٹ اور سیف گیمز میں پانچ گولڈ میڈل جیتنے والے واحد پاکستانی باکسر ہیں لیکن آپ کا بیٹا جوڈو کا کھلاڑی ہے۔ ایسا کیوں؟‘ اس کا جواب سیدھا سادہ ہے کہ میرا بیٹا شاہ حسین شاہ جاپان میں رہ کر باکسنگ کو اپناتا تو شاید اس کا کریئر اتنا کامیاب نہ ہوتا۔ جوڈو جاپان کا قومی کھیل ہے اسی لیے میری بیگم نے مجھے مشورہ دیا کہ شاہ حسین شاہ کو جوڈو کرواتے ہیں۔ وہ دو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کر چکا ہے، اس نے کامن ویلتھ گیمز میں چاندی کا تمغہ جیتا جبکہ ساؤتھ ایشین گیمز میں وہ دو طلائی تمغے جیت چکا ہے۔“

ارشد ندیم کی جیت کا ذکر کرتے ہوئے حسین شاہ کا کہنا تھا ”یہ بہت فخر کی بات ہے اور ہم یہاں بھی فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے ایتھلیٹ نے تمغہ جیتا ہے لیکن ارشد ندیم کو میرا ایک پیغام ضرور پہنچائیں۔“

انہوں نے ارشد ندیم کے لیے اپنے پیغام میں کہا ”میرا استقبال کیا گیا تھا میرے لیے اعلانات بھی کیے گئے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے مجبوراً پاکستان سے بھاگنا پڑا۔“

انہوں نے کہا، ”ارشد ندیم کو چاہیے کہ جتنے اعلانات کیے گئے ہیں، ان کو جتنا جلد ہو سکے انہیں حاصل کر لیں کیونکہ پھر اعلان کرنے والے بھول جاتے ہیں۔“

حسین شاہ عظیم باکسر محمد علی کلے سے ملاقات کو زندگی کا یادگار لمحہ قرار دیتے ہیں۔ ”محمد علی 1989 کے سیف گیمز کے موقع پر پاکستان آئے تھے تو اس وقت میری ان سے ملاقات ہوئی۔ جب میں نے اُنہیں بتایا کہ میں نے بھی آپ کی طرح اولمپکس میں تمغہ جیتا ہے تو اُنہیں یقین نہیں آیا کہ پاکستان سے بھی کوئی باکسر اولمپکس میں تمغہ جیت سکتا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے گلے لگایا اور اپنے ساتھ تصویریں بنوائیں۔“

یاد رہے کہ محمد علی نے پروفیشنل باکسر بننے سے قبل امیچر باکسر کی حیثیت سے سنہ 1964 کے ٹوکیو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

فتح کے کئی مالک نکل آتے ہیں اور شکست ہمیشہ لاوارث رہتی ہے۔‘ مزدور باپ کے بیٹے ارشد ندیم کی عالمی ریکارڈ تک پہنچنے کی کہانی

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close