ہر برس کی طرح اس یومِ آزادی پر بھی پاکستان اندرونی و بیرونی دشمنوں سے نہ صرف گھرا ہوا ہے بلکہ ان دشمنوں کی تعداد سال بہ سال بڑھ رہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سوائے فوجی قیادت کے کسی کو نہ ان خطرات کا پوری طرح سے ادراک ہے اور نہ ان سے بہ احسن و خوبی نمٹنے کی صلاحیت۔ لہذا عسکری قیادت کو نہ صرف اپنی پیشہ ورانہ ادارہ جاتی ذمہ داریاں نبھانا پڑ رہی ہیں بلکہ تمام خارجی و داخلی چیلنجز سے بھی بادلِ نخواستہ نپٹنا پڑ رہا ہے۔
اگر سیاستداں، پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن، عدلیہ، پولیس، سول سوسائٹی، میڈیا اور صوبے اپنا بوجھ اٹھانے اور کم از کم اپنی ذمہ داریاں نبھانے نیز قومی سلامتی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے قابل ہوتے تو آج پاکستان بھی ستتر برس بعد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آگے پیچھے دکھائی دیتا۔
مگر ان اداروں نے نہ صرف سارا بوجھ فوج پر ڈال دیا بلکہ شکر گزار ہونے کے بجائے تقریر، خبر، تجزیوں اور فنونِ لطیفہ کے بھیس میں تنقید یا مین میخ نکالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
سول سوسائٹی نے پچھلے ستتر برس میں اگر کوئی واحد اچھا کام کیا تو بس یہ کہ جناح صاحب کی قیادت میں پاکستان بنا لیا۔ مگر ملک بنا لینا اور پھر اس ملک کو اچھے سے چلانا دو الگ الگ باتیں ہیں۔
ستتر برس قبل فوجی قیادت کو لگتا تھا کہ ہم صرف شمال کی طرف سے بڑھتے ہوئے کیمونسٹ خطرے اور مشرق میں موجود انڈین خطرے کو دیکھیں گے۔ باقی کام نیا ملک بنانے والے سیاستدان اور عوام سنبھال لیں گے۔ مگر دونوں ہی ان بنیادی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔
وہ دن اور آج کا دن۔۔ مجال ہے فوجی قیادت کو ریاست سازی کے کام سے فرصت کا ایک لمحہ بھی نصیب ہوا ہو۔ اس ملک میں اگر کوئی دوسرا تربیت یافتہ ادارہ تھا تو وہ نوکر شاہی تھی۔ ان دونوں اداروں نے محسوس کیا کہ اردگرد خون دینے والوں کے بجائے چوری کھانے والے خوش وقت مجنوؤں کا ہجوم ہے اور اگر ان مجنوؤں کے آسرے پر ریاست چھوڑی تو خود ریاست کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
چنانچہ دونوں اداروں نے ادھر ادھر دیکھنے کے بجائے وسیع تر قومی مفاد کی خاطر اپنی آستینیں چڑھا لیں اور نئے ملک کی تعمیر و ترقی میں دیوانہ وار جت گئے۔
ایسا نہیں کہ ان اداروں نے سیاستدانوں کو باگ ڈور سنبھالنے کا موقع نہیں دیا۔ مگر جب جب بھی سیاستدانوں کو مملکت کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا گیا۔ سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔کسی نے گاڑی بلاوجہ دائیں کے بجائے بائیں موڑ دی۔کسی نے کلچ کو ایکسیلیٹر سمجھ لیا اور کوئی ایکسلیٹر دباتے ہوئے بریک پر پاؤں رکھنا بھول گیا۔کسی نے سارا زور ایکسلیٹر پر لگا دیا ااور گاڑی ایک جھٹکے سے بند کر دی۔کسی نے بدحواسی میں کلچ پر پاؤں رکھے بغیر گئیر بدلنے کی کوشش میں گئیر بکس ہی توڑ دیا۔
چنانچہ تنگ آ کر یہ حل نکالا گیا کہ ریاست کی گاڑی میں ڈبل کنٹرول ہونا چاہیے۔ یعنی دو اسٹئیرنگز، دو بریکیں اور دو کلچ۔ ایک جانب نوسکھیا ڈرائیور بیٹھے اور برابر میں ایمرجنسی سے نپٹنے کے لیے انسٹرکٹر کندھے پر ہاتھ رکھ کے بیٹھے۔ تب سے اب تک یہی ماڈل کام آ رہا ہے، ورنہ تو گاڑی کبھی کی کریش ہو جاتی۔
لو جی، میں بھی گفتگو کی سڑک پر ڈرائیو کرتا کہاں سے کہاں نکل گیا۔۔ مگر سڑک ہے کہ ہر نیا موڑ کاٹتے ہوئے ’بمپی‘ ہوتی جا رہی ہے۔ کبھی اس پر دہشت گردی کا گڑھا آ جاتا ہے، کبھی مذہبی شدت پسندی کا اسپیڈ بریکر نمودار ہو جاتا ہے، کبھی انڈیا اوپر سے پتھر لڑکانے لگتا ہے، کبھی افغانستان کیلیں بچھا دیتا ہے، کبھی کوئی نہ کوئی غدار ٹائر سے ہوا نکال دیتا ہے۔۔ اور اب تو گاڑی میں لگا چور سوئچ ڈیجیٹل دہشت گردی کی زد میں ہے تاکہ جیسا کیسا سفر ہو رہا ہے، وہ بھی رک جائے۔
اگر مجھ جیسے تھڑ دلوں کو تھوڑا بہت حوصلہ میسر ہے تو وہ جنرل صاحب کی راست گوئی کے طفیل ہے۔ یومِ ِ آزادی کے موقع پر جنرل صاحب نے کاکول میں جو ولولہ انگیز خطاب کیا، اس سے امید بندھی ہے کہ آپ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح مشکلات سے ہار ماننے والوں میں سے نہیں۔
آپ پاکستان کو یونہی خطرناک موڑوں سے بچاتے ہوئے بدستور چلتے رہیں۔ یہ نااہل سیاستدان تو من حیث الطبقہ اس گاڑی کو ٹھیک سے دھکا بھی نہیں لگا پا رہے، جسے آپ ڈرائیو کرنے کی مردانہ وار کوشش کر رہے ہیں۔ بس اپنی قوتِ بازو اور فہم و فراست پر بھروسہ رکھیں۔ سنیں سب کی کریں اپنی۔
آئینی دائروں کا احترام، قانون کی عمل داری، بنیادی حقوق کا دفاع، طبقاتی اونچ نیچ کا خاتمہ، ترقی کے مساوی مواقع، تعمیری تنقید کی حوصلہ افزائی، احتجاجیوں سے ہمدردانہ درگزر، اقتصادی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت، شہریوں کی عزتِ نفس کی تکریم، مذہبی جنونیت کو لگام، کرپشن کے بارے میں زیرو عدم برداشت، میرٹ کلچر کا مکمل نفاذ، اختیارات کی اوپر تلے منصفانہ تقسیم اور تعلیم، صحت، روزگار کو قومی ترجیحاتی فہرست میں سب سے اوپر رکھنے کی کوشش۔۔۔یہ سب پیٹ بھروں کی باتیں ہیں۔
جب اس ریاست کو درپیش آخری داخلی و خارجی خطرے کا خاتمہ ہو جائے گا، تب وہ سب بھی ہو جائے گا، جس کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا۔۔ اور ان خطرات کا خاتمہ کب ہوگا اور کیسے ہوگا، یہ طے کرنا اور بتانا بھی جنابِ عالی کی ذمہ داری ہے۔
کاش جتنا لگاؤ آپ کو اور آپ کے بیدار مغز ساتھیوں کو اس ریاست کے ایک ایک فرد ، شعبے اور گوشے سے ہے، کسی دن ہم نٹھلوں کو بھی ہو جائے، تاکہ آپ کے اور آپ کے بعد آنے والوں کے کندھوں کا بوجھ کچھ تو ہلکا ہو۔ آمین ثم آمین۔
بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)