پاکستانی سیاست دان اور فنِ خطابت: تاریخی نقطۂ نظر سے

ڈاکٹر مبارک علی

جمہوریت میں سیاسی پارٹیاں قائم ہوئیں، سیاست دان منظر عام پر آئے۔ عوام میں مقبول ہونے کے لیے سیاست دانوں کو جلسے جلوسوں میں تقریریں کرنی ہوتی تھیں۔ جو سیاست دان اچھا مقرر ہوتا تھا وہ بہت جلد مقبولیت حاصل کر لیتا تھا۔

یونان میں ایتھنز کی شہری ریاست میں جہاں سے جمہوریت کی ابتدا ہوئی، یہ دستور تھا کہ امرا کے لڑکوں کو سوفسطائی سیاست کی تعلیم دیا کرتے تھے اور اس کا معاوضہ وصول کرتے تھے۔ سوفسطائی وہ گھومتے پھرتے استاد ہوتے تھے جو معاوضہ لے کر لوگوں کو پڑھاتے تھے۔

دوسری جانب سقراط کو یہ شکایت تھی کہ علم کے سلسلے میں کوئی معاوضہ نہیں لینا چاہیے۔ امرا کے لڑکوں کو اس لیے سیاسی تربیت کی ضرورت تھی، کیونکہ وہ سیاست میں حصہ لیتے تھے۔ خاص طور سے فنِ خطابت میں ان کو ماہر بنایا جاتا تھا اور یہ اصول بتائے جاتے تھے کہ تقدیر میں زبان و بیان کی اہمیت ہونی چاہیے، لوگوں کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ مخالفوں پر تنقید کرتے ہوئے شائستہ لہجے میں بولنا چاہیے۔ ایتھنز کی جمہوریت میں سیاست دان اور اس کی تقریر کی بڑی اہمیت تھی۔ اس کے ذریعے وہ اپنی شخصیت کا اظہار کرتا تھا۔

سیاست دان اور فنِ خطابت کی یہ روایت جمہوری ملکوں میں جاری رہی۔ انگلستان کے دارالامرا (ہاؤس آف کامنز) میں وہ اراکین تاریخ میں شہرت رکھتے ہیں، جو فصاحت اور بلاغت کے ساتھ تقریر کرتے تھے۔

مثلاً ان میں سے ایک ایڈمنڈ برک تھا، جس نے وارن ہیسٹنگز (وفات 1818) کے مواخذے پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف اور ہندوستان کے حق میں تقاریر کیں۔ اس نے فرانسیسی انقلاب پر بھی تنقید کی۔ دوسری جنگ عظیم کے موقعے پر چرچل کی تقاریر بھی فنِ خطابت میں اعلیٰ معیار کی تھیں۔

برصغیر ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد کے دَور میں سیاست دانوں نے جلسے و جلوسوں میں تقاریر کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ تقاریر شائستگی کے ساتھ کی جاتی تھیں۔ زبان کے معیار کو برقرار رکھا جاتا تھا۔ ایک اچھا مقرر اپنی خوبصورت تقریر کے ذریعے لوگوں کو مسحور کر لیتا تھا۔

پاکستان کے ابتدائی دور میں سیاست دانوں میں فنِ خطابت کی صلاحیت تھی۔ میں جب اسکول کا طالبِ علم تھا تو میں نے سردار عبدالرب نشتر کی تقریر سنی۔ ان کا انداز انتہائی سادہ اور دل لبھانے والا تھا۔ اس وقت جلسے میں لوگ اپنی مرضی سے آتے تھے، لائے نہیں جاتے تھے، اور کوئی غل غپاڑہ نہیں ہوتا تھا۔

ہمارے دوست ظفر علی خان نے حسین شہید سہروردی کے ایک جلسے کا واقعہ سنایا۔ یہ مارشل لا لگنے سے پہلے کی بات ہے۔ جب خان قیوم خان کا بڑا زور تھا۔ جب جلسہ شروع ہوا تو مسلم لیگ کے کارکنوں نے خان قیوم خان کے حق میں نعرے لگانے شروع کیے۔ شورش کاشمیری، جو نظامت کر رہے تھے، انہوں نے لوگوں کو خاموش رہنے کو کہا، لیکن جب نعرے کم نہیں ہوئے تو شہید سہروردی خود مائیک پر گئے اور لوگوں سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’آئیں ہم سب مل کر خان قیوم خان زندہ باد کے نعرے لگائیں۔‘

جب سہروردی نے قیوم خان اور مسلم لیگ زندہ باد کے نعرے لگائے تو مجمع پہلے تو حیران ہوا اور پھر خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد سہروردی نے اپنی تقریر پوری کی۔

پاکستان کی سوسائٹی بری طرح سے تنزل کا شکار ہوئی ہے۔ اسی کا حصہ سیاست دان ہیں کہ جب وہ جلسے اور جلوسوں میں تقریریں کرتے ہیں تو فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ نہ ان کے پاس علم ہے، نہ یہ شائستہ زبان سے واقف ہیں، نہ ان کو تقریر کرنا آتی ہے، نہ یہ عوام کے مسائل سے واقف ہیں، اور نہ ان میں قوتِ برداشت کا مادہ ہے۔

ہمارے ہاں سیاست دانوں کی تقریر کا ایک ہی انداز ہوتا ہے۔ زور سے بولا جائے، اپنے حریفوں کو گالیاں دی جائیں، دھمکی دی جائے، جھوٹے دعوے کیے جائیں اور اپنے سیاسی کارنامے بیان کیے جائیں۔

ان جلسوں میں لوگ خود سے نہیں آتے ہیں بلکہ لائے جاتے ہیں اور یہ روایت بھی ہو گئی ہے کہ آنے والوں کو کھانا بھی کھلایا جائے۔

اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سیاسی پسماندگی کی وجوہات کیا ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ سیاست خاندانوں اور اشرافیہ کی اجارہ داری میں آ گئی ہے، اقتدار میں آنے کے لیے کسی صلاحیت یا تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ تعلیمی اداروں میں اب سیاسیات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ اشرافیہ میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کر کے لوگوں کی ذہنی سوچ و فکر کو روک دیتی ہے۔

لوگوں کے جذبات کو ابھارنے کے لیے مذہب اور قوم پرستی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاست کو اخلاقی قدروں سے آزاد کر کے سازشوں اور بدعنوانیوں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا ایسا رواج ہو گیا ہے، جس پر اب کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔

جب کوئی سوسائٹی پسماندگی کی انتہا کو پہنچ جائے تو ایسی صورت میں کلچر کا خاتمہ بھی ہو جاتا ہے، ادب، آرٹ اور فلسفہ بے مصرف ہو جاتے ہیں، اس لیے اظہار کے لیے غیر شائستہ زبان کو استعمال کیا جاتا ہے، اور روزمرہ کی زندگی میں جھگڑے اور فساد زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں مہمان ایک دوسرے کے دست و گریبان ہو جاتے ہیں، محفلوں میں سیاست دان ایک دوسرے کو تھپڑ مارتے ہیں۔

جب سوسائٹی اس حد تک گر جائے تو اس کی اصلاح کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close