ری ایکشن کیسے لڑتا ہے، خیالی عظمت کا خبط کیا ہوتا ہے، آئیں آپ کو اپنی کہانی سناتا ہوں، کیا پتہ ایسا آپ نے بھی سوچا ہو کبھی۔
مجھے لگتا تھا کہ اگر میں نے الیکشن لڑا تو پاکستان کیا پوری کائنات مجھے ووٹ ڈالنے نکل آئے گی۔
یہ میری دماغی خرابی کا ایڈوانس ترین مرحلہ ہوتا تھا۔
کبھی میں سوچتا تھا کہ پوری دنیا کے لوگوں تک میرا پیغام پہنچنا چاہیے، یہ کیا بات ہوئی کہ اردو میں لکھا، بولا اور چند لاکھ اللہ کے بندوں نے سن لیا؟ ایسی کوئی زبان ہو جسے ہر بندہ سمجھتا ہو۔
مجھے یاد ہے، اس سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ ملتان بھر کے مردوں کا عالمی نمائندہ میں ہوں۔ ایسا کچھ کرنا چاہیے کہ جس سے لوگوں کو لگے میں ان کے فائدے کی بات کر رہا ہوں۔
یہ سب تو ابھی پندرہ بیس برس کی بات ہے۔ کالج ٹائم پہ اپنے آپ کو میں ہر اسٹوڈنٹ کی آواز سمجھتا تھا۔ بات ہمیشہ ایسی کرتا کہ جو میرے خیال میں بس فائنل ہوا کرتی، یعنی اس کے بعد قیامت ہو سکتی تھی ۔۔۔ آہا ۔۔۔ بڑی دیر تک آرام رہتا تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے، خود کو بھی تسلی بخش افاقہ لگتا تھا۔
اسکول کے ٹائم میں اور بھی اُلٹے خیال آتے تھے۔ کیا پتہ اللہ میاں نے یہ شہر میرے لیے بنایا ہو۔ یہ سب کلاس فیلو، دوست، یہ اس لیے ہوں گے کیوں کہ مجھے ایک مخصوص ماحول دینا ہوگا انہوں نے۔ سوچتا تھا کہ تھوڑا اور بڑا ہوں گا تو یہ راز فاش ہو جائے گا اور اس خیال سے ہی میں چوڑا ہو جایا کرتا تھا۔
کوشش کرتا تھا اپنی اس بیماری پر قابو پانے کی، لیکن یار مزہ اتنا آتا کہ میں رک جاتا۔ پھر سوچنے لگتا کہ ہو سکتا ہے واقعی ایسا ہو ۔۔۔ کیا پتہ میں ہی وہ مسیحا ہوں، جس کا دنیا بھر کے مظلوموں کو انتظار ہے۔
پھر میں سوچتا کہ مجھ ایسے بندے کو کھرا سچ بولنا چاہیے۔ یہ عاجزی وغیرہ ڈرامے بازی ہوتی ہے، اگلے زمانوں میں جیسے مجذوب ہوتے تھے، اسی طرح سرجھاڑ منہ پھاڑ کھردرے لہجے میں دنیا والوں کو ان کی اوقات پہ رکھتے ہوئے بدتمیزی سے بات کرنا زیادہ بہتر ہو گا، بلکہ اس سے بھی احسن یہ ہو گا کہ میں اپنی ہی گفتگو کے دوران ہوا سے لڑتا نظر آؤں، تنکا بھی ہلے تو اسے تُن کے رکھ دوں۔ ماچس ہوتی تو اس دنیا کو آگ لگا دیتا، اس ٹائپ کی فیلنگ نظر آنی چاہیے۔
آخر یہ سب کچھ سوچ ساچ کے میں ہلکا ہو جاتا تھا۔ مجھے پتہ لگ گیا کہ میرے دماغ میں جتنے منفی نیوران ہیں، ان کو تھوڑا گھومنے کا موقع ملتا ہے، وہ بھاگتے دوڑتے ہیں، شور کرتے ہیں، اس کے بعد ایک طرف لڑھک کے سو جاتے ہیں۔
تب میں واپس اوقات پہ آ جاتا، لسی پیتا، وہ نہ ہو تو دھنیا پودینہ ملا قہوہ، کوئی اور سکون آور مشروب، پھر آستین سے منہ پوچھتا اور خدا کا شکر ادا کرتا کہ اس نے مجھے ایسی کیفیت میں کچھ لکھنے سے بچنے کے قابل بنایا۔
دنیا کے جانوروں کا اخلاق کیا اور کیا ان کا جنون!
تب مجھے سمجھ آتی ہے کہ وہ میرا ری ایکشن تھا۔ اگر ایک خیال آپ کا جینوئن ہے تو آپ بڑے ٹھنڈے طریقے سے بات کر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ وہی خیال اگر کسی بات کے ردِعمل میں ہو تو دماغ کے سارے کیڑے متحرک ہو جاتے ہیں۔ ری ایکشن آپ کو خبطِ عظمت تک میں مبتلا کر سکتا ہے اور ساری عمر آپ اسی کیفیت میں گرفتار رہ سکتے ہیں۔
میں نے جان لیا کہ ردعمل سے دور رہنا ہے۔ چپ پڑا رہوں ایک کونے میں، سر منہ لپیٹ کے، ہفتے دس دن بعد سمجھ آئے تو ٹھہراؤ کے ساتھ ری ایکشن دینا ہے، ورنہ عموماً تب تک وہ سارے متحرک جاندار سکون پہ آ چکے ہوتے ہیں دماغ والے۔
لیکن یار، اب بھی رات تین چار بجے تک اگر جاگتا رہوں تو وہی الیکشن والی کیفیت دوڑ دوڑ کے دماغ میں آتی ہے، دنیا کی بے ترتیبی سے بڑی الجھن ہوتی ہے، بڑی مشکل سے فقیر قائل کرتا ہے خود کو، کہ تیرا علم محدود ہے، تو نے آج تک پڑھا کتنا ہے، دنیا کتنی دیکھی ہے، تو جانتا کیا ہے گوگل کے باہر؟
بس سُوئی اڑی رہتی ہے اور گُھسن مُکی چلتی رہتی ہے پین برین انٹرنیشنل کی۔ چکی کی مشقت نہ ہو تو مشقِ سخن ویسے بھی پھیکی ٹیٹ ہو جائے۔
تھوڑی نیند کے بعد بھائی پھر بحال ہو جاتا ہے، باقی اللہ بچائے اس کیفیت میں اظہارِ خیال سے، کہیں مناظرے بازی سے، لایعنی بحثوں سے ۔۔۔ بندہ جب بھی لکھے، بات کرے، بولے، آئیڈیا اپنا ہو، کسی اُجڑے چمن کی خاک سے تیمم نہ ہو، ری ایکشن نہ ہو!
یہی دعا آپ سب کے لیے بھی ہے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)