دُور سے آئے ہوئے لوگ

محمد جمیل اختر

2015ء وہ سال تھا، جب رجب علی نے قصبہ چھوڑ کر پہاڑوں پر رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ قصبے کا سب سے ناکام شخص تھا۔ لوگ کہتے، وہ سونے کو ہاتھ لگائے تو مٹی اس کا مقدر بنتی تھی۔ بیوی، بچے اسے طعنے دیتے رہتے کہ اس نے ان کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور وہ 45 برس کا ایک معمولی سا سیلز مین ہے۔

اس کی بیوی نے گھر میں خواتین کے کپڑوں کی دکان بنا لی تھی اور وہ ہمیشہ یہی کہتی کہ سارا گھر تو اس کی آمدنی سے چلتا ہے، رجب علی تو جو کماتا ہے اس سے وہ اپنا سگریٹ چائے کا خرچ بھی نکال لے تو بڑی بات ہے، اب بھلا اتنی تھوڑی سی رقم سے گھر تھوڑی چلتا ہے۔ ’اگر میں اس کی بیوی نہ ہوتی تو یقیناً یہ اب تک بھوکا مرچکا ہوتا‘۔ وہ یہ باتیں نہ صرف رجب علی سے کہتی بلکہ پورے محلے کو یہ سب معلوم تھا اور دکان سے کپڑے خریدنے کی خاطر آنے والی ہر خاتون اس کے شوہر کی حالت پر افسوس کرتی۔

وہ جب صبح سویرے پرانی سی پینٹ شرٹ اور ٹائی لگائے گھر سے نکلتا تو دنیا جہاں کی تھکن اس کی چہرے پر چھائی ہوتی تھی۔ اس کے کندھے جھکے ہوتے، جیسے کوئی بھاری تھیلا اس نے اٹھا رکھا ہو۔ وہ اتنے سالوں سے مارکیٹنگ کے ایک جیسے جملے ادا کر رہا تھا کہ سوتے ہوئے اکثر وہ اونچی آواز میں بڑ بڑانے لگتا،

’بس ایک دفعہ آزمائیے، صرف چند روز میں آپ کے دانت چمکنے لگیں گے، ہر قسم کا درد ختم ہوجائے گا۔‘

’کپڑوں کا پرانے سے پرانا داغ۔۔ چائے، کافی، پان کا داغ ایک ہی دھلائی میں غائب۔‘

دفعتاً اس کی بیوی کی آنکھ کھل جاتی اور وہ تھپڑ مار کر اسے جگا دیتی۔

وہ جاگتا تو بیوی غصے سے کہتی ’دن میں نوکری کرکے کون سا خزانہ گھر لاتے ہو جو اب رات کو بھی سرف بیچنے لگ گئے ہو؟‘

اسے کچھ سمجھ نہ آتی، وہ بحث کیے بغیر چپ چاپ اٹھ کر باہر صحن میں جا کر سگریٹ سلگا لیتا۔

’ناکام شخص، ہمیشہ ٹوتھ پیسٹ بیچتے رہنا‘، اس کی بیوی کہتی۔

صحن میں بیٹھ کر سستا سا سگریٹ پیتے ہوئے وہ کھانستا رہتا اور سوچتا کہ کیا وہ اس سے بڑھ کر کبھی ترقی نہ کر پائے گا اور لوگ اس کی اہمیت کو پہچان نہیں سکیں گے؟

بچپن ہی سے لوگ اسے ایک ناکام انسان سمجھتے تھے۔

اسکول کا استاد کہتا، ’نالائق لڑکے تم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔‘

اس کے باپ کا خیال تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کے مقابلے میں بے حد کند ذہن ہے۔

’نالائق‘ ایک ایسا لفظ تھا، جس نے اسے گھیر رکھا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ جب وہ ایک معمولی سیلز مین کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تو اس نے سوچا کہ وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر نوکری حاصل کر چکا ہے، اور وہ اسی نوکری کے ساتھ چمٹا رہا اور گزشتہ کئی سالوں سے ٹوتھ پیسٹ اور سرف ہی بیچے جا رہا تھا۔

یہ 4 جون 2015ء کا ایک گرم دن تھا، ان دنوں اس کا بڑا بیٹا بی اے میں تھا۔ اس روز رجب علی کو تنخواہ ملی تھی، اس نے گھر لوٹ کر چپ چاپ اپنے سُرخ بیگ میں چار کپڑے، ایک ڈائری، دو پین رکھے اور گھر سے نکل کر پہاڑوں کی جانب سفر کرنے لگا۔ یہ بالکل ہی ایک ہنگامی فیصلہ تھا۔ تنخواہ کی رقم جیب میں آتے ہی اسے بیٹھے بیٹھے قصبہ چھوڑنے کا خیال آ گیا تھا۔ وہ اپنے منیجر کے پاس گیا اور اسے کہا کہ طبعیت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہ گھر جانا چاہتا ہے۔

اس نے سوچا تھا کہ اب وہ پہاڑوں پر زندگی گزارے گا، دنیا کے لیے وہ ایک ناکام شخص ہے، بیوی کے لیے ناکام شوہر، بچوں کے لیے ناکام باپ۔۔ سو اسے کوئی حق نہیں کہ وہ آبادی میں رہے۔ وہ اپنی ایک الگ دنیا بسائے گا، جہاں کوئی بھی اسے ناکام نہیں سمجھے گا۔

اس نے نہ کسی کو بتایا اور نہ کوئی خط لکھ کر نشانی کے طور پر چھوڑا۔

پہلی رات اسے بے پناہ تنہائی سے اس قدر ڈر محسوس ہوا کہ کئی بار اس کے جی میں آیا کہ اسے ضرور پہاڑ سے اتر کر اپنے گھر چلے جانا چاہیے۔

جھینگروں، کتوں اور گیدڑوں کی آوازوں نے اسے خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اسے یاد آیا کہ جب وہ قصبے کی کسی گلی میں کتا دیکھ لیتا تھا تو ڈر کر اپنا راستہ ضرور تبدیل کر لیتا تھا۔ اسے کتوں سے بہت ڈر لگتا اور شاید اس کی وجہ بچپن کا وہ واقعہ تھا، جب ایک دوپہر وہ اسکول سے لوٹ رہا تھا، تبھی بصیر قصاب کے گھر کے سامنے ایک کتے نے اسے کاٹ لیا تھا۔ اسے 14 ٹیکے لگے تھے اور پھر یہ رات اس کی زندگی میں آئی کہ کئی کتے پہاڑ پر یہاں سے وہاں دوڑ رہے تھے اور اپنی تھوتھنیاں آسمانوں کی جانب بلند کر کے ڈراؤنی آوازوں میں بھونک رہے تھے۔

رجب علی ایک بڑے سے پتھر کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ’یہاں سے دوڑ کر نیچے اتروں تو 2 گھنٹوں میں اپنے گھر پہنچ جاؤں گا، لیکن اگر میں گھر کے دروازے پر رات کے اس وقت پہنچا تو میری بیوی یقیناً مجھے بہت بُرا بھلا کہے گی اور وہاں بھی رات صحن ہی میں کاٹنی پڑے گی۔ وہ ضرور مجھ سے پوچھے گی کہ میں بغیر بتائے اتنی دیر کہاں رہا ہوں۔ ممکن ہے میرے بیٹوں نے سارے قصبے میں مجھے ڈھونڈا ہو اور میری ٹوتھ پیسٹ ایجنسی میں جاکر میرے بارے استفسار بھی کیا ہو۔ جب انہوں نے بتایا ہوگا کہ میں آج دوپہر کو تنخواہ لینے کے بعد چھٹی لے کر آ گیا تھا تو بچے پریشان ہو گئے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے وہ اب بھی جاگ کر میرا انتظار کر رہے ہوں، مجھے لوٹ جانا چاہیے۔‘

‘لیکن اس قدر اندھیرا ہے کہ راستے میں کتے میرا راستہ روک لیں گے، اب وہ عمر نہیں رہی کہ میں 14 ٹیکے لگواؤں‘، اس نے سوچا اور اپنے بیگ کے اوپر سر رکھ کر آسمان پر موجود ستاروں کو دیکھنے لگا۔ یہ رات کس قدر طویل تھی، اس نے زندگی میں اس سے طویل رات کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پریشانی کے باوجود اسے نیند آگئی تھی۔

جب اس کی آنکھ کھلی تو دُور شفق پر لالی پھوٹ رہی تھی۔

’سورج بس نکلنے ہی والا ہے، مجھے نیند بھی آ گئی تھی، ہاں سچ ہے نیند کہیں بھی آسکتی ہے‘ ، اس نے سوچا۔

اسے اب بھوک محسوس ہو رہی تھی، اس کی جیب میں پورے مہینے کی تنخواہ تھی تاہم کچھ بھی خریدنے کے لیے اسے پہاڑ سے اتر کر قصبے میں جانا پڑتا۔

’اب تک تو سارے قصبے میں میری گمشدگی کی اطلاع پھیل چکی ہوگی، یقیناً میرے بچوں نے تھانے میں جا کر رپورٹ بھی درج کروا دی ہوگی، پولیس میری تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہوگی۔ میں جیسے ہی بازار میں پہنچوں گا، لوگ مجھے حیرت سے دیکھیں گے۔۔ مگر مجھے ابھی نیچے نہیں اترنا چاہیے‘ ۔

اس نے اردگرد دیکھا، کئی بیری کے درخت نظر آئے جو سرخ بیروں سے لدے ہوئے تھے۔ بچپن میں وہ دوستوں کے ساتھ پہاڑ پر بیر چُننے کے لیے آیا کرتا تھا۔ وہ کس قدر شاندار دن تھے، مگر اس وقت بھی دوست اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

اس نے بیگ اسی پتھر کی اوٹ میں چھوڑا اور آرام سے چلتا ہوا ایک بیری کے درخت کے نیچے پہنچ گیا۔ اس نے چند بڑے پتھر اکھٹے کیے اور اوپر ایک شاخ پر مارنے شروع کر دیے۔ تھوڑی دیر میں اس نے کافی بیر جمع کر لیے تھے۔

وہ بیروں سے بھری جیبیں لیے واپس اپنے بیگ کے پاس آ گیا اور آرام سے بیر کھانے لگا۔

’مجھے رہائش کے لیے کوئی مضبوط جھونپڑی تعمیر کرنی ہوگی، اس طرح پتھر کی اوٹ میں کب تک بیٹھا رہوں گا۔ دوپہر تک تو سورج آگ برسانے لگے گا اور اگر کبھی بارش ہو گئی تو میں کہاں چھپوں گا؟‘

بیر کھاتے کھاتے اس کا گلا سوکھنے لگا اور اسے پیاس محسوس ہوئی۔

’مجھے پانی کی بوتل ضرور ساتھ لانی چاہیے تھی، میں نے کس قدر جلدبازی میں اپنا گھر چھوڑا ہے، اگر میں کوئی باقاعدہ منصوبہ بنا کر وہاں سے نکلتا تو ضرور بہت سی چیزیں ساتھ رکھتا‘ ، اسے اپنی جلدبازی پر بے حد غصہ آیا۔

وہ اٹھا اور پہاڑ پر پانی کی تلاش میں پھرنے لگا۔ کافی دیر کی محنت کے بعد اسے ایک گڑھے میں بارش کا جمع شدہ پانی نظر آیا۔ وہ ہاتھوں کی اوک بنا کر پانی پینے لگا۔ یہ اس قدر مٹی آلود تھا کہ اسے اپنی آنکھیں بند کر کے پانی پینا پڑا۔

’یہ پانی تو میرے گردے خراب کر دے گا، میں زیادہ دن یہاں پہاڑ پر نہیں رہ سکتا، تاہم میں اتنی جلدی لوٹ کر نہیں جاؤں گا۔ میری گمشدگی یقیناً انہیں پریشان کردے گی مگر اس طرح ہی وہ میری قدر پہچانیں گے‘ ، اس نے سوچا اور واپس اپنے بیگ کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔

کچھ فاصلے پر اسے ایک غار نظر آیا۔ پہلے تو وہ گھبرایا کہ کہیں اس میں کتے یا اور کوئی موذی جانور نہ ہوں، مگر پھر رات کھلے آسمان تلے بسر کرنے کے خوف کی وجہ سے وہ اٹھا اور اپنا بیگ لے کر اس غار تک پہنچ گیا۔ وہ ایک اچھا خاصا بڑا غار تھا۔ سورج اب سوا نیزے پر چمک رہا تھا جس کی روشنی سے غار کے اندر کا ماحول روشن تھا۔ اس نے درخت کی ایک بڑی سی ٹہنی کی مدد سے غار میں جھاڑو لگایا۔ وہاں پرندوں کے پروں کا ڈھیر لگا تھا۔ یقیناً کوئی جنگلی جانور اپنا شکار یہاں لا کر کھاتا تھا۔

’اگر وہ جانور رات کو یہاں آگیا تو؟‘ ، اس خیال نے اسے پریشان کر دیا۔

بہت سوچنے کے بعد اس نے اردگرد سے کئی جھاڑیاں اکھٹی کیں اور انہیں غار کے دھانے پر رکھ دیا۔ اس نے اپنے لیے ایک مضبوط ڈنڈا بھی ڈھونڈ لیا کہ اگر کوئی جانور غار میں داخل ہوا تو وہ اس ڈنڈے کی مدد سے اپنا دفاع کر سکے گا۔

اس ساری مصروفیت کے بعد جب اس نے آسمان کی جانب دیکھا تو سورج اب ڈوبنے والا تھا۔ رات آنے کے احساس نے ایک مرتبہ پھر اسے پریشان کر دیا تھا۔ وہ جلدی سے بیری کے درخت کے نیچے گیا اور اپنی جیبیں بیروں سے بھر کر واپس آ گیا۔

غار میں بیٹھ کر بیر کھاتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ اب تک اس کے بیوی بچوں کا پریشانی کے مارے بُرا حال ہوگا، وہ سوچ رہے ہوں گے کہ کسی نے مجھے اغوا کر لیا ہے۔ اچھا ہے کچھ عرصہ وہ بھی پریشان رہیں۔ اس نے تصور ہی تصور میں اپنی بیوی کو روتے ہوئے دیکھا۔

رات کو کئی بار اس کی آنکھ کھلی، اسے محسوس ہوتا کہ کوئی غار کے دھانے پر موجود جھاڑیوں کو کھینچ رہا ہے۔ وہ ڈنڈا مضبوطی سے تھام کر بیٹھ جاتا لیکن کوئی بھی اندر داخل نہ ہوتا۔

’شاید ہوا تھی‘ ، وہ خود کو یہ تسلی دیتے ہوئے پھر لیٹ جاتا۔ اسی جاگنے اٹھنے کے دوران ایک رات اور بیت گئی۔

صبح سویرے بیروں کا ناشتہ کرتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ لگاتار بیر کھانا کس قدر مشکل کام ہے، زبان کوئی ذائقہ محسوس نہیں کرتی اور انسان صرف زندہ رہنے کے لیے کھانا کھانے لگتا ہے۔ پھر اس نے جا کر مٹی سے بھرا ہوا پانی پیا۔ وہ جب غار میں واپس لوٹ رہا تھا تو اس کے پیٹ میں درد کی شدید لہر اٹھی۔

’آہ! آخر آلودہ پانی نے اپنا کام کر دکھایا۔ مجھے واپس لوٹنا ہوگا۔ اب تک میرے گھر والوں کو میری کمی کا احساس ہو چکا ہوگا۔ میں پولیس کو بتادوں گا کہ میں ایک دوست کے پاس شہر چلا گیا تھا اور اطلاع دینا بھول گیا۔ ہاں مجھے لوٹنا چاہیے، میرا مقصد پورا ہو چکا ہے۔‘

جب پیٹ کا درد قدرے کم ہوا تو وہ اپنا بیگ اٹھائے غار سے باہر نکل آیا۔ سورج اب کافی بلندی پر آچکا تھا۔ دو دن پہاڑوں پر رہنا کس قدر عجیب تجربہ تھا۔ اس نے اپنے خوف پر بھی بہت حد تک قابو پا لیا تھا۔ پہلی رات کی نسبت دوسری رات میں خوف کم تھا۔ اگر وہ کچھ دن مزید یہاں گزار لیتا تو اس کے سارے خوف ختم ہو جاتے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پہاڑ سے اترنے لگا۔

’آبادی شروع ہوتے ہی قصبے کے لوگ مجھے دیکھتے ہی حیران رہ جائیں گے۔ اب تک تو میری گمشدگی کی خبر پورے قصبے میں پھیل چکی ہوگی۔ پولیس نے بہت سے لوگوں سے پوچھ گُچھ بھی کی ہوگی۔ آپ نے آخری بار رجب علی کو کب دیکھا؟ وہ آپ سے کیا کہہ رہا تھا؟ کیا اسے اغوا ہوتے ہوئے کسی نے دیکھا تھا؟ کیا اس کی کسی سے دشمنی تھی؟ ایسے بہت سے سوالات لوگوں سے پوچھے گئے ہوں گے۔ معلوم نہیں لوگوں نے ایسے سوالات کے کیا کیا جواب دیے ہوں گے۔ منیجر بیچارہ بھی پھنس گیا ہوگا اور میری بیوی۔۔ آہ بیچاری کا رو رو کر بُرا حال ہو گیا ہوگا۔‘

انہی خیالوں میں گم وہ قصبے کے بازار میں پہنچ گیا۔ نانبائی شاکر کی دکان پر چند گاہک روٹی خریدنے کی خاطر موجود تھے۔ رجب علی نے فوراً اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔

’یہ آدمی تو ویسے بھی باتوں کا رسیا ہے، اس نے دیکھا تو ایک گھنٹہ یہیں نکل جائے گا اور میرے پیٹ میں پھر درد اٹھنے لگا ہے‘ ، وہ سر جھکائے تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا۔ وہ ہر ممکنہ بحث سے بچنا چاہتا تھا۔

وہ جب اپنے گھر کے دروازے کے سامنے پہنچا تو رُک گیا۔

’کیا مجھے دستک دے کر اندر جانا چاہیے؟‘

’مجھے ایسے ہی اندر چلے جانا چاہیے، وہ لوگ مجھے دیکھ کر حیرت زدہ رہ جائیں گے۔‘

’مگر میں اپنی گمشدگی کے متعلق کیا کہوں گا؟‘

’ہاں، دوست کے پاس چلا گیا تھا۔۔ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، سب یاد ہے۔‘

وہ دروازے پر کھڑا ان سوالوں پر غور کر رہا تھا۔

اس نے بہت آہستگی کے ساتھ دروازہ کھولا اور اندر قدم رکھا۔ اس کی بیوی صحن میں آگ جلائے کھانا بنا رہی تھی، اس کا سب سے چھوٹا بیٹا تین ٹائروں والی سائیکل چلا رہا تھا۔ بیوی نے اس کی جانب دیکھا، دونوں کی نظریں ملیں۔ وہ کوئی بات کیے بغیر چولہے میں آگ جلانے کے لیے پھونکیں مارنے لگی۔

وہ تاریک کمرے میں بیٹھا رہا، یہاں تک کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ پھر اس نے اپنا بوسیدہ یونیفارم پہنا اور گھر کی چوکھٹ پار کر کے دوڑتے ہوئے اپنی مارکیٹنگ ایجنسی کے دفتر کی جانب جانے لگا، اتنی جلدی میں وہ ٹائی لگانا بھول گیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close