یوں تو پاکستان میں یہ خبر شاید اتنی اہمیت کی حامل نہیں کہ شمالی کوریا میں بیس یا تیس افراد کو پھانسی دی گئی ہے، لیکن یہاں ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ خبر بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے
خبر آئی ہے کہ شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن نے مبینہ طور پر اس موسم گرما میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے ہونے والے نقصان کے ذمہ دار کم از کم تیس سرکاری اہلکاروں کو پھانسی دینے کا حکم دیا
واضح رہے کہ شمالی کوریا میں رواں سال جولائی میں تباہ کن سیلاب سے ہزاروں گھر تباہ ہونے کے علاوہ ساڑھے تین ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ ہو گئے تھے۔
جنوبی کوریا کا دعویٰ ہے کہ شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن نے اس تباہی پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔
جنوبی کوریا کے چینل ’چوسن ٹی وی‘ نے منگل کو رپورٹ کیا کہ پچھلے مہینے بیس سے تیس افراد، جن میں صوبائی گورنرز بھی شامل تھے، کو سیلاب سے تحفظ کے لیے مناسب حفاظتی انتظامات میں ناکامی پر سزائے موت سنائی گئی۔
رپورٹ میں ایک حکومتی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا، ”یہ طے پایا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقے میں 20 سے 30 عہدے داروں کو پچھلے مہینے کے آخر میں ایک ہی وقت میں پھانسی دی گئی،“ اور مزید یہ کہ ”چگانگ صوبے کے برطرف پارٹی سیکرٹری کانگ بونگ ہون کے حوالے سے حالات کی تصدیق کی جا رہی ہے۔“
یہ بھی بتایا گیا کہ کئی اہلکاروں پر بدعنوانی اور فرائض میں غفلت کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ ایک سابق شمالی کوریائی سفارتکار کے حوالے سے کہا گیا، ”اگرچہ حالیہ سیلاب کا نقصان تھا، لیکن انہیں سماجی تحفظ کی وجوہات کی بنا پر برطرف کر دیا گیا، اور افسران خود اس قدر بے چین ہیں کہ انہیں نہیں معلوم کہ کب ان کی گردنیں کٹ جائیں گی۔“
ادھر شمالی کوریا کی سنٹرل نیوز ایجنسی (کے سی این اے) نے رپورٹ کیا کہ کم جونگ ان نے جولائی میں چین کے سرحدی علاقے چگانگ صوبے میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد حکام کو ’سختی سے سزا دینے‘ کا حکم دیا۔
تاہم، شمالی کوریا کی انتہائی رازداری کے باعث تفصیلات کا معلوم کرنا اور ان کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے جولائی میں رپورٹ کیا تھا کہ شمال مغربی شمالی کوریا میں حالیہ شدید بارشوں سے ہزاروں مکانات اور وسیع زرعی رقبے زیر آب آگئے اور کئی رہائشی بے گھر ہو کر عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں۔
سیلاب میں تقریباً ساڑھے تین ہزار سے چار ہزار افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی گئی۔ شمالی کوریا میں شدید گرمیوں کی بارشوں کی وجہ سے سیلاب کا خطرہ رہتا ہے۔
دوسری طرف جب ہم پاکستان کو دیکھتے ہیں تو یہاں سیلاب جیسی آفات جو تباہی مچاتی ہیں، اُس سے ایک بات تو واضح ہو چکی ہے کہ ناگہانی آفات ہر سال ہمارا مقدر بن چکی ہیں۔ چاہے وہ بارشوں کی صورت میں ہوں، سمندری طغیانی کی وجہ سے ہوں، سیلابوں کی صورت میں ہوں، آندھی و طوفان کی صورت میں ہوں، موسموں میں تبدیلی اور شدت کی وجہ سے ہوں یا مختلف قسم کی وباؤں کی وجہ سے ہوں، اس خطے میں بسنے والے انسان اس سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
دراصل یہ قدرتی آفات اور ان کے نتیجے میں ہزاروں قیمتی جانوں کے نقصان میں دراصل حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی کا بہت بڑا کردار ہے۔
پاکستان جیسے ممالک، جہاں قدرتی آفات کا آنا اور انسانی جانوں کا ان کی نذر ہو جانا حکمران طبقے کے لیے دولت کی فراوانی کے رستے کھولتا ہے، وہاں حکمرانوں کا ان کی روک تھام کے لیے اقدامات اور انتظامات محض ایک خواب ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے حکمران قدرتی آفات کو حتی الامکان روکنے کے لیے نا اہل ہیں، بلکہ اس کے پیچھے اصل محرک اس طبقے کی دولت کی ہوس، بے حسی اور بدنیتی ہے۔
حکمران یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ دراصل سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی بڑی وجہ ناقص انتظامات ہیں۔ اور وہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ موسموں کی تبدیلی ہی اس بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ ہے۔ لیکن یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ قدرتی آفات میں روز افزوں اضافہ، فطری نظام سے ہمارے کھلواڑ کا نتیجہ ہے، لیکن اس کے باوجود حکومتی سطح پر ماحولی تباہی کو روکنے کے بجائے ایسے منصوبوں کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری کی جاتی ہے، جو ہمارے فطری نظام کو تباہ کر رہے ہیں
انسانوں نے اس ضمن میں زمین کو نقصان پہنچایا، جنگلات کو نقصان پہنچایا، سمندر اور اس میں رہنے والی آبی حیات کو نقصان پہنچایا۔ اس تمام صورتحال کا ذمے دار ایک ملک، ایک خطہ یا ایک براعظم نہیں بلکہ اس صورتحال کے ذمے دار اس دھرتی پر بسنے والے تمام انسان ہیں۔
ایک طرف ہمارا ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر دس بڑے ممالک میں شامل ہے تو دوسری طرف اس ضمن میں ہمارے اربابِ اختیار کا رویہ ان کی بے حسی کی چغلی کھا رہا ہے، جو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اس طرح تیاری نہیں کر رہے جس طرح باقی دنیا سنجیدگی کے ساتھ کر رہی ہے۔
2010 اور 2022 کے درمیان پاکستان میں تقریباً ہر سال بڑا سیلاب آ رہا ہے، جس سے بے شمار جانیں ضائع ہوئیں۔ بین الاقوامی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) نے تعداد اور شرح میں زیادہ شدت کے حامل موسمیاتی واقعات کے وقوع پذیر ہونے کا اندازہ لگایا۔ موسم گرما میں پاکستان کے کئی علاقوں میں گرمی کی مہلک لہر اور مون سون کی غیرمعمولی بارشیں ہوئیں جو سیلاب کا سبب بنا۔ گلوبل وارمنگ کے پیش نظر بارش یا برفباری سے قدرتی آفات جیسا کہ سیلاب کا خطرہ 2.7 فیصد زیادہ ہے جب کہ موسم سے نکلنے والی آفات کے مقابلے میں ہیٹ ویو کا 5.6 فیصد زیادہ خطرہ ہے۔ آئی پی سی کے تخمینوں کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نتیجہ میں اس کی وجہ سے جلد ہی آفات کا خطرہ دوگنا ہے جبکہ اس سے زیادہ نقصانات اور نقصانات کا تصور غیر متوقع طور پر بڑھ سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں حکومتی اقدامات ناپید ہیں۔
علی توقیر شیخ، جو موسمیاتی تبدیلی، ترقی اور موسمیاتی رسک مینجمنٹ پر پاکستان کے ممتاز ماہرین میں سے ایک ہیں، ’تھرڈ پول‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں ”خشک سالی، گرمی کی لہروں اور گلیشیئرز کے پگھلنے کو سیلاب کے مقابلے میں واضح طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے، لیکن سیلاب کو صرف موسمیاتی تبدیلیوں سے منسوب کرنا بہت مشکل اور پیچیدہ ہے۔
انہوں نے کہا ”ہم صرف موسمیاتی تبدیلیوں کو سیلاب سے ہونے والی تباہی میں اضافے کی بنیادی وجہ قرار نہیں دے سکتے۔ اگرچہ سیلابوں میں اضافہ موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ بہت مضبوطی سے جڑا ہوا ہے، اور موسمیاتی تبدیلی
ایک خطرہ ہے جو ہمارے لیے مسلسل بڑھ رہا ہے، لیکن سیلاب کے دوران ہونے والے زیادہ تر نقصانات دراصل ناقص حکومتی اقدامات اور کمزور معیشت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ہم موسمیاتی تبدیلی کو اپنی منصوبہ بندی میں شامل نہیں کر رہے ہیں۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے ہمارا ملک اس تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی زد میں رہے گا۔“
وہ کہتے ہیں ”سیلاب کے نقصان کی کچھ وجہ موسمیاتی تبدیلی اور کچھ وجہ کمزور انفراسٹرکچر اور غربت ہے اور کچھ
وجوہات ان دونوں کا مجموعہ ہیں۔ جب ہم کسی چیز کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں یا ہم کسی خاص علاقے پر کام نہیں کرنا چاہتے تو ہم اسے صرف موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔“
علی توقیر شیخ نے کراچی کی مثال دیتے ہوئے کہا ”کراچی کی ساحلی پٹی پہ تعمیری سرگرمی ماحولیاتی نظام اور لوگوں کے ذریعہ معاش پر بری طرح اثرانداز ہو رہی ہے۔ کراچی کا انفراسٹرکچر ناکافی ہے۔ اگر کسی بھی ترقی یافتہ شہر میں اتنی بارش ہو تو کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوگا کیونکہ ان کا بنیادی انفراسٹرکچر بڑا ہے اور کام کر رہا ہے۔ جبکہ ہم اب بھی نکاسی آب کے لیے برطانوی دور کی پائپ لائنوں پر انحصار کر رہے ہیں جو کہ 1947 سے پہلے، کراچی کی 46,000 آبادی کے لیے
بچھائی گئی تھیں۔ جبکہ اب آبادی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے، جبکہ سرکاری مردم شماری اس سے کم تعداد ظاہر
کرتی ہے۔“
علی توقیر شیخ کہتے ہیں ”ہم نے ابھی تک موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت میں اضافہ نہیں کیا ہے، اور اس کے نتیجے میں سیلاب اور دیگر آفات کی زد میں آنے سے بچنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ایک آب و ہوا کے خطرے سےجلد دوچار ہونے والا ملک ہیں، اور ہمیں اس بڑی سطح کے نقصان سے بچنے کے لیے موافقت کی حکمت عملیوں کی اشد ضرورت ہے۔“
امر گل