حسنِ کامل

جوآن ہیرس (ترجمہ: رومانیہ نور)

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آدمی تھا، جس نے محبت کی شادی کی مگر فرصت کے اوقات میں وہ پچھتاتا رہتا تھا۔ وہ پیشےکے لحاظ سے ایک کھلونا ساز تھا، اور بے عیب کام کے لیے اس کا جنون پوری دنیا میں مشہور تھا۔ کہا جاتا تھا کہ اس نے ایک میکانکی پرندہ بنایا تھا جو لارک کی طرح سریلا گاتا تھا، اور ایسی مہارت اور باریک بینی سے سپاہیوں کے دستے بنائے جو ہاتھوں میں تلواریں لیے تیار کھڑے تھے۔ اس کی گُڑیاں یوں لگ رہی تھیں، جیسے وہ سانس لے رہی ہوں۔ اس کے انجن اپنی چمنیوں سے اصلی دھواں نکالتے تھے، اور مشینی ایندھن جھونکنے والے ننھے مشینی بیلچوں کے ساتھ ان میں چھوٹے چھوٹے کوئلے جھونکتے تھے۔ اس کی گڑیا کے گھر، فنِ صغیر (miniature) کا کمال نمونہ تھے۔ سونے کے کمرے کی دیواروں پر چھوٹے چھوٹے ملمع شدہ آئینے لگے تھے، جن میں چھوٹے چار چوبہ پلنگ منعکس ہوتے تھے اور ننھے بچے بیبی گڑیاؤں کے ساتھ کھیل رہے تھے جو چاول کے دانے سے بڑی نہیں تھیں۔ کھلونا ساز کی دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی جزئیات تک سب کچھ کامل تھا – مگر بہر حال –
سب کچھ کامل تھا سوائے ایک چیز کے۔۔ اور وہ تھی اس کی بیوی۔

بلاشبہ، وہ کبھی محبت میں مبتلا تھے، لیکن اب کچھ سالوں بعد، کاریگر کو یہ نظر آنے لگا کہ اس کی بیوی اس کے قابل نہیں ہے۔ وہ خوبصورت نہیں تھی۔ اس کی قوتِ فیصلہ کمزور تھی۔ وہ گرہستی میں بد سلیقہ تھی۔۔ مگر وہ یقینی طور پر اپنے شوہر سے محبت کرتی تھی، اور وہ بھی اس سے محبت کرتا تھا – مگر اپنے انداز سے – لیکن کیا یہ کافی ہے، اس نے خود سے پوچھا؟ کیا وہ اس سے کہیں زیادہ کا مستحق نہیں تھا؟

ایک دن کھلونا ساز نے دیکھا کہ اس کی بیوی کے بال سفید ہو رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر اسے ناگوار گزرا۔ چناچہ اس نے اس کے بالوں کا ایک نیا سر بنایا، چمکتی ہوئی سونے کی تاروں سے کاتا ہوا، اور اسے اس کی کھوپڑی پر ٹانکا، جیسا کہ وہ گڑیا بناتے وقت اکثر کرتا تھا۔ بیوی نے کچھ نہیں کہا، لیکن اس نے اپنے ڈریسنگ روم میں جا کر آئینے میں خود کو دیکھا، اپنے بالوں کی چمکیلی، سخت تاروں کو چھوا اور اس وقت کو یاد کیا جب وہ سوچا کرتی تھی کہ وہ ہر لحاظ سے مکمل ہے۔

کچھ عرصے کے لیے کھلونا ساز خوش ہو گیا، لیکن پھر اس نے محسوس کرنا شروع کیا کہ اس کی بیوی اکثر بعجلت یا بے تکا بولتی ہے، یا ایسی باتیں کرتی ہے جو اسے غیر ضروری لگتی ہیں، حتیّٰ کہ احمقانہ بھی۔۔ اور اس طرح جب وہ سو رہی تھی، اس نے اس کی زبان کاٹ دی اور اس کی جگہ ایک مشینی زبان لگا دی، جو سلور فش کی طرح چکنی، گھڑی کی طرح رواں تھی۔ اس کے بعد، کھلونا ساز کی بیوی اپنی تقریر میں ہمیشہ اس کے مزاج کے عین مطابق رہتی تھی، اس نے کبھی بھی کوئی احمقانہ، گھٹیا بات کی نہ ہی اپنی گفتگو سے اسے بیزار کیا۔

اس کے بعد کچھ دیر تک سب کچھ ٹھیک رہا، یہاں تک کہ کھلونا ساز نے دیکھا کہ اس کی بیوی اکثر اسے ملامتی نظروں سے دیکھتی ہے، اور بعض اوقات بغیر کسی وجہ کے رو پڑتی ہے۔ اس بات نے اسے اس پر غور کرنے کے لئے بے چین کر دیا، اور یوں اس نے اپنی بیوی کے لیے بلوریں آنکھوں کا ایک نیا جوڑا بنا دیا، جو چمکدار اور منظورِ نظر تھیں اور کبھی بھی آنسو نہیں بہاتی تھیں اور ان میں سوائے اطمینان کے اظہار کے، اور کوئی تاثر نہیں تھا۔ اسے اپنے ہنر پر بہت فخر تھا، سو اب کچھ عرصے کے لیے وہ مطمئن تھا۔

لیکن جلد ہی وہ اپنی بیوی کے ہاتھوں کی طرف متوجہ ہوا۔ ہاتھ جو اکثر بھدے اور سست رفتار ہو جاتے، اِس لیے اس نے اپنی بیوی کے لیے میکانکی ہاتھ بنائے، اور انہیں ان کی جگہ پر لگا دیا۔ اس کی بیوی کے نئے ہاتھ دودھ کی طرح سفید اور کسی بھی خودکار مشین کی طرح پھرتیلے تھے، اور اسی طرح اس نے پاؤں کا ایک جوڑا بنایا، اور پھر کامل پستانوں کا جوڑا۔۔ اس طرح آہستہ آہستہ، وقت گزرنے کے ساتھ، اس نے چینی مٹی اور اپنی مہارت سے اپنی بیوی کی ہر کمی اور خرابی کو بدل دیا۔

”آخر کار، یہ کامل ہے“ اس نے اپنی خوبصورت بیوی کو دیکھتے ہوئے خود سے کہا۔ لیکن پھر بھی، کچھ کمی تھی۔ ابھی بھی، وہ بالکل ویسی نہیں تھی جیسا کہ اس کو امید تھی۔۔ اور اس طرح کھلونا ساز نے یہ دیکھنے کے لیے اسے کھولا کہ اس کے اندرونی افعال کا کون سا حصہ اس نے ٹیون یا درست کرنے میں نظرانداز کیا ہے۔ اس نے سب کچھ اپنی جگہ پر پایا – سوائے ایک چیز کے، جسے اس نے نظر انداز کیا تھا۔ ایک چھوٹی سی، معمولی چیز، اپنی مہارت اور کاری گری کی پیچیدگیوں میں وہ اتنی گہرائی تک مگن ہو گیا تھا کہ اُس نے اِس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا ۔ یہ اُس کا دل تھا – یہ ٹوٹ گیا تھا۔

”میں حیران ہوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟“ اس نے اپنے مہارت سازی کے اوزاروں تک پہنچتے ہوئے، اپنی بیوی کے ٹوٹے ہوئے دل کی جگہ نیا دل بنانے کا مکمل طور پر ارادہ کرتے ہوئے کہا۔

لیکن پھر اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا، وہ کام کرنے کے بینچ پر اتنی ساکت، حسین اور پیلی ہوئی پڑی تھی، ہر طرح سے پر سکون اور پیاری؛ ہر انگ جگمگاتا اور جھلملاتا ہوا.

’’کیوں بھلا ، تمہیں دل کی بالکل ضرورت نہیں ہے؟ کیا تمہیں ضرورت ہے میری جان؟‘‘ وہ اس سے مخاطب ہوا.

اور یوں اس نے ٹوٹے ہوئے دل کو اٹھا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔۔ اور پھر وہ اپنی بیوی کی طرف پلٹا اور اس کے خوبصورت سلور فش دہن کو چوما، اس کی چمکتی ہوئی بلوریں آنکھوں میں دیکھا اور کہا:
”بالآخر۔ تم کامل ہو۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close