ارب پتی افراد کہاں پیسہ خرچ کریں؟

ول گور

اگر آپ کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہو تو آپ کیا کریں گے؟ شاید مکان خریدیں یا تفریح کے لیے چھٹی پر جائیں؟ ہو سکتا ہے کہ آپ مقامی سپا کی رکنیت حاصل کریں۔

مکمل انکشاف، اگر میں لاٹری جیتتا ہوں (اس کا امکان نہیں کیونکہ میں شاذ و نادر ہی ٹکٹ خریدتا ہوں) تو میں یوٹیلیٹی روم والا مکان خریدوں گا۔ درمیانی قیمت کی کوپے کار خریدوں گا اور ان نظموں کو چھپواؤں گا جنہیں کوئی اور نہیں چھاپنا چاہتا۔

لیکن کیا ہوتا اگر آپ کے پاس ناقابل تصور رقم ہوتی؟ ہم سب خواب دیکھ سکتے ہیں کہ اگر یہ رقم ہمارے پاس آ جائے تو ہم 10 لاکھ کیسے خرچ کریں گے لیکن اگر ارب پتی ہوتے تو کیا ہوتا؟ یہ دنیا آپ کے لیے سیپی اور کائنات کھیل کا میدان ہو سکتی ہے۔

جیرڈ آئزک مین جو اس ہفتے خلا میں چہل قدمی کرنے والے پہلے غیر پیشہ ور خلاباز بن گئے ہیں، یقینی طور پر قابل ذکر اور بہت امیر شخص ہیں۔

ان کی اپنی کمائی ہوئی دولت کا تخمینہ 1.9 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ وہ فوجی طیارے خرید کر اور ایلون مسک کو خلائی جہاز کے استعمال کے لیے ادائیگی کرکے ان میں سے کچھ رقم کو اچھے انداز میں استعمال کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ سستی پروازوں کے دن ختم ہو چکے لیکن ایسا لگتا ہے کہ آئزک مین ایک اندازے کے مطابق 20 کروڑ ڈالر خرچ کر کے مدار میں جانے کو کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے حالانکہ اس رقم میں کم از کم چار ٹکٹیں خریدی جا سکتی ہیں۔

اور آخر کس مقصد کے لیے؟ انہوں نے ایک نئی قسم کے خلائی لباس کا تجربہ کیا۔ ان کے مشن میں ایئر لاک کے استعمال نہیں کیا گیا جو ماضی میں خلا میں کی جانے والے چہل قدمی میں معمول تھا۔

لہذا کچھ مفید تکنیکی ترقی ہوئی ہے، اگر آپ سوچتے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل ایک دن زمین سے فرار ہونے کی ہماری صلاحیت پر منحصر ہے۔

اپنے خلائی کیپسول سے باہر نکل کر آئزک مین نے نیلے سیارے (زمین) کی طرف دیکھا اور اہمیت جتاتے ہوئے اعلان کیا: ’گھر واپس جا کر ہم سب کو بہت کام کرنا ہے لیکن یہاں سے زمین یقینی طور پر مکمل دنیا کی طرح نظر آتی ہے۔‘

ٹھیک ہے۔ دوست میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اگر یہاں کرنے کے لیے بہت کچھ ہے تو کیوں نہ 20 کروڑ ڈالر برساتی جنگلات کو بچانے یا دنیا میں سب سے زیادہ محرومیوں کے شکار شہروں میں صفائی ستھرائی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر خرچ کیے جائیں؟

آئزک مین کے دوست مسک ایک اور شخص ہیں جو اپنے اربوں ڈالر کسی بھلائی کے لیے استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس کی بجائے وہ دنیا کی آن لائن گفتگو کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں زیادہ رقم دے کر ٹوئٹر خریدنے پر پیسہ پھینک دیتے ہیں۔

برائن جانسن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت امیر کاروباری شخصیت ہیں جو جوان رہنے کے طریقے تلاش کرنے کی کوشش میں بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اس عمل میں ان کے بیٹے، جنہیں ان کا ’بلڈ بوائے بھی کہا جاتا ہے‘ سے ہر ماہ پلازمہ لینا بھی شامل ہے تاکہ جوان رہ سکیں۔

تاہم، زیادہ تر لوگ کرس ہیمس ورتھ جیسی مشہور شخصیت کی شکل کے ساتھ غیر معمولی طویل زندگی گزارنے کی کوشش کرنے کے بجائے روزمرہ صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اچھی صحت کی دیکھ بھال پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

ایسا ہی معاملہ آئزک مین کے ساتھ بھی ہے۔ ان کا منصوبہ ذاتی نوعیت کا ہے جسے عالمی سطح کی تحقیق کے لبادے میں چھپایا گیا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے روزمرہ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے محض علاج معالجے کی مناسب سہولتوں تک رسائی چاہتے ہیں۔ وہ اچھی صحت کے مالک آسٹریلوی اداکار کے جسم کے ساتھ 110 سال زندہ نہیں رہنا چاہتے۔

شاید ان تمام انتہائی امیر لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف انتہائی چھوٹے یا انتہائی بڑے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ ایک طرف ان کی روز مرہ کی شاندار زندگی میں خوبصورت گھر، نجی جیٹ طیارے، بہت بڑی بڑی کشتیاں ہیں اور چھوٹی سی چھوٹی خواہش پر پر توجہ دی جاتی ہے۔ دوسری طرف دنیا کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ہے، خواہ وہ خلا سے ہو یا پھر نفعے نقصان کے چارٹس میں موجود اعدادوشمار کے ذریعے ہو۔

روزمرہ کے مسائل جن کا زیادہ تر لوگوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے ہسپتالوں میں طویل انتظار، آٹے جیسی چیزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، یا عوامی نقل و حمل کے مسائل، شاید ایک ارب پتی شخص کے لیے اہم نہیں۔ اس لیے کوئی ارب پتی ان کی طرف محض دیکھے گا بھی کیوں؟

اس سب کا جواب یہ ہے کہ بہت سے انتہائی دولت مند موجود ہیں جو اپنا بہت سا پیسہ اچھے کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ لیکن یہ معمول ہونا چاہیے نہ کہ کسی انعام یا تعریف کے لالچ میں۔

جب جیرڈ آئزک مین اور ان کا عملہ اتوار کو فلوریڈا کے ساحل پر زمین پر اترا تو ان لوگوں کے دماغ میں ہو گا کہ ان کا کام بخیروخوبی ختم ہوا۔ ان کے کانوں میں ناسا کی جانب سے کی جانے والی تعریف کی آواز آ رہی ہو گی لیکن جب کوئی اور ارب پتی سوچے گا کہ اضافی لاکھوں ملین ڈالروں کا کیا کیا جائے تو ہمیں چاہیے کہ انہیں زیادہ مفید کاموں کے بارے میں بتائیں جن پر یہ دولت خرچ کی جا سکتی ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بشکریہ: انڈیپینڈنٹ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close