دس عجیب اور خوفناک سائنسی حقائق۔۔!

ترجمہ: امر گل

سائنس کو عموماً ٹھوس اور سخت حقائق کی دنیا سمجھا جاتا ہے، ایسی جگہ جہاں منطق کا راج ہو اور توہمات کا خاتمہ ہو۔۔ لیکن بعض اوقات حقائق خود ایسی چیزوں سے بھی زیادہ عجیب ہوتے ہیں، جنہیں ہمارے توہمات ایجاد کر سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ حقیقتیں واقعی پریشان کن ہوتی ہیں، جو ہمارے عام خیالات کی تہہ میں خاموشی سے چھپی ہوتی ہیں۔

تو اگر آپ اپنی حقیقت کے احساس کو تھوڑا جھنجھوڑنا چاہتے ہیں، تو آئیے ان دس عجیب اور خوفناک سائنسی حقائق کے بارے میں جانتے ہیں۔

اور ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں، ایک بار آپ نے ان کے بارے میں جان لیا، تو آپ انہیں بھول نہیں سکیں گے۔

تو آئیے شروع کرتے ہیں:

1. آپ کے جسم پر نظر نہ آنے والے چھوٹے کیڑے ہوتے ہیں، جو آپ کے چہرے پر افزائش کرتے ہیں!

سوچیے کہ آپ کا چہرہ چھوٹے ڈیماڈیکس مائٹس (Demodex mites) کے لیے ایک بڑے شہر کی طرح ہے۔ یہ چھوٹے جاندار آپ کے چہرے کے مساموں میں رہتے ہیں۔

یہ مائٹس اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ آپ انہیں محسوس نہیں کر سکتے، لیکن آپ کے ناک، بھنوؤں اور پلکوں کے ارد گرد کی چکنی جگہوں میں سینکڑوں کی تعداد میں ہو سکتے ہیں۔

دن کے وقت یہ آپ کے بالوں کے گہرے مساموں میں داخل ہو جاتے ہیں، اور آپ کی جلد کی پیدا کردہ سیبم پر زندہ رہتے ہیں۔ لیکن رات کو، جب آپ سکون سے سو رہے ہوتے ہیں، یہ چہرے کی سطح پر آ کر افزائش کرتے ہیں۔

ان کی زندگی کا یہی معمول ہے — افزائش کرنا، انڈے دینا، اور مرنا۔ آپ انہیں کبھی محسوس نہیں کر پاتے، لیکن وہ وہاں ہوتے ہیں، آپ کی جلد پر اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

ان مائٹس کی کچھ منفرد خصوصیات ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ان کے جسم میں فضلہ خارج کرنے کا نظام نہیں ہوتا۔ اپنی دو ہفتے کی زندگی کے دوران، یہ تمام فضلہ اپنے جسم کے اندر محفوظ رکھتے ہیں۔

جب یہ مر جاتے ہیں، تو یہ فضلہ آپ کے مساموں میں خارج ہو جاتا ہے۔ اس خیال سے کہ یہ تمام مائٹس آپ کی جلد پر مر کر گل سڑ رہے ہیں اور اپنا فضلہ آپ کے چہرے میں چھوڑ رہے ہیں، شاید آپ اپنی جلد کو زور سے رگڑنے پر مجبور ہو جائیں، لیکن کوئی فائدہ نہیں — یہ اتنے چھوٹے ہیں کہ کوئی دھلائی انہیں مکمل طور پر نہیں نکال سکتی۔

دلچسپ بات: آپ اکیلے نہیں ہیں۔ تقریباً ہر بالغ انسان کے جسم پر یہ مائٹس ہوتے ہیں، لیکن یہ زیادہ تر بوڑھے افراد میں پائے جاتے ہیں۔ دلچسپ طور پر، بچوں کی جلد پر بہت کم یا کوئی مائٹس نہیں ہوتے، شاید اس لیے کہ ان کی جلد اتنی تیل والی یا چکنی نہیں ہوتی کہ ان کی خوراک بن سکے۔

2. دنیا کا سب سے زیادہ زہریلا مادہ آپ کے کھانے میں ہو سکتا ہے!

بوٹولینم ٹاکسن (Botulinum toxin) شاید دنیا کا سب سے مہلک مادہ ہے۔ یہ ایک نیوروٹاکسن ہے جو بیکٹیریا کلوسٹریڈیم بوٹولینم (Clostridium botulinum) کے ذریعے پیدا ہوتا ہے، اور یہ جان کر آپ خوفزدہ ہو جائیں گے کہ ایک شخص کو مارنے کے لیے اس کا صرف 2 نینو گرام فی کلوگرام وزن ہی کافی ہے۔

یہی نہیں۔۔ اس زہر کا ایک گرام سے زیادہ ایک ملین سے زیادہ لوگوں کو مارنے کے لیے کافی ہو سکتا ہے!

لیکن اس کے باوجود، آپ اس کے قریب ہو سکتے ہیں۔ یہ غیر محفوظ شدہ یا غلط طریقے سے ڈبہ بند کھانوں میں پیدا ہو سکتا ہے، اور اگر آپ اسے کھا لیں تو یہ بوٹولزم کا سبب بن سکتا ہے — ایک ایسی حالت جو آپ کے پٹھوں کو مفلوج کر دیتی ہے، آپ کے چہرے سے شروع ہو کر آپ کے نظامِ تنفس تک پہنچ جاتی ہے۔

لیکن یہاں ایک موڑ ہے: اس زہر کو صاف شدہ شکل میں بوٹاکس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

دلچسپ بات: بوٹولینم ٹاکسن کو ایک ممکنہ حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر بھی درجہ بند کیا گیا ہے، کیونکہ اس کی انتہائی طاقتور خصوصیات ہیں اور خوراک میں اس کا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔

3. آپ کو سردی سے الرجی ہو سکتی ہے

زیادہ تر لوگ سردیوں کو ناپسند کرتے ہیں کیونکہ انہیں سردی لگتی ہے، لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ صرف اچھی نہ لگنے سے زیادہ ہوتی ہے۔

سرد چھپاکی (Cold urticaria) ایک نایاب حالت ہے جس میں سرد درجہ حرارت سے ایک شدید الرجی پیدا ہو سکتی ہے۔ جلد پر دھپڑ بن جاتے ہیں، خارش اور سوجن ہوتی ہے، اور شدید صورتوں میں انسان انفیلیٹک شاک میں بھی جا سکتا ہے۔

تصور کریں کہ آپ ایک سرد دن میں باہر نکلتے ہیں، اور اچانک آپ کی سانسیں رکنے لگتی ہیں، چہرہ اور ہاتھ سوجنے لگتے ہیں، دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔

یہ صرف سردی کا احساس نہیں ہوتا؛ یہ آپ کے مدافعتی نظام کی بگڑتی ہوئی حالت ہوتی ہے، جو محض چند ڈگری درجہ حرارت کے کم ہونے کی وجہ سے آپ کے جسم پر حملہ آور ہوتی ہے۔

اس حالت کو اور بھی عجیب بنانے والی بات یہ ہے کہ یہ صرف موسم کی سردی سے ہی نہیں بلکہ کسی بھی ٹھنڈی چیز سے متحرک ہو سکتی ہے۔ ٹھنڈا پانی، سرد مشروبات، حتیٰ کہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی اس کا باعث بن سکتا ہے۔

جن لوگوں کو شدید سرد (Cold urticaria) چھپاکی ہوتی ہے، انہیں انتہائی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ وہ سرد پانی میں تیر نہیں سکتے، برف کو چھو نہیں سکتے، یا بغیر احتیاط کے سردیوں میں باہر نہیں جا سکتے۔

اور اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ علاج میں اینٹی ہسٹامینز کا استعمال اور سرد درجہ حرارت سے بچنا شامل ہے، لیکن اگر آپ کسی ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں حقیقی سردیاں ہوتی ہیں تو یہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔

دلچسپ بات: سرد چھپاکی (Cold urticaria) کی صحیح وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ یہ روایتی الرجی نہیں ہے، کیونکہ یہ مونگ پھلی کی الرجی جیسی مدافعتی ردعمل شامل نہیں کرتی۔ اس کے بجائے، یہ لگتا ہے کہ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ کی جلد کے خلیے سردی پر کیسے ردعمل دیتے ہیں، لیکن یہ کیوں ہوتا ہے، یہ اب تک ایک معمہ ہے۔

4. کائنات کو وجود نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر ہم یہاں ہیں!

طبیعیات ہمیں بتاتی ہے کہ بگ بینگ کے لمحے میں مادہ matter اور ضد مادہ antimatter کی , برابر مقدار پیدا ہوئی تھی۔ جب مادہ اور ضد مادہ آپس میں ملتے ہیں، تو وہ ایک دوسرے کو توانائی کے دھماکے میں تباہ کر دیتے ہیں۔

لہٰذا، اصولوں کے مطابق منطقی طور پر کائنات کو شروع ہوتے ہی خود کو ختم کر دینا چاہیے تھا۔ یہ حقیقت کہ مادہ، ضد مادے سے زیادہ ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ کائنات کے ابتدائی لمحات میں کچھ عجیب و غریب ہوا، کچھ ایسا جس نے توازن کو بدل دیا اور مادے کو غالب آنے دیا، جس سے وہ سب کچھ وجود میں آیا جو آج ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں۔

یہ صرف ایک نظریاتی پہیلی نہیں ہے بلکہ فزکس کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک ہے۔ اگر یہ توازن تھوڑا سا بھی مختلف ہوتا، تو کائنات ایک بہت مختلف جگہ ہوتی یا شاید بالکل موجود نہ ہوتی۔

سائنسدان کئی دہائیوں سے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ عدم توازن کیوں موجود ہے، اور اس کے لیے وہ بڑے ذراتی تصادم کاروں جیسے ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ کا استعمال کرتے ہیں تاکہ کائنات کے ابتدائی حالات کو دوبارہ پیدا کر سکیں۔

لیکن اب تک انہوں نے کچھ خاص اہم چیز دریافت نہیں کی۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ کچھ عجیب ضرور ہوا تھا، لیکن وہ کیا تھا، یہ ہم ابھی تک نہیں جان پائے۔

دلچسپ حقیقت: مادہ اور ضد مادہ کے درمیان عدم توازن بہت معمولی ہے۔ ہر ارب ضد مادے کے ذرات کے مقابلے میں صرف ایک اضافی مادے کا ذرہ ہوتا ہے۔ یہ معمولی عدم توازن ہی تمام کائنات کے مادے کے وجود کا سبب ہے، چاہے وہ چھوٹا ایٹم ہو یا بڑی کہکشاں۔

5. آپ ایک جیتے جاگتے مجسمے میں تبدیل ہو سکتے ہیں!

ذرا تصور کریں کہ آپ کا جسم آہستہ آہستہ پتھر بن رہا ہے، آپ کے پٹھے، کنڈے، اور لیگامینٹس آہستہ آہستہ ہڈی میں تبدیل ہو رہے ہیں، آپ کو ایک سخت اور غیر متحرک حالت میں جکڑ رہے ہیں۔

یہ خوفناک حقیقت ان لوگوں کے لیے ہے، جنہیں ’فائبرڈسپلیسیا اوسفیکنز پروگریسوا‘ (FOP) نامی انتہائی نایاب جینیاتی بیماری ہوتی ہے۔

ایف او پی جسم میں نرم بافتوں کو اچانک ہڈی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، FOP والے لوگ اپنے اعضاء، ریڑھ کی ہڈی، اور آخرکار اپنے جبڑے کو بھی حرکت دینے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔

ہڈی بننے کا یہ عمل مستقل ہے، اور زخموں کے ساتھ یہ عمل مزید تیز ہو جاتا ہے—کسی بھی چوٹ یا سرجری کا مقصد اضافی ہڈی کو ہٹانا ہوتا ہے، لیکن اس سے اور زیادہ ہڈی بڑھ جاتی ہے۔

یہ ہڈی میں بدلنے کا عمل بے رحمی سے جاری رہتا ہے، اور اگر جسم میں کسی قسم کا صدمہ پہنچے تو یہ اور بھی بگڑ جاتا ہے—ہڈیوں کو ہٹانے کے لیے کی گئی کوئی بھی سرجری یا چوٹ مزید ہڈیوں کی افزائش کو متحرک کر دیتی ہے۔

اس بیماری سے متاثرہ افراد اکثر اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ اگر وہ کسی چیز سے ٹکرا گئے یا گر گئے تو ان کی حالت مزید بگڑ سکتی ہے، کیونکہ چھوٹی موٹی چوٹیں بھی ان کی بیماری کو تیز کر سکتی ہیں

آخرکار جسم ایک سخت پنجرے میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور زندگی کی متوقع مدت نمایاں طور پر کم ہو جاتی ہے۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے، اور علاج کے طریقے صرف علامات کو سنبھالنے اور چوٹوں سے بچنے تک محدود ہیں۔

یہ بیماری اتنی نایاب ہے کہ زیادہ تر ڈاکٹر اپنی پوری زندگی میں اس کا کوئی کیس نہیں دیکھتے، اور اکثر اسے عام بیماریوں جیسے کہ کینسر کے طور پر غلط تشخیص کر دیا جاتا ہے۔

دلچسپ حقیقت: FOP کے سب سے پرانے معلوم کیسز میں سے ایک کو اٹھارویں صدی میں دستاویزی شکل دی گئی تھی، جب ڈاکٹروں نے ایک ایسی ہڈی دریافت کی جس کے ساتھ ایک دوسری ہڈی جڑی ہوئی تھی۔ آج دنیا بھر میں 1000 سے بھی کم مصدقہ کیسز موجود ہیں۔

6. ایک وائرس آپ کے دماغ کو بلیوں سے محبت کرنے پر مجبور کر سکتا ہے!

ٹاکسوپلازما گوندی Toxoplasma gondii ایک یک خلوی پیراسائٹ ہے، جو اپنے میزبانوں کے رویے کو بدلنے کی صلاحیت کے لیے بدنام ہے۔ یہ بنیادی طور پر چوہوں کو متاثر کرتا ہے، اور ایک بار جب یہ چوہے یا چوہیا کے اندر داخل ہو جاتا ہے، تو یہ ان کے دماغ کو اس طرح تبدیل کر دیتا ہے کہ ان میں موجود بلیوں سے فطری خوف ختم ہو جاتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ متاثرہ چوہا زیادہ آسانی سے بلی کے ہاتھوں پکڑا اور کھایا جا سکتا ہے، جس سے پیراسائٹ بلی کی آنتوں میں اپنی زندگی کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے۔

سب سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ انسان بھی ٹاکسوپلازما گوندی سے متاثر ہو سکتے ہیں، عموماً بلیوں کے فضلہ کو ہاتھ لگانے یا نیم پکا ہوئی گوشت کھانے کے ذریعے۔

اگرچہ انسانوں میں اس کے اثرات چوہوں جتنے شدید نہیں ہوتے، لیکن کچھ مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ یہ پیراسائٹ انسانوں کے رویے کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

متاثرہ انسانوں میں شخصیت میں معمولی تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں، جیسے زیادہ خطرہ مول لینے کا رجحان، ردعمل دینے میں زیادہ وقت لینا، اور ذہنی صحت کے امراض جیسے شیزوفرینیا کا زیادہ امکان۔

کچھ محققین نے یہاں تک تجویز کیا ہے کہ پیراسائٹ انسانی ثقافت پر بڑے پیمانے پر اثر ڈال سکتا ہے، کیونکہ دنیا کی ایک تہائی آبادی کے اس سے متاثر ہونے کا امکان ہے۔

یہ خیال کہ ایک چھوٹا سا پیراسائٹ ہمارے خیالات اور اعمال کو کنٹرول کر سکتا ہے، انتہائی پریشان کن ہے۔

دلچسپ حقیقت: فرانس میں ٹاکسوپلازما گوندی کی انفیکشن کی شرح خاص طور پر زیادہ ہے، اور اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہاں کی 80 فیصد سے زائد آبادی اس سے متاثر ہو سکتی ہے۔ اس نے کچھ لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ شاید فرانسیسیوں کی بلیوں سے محبت پیراسائٹ کی وجہ سے ہو۔

7. آپ کا معدہ واقعی خود کو گھلا دیتا ہے!

آپ کا معدہ ایک کیمیائی بھٹی کی مانند ہوتا ہے جس میں دنیا کے سب سے طاقتور تیزابوں میں سے ایک، ہائیڈروکلورک ایسڈ، شامل ہوتا ہے۔

یہ تیزاب اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ یہ دھاتوں کو بھی گھلا سکتا ہے اور یہ آپ کی کھائی ہوئی غذا کو ہضم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن یہ ایک مسئلہ پیدا کرتا ہے: آپ کا معدہ جو گوشت اور بافتوں سے بنا ہوتا ہے، اپنے ہی مواد سے ہضم ہونے سے کیسے بچتا ہے؟

اس کا جواب معدے کی دیواروں پر موجود ایک موٹی بلغم کی تہہ میں چھپا ہوا ہے، جو مسلسل دوبارہ پیدا ہوتی رہتی ہے تاکہ تیزاب کی تباہ کن طاقت سے حفاظت کرے۔

تاہم، یہ نظام مکمل طور پر بے عیب اور ناقابلِ شکست نہیں ہے۔ کیونکہ جب بلغم کی تہہ کمزور ہو جاتی ہے، تو یہ تیزاب معدے کی دیواروں کو کھانا شروع کر دیتا ہے، جس سے السر ہو سکتے ہیں۔

انتہائی صورتوں میں، معدہ واقعی اپنے آپ کو ہضم کرنا اور گھلانا شروع کر دیتا ہے، جس سے شدید درد اور اندرونی خون بہنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

جسم کو ایک نازک توازن برقرار رکھنا پڑتا ہے — اتنا تیزاب پیدا کرنا کہ غذا کو ہضم کر سکے، لیکن اتنا زیادہ نہیں کہ معدے کو اندر سے تباہ کر دے۔

یہ توازن ہر بار آپ کے کھانے کے دوران ہوتا ہے، اور یہ ایک نازک عمل ہے جسے ہم میں سے اکثر لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔

دلچسپ حقیقت: آپ کے معدے میں موجود ہائیڈروکلورک ایسڈ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ ریزر بلیڈ کو بھی گھلا سکتا ہے، لیکن آپ کا جسم اس طاقتور مادے کو غیر معمولی مہارت سے سنبھالنے کے لیے تیار ہوا ہے۔ پھر بھی، آبادی کا تقریباً 10 فیصد اپنی زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر پیپٹک السر کا شکار ہوتا ہے۔

8. پودوں کو جب کھایا جاتا ہے تو وہ اسے ’سن‘ سکتے ہیں!

پودے بظاہر غیر متحرک اور بے دفاع نظر آتے ہیں، لیکن قدرت نے ان کو اپنے دفاع کے لیے حیرت انگیز طریقے ودیعت کیے ہیں۔

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پودے خود کو کھائے جانے کی آواز کو ’سن‘ سکتے ہیں اور کیمیائی دفاعی مادے خارج کر کے جواب دیتے ہیں۔

اگرچہ ان کے پاس کان نہیں ہوتے، لیکن وہ اپنے پتوں کو کسی کیڑے کے چبانے سے پیدا ہونے والے ارتعاشات کو محسوس کر سکتے ہیں۔

یہ ارتعاشات پودے کو زہریلے کیمیکلز پیدا کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو اس کو چرنے والے جانوروں کے لیے اسے کم ذائقہ دار بنا دیتے ہیں، گویا ایک کیمیائی ہنگامی پیغام بھیج کر حملہ آور کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پودوں کا اپنے ماحول کو اس قدر پیچیدہ انداز میں محسوس کرنا اور جواب دینا ہماری روایتی سوچ کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ سادہ اور غیر متحرک ہیں۔ ارتعاشات کا پتہ لگانے اور مناسب ردعمل دینے کی یہ صلاحیت ظاہر کرتی ہے کہ پودے ہماری توقعات سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔

کچھ سائنس دانوں کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ پودے ابتدائی درجے کی مواصلات کی صلاحیت رکھتے ہیں، یعنی وہ کیمیائی سگنلز کے ذریعے ایک دوسرے سے ’بات‘ کر سکتے ہیں اور شکاریوں کے خلاف اپنے دفاع کو مربوط کر سکتے ہیں۔

دلچسپ حقیقت: پودے مختلف قسم کے ارتعاشات میں فرق کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ ہوا کے اپنی پتیاں ہلانے کی آواز اور کسی شکاری کے ان کو چبانے کی آواز میں فرق کر سکتے ہیں، اور صرف پتے چبائے جانے پر ردعمل دیتے ہیں۔

9. آپ انجانے میں ’کائمیرا‘ ہو سکتے ہیں!

کائمیرا کا تصور، یعنی ایک ایسی مخلوق جو مختلف جانوروں کے اجزاء سے بنی ہو، بظاہر دیومالائی کہانیوں سے تعلق رکھتا ہے، ہے نا؟ لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔

کائمیرا تب ہوتا ہے، جب کسی شخص کے جسم میں دو مختلف قسم کا ڈی این اے ہوتا ہے، عموماً اس لیے کہ انہوں نے رحم مادر میں اپنے جڑواں کو جذب کر لیا ہوتا ہے۔ اس سے حیران کن حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔

کائمیرا ازم اس وقت ہوتا ہے جب کسی شخص کے جسم میں دو قسم کے ڈی این اے ہوتے ہیں۔ یہ اصطلاح ایک حیاتیاتی حالت کو بیان کرتی ہے جس میں ایک فرد کے جسم میں دو یا اس سے زیادہ مختلف جینیاتی اجزاء یا ڈی این اے کے سیٹ موجود ہوتے ہیں۔ یہ حالت عام طور پر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب رحم میں موجود جڑواں بچے آپس میں مل جاتے ہیں، اور ایک جڑواں بچہ دوسرے جڑواں بچے کے ڈی این اے کو جذب کر لیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، کائیمیرا فرد کے جسم کے مختلف حصوں میں مختلف ڈی این اے پایا جاتا ہے، جو اسے جینیاتی طور پر متنوع بناتا ہے۔ اس سے کچھ انتہائی عجیب و غریب حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر، ایک شخص کے جسم کے مختلف حصوں میں مختلف ڈی این اے ہو سکتا ہے، مطلب یہ کہ خون کا جینیاتی ٹیسٹ مختلف نتائج دے سکتا ہے جو کہ جلد یا بالوں کے ٹیسٹ سے مختلف ہوں۔

کچھ معاملات میں، لوگوں کو اس وقت معلوم ہوا کہ وہ کائمیرا ہیں جب ان کے بچوں کا ڈی این اے ان کے اپنے ڈی این اے سے میل نہیں کھاتا، جس سے ماں یا باپ کے بارے میں عجیب قانونی تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں۔

کائمیرا صرف ایک دلچسپی کی بات نہیں ہے؛ اس کے دیگر اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔ کچھ نایاب صورتوں میں، یہ آٹوامیون بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ جسم کا مدافعتی نظام مختلف ڈی این اے والے بافتوں (ٹشوز) کو اپنا حصہ تسلیم نہیں کرتا اور جسم کے اپنے خلیات پر حملہ کر سکتا ہے۔

یہ اعضاء کی پیوند کاری اور خون کی منتقلی کو بھی پیچیدہ بنا سکتا ہے، کیونکہ ڈی این اے کا میل کھانا کافی مشکل ہو سکتا ہے۔ باوجود اس کے، کائمیرا عام طور پر تشخیص نہیں ہوتا اور اکثر کسی کے جسم میں پوشیدہ رہتا ہے اور کبھی دریافت نہیں ہوتا۔

دلچسپ حقیقت: کائمیرا کا مظہر جانوروں میں بھی دیکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ بلیوں کی دونوں آنکھوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں کیونکہ وہ کائمیرا ہوتی ہیں، اور ان کی ہر آنکھ ان کے جسم کے مختلف خلیوں کی جینیاتی ترکیب کی عکاسی کرتی ہے۔

10. ایک فنگس، جو چیونٹیوں کو زومبی میں بدل دیتا ہے!

فطرت عجیب اور خوفناک کہانیوں سے بھری ہوئی ہے، اور ان میں سے سب سے زیادہ خوفناک کہانیوں میں سے ایک میں پیرسائٹک فنگس ’اوپیئوکورڈیسیپس یونی لیٹریلس‘ شامل ہے۔ یہ فنگس چیونٹیوں کو متاثر کرتا ہے، ان کے اعصابی نظام پر قابو پا کر انہیں اپنی کالونی کو چھوڑنے اور کسی اونچی جگہ، جیسے کسی پودے کی چوٹی پر چڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔

ایک بار وہاں پہنچنے کے بعد، یہ فنگس چیونٹی کو مار دیتا ہے اور اس کے سر سے باہر نکل کر اگنے لگتا ہے، جو زیادہ چیونٹیوں کو متاثر کرنے کے لیے اسپورز خارج کرتا ہے۔

یہ فنگس اتنے محتاط طریقے سے چیونٹی پر قابو رکھتا ہے کہ یہ چیونٹی کو مرنے سے پہلے کسی پتے یا ٹہنی کو کاٹنے پر مجبور کرتا ہے، تاکہ وہ اپنی جگہ چپک کر محفوظ ہو سکے۔

یہ عمل اتنا خوفناک اور مؤثر ہے کہ اس فنگس کو ’زومبی چیونٹی فنگس‘ کا لقب دیا گیا ہے۔

لیکن سب سے زیادہ پریشان کن بات فنگس کا اپنے میزبان پر کنٹرول کی سطح ہے، یہ چیونٹی کو صرف مارتا نہیں؛ بلکہ اسے اپنے تولیدی مقاصد کے لیے ایک آلے میں بدل دیتا ہے، اس کے رویے کو اس طرح کنٹرول کرتا ہے کہ جیسے یہ تقریباً باشعور ہو یعنی فنگس کا چیونٹی کے رویے پر قابو پانے کا طریقہ لگ بھگ ذہانت پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کچھ سائنسدان اوپیئوکورڈیسیپس کا مطالعہ کر رہے ہیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ یہ ننھے جیو یا پیراسائٹس کس طرح متاثرین کے رویے کو کنٹرول کرتے ہیں — یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے پیچیدہ جانداروں، بشمول انسانوں، کے لیے بھی تشویشناک اثرات ہو سکتے ہیں۔

دلچسپ حقیقت: اوپیئوکورڈیسیپس کی سینکڑوں مختلف اقسام ہیں، اور ہر ان میں سے ہر قسم ایک مخصوص قسم کے حشرات کو متاثر کرنے میں ماہر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹروپیکل جنگلات میں، جہاں یہ فنگس سب سے عام ہے، مختلف اقسام کی چیونٹیاں، بھونرے اور دیگر حشرات اپنے اپنے مخصوص ’زومبی‘ فنگس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

حوالہ: کیوریئس میٹرکس
ترجمہ: امر گل ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close