کاسمیٹکس کمپنیوں کے نفسیاتی حربے اور کم عمر لڑکیوں میں اینٹی ایجنگ مصنوعات کا خطرناک رجحان!

امر گل

خواتین میں بناؤ سنگھار (آرائش و زیبائش) کی تاریخ بہت قدیم ہے اور یہ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں میں مختلف طریقوں سے پروان چڑھی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں خواتین نے ہزاروں سال سے اپنے جسموں اور چہروں کو سجانے کے لیے مختلف طریقے اور زیورات استعمال کیے ہیں۔

مصر کی قدیم تہذیب میں مصری خواتین نے تقریباً 4000 سال قبل مسیح سے کُحل (آئی لائنر) اور رنگ برنگے لپ اسٹکس کا استعمال کیا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ کحل لگانا نہ صرف آرائش کا حصہ تھا بلکہ اسے آنکھوں کو دھول اور دھوپ سے بچانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ ملکہ قلوپطرہ کا سنگھار آج بھی ایک مثالی نمونہ سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح قدیم یونان اور روم کی خواتین نے جلد کو خوبصورت بنانے کے لیے سفید پاوڈر اور چہرے کے خطوط کو نمایاں کرنے کے لیے سرخی کا استعمال کیا۔ ان ادوار میں بالوں کو سنہری یا سیاہ رنگنے کا رواج بھی تھا، جبکہ ہندوستان میں بھی سنگھار کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مہندی، کاجل، سندور، اور خوشبو دار تیلوں کا استعمال قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ خاص مواقع پر خواتین کا زیور پہننا اور بالوں میں پھول لگانا ایک رسم تھی، جو آج بھی برقرار ہے۔

قرون وسطیٰ میں یورپی خواتین نے اپنے چہرے کو زیادہ سفید دکھانے کے لیے مختلف پاوڈرز کا استعمال کیا اور بھنوؤں کو زیادہ خوبصورت اور نازک دکھانے کے لیے انہیں باریک کیا جاتا تھا۔ اس دور میں بالوں کی آرائش اور مختلف ہیئر اسٹائلز پر بہت زور دیا جاتا تھا۔

آج کے دور میں کاسمیٹکس کی صنعت میں دن بدن ترقی ہو رہی ہے اور اس کا اثر دنیا بھر کے صارفین پر نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں نوعمر لڑکیوں میں اینٹی ایجنگ پروڈکٹس کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، حالانکہ انہیں ان جی ضرورت بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ پروڈکٹس عموماً زیادہ عمر کی خواتین کے لیے تیار کی جاتی ہیں۔

اس حوالے سے امریکی ریاست ایریزونا کے شہر سکاٹس ڈیل میں ماہر امراض جلد ڈاکٹر بروک جیفی نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کو کم کرنے والی مصنوعات ایسی بچیوں کی جلدکو بڑھاپے کا شکار بنا دیتی ہیں، یہ ان کی جلد کی حفاطتی سطح کو متاثر کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں جلد پر مستقل داغ دھبے پڑ جاتے ہیں

تاہم بہت سے والدین اور ماہرینِ نفسیات اس رجحان کے باعث نابالغ لڑکیوں کی جسمانی صحت سے زیادہ ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے بھی فکر مند ہیں۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چہرے کی خوبصورتی پر بہت زیادہ توجہ انسان کی خود اعتمادی کو متاثر کر سکتی ہے جو اینگزائٹی، ڈپریشن اور غذائی عادات سے متعلق امراض کا باعث بنتی ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا کے بچوں پر اثرات کا مطالعہ کرنے والے ایک ادارے ’چلڈرن اینڈ اسکرین‘ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کرس پیری کے مطابق کم عمر لڑکیوں کا میک اپ کرنے اور خوبصورت نظر آنے میں دلچسپی لینا کوئی نئی بات نہیں، تاہم ڈیجیٹل میڈیا کے اثرات کے سبب اب یہ دلچسپی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔

کرس پیری کہتی ہیں، ’’لڑکیوں کو دیکھنے کے لیے خوبصورتی کی ایسی مثالی تصاویر مل رہی ہیں، جو ان کے لیے حسن و خوبصورتی کا ایک ایسا معیار قائم کر دیتی ہیں، جسے حاصل کرنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔‘‘

چودہ سالہ میا ہال آٹھویں جماعت میں تھیں، جب اسکول اور سوشل میڈیا پر ان کی ہم عمر لڑکیوں کے مابین جلد کی دیکھ بھال بات چیت کا اہم موضوع بن گیا تھا۔ میا نے بھی کیٹی فینگ اور جیانا کرسٹین نامی مشہور انفلوئنسرز کو ٹک ٹاک پر فالو کرنا شروع کر دیا تھا۔ میا بتاتی ہیں، ’’سب لوگ یہی کر رہے تھے۔ مجھے بھی لگا کہ یہی واحد طریقہ ہے، جس کے ذریعے میں بھی ان میں شامل ہو سکتی ہوں۔‘‘

میا نے اپنے دوستوں کے ساتھ میک اپ مصنوعات کے انتہائی مشہور اسٹور ’صفورا‘ سے خریداری کے لیے ہر ہفتے بیس ڈالر کی بچت کرنا شروع کر دی۔ ان کے روزمرہ معمولات میں چہرہ دھونے کے بعد فیشل مِسٹ کا استعمال، ہائیڈریٹنگ سیریم لگانا، مساموں کو بند کرنے والا ٹونر، موئسچرائزر، اور سن اسکرین لگانا شامل تھے۔ ان میں سے زیادہ تر مصنوعات بہت مہنگے برانڈز کی ہوتی تھیں۔

رٹگرز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات شارلٹ مارکی کے مطابق لڑکیوں کو تو اب یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ تو کبھی نہ ختم ہونے والا ایک پراجیکٹ ہیں اور بنیادی طور پر وہ جیسی ہیں، ویسے اچھی نہیں لگتیں۔

کاسمیٹکس کی صنعت نوعمر لڑکیوں میں اپنی مصنوعات کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے متعدد نفسیاتی اور کاروباری حربے استعمال کرتی ہے تاکہ انہیں اپنی جانب متوجہ کیا جا سکے اور ان کی مستقل صارفین بنایا جا سکے۔ یہ حربے عموماً نوعمر لڑکیوں کی ذہنی، جسمانی اور سماجی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیے جاتے ہیں۔

کاسمیٹکس کمپنیاں اس بات کو بخوبی سمجھتی ہیں کہ نوعمر لڑکیاں اکثر جسمانی ظاہری شکل اور خوبصورتی سے متعلق غیر یقینی اور عدم اعتماد کا شکار ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ اپنی مصنوعات کو ”خوبصورتی اور خود اعتمادی بڑھانے“ کے تاثر کے ساتھ پیش کرتی ہیں، اس پیغام کے ساتھ کہ ان کی مصنوعات استعمال کرنے سے وہ زیادہ خوبصورت اور خود اعتماد محسوس کریں گی۔

کاسمیٹکس کمپنیاں انسٹاگرام، یوٹیوب، ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نوجوانوں میں مقبول مشہور انفلوئنسرز (influencers) کا استعمال کرتی ہیں، جو ان مصنوعات کا استعمال کرتے ہوئے نوعمر لڑکیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ اثرانداز کنندگان (influencers) ان مصنوعات کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنا کر ان کی اہمیت کو بڑھاتے ہیں، جس سے نوعمر لڑکیوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ بھی یہی پروڈکٹس استعمال کریں گی تو وہ مقبول اور پسندیدہ بن جائیں گی۔

سوشل میڈیا انفلوئنسرز صارفین کی پسند یا ناپسند پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی ویڈیوز دیکھ کر صارفین بعض اوقات پروڈکٹس کا انتخاب کرتے ہیں۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ کم عمر لڑکیاں جنہیں یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس عمر میں انہیں کیا استعمال کرنا چاہیے اور کیا نہیں وہ بھی ان انفلوئنسرز کی ویڈیوز سے متاثر ہوتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان لڑکیاں سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو دیکھ کر ان جیسا بننے کی خواہش رکھتی ہیں جو ان کی ذہنی صحت کے لیے باعثِ تشویش ہے۔

مزید برآں اشتہارات میں مشہور ماڈلز اور فلمی ستاروں کو کاسمیٹکس مصنوعات کے ساتھ دکھانا ایک عام حربہ ہے۔ یہ ماڈلز اور مشہور شخصیات ایک خاص قسم کی ”کامل“ خوبصورتی کا مظہر بنائی جاتی ہیں، جسے نوعمر لڑکیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کمپنیاں ایسے جذبات کا استعمال کرکے اپنی پروڈکٹس کو ایک ”خواب“ یا ”گلیمرس“ زندگی کا راستہ دکھاتی ہیں۔

نوعمر لڑکیاں اپنی شناخت، سماجی قبولیت، اور گروہ میں شامل ہونے کی خواہش رکھتی ہیں۔ کمپنیاں اس خواہش کو استعمال کرتے ہوئے اپنی پروڈکٹس کو سماجی دائرے میں لازمی چیز کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ جیسے ”اسکول میں سب کے پاس یہ پروڈکٹ ہے“ یا ”یہ نئے ٹرینڈ کا حصہ ہے“ جیسے پیغامات شامل ہوتے ہیں، جس سے نوعمر لڑکیوں میں پروڈکٹس کو خریدنے کی چاہ پیدا کی جاتی ہے۔

محدود وقت کی پیشکشیں (Limited Edition) یا ’خاص موقع‘ کی پیشکشیں نوجوانوں میں پروڈکٹس کی فوری خریداری کی خواہش کو بڑھاتی ہیں۔ اس قسم کی پیشکشیں نوجوان لڑکیوں میں یہ احساس پیدا کرتی ہیں کہ اگر وہ فوراً پروڈکٹ نہیں خریدیں گی تو وہ کسی خاص موقع سے محروم ہو جائیں گی۔

نوعمر لڑکیوں کو کاسمیٹکس مصنوعات آزمانے کے لیے فری سیمپلز یا ٹرائلز بھی فراہم کیے جاتے ہیں، تاکہ وہ بغیر پیسے خرچ کیے ان کا استعمال کریں اور پھر انہیں پسند کر کے مستقبل میں خریدار بن جائیں۔

کاسمیٹکس انڈسٹری اکثر میڈیا اور اشتہارات کے ذریعے خوبصورتی کے ایک خاص معیار کو فروغ دیتی ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے لڑکیاں کاسمیٹکس پروڈکٹس کا استعمال ضروری سمجھتی ہیں۔ یہ معیار ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، جس سے لڑکیوں کو مسلسل نئے پروڈکٹس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

کچھ مارکیٹنگ مہمات میں گروہی مقابلے کو فروغ دیا جاتا ہے، جیسے ”کون سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے“ یا ”سب سے زیادہ ٹرینڈنگ پروڈکٹ کس کے پاس ہے.“ اس سے نوعمر لڑکیوں کے درمیان مقابلہ پیدا ہوتا ہے اور وہ پروڈکٹس خریدنے کی جانب زیادہ مائل ہو جاتی ہیں۔

یہ تمام حربے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کاسمیٹکس کمپنیاں نہ صرف مصنوعات کی فروخت میں اضافہ کے لیے نوعمر لڑکیوں کی نفسیات کا فائدہ اٹھاتی ہیں، بلکہ ان کے لیے ایک مستقل مارکیٹ بھی بناتی ہیں، جہاں نوعمر لڑکیاں خود کو ان مصنوعات کے بغیر ادھورا محسوس کرتی ہیں۔

کاسمیٹکس کی صنعت ان نفسیاتی اور کاروباری حربوں کو استعمال کرکے مصنوعات خریدنے کے رجحان سے بھاری منافع کما رہی ہے۔ نیلسن آئی کیو کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس میڈیکل اسٹوروں سے جلد کی دیکھ بھال کی مصنوعات خریدنے والے پچاس فیصد خریدار 14 سال سے کم عمر کے تھے۔ مارکیٹ ریسرچ فرم سرکانا کے مطابق 2024 کی پہلی ششماہی میں ’صفورا‘ جیسے بڑے اسٹوروں پر لگنے والی بیوٹی سیلز کے دوران شاپنگ میں ایک تہائی حصہ ایسے گھرانوں نے ڈالا، جن کے ارکان میں نو عمر لڑکے لڑکیاں بھی شامل تھے۔

کاسمیٹکس انڈسٹری نے تسلیم کیا ہے کہ کچھ مصنوعات بچوں کے لیے موزوں نہیں ہوتیں لیکن عملی طور پر بچوں کو ان کی خریداری سے روکنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کیے جاتے۔

ماہرین کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ بچوں کو عام طور پر صرف جلد کو صاف کرنے والے کلینزر، جلد کی نمی کو قائم رکھنے والے موئسچرائزرز اور جلد کو سورج کی مضر شعاعوں سے محفوط رکھنے والی سن اسکرین کی ضرورت ہوتی ہے۔

امریکی شہر منی ایپلس سے تعلق رکھنے والی جلد کے ماہر ڈاکٹر شیلیگ میگینیز کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو جلد کی حفاظت کے لیے ان تین چیزوں کے علاوہ کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ماہرین کے بقول ایسے بھی کیسز دیکھنے میں آئے ہیں جہاں نوجوان لڑکیوں کو بالغ عمر میں استعمال کی جانے والی پروڈکٹس کی وجہ سے جلد کے مسائل کا سامنا ہوا ہے۔ جلد کے ماہر کا کہنا ہے کہ ان پروڈکٹس میں ریٹینول اور ہائیڈروکسی ایسڈ موجود ہوتا ہے جو بڑی عمر کی لڑکیوں یا خواتین کی جلد کے لیے بنائی جاتی ہیں۔

ان کے بقول اگر یہ پروڈکٹس نوجوان استعمال کریں گے تو یہ ان کی جلد کو خاصا نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ بچوں کے لیے وقت اور پیسوں کا ضیاع ہیں۔

امریکی ماہرِ جلد ڈاکٹر ڈینڈی اینجل مین کا کہنا ہے ”میں سارا دن ہر روز اپنے مریضوں سے سنتی ہوں کہ ان کے بچے اسکن کیئر پروڈکٹس اور ٹک ٹاک پر ٹرینڈز کو فالو کرتے ہیں۔“

امریکہ میں کاسمیٹکس کمپنی کی ٹریڈ ایسوسی ایشن پرسنل کیئر پروڈکٹس کونسل کا بھی یہی کہنا ہے کہ نوجوانوں کو جلد کو اینٹی ایجنگ پروڈکٹس کی ضرورت نہیں ہوتی۔

کونسل کے مطابق نوجوان جب بلوغت کی عمر میں داخل ہوتے ہیں تو ہارمونز کی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کی جلد کو ایکنی، بلیک ہیڈز اور اس جیسے دیگر مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے میں انہیں کوئی بھی چیز استعمال کرنے سے قبل ماہرِ جلد سے رجوع کرنا چاہیے۔

چند ماہ قبل امریکی ریاست کیلیفورنیا میں 13 سال سے کم عمر کے بچوں کو اینٹی ایجنگ میک اپ مصنوعات کی فروخت پر پابندی لگانے کے لیے پیش کیا جانے والا بل نامنظور ہو گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں یورپی یونین میں گزشتہ برس منظور کیے گئے ایک قانون کے تحت ادویات کی دکانوں سے براہ راست خریدی جانے والی میک اپ مصنوعات میں ریٹینول نامی کیمیائی مادے کی مقدار کو پہلے سے بہت محدود کر دیا گیا ہے۔

اسکن کیئر مصنوعات کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ امریکہ بھر میں بہت سی مائیں اپنی بیٹیوں کے ہمراہ جلد کی دیکھ بھال کی مصنوعات لے کر ڈاکٹروں کے پاس جاتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ کیا وہ مصنوعات محفوظ ہیں۔

نیو یارک شہر کے علاقے مین ہیٹن سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ڈینڈی اینجل مین کہتی ہیں، ’’اکثر مائیں وہی باتیں کہتی ہیں، جو میں کہتی ہوں۔ لیکن وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بیٹیوں کو وہی معلومات گھر سے باہر کسی ماہر سے براہ راست ملیں۔ کیونکہ وہ یہ سوچتی ہیں کہ بچیاں اپنی ماؤں کے مقابلے میں یہی باتیں کسی ماہر معالج سے زیادہ توجہ اور سنجیدگی سے سنیں گی۔‘‘

تاہم میا کی والدہ سینڈرا گورڈن نے ایک مختلف طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے جب اپنی بیٹی کے چہرے پر سیاہ دھبے دیکھے، تو پریشان ہو گئیں۔ اس کے بعد انہوں نے میا کی تمام اسکن کیئر مصنوعات کوڑے دان میں پھینک دیں۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سیکرامنٹو کی رہنے والی اسکارلٹ نے ابتدائی طور پر محسوس ہی نہ کیا کہ وہ جو مصنوعات استعمال کر رہی تھیں، وہ ان کی جلد کو نقصان پہنچا رہی تھیں۔ تاہم چند دنوں کے اندر اندر انہیں اپنی جلد پر خارش اور جلن محسوس ہونے لگی تھی۔

اسکارلٹ کی والدہ اینا گوڈارڈ بتاتی ہیں، ’’ایک مرتبہ تو رات گئے اسکارلٹ روتی ہوئی میرے کمرے میں آئی۔ تب اس کے گالوں پر شدید جلن ہو رہی تھی۔‘‘

گوڈارڈ کہتی ہیں، ’’تب مجھے معلوم نہ تھا کہ بچوں کے لیے بنائی گئی جلدی مصنوعات میں بھی اتنے نقصان دہ اجزاء ہوتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان مصنوعات پر کوئی واضح تنبیہ ہونا چاہیے جو صارفین کو ان کے ممکنہ مضر اثرات سے بھی اچھی طرح آگاہ کر سکے۔

نوجوان لڑکیوں کی جلد قدرتی طور پر نرم اور جوان ہوتی ہے اور اینٹی ایجنگ پروڈکٹس کا ان پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ان پروڈکٹس کے مسلسل استعمال سے جلد میں قدرتی توازن بگڑ سکتا ہے، جس سے جلد کے مسائل جیسے کہ حساسیت، دانے اور خشکی بڑھ سکتی ہیں۔

کم عمر لڑکیوں میں اینٹی ایجنگ پروڈکٹس کا استعمال ان کے نفسیاتی صحت پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ وقت سے پہلے بڑھاپے کے خوف میں مبتلا ہونا اور قدرتی خوبصورتی سے عدم اطمینان ان کی خود اعتمادی میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔

اس رجحان کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین، اساتذہ اور سوسائٹی نوجوان لڑکیوں کو خود اعتمادی سکھائیں اور ان میں یہ شعور پیدا کریں کہ عمر کے ہر مرحلے کی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر حقیقت اور فلٹرز کے درمیان فرق کو سمجھانا بھی اہم ہے تاکہ وہ قدرتی خوبصورتی کی قدردانی کریں۔

کم عمر لڑکیوں میں اینٹی ایجنگ پروڈکٹس کے استعمال کا رجحان معاشرتی دباؤ اور میڈیا کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ اس رجحان کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ لڑکیوں کو ان کی عمر اور جلد کی مناسبت سے پروڈکٹس استعمال کرنے کی رہنمائی کی جائے اور ان میں خود اعتمادی کو فروغ دیا جائے تاکہ وہ اپنی قدرتی خوبصورتی کی قدر کر سکیں۔

(اس فیچر کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ سے لیا گیا ہے۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close