نامور اور دانشور لوگوں کی باتیں آپ نے سنی ہیں، ان کے بارے میں حیرت انگیز باتیں میں نے بھی سنی ہیں۔ سنا ہے کہ بڑے صابرین ہوتے تھے، دعاگو رہتے تھے۔ دشمن اُن کا بُرا چاہتے تھے، ان کو نقصان پہنچاتے تھے مگر وہ خود کسی کا بُرا نہیں چاہتے تھے، کسی کو بددعا نہیں دیتے تھے، اپنے دشمنوں کا بھلا چاہتے تھے، ان کو راہِ راست پر دیکھنے کے لیے دعائیں مانگا کرتے تھے۔ سب سے زیادہ مجھے جس بات نے متاثر کیا ہے، وہ بات ہے کہ ہمارے بزرگان کو غصّہ نہیں آتا تھا، وہ طیش میں نہیں آتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے منہ سے غلط یا غلیظ لفظ کبھی نہیں نکلتا تھا۔
صاحبِ فہم لوگوں کی باتیں پڑھ کر اور سن کر میں حیران ہوتا تھا اور اب بھی حیران ہوتا ہوں۔ میں سوچتا رہتا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی انسان کو غصہ نہ آتا ہو۔ ہنسنے، رونے، خوش ہونے، غمگین ہونے کی طرح غصہ آنا طبعی اور قدرتی عنصر ہے۔ دیگر عناصر کی طرح غصہ بھی انسان کےاندر اور اس کے وجود میں موجود ہوتا ہے۔ اس لئے غصے پر قابو پا لینے والی بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر صداقت سے کہہ دینا کہ فلاں بزرگ کو غصہ نہیں آتا، فقیر کی سمجھ سے بالاتر بات ہے۔۔ آپ کیا دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ زندگی میں آپ کسی ایک ایسے شخص کو جانتے ہوں، جس کو آپ نے غصہ میں آتے ہوئے نہیں دیکھا ہو؟ یا کسی ایسے شخص کو جانتے ہوں، جس کو آپ نے غصہ سے تلملاتے ہوئے یا طیش میں آتے ہوئے نہیں دیکھا ہو؟ سنی سنائی حکایتوں پر اعتبار کر لینا، بہت مشکل ہے میرے بھائی۔
چلئے دوسروں کی حیرت انگیز باتیں سننا اور باتیں کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ اپنی بات بتائیے۔۔ آپ کو غصّہ آتا ہے؟ BOSS باس کی بدمزاجی اور بدتمیزی دیکھ کر آپ غصہ سے تلملا نہیں اٹھتے؟ مگر آپ کچھ کر نہیں سکتے۔ بدتمیز شخص آپ کا باس یا بوس ہے، وہ کھڑے کھڑے آپ کو ملازمت سے فارغ بھی کر سکتا ہے۔ غصّہ کا لاوا آپ کے اندر پکتا رہتا ہے، گھر پہنچنے کے بعد آپ اپنا غصّہ بچوں اور بیوی پر نکالتے ہیں۔ آپ کبھی اس طرح کی کیفیت سے گزرے ہیں؟ ضرور گزرے ہونگے مگر آپ کبھی قبول نہیں کرتے۔ میں بھی قبول نہیں کرتا۔
میں بھی قبول نہیں کرتا کہ مجھے غصّہ آتا ہے۔ یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جس کا توڑ آپ کبھی نہیں تلاش کر سکتے۔ غصّہ آتا ہے۔ سب لوگوں کو غصّہ آتا ہے ۔ کسی کو کم، کسی کو زیادہ غصّہ آتا ہے۔ تب وہ بہت کچھ تہس نہس کر دیتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ اپنا نقصان کر دیتے ہیں۔ حد سے تجاوز کرنے کے بعد کسی کی جان بھی لے سکتے ہیں، اپنی جان دے سکتے ہیں۔ اتنی اور اس قدر بھیانک وارداتوں کے باوجود کوئی شخص قبول نہیں کرتا کہ اسے غصّہ آتا ہے۔
غصّہ کے بارے میں، میں نے بھی زیادہ ذہین اور پڑھے لکھے نیک بندوں کے اقوالِ زریں حفظ کر رکھے ہیں۔ جب بھی مجھے غصّہ آتا ہے، میں اقوالِ زریں کا ورد شروع کر دیتا ہوں۔ ایک حوالہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ حوالہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب غصّہ پر مکمل ضبط کو افضل عبادتوں میں شمار کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے اور محسوس بھی کیا ہے کہ ہم اپنے سے کمزور اور بے بس پر غصّہ نکالنے میں دیر نہیں کرتے۔ اس ناتواں کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں۔ اپنے سے بڑے اور طاقتور پر ہم اپنا غصّہ نکال نہیں سکتے، غصہ پر عمل نہیں کر سکتے، غصہ پر مکمل کنٹرول کر لیتے ہیں۔
اس نوعیت کی غصّے پر پابندیاں افضل عبادتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ مطلب کچھ یوں ہے کہ برسرِ اقتدار، طاقتور اور اڑیل کی بدتمیزیاں، زیادتیاں، صبر سے برداشت کرنے کی آپ کی کیفیت کا شمار اعلیٰ بندگیوں میں ہوتا ہے۔ بے بسی میں طاقتور جابر کی تحقیر، بے عزتی، اور بدزبانی کو مجبوراً برداشت کرنے کی وجہ سے لوگ ہمیں بڑا نیک اور صابر سمجھتے ہیں۔ ہماری جھکی ہوئی گردن دیکھ کر لوگ ہمیں تحمل مزاج سمجھتے ہیں۔ جابر پر غصّہ تو ہمیں آتا ہے، مگر ہم کچھ کر نہیں سکتے۔ ہم خود کشی تو کر سکتے ہیں، مگر جابر اور بے رحم کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ عالم اور فاضل ہماری بےبسی کو اعلیٰ عبادتوں میں شمار کرتے ہیں۔
بے مقصد بات کا مطلب ہے کہ اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود ہم قبول نہیں کرتے کہ ہمیں غصّہ آتا ہے۔ غصّہ آتا ہے بھائی۔ بے انتہا غصّہ آتا ہے۔۔ غصّے کی کیفیت میں ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کسی کو تباہ کر سکتے ہیں، خود تباہ ہو سکتے ہیں۔ مگر ہم بضد ہوتے ہیں کہ ہمیں غصّہ نہیں آتا۔
مگر میں نے ایک شخص ایسا دیکھا ہے جسے غصّہ نہیں آتا۔ بزرگ ہیں، اتنے ہی پرانے ہیں جتنا کہ شہر کراچی۔ کبھی کبھی تو مجھے وہ آثارِ قدیمہ سے اٹھ کر آنے والے لگتے ہیں۔ انہوں نے ادوار کے عروج و زوال دیکھے ہیں۔ ان سے جب پوچھا جاتا ہے، کہ دادا ہمارے ملک کا کیا حال ہے؟ تب مسکرا کر کہتے ہیں، ”ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہا ہے۔ حکمراں یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے ہیں۔ دنیا بھر کی منڈیوں میں ہمارے چاول، گیہوں، مسالے، پھل، فروٹ بکتے ہیں۔ کارخانے اور ملیں دن رات کام کرتی ہیں ۔ہمارے بنائے ہوئے کپڑے یورپ، امریکہ، عرب ممالک اور چین میں ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں۔ پوری دنیا میں پاکستانی ہنر مندوں کی طلب ہے، ڈیمانڈ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اعلیٰ تعلیم کے لئے ہمارے ملک کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم دنیا بھر کے غریب ممالک کی امداد کرتے ہیں۔۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈیولیمنٹ بینک اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کی مالی معاونت کرتے ہیں۔۔“
پراسرار حضرت میٹھے لہجہ میں بولتے ہیں۔ ان کو غصّہ کبھی نہیں آتا۔ ایسا ایک شخص میں نے دیکھا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)