فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی: امریکی ایوارڈ ٹھکرانے والی بھارت کی آدیواسی شاعرہ کون ہیں؟

بھارتی صوبے جھارکھنڈ کے مغربی سنگھ بھوم ضلعے سے تعلق رکھنے والی مصنفہ، شاعرہ اور آدیواسی سماجی کارکن اکتالیس سالہ جسنتا کیرکیٹا نے فلسطین کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے شکار افراد کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ (USAID) اور ’روم ٹو ریڈ انڈیا ٹرسٹ‘ کی طرف سے مشترکہ طور پر دیا جانے والا ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

جیسنتا کے تحریری کاموں کا مرکز مقامی آبادیوں کی بے دخلی ہے جو ترقی کے نام پر کی جا رہی ہے اور ان کے قدرتی وسائل کی مسلسل لوٹ کھسوٹ، ملک کے اندر موجود نوآبادیاتی ذہنیت، اور مقامی آبادیوں کی پانی، جنگلات اور زمین کو بچانے کی جدوجہد ہے۔ ان کی زندگی کے بنیادی مسائل اور فلسفہ ان کے لکھنے کا حصہ ہیں۔ ان کی شاعری ان مقامی آبادیوں کے اس آفاقی قدر کے تصور سے متاثر ہے، جو ابھی تک قدرت کے قریب زندگی گزارتی ہیں۔

ان کی نظموں پر مشتمل کتاب ’جرہول‘ کو ’روم ٹو ریڈ ینگ آتھر ایوارڈ‘ کے لیے ادبِ اطفال کے تخلیق کاروں کے ایوارڈز میں منتخب کیا گیا تھا۔ ابھی تک ایوارڈ دینے والوں نے جسنتا کے اس فیصلے پر عوامی طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ بچوں کے ادب کے ایوارڈز کی دوسری تقریب 7 اکتوبر کو ہونے والی ہے۔

جسنتا کیرکیٹا نے مذکورہ ایوارڈ لینے سے انکار کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے یو ایس اے آئی ڈی اور روم ٹو ریڈ انڈیا ٹرسٹ، دونوں کو خط لکھا ہے۔

کیرکیٹا نے کہا ”بچوں کے لیے کتابیں اہم ہیں لیکن بالغ افراد بچوں کو نہیں بچا سکے، جن میں سے ہزاروں فلسطین میں مارے جا رہے ہیں۔“

جسنتا نے انڈین میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ”میں نے دیکھا کہ ’روم ٹو ریڈ انڈیا ٹرسٹ‘ بھی بچوں کی تعلیم کے لیے بوئنگ (کمپنی) سے منسلک ہے۔ جب بچوں کی دنیا انہی کے ہتھیاروں سے تباہ ہو رہی ہے، تو اسلحے کی تجارت اور بچوں کی دیکھ بھال کیسے ایک ساتھ چل سکتی ہے؟“

واضح رہے کہ ایرو اسپیس کمپنی بوئنگ کا دعویٰ ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے ساتھ پچھتر سال سے منسلک ہے۔ گذشتہ سال اگست میں اس وقت کی بھارتی وزیر برائے ترقی خواتین و اطفال اور اقلیتی امور، اسمرتی ایرانی نے اتر پردیش کے ضلع امیٹھی میں بوئنگ کی شراکت کے ساتھ دو نئے منصوبوں کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔

جسنتا نے مزید کہا، ”ایک شاعرہ کی حیثیت سے میں فلسطین کے بچوں، خواتین اور متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہتی ہوں۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے بچوں کے ادب کے اس ایوارڈ کو قبول کرنا میرے لیے مشکل ہے۔“

انہوں نے کہا، ”میں دیکھتی ہوں کہ فلسطین میں ہونے والی تباہی پر بھارت میں بہت سے لوگ خاموش ہیں۔ جس طرح ملک میں اقلیتوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے، اسی طرح فلسطین کے لوگوں کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ایک شاعرہ اور ادیبہ ہونے کے ناطے، یہ بات مجھے بھی پریشان کرتی ہے۔“

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے، مصنفہ جھمپا لہیری نے نیو یارک کے نوگوچی میوزیم کا ایوارڈ یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا تھا کہ انہوں نے تین ملازمین کو فلسطینی یکجہتی کی علامت کے طور پر کفیہ اسکارف پہننے پر برطرف کر دیا تھا۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ قبائلی مصنفہ جسنتا نے اخلاقی بنیادوں پر کسی ایوارڈ کو ٹھکرا دیا ہو، اس سے قبل بھی انہوں نے شمال مشرقی صوبے منی پور میں قبائلی جدوجہد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک اعزاز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

انہوں نے اُس وقت کہا تھا، ”یہ ایوارڈ ایسے وقت دیا جا رہا ہے، جب منی پور کے قبائلیوں کی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی ہے۔“

بچوں کے ادب پر مبنی ان کی کتاب ’جرہل‘ میں پھولوں پر نظمیں ہیں جو قبائلی علاقوں کے جنگلات میں لوگوں کی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ جسنتا کا کہنا ہے، ”میں نے یہ نظمیں سماجی و سیاسی شعور بیدار کرنے کے لیے لکھی ہیں، خصوصی طور پر ایسے وقت میں جب ملک میں بچے صرف گلاب اور کنول کے بارے میں پڑھ کر بڑے ہو رہے ہیں۔

جسنتا کیرکیٹا کون ہیں؟

جیسنتا کیرکیٹا ایک نوجوان شاعرہ، لکھاری اور آزاد صحافی ہیں، جو مغربی سنگھبوم ضلع کی ایک اوراؤں آدیواسی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ ہندی میں لکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے آدیواسی برادریوں کی زندگیوں اور مسائل کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا ہے۔ ان کی شاعری میں آدیواسی ثقافت، ان کی زمین سے جڑے مسائل، نقل مکانی، اور نظامی جبر کے موضوعات غالب ہیں۔ جیسنتا نے اپنی ابتدائی تعلیم سینٹ زیویئرز کالج، رانچی سے حاصل کی اور بعد میں رانچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا۔

وہ ایسی سیاسی شاعری کرتی ہیں جو بھارت کے آدیواسی لوگوں کے دکھ اور مزاحمت کو بیان کرتی ہے۔ ان لوگوں کو تاریخی طور پر حاشیے پر رکھا گیا ہے اور وہ موجودہ دور کی بربریت کا شکار ہیں، جہاں حکومتیں سرمایہ داری کے جنون میں مبتلا ہیں، جو ان کے مادی اور کائناتی دنیا کو تباہ کر رہی ہے۔

کیرکیٹا نے صحافت میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے، اور 2010 سے 2013 تک وہ ’دینک جاگرن‘ میں کام کرتی رہیں۔ ان کی شاعری اور صحافتی تحریریں بنیادی طور پر آدیواسی برادری کے حقوق، خاص طور پر خواتین اور بچوں کی تعلیم اور ان کے مسائل پر مرکوز ہیں۔ 2016 میں ان کا پہلا دو لسانی شاعری مجموعہ ’انگور‘ شائع ہوا، جسے ہندوستان اور جرمنی دونوں جگہوں پر سراہا گیا۔

جیسنتا کیرکیٹا نے آدیواسی معاشرت اور قدرتی ماحول کے ساتھ اپنے گہرے تعلق کو اپنی تخلیقات میں ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی ماں نے انہیں بچپن میں قدرتی دنیا سے جڑنے کا بھرپور موقع دیا، جس نے ان کی شاعری کو منفرد انداز دیا ہے۔

کیرکیٹا کو 2022 میں فوربس انڈیا نے ’ٹاپ 20 سیلف میڈ خواتین‘ کی فہرست میں شامل کیا، اور وہ کئی دیگر عالمی سطح کے ایوارڈز بھی جیت چکی ہیں۔

انہوں نے ایوارڈ حاصل کرنے والی کتاب ’جرہل‘ کے علاوہ سات دیگر کتابیں بھی تصنیف کی ہیں، جن میں انگور، ایشور اور بازار، جسنتا کی ڈائری اور لینڈ آف دی روٹس شامل ہیں۔

اپنے مختلف انٹرویوز میں جیسنتا کیرکیٹا اپنے بچپن، تعلیم، دورِ طالبِ علمی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں ”میں ایک گاؤں میں پیدا ہوئی جس کا نام ’خود پوش‘ ہے، جو کوئل ندی کے کنارے مغربی سنگھبوم ضلع میں واقع ہے۔ ہمارا گاؤں سراندا جنگل کے بہت قریب ہے، جو ایشیا کا سب سے بڑا سال جنگل ہے۔ میرے والد، جے پرکاش کیرکیٹا، اپنی جوانی میں ایک میراتھن ایتھلیٹ تھے، اور اسی کی وجہ سے انہیں پولیس محکمے میں نوکری ملی۔ اس عرصے کے زیادہ تر وقت ہم سنھتل پرگنہ علاقے میں گزارا کرتے تھے۔ میں نے مختلف مقامات پر اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ سنھتل پرگنہ کے ساتھ ساتھ، مجھے مغربی چمپارن ضلع (بہار) کے بیٹیا شہر میں بھی تعلیم ملی۔ 1999 میں ہم چکرادھار پور کے قریب چائباسہ آئے اور یہاں میں نے آٹھویں سے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔

جھارکھنڈ کے الگ ریاست بننے سے پہلے ہی میری والدہ نے دوبارہ خاندان کے ساتھ خود پوش گاؤں میں رہنا شروع کر دیا تھا۔ یہ صرف بیٹیا کے اسکول کے دنوں میں تھا، جب ہم سنھتل پرگنہ سے وہاں منتقل ہوئے تھے، کہ میں نے پہلی بار مین اسٹریم معاشرے کے لوگوں کا آدیواسیوں کے ساتھ رویہ محسوس کیا۔ میرا رنگ دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ گہرا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ اس وجہ سے بھی مجھے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن پھر میں نے ان چیزوں کے غصے کو اپنی تعلیم سے دور رکھا اور فیصلہ کیا کہ میں غیر آدیواسی بچوں کے ساتھ مقابلہ کروں گی۔ بیٹیا کے اسکول میں پہلی بار امتحانات کے دوران، میں اپنی کلاس میں دوسرے نمبر پر آئی، اور اس سے مجھے خود اعتمادی ملی۔ 1999 میں، جب میں چکرادھار پور کے کارمل ہائی اسکول میں آئی، تو ہاسٹل میں زیادہ تر لڑکیاں کولہان علاقے کی آدیواسی تھیں۔

میں نے دیکھا کہ اسکول میں اساتذہ اکثر آدیواسی لڑکیوں کو ایک بے حس چیز کی طرح سمجھتے ہیں، جیسے کہ مٹی کا ڈھیر۔ میں نے اس سوچ کو ختم کرنے کی قسم کھائی۔ میں نے اپنے لیے ایک مختلف شیڈول بنایا اور یقینی بنایا کہ ہاسٹل کے معمولات سے ہٹ کر میرے پاس اپنے لیے کچھ وقت ہو۔ میں نے اندرونی تبدیلی کی طرف کام کرنا شروع کیا۔ مثال کے طور پر، میں نے حسد، غصہ، اندرونی ردعمل اور سستی کو کم کرنے کی طرف کام کیا اور اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔

میں نے آدیواسی لڑکیوں کو امتحانات میں نقل کرنے سے روکا، تاکہ وہ ایمانداری اور وقار کے ساتھ اپنی محنت پر کھڑی ہو کر زندگی کا سامنا کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر اوقات میں، ہاسٹل میں آدیواسی لڑکیوں نے مجھے پسند نہیں کیا۔ لیکن میری محنت رنگ لائی، اور آٹھویں کلاس میں، میں ششماہی امتحان میں فرسٹ آئی۔ یہ ہاسٹل میں رہنے والی ایک آدیواسی لڑکی کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ غیر آدیواسی اساتذہ میری کامیابی پر خوش نہیں تھے اور وہ غصے میں تھے کہ میں نے غیر آدیواسی لڑکیوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ میں ان تمام تفصیلات کو نوٹ کیا کرتی تھی۔ میں آدیواسی اور غیر آدیواسی معاشروں کے اندرونی اور بیرونی حالات کا مشاہدہ کر رہی تھی۔

اپنی جوانی کے دوران، میں بہت زیادہ سوچا کرتی تھی، اور اسی لیے، میں زیادہ تر وقت اکیلی رہتی تھی۔ یہاں تک کہ جب میں بچی تھی، میرے زیادہ دوست نہیں تھے۔ لیکن جو بچے میرے قریب آئے اور میری مشکلات کو سمجھنے لگے، وہ ہمیشہ میرے قریب رہے۔ اور میں نے بچپن سے ہی بچوں کے حالات کو سمجھنا شروع کیا۔

میں نے چکرادھار پور کے کارمل ہائی اسکول کے وقت سے لکھنا شروع کیا۔ میں اکثر ’راہی‘ نامی ایک رسالے کے لیے لکھا کرتی تھی، جو رانچی سے شائع ہوتا تھا اور ملک کے کئی اسکولوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ مجھے ملک کے مختلف علاقوں سے، حتٰی کہ انڈمان اور نکوبار جزائر سے بھی بچوں کے خطوط موصول ہوتے تھے۔ یہ میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ اس نے مجھے یہ احساس دلایا کہ لکھنے سے بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو چھوا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ہم مختلف جگہوں پر رہتے ہیں، لیکن ہمارے حالات، جدوجہد، مشکلات، خواب، اور ہمدردی کی امیدیں ایک جیسی ہیں۔ اسی لیے میں لکھتی رہی۔

اسکول کے دنوں میں میرے کچھ قلمی دوست بھی بنے۔ مجھے دیگر ریاستوں کے طلباء سے بہت سے خطوط ملتے تھے، جن میں وہ کہتے تھے کہ انہیں میری کہانیاں اور نظمیں پسند آئیں۔ بہت سے طلباء کہا کرتے تھے کہ میری تحریر نے ان کے زندگی کے فیصلوں پر اثر ڈالا۔ اس ردعمل نے مجھے لکھتے رہنے کی ترغیب دی۔ میری تحریر کا آغاز ایک چھوٹی سی نظم سے ہوا، جس کا عنوان ’بچپن‘ تھا۔ پھر میں نے نوجوانوں کی حالت، خاندان کے اندر کے حالات وغیرہ کے بارے میں کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ میں نے تقریباً پانچ سال تک ’راہی‘ رسالے کے لیے مختصر کہانیاں لکھیں۔ کچھ طلباء جو میرے ساتھ بڑے ہوئے، آج بھی مجھے اس رسالے کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ یہ میرے اسکول کے دنوں کا سفر ہے۔“

اپنے صحافی بننے کے فیصلے کے بارے میں وہ بتاتی ہیں ”میں اسکول کے دور میں کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتی تھی۔ لیکن میں نے کبھی صحافت کے شعبے میں شامل ہونے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ 1999 میں، جب میں چکرادھار پور کے کارمل ہائی اسکول میں آٹھویں جماعت میں داخل ہوئی، میں اکثر اپنے گاؤں جایا کرتی تھی۔

اس وقت منوہار پور میں ایک واقعہ پیش آیا۔ ایک آدیواسی مرد اور ایک بوڑھی آدیواسی عورت جو اپنے کھیتوں میں کام کر رہے تھے، دس بیس غیر آدیواسی مسلح افراد کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کیا۔ آدیواسیوں کو پیٹا گیا، کھیت سے باہر سڑک پر گھسیٹ کر لایا گیا، اور اس شخص کو قتل کر دیا گیا۔ الزام لگایا گیا کہ ان دونوں نے بہتر فصلوں کے لیے ایک بچی کی قربانی دی تھی۔ اخبارات نے بھی یہی کہانی شائع کی۔

بعد میں، میرے والد کے پوچھنے پر، پولیس نے انہیں ایک راز کے طور پر بتایا کہ کسی نے اس لڑکی کا ریپ کیا اور اسے قتل کر کے اس آدیواسی شخص کے کھیت میں پھینک دیا، اور بعد میں دس بیس افراد کے ایک گروہ کے ساتھ آکر اس شخص کو قتل کر دیا، اس طرح کہانی کو ایک مختلف رخ دے کر بچ نکلے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اصل مجرموں کو کبھی سزا ملی یا نہیں، لیکن وہ بوڑھی عورت جیل میں ڈال دی گئی۔ جب وہ جیل سے باہر آئی، تو وہ مر گئی۔ میری ماں نے ہمیں اس واقعے کے بارے میں بتایا، اور تب میں نے جانا کہ متاثرین کوئی اور نہیں بلکہ میرے چچا اور دادی تھے، جو قتل ہو چکے تھے۔

میں یہ دل دہلا دینے والی داستان سن کر کانپ اٹھی۔ میری والدہ نے بتایا کہ پولیس مسلسل ہمارے گاؤں میں گشت کرتی رہتی تھی اور دیہاتی غم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ کسی غیر آدیواسی کو گاؤں میں داخل ہونے نہیں دے رہے تھے۔ والدہ نے مجھے بتایا کہ قاتل وہی غیر آدیواسی تھے جن سے میرے چچا کی دوستی تھی، اور وہ اکثر ہمارے گاؤں میں ہریا پینے آیا کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ میرے چچا کب کھیتوں میں ہوتے ہیں۔ جب میں نے اخبارات میں شائع ہونے والی خبر سنی تو میں نے سوچنا شروع کیا کہ ہماری کہانی کون لکھے گا۔ اخبار ان کا ہے۔ طاقت بھی انہی کے پاس ہے۔ اسی وقت میرے ذہن میں آیا کہ مجھے صحافت کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور اخبارات کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اسکول کے دوران ہی میں نے فیصلہ کیا کہ ساری زندگی میں اس حیثیت سے لکھنے کا کام کرتی رہوں گی، اور میں آج تک اس عزم کو نبھا رہی ہوں۔“

اپنی شعری سفر کے بارے میں جیسنتا آدیواسی کا کہنا ہے ”مجھے یہ کہنا مشکل ہے کہ میں شاعری تک کیسے پہنچی۔ لیکن یہ یقین ہے کہ یہ آٹھویں جماعت میں اس وقت شروع ہوئی جب میں نے اندرونی طور پر اپنے آپ کو دیکھنا شروع کیا۔ ساتویں جماعت میں میں بہت بیمار تھی۔ اس کے بعد مجھے بورڈنگ اسکول بھیجا گیا۔ وہیں میں نے خود سے یہ سوالات پوچھنا شروع کیے: میں نے آخری بار کب خوشی محسوس کی تھی؟ میرے اندر اتنی بے چینی کیوں ہے؟ آدیواسی بچوں کو ہمیشہ اسکول میں اچھے نمبر نہ لانے پر کیوں ذلیل کیا جاتا ہے؟ میرے والد اور والدہ کے تعلقات کیوں اچھے نہیں ہیں؟ ان حالات میں بچے کن ذہنی حالتوں سے گزرتے ہیں؟ جب میں نے اندر سے یہ سوالات خود سے پوچھنا شروع کیے، تو پہلے میں نے چھوٹی کہانیاں اور مضامین لکھنے شروع کیے۔ پھر آہستہ آہستہ مجھے محسوس ہوا کہ نظمیں اچانک تتلیوں کی طرح ابھرتی ہیں۔ ان کے ساتھ اندر میرے اندر ایک ہلکا پن آتا تھا۔ جب وہ آتیں، تو میں اپنے جسم میں ایک نئی توانائی محسوس کرتی تھی۔ اسی وجہ سے، شاعری میرے دل کے قریب رہی۔

بعد میں، بچپن کے یہ سوالات وسیع تر سماج کے مدنظر دوبارہ ابھرے۔ مختلف علاقوں کے دوروں کے ذریعے، میں نے آدیواسیوں کی جدوجہد کے بارے میں جانا، ان کے درد کو محسوس کیا، اور سماج میں ریاست اور طاقت کے تعلقات کا بغور مشاہدہ کیا اور سمجھا۔ اس طرح نظمیں خود اپنے طریقے سے نکھرتی چلی گئیں۔ یہی میری شاعری کا سفر رہا۔

”میری پہلی نظم میری والدہ اور بچپن کے بارے میں تھی جس کا عنوان تھا ’بچپن‘۔ یہ ایک چھوٹی سی نظم تھی جو پہلی بار 1999 میں راہی میگزین میں شائع ہوئی۔ یہ میری پہلی اشاعت تھی اور اس نے مجھے مزید لکھنے کی ترغیب دی۔ اس نظم کا میرے اپنے بچپن اور خاندانی صورتحال سے گہرا تعلق تھا۔ میرے والدین کے تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔ میرے والد اکثر شراب پیتے اور والدہ سے لڑتے۔ لیکن ہم بہار میں مرکزی دھارے کی سوسائٹی میں رہ رہے تھے اور ہمارے گھریلو حالات میں بھی بہت سی بری چیزیں داخل ہو رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ، میرے والد بھی دوسرے مردوں کی طرح خواتین کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرنے لگے، جیسے یہ کہ عورتیں اپنے شوہر کے بعد ہی کھانا کھائیں، اور مردوں سے بات نہ کریں۔ یہ سب اصول ہماری گھر کی لڑکیوں کو بھی اپنانا پڑے۔ ایک طرف میرے والد پولیس میں آدیواسی ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرتے تھے اور اس کے خلاف لڑتے تھے، رشوت کے خلاف بھی لڑتے تھے اور انہی وجوہات کی بنا پر انہوں نے اپنی نوکری چھوڑ دی۔ لیکن دوسری طرف، کسی طرح انہوں نے خواتین کے ساتھ وہ سلوک اپنایا جو اس سوسائٹی میں صنفِ نازک کے طور پر کیا جاتا ہے۔ میں نے یہ سب دیکھا۔

پھر میرے بڑے بھائی نے بھی وہی رویہ اختیار کیا۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم کو تسلیم نہیں کرتا تھا، اور اس بات کے خلاف تھا کہ لڑکیاں گھر سے باہر نکلیں، اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور لڑکوں سے بات کریں۔ اس کے نتیجے میں وہ تشدد کا سہارا لینے لگا۔ یہ واقعات میرے اندر گہرا اثر چھوڑ گئے۔ ہم اس ماحول میں پل بڑھ رہے تھے اور ساتھ ہی اس سے نمٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہی وہ چیزیں تھیں جن کی وجہ سے میں نے لکھنا شروع کیا۔ ساتھ ہی میں نے یہ بھی سمجھنا شروع کیا کہ کس طرح مرکزی دھارے کی سوسائٹی کے منفی اثرات آدیواسی کمیونٹیز پر پڑ رہے ہیں۔ میری والدہ ہمیشہ لڑکیوں کی تعلیم کو بہت اہمیت دیتی تھیں اور ہماری تعلیم کے لیے بہت جدوجہد کی۔

’اے اجداد کی روحو! اب ہم کیسے بچیں؟ وقت کی سازشوں سے، جو بھڑکتی ہوئی زمین سے اٹھتی ہیں؟ جہاں سب کچھ آہستہ آہستہ جل رہا ہے، ہوا، جنگلات، اور مٹی، اور انسان — جسم میں اور ذہن میں؟‘

اپنے مطالعے کے بارے میں وہ بتاتی ہیں ”میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں شاعری لکھوں گی۔ اسی لیے بچپن سے میں نے زیادہ نظمیں نہیں پڑھیں۔ میں کہانیاں پڑھتی تھی کیونکہ کہانیوں کی کتابیں لائبریری میں دستیاب تھیں۔ لیکن میری ماں نے مجھے بچپن میں کتابوں سے ہٹ کر دریا، جنگل، پہاڑ اور گاؤں میں گھومنے پھرنے کی بہت آزادی دی۔ بچپن میں مجھے زندگی کو قریب سے دیکھنے اور جینے کے بہت مواقع ملے۔ پورا گاؤں ہمارا گھر تھا۔ ہمارے پاس کئی خاندان تھے۔ ہر خاندان میں نئے والدین مل جاتے تھے۔ ایک ایسے آدیواسی گاؤں کی سوسائٹی میں رہنے کے بعد، میں ایک اور سوسائٹی میں بھی آ گئی، جہاں ہمیں آدیواسی ہونے کی وجہ سے نیچا سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے رنگ کی وجہ سے بھی۔ ذات، مذہب، ہر چیز کے بارے میں۔ میں نے دیکھا کہ خواتین کی زندگی اور بھی مشکل تھی۔ ان دونوں سوسائٹیوں کو دیکھ کر میں نے اپنے والدین اور بھائیوں کو ان تمام حالات کے بیچ میں جدوجہد کرتے دیکھا۔ میں نے بچپن سے ہی سماج کا بغور مشاہدہ کرنا شروع کیا، خواتین، بچوں اور سب کا۔ میں نے آٹھویں جماعت میں بورڈنگ اسکول جانے کے بعد شاعری لکھنی شروع کی۔ شاید نظمیں میری ماں، دریا، جنگل، پہاڑ اور لوگوں کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی یاد سے شروع ہوئیں۔

کافی عرصے بعد، میں نے کچھ ہندی شاعروں کو پڑھا۔ پھر میں نے کچھ وقت کے لیے شاعری پڑھنا چھوڑ دیا تاکہ دیکھ سکوں کہ میرے اندر کس شکل میں شاعری کا بہاؤ ہوتا ہے اور یہ کس شکل اور رنگ میں مجھ سے گزرتی ہے۔ جس بھی شکل میں یہ آتی ہے، وہ ویسے ہی قلم بند ہو جاتی ہے۔ اور شاعری اسی طرح جاری رہی۔ جب میری شاعری کا مجموعہ شائع ہوا، تو میں نے کئی نئے اور پرانے شاعروں کو پڑھنا شروع کیا۔“

مصنفہ کے طور پر اپنی روداد سفر بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ”2013 سے میں نے اخبارات کے لیے بطور صحافی کام کرنا چھوڑ دیا تھا، لیکن میں آزاد، فری لانس صحافی کے طور پر کام کرتی رہی۔ میں سفر کرتی رہی اور لکھتی بھی رہی۔ گلیل ڈاٹ کام نے میری چند تحریریں شائع کیں، ایک رپورٹ تہلکہ میں بھی شائع ہوئی، اور دیگر جرائد اور میگزینز میں بھی۔ 2014 میں مجھے یو این ڈی پی فیلوشپ ملی، جس کے بعد میں سانتھال پرگنہ سے باہر جھارکھنڈ کے دیگر دیہاتوں کا سفر کرنے لگی۔ اس دوران میں مسلسل نظمیں لکھ رہی تھی۔ لیکن اب میری نظموں میں صرف ماں ہی مرکزی موضوع نہیں رہی، بلکہ آدیواسی کمیونٹی کی جدوجہد، ان پر ہونے والے مظالم اور ان کی تاریخ بھی شامل ہو گئی۔ اس سے پہلے میں نے چھ ماہ کا تحقیقی پروجیکٹ کیا تھا اور اپنے تین دوستوں کے ساتھ جھارکھنڈ کے تمام اضلاع کا دورہ کیا تھا۔

2014 میں، بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے پروفیسر اور دو سالانہ ادبی میگزین ’پریچے‘ کے مدیر، شری پرکاش شکلا، رانچی آئے تھے۔ جب انہوں نے میری نظمیں سنیں، تو انہوں نے انہیں ’پریچے‘ میں شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ 2014 میں، ’پریچے‘ میں میری آٹھ نظمیں شائع ہوئیں۔ اس کے بعد پانچ نظمیں ’نیا گیانودے‘ جریدے میں شائع ہوئیں، جو بھارتیہ گیانپیتھ سے شائع ہوتا ہے۔

اسی سال ایک سیمینار میں میں نے کچھ نظمیں پڑھیں، جس کا اہتمام جرمنی کی ایک آدیواسی یکجہتی تنظیم نے کیا تھا۔ وہاں مجھے دو ناشر ملے، ایک بھارت سے اور دوسرا جرمنی سے۔ انہوں نے نظمیں سن کر انہیں شائع کرنے کی تجویز پیش کی۔ اور 2016 میں، پہلی دو لسانی ہندی/انگریزی شعری مجموعہ ’انگور‘ (انگاری) آدیوانی، کولکتہ نے شائع کیا اور ہندی/جرمن مجموعہ ’گلٹ‘ ڈراوپدی ورلاگ نے ہائیڈلبرگ سے شائع کیا۔ 2017 میں، یہ مجموعہ ہندی اور اطالوی زبان میں دو لسانی طور پر شائع ہوا اور 2020 میں ہندی اور فرانسیسی میں شائع ہوا۔ اسے اطالوی میں ’میراگی ایڈیزونی‘ نے شائع کیا۔ ناشر کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے دورے پر تھا۔ جھارکھنڈ کے ایک ڈاکیومنٹری فلم ساز میگھ ناتھ نے انہیں میری پہلی شعری مجموعہ تحفے میں دیا۔ وہ اسے ٹرین میں پڑھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے اسے اطالوی زبان میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ واپسی پر وہ ایک مترجم کی تلاش کرنے لگے۔ پھر ان کی ملاقات الیساندرا کونسولارو سے ہوئی، جو یونیورسٹی آف ٹورین میں پروفیسر تھیں اور پہلے ہی اس مجموعے کا ترجمہ مکمل کر چکی تھیں اور ایک ناشر کی تلاش میں تھیں۔ اسی طرح یہ کتاب شائع ہوئی۔ ’انگور‘ کو فرانسیسی میں "ایڈیشنز بانیان” نے شائع کیا ہے۔

دوسرا مجموعہ ’جڑوں کی زمین‘ 2018 میں بھارتیہ گیان پیٹھ، نئی دہلی سے ہندی/انگریزی اور ہندی/جرمن زبانوں میں شائع ہوا۔ تیسری شعری مجموعہ ’ایشور اور بازار‘ 2022 میں راج کمل پبلیکیشنز، نئی دہلی سے ہندی میں شائع ہوا۔

2021 سے، میں نے بچوں کے لیے لکھنا شروع کیا۔ جیسنٹا کی ڈائری 2023 میں جگنو پبلیکیشنز آف ایکتارا ٹرسٹ، بھوپال نے ہندی زبان میں شائع کی، جس میں دیہات، جنگلات اور پہاڑوں سے متعلق سفرنامے، ڈائریاں اور چھوٹی نظمیں شامل ہیں۔ اسے اس انداز میں لکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ مل کر انہیں پڑھ سکیں اور محسوس کر سکیں۔

جیسنتا کیرکیٹا اپنے پسندیدہ شعراء کے متعلق بتاتی ہیں ”ہندی شاعر ونود کمار شکلا، شاعر کیدار ناتھ سنگھ، شاعر چندرکانت دیوتالے، نوجوان شاعر انوج لُگُن نے ابتدا میں مجھ پر اثر ڈالا۔ لیکن اس کے بعد، آدیواسیوں کی زمین پر جدوجہد کرنے والی زندگی، آدیواسی نقطۂ نظر، عام لوگوں کی حکمت، ان کی شاعری جیسی گفتگو نے حقیقی معنوں میں میری شاعری کو جڑ پکڑنے کی طاقت دی۔ نچلی سطح کے لوگ جو خود شاعری جیتے ہیں، میں صرف انہیں لکھتی ہوں۔ وہی میرے لیے تحریک کا ذریعہ ہیں۔“

اس سوال پر کہ آپ کس کے لیے لکھتی ہیں؟ انہوں نے کہا، ”میں اپنے اندر لوگوں کو محسوس کرتی ہوں۔ میں ان سے متاثر ہوتی ہوں۔ میں ان لوگوں کی زندگیوں کو دیکھتی ہوں جو شاعری کی طرح جیتے ہیں۔ میں انہیں لکھتی ہوں، صرف ان کے لیے، تاکہ وہ خود کو ان نظموں میں دیکھ سکیں اور پہچان سکیں۔

معاشرے میں ہر شخص دوسروں کے بارے میں سب کچھ نہیں جانتا۔ لیکن جو غالب ہوتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اور ان کی ہر بات صحیح ہے۔ لیکن یہ مکمل حقیقت نہیں ہے۔ کئی ایسی سچائیاں اور پہلو ہیں جن کے بارے میں ہر کوئی سب کچھ نہیں جانتا۔ جیسے آدیواسیوں کے خلاف ایک تعصب کام کرتا ہے۔ جو لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کے نامعلوم پہلوؤں کو نظموں میں دیکھ سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں اور آگاہ ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے میں لکھتی ہوں۔“

آج کی دنیا میں شاعری کا کردار کے حوالے سے جیسنتا کیرکیٹا کہتی ہیں ”فن اور ادب نے لوگوں کو تنگ نظری سے بچایا ہے اور انہیں اندر سے مکمل طور پر مرنے سے بچایا ہے۔ نظموں نے ہمیشہ لوگوں کی روحوں کو چھونے کی کوشش کی ہے، چند الفاظ میں ان کے دبے ہوئے احساسات کو بیدار کیا ہے، اور انہیں کچھ محسوس کروانے کے ساتھ ساتھ ان کے دماغ کو جھنجھوڑنے کی بھی کوشش کی ہے۔ زندگی کا فلسفہ نظموں میں موجود ہے جو بار بار لوگوں کو ان کی جڑوں سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے، ان کے اندر کی انسانیت کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شاعری لوگوں کو حدود سے آگے دیکھنے کا راستہ دیتی ہے۔ اس لیے جو لوگ اس سے جڑتے ہیں وہ کسی بھی حدود تک محدود نہیں رہتے۔ نظموں میں لوگوں کے دلوں تک سخت سچائیاں بڑی خوبصورتی اور نرمی سے پہنچائی جاتی ہیں اور انہیں آگاہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ دنیا میں بہت سے لوگوں کی اجتماعی انسانیت کا بیدار ہونا ضروری ہے۔ آج کے وقت میں اس کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close