فریبِ نظر (ایرانی ادب سے منتخب افسانہ)

ابراہیم گلستان (ترجمہ: ڈاکٹر بصیرہ عنبیرین)

آدمی مچھلیوں کی طرف متوجہ تھا۔ مچھلیاں شیشے کے پیچھے ساکت اور معلق تھیں۔ شیشے کے عقب میں ان کے لیے پتھر کی سِلوں کے درمیان ایک تالاب بنایا گیا تھا جو کافی وسیع تھا۔ اس کی منڈیریں ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر واقع تھیں اور یہ فاصلہ نیم تاریکی میں کہیں آگے تک جا رہا تھا۔ آدمی کے سامنے کی منڈیر بھی شیشے کی تھی۔ نیم تاریکی سے ہوکر گزرنے والا یہ راستہ ایک غار کے مانند تھا، جس کی دونوں اطراف میں شیشے ہی کی دیواریں تھیں جن میں سے ہر ایک دیوار میں پانی بھر دیا گیا تھا اور یوں یہ قسم قسم کی رنگ برنگ مچھلیوں کی نمایش گاہ بن گئی تھی۔ ہر ایک تالاب کے اُوپر کی طرف سے روشنی پہنچانے کو انتظام کیا گیا تھا۔ یہ روشنی براہِ راست تو نہ دیکھی جاسکتی تھی، تاہم اس کی جھلک تالاب میں ضرور پڑتی تھی۔ وہ آدمی اب بیٹھ چکا تھا اور مچھلیوں کو اس ٹھنڈی اور ساکت و جامد روشنی میں دیکھ رہا تھا۔

مچھلیاں شیشے کے پیچھے ساکت اور معلّق تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ مچھلیاں نہیں، پرندے ہیں اور پنکھوں کو پھڑ پھڑائے بغیر فضا میں گھوم رہے ہیں۔ بلکہ یوں لگتا تھا کہ وہ ہوا میں معلق ہیں۔ اگر کبھی کبھار تالاب میں کوئی بلبلہ ابھرتا تو غالباً یہ محسوس بھی نہ ہوتا کہ وہ پانی میں ہیں یا فضا میں۔۔۔ اس کے سامنے پانی میں ابھرنے والے یہ بلبلے تھے اور ان مچھلیوں کے پروں کی اس قسم کی سست اور خاموش حرکات۔۔۔ دفعتاً اس آدمی نے اپنے سامنے کے اس محیط کی تہ میں دو مچھلیوں کو دیکھا جو بالکل ساتھ ساتھ تھیں۔

دو مچھلیاں جو زیادہ بڑی نہ تھیں اور بالکل ساتھ ساتھ موجود تھیں ۔ اس وقت ان کے سر ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے تھے اور ان کی دُمیں ایک دوسرے سے جُدا تھیں۔۔۔۔ اور وہ اسی حالت میں گھوم رہی تھیں۔ اچانک انہوں نے تیزی سے حرکت کی اور اوپر کی طرف چل دیں۔ پھر راستے ہی میں ایک چکّر کاٹا اور دوبارہ نیچے آگئیں۔۔۔۔۔ غالباً وہ چاہتی تھیں کہ ایک دوسرے کو بوسہ دیں۔۔۔۔ لیکن اچانک وہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئیں اور قدرے بے کل سی ہو گئیں۔ وہ اسی طرح کبھی اُوپر جاتیں تو کبھی لوٹ آتیں۔

آدمی یہیں بیٹھ گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ سب محض اس ایک لحظہ میں مشاہدہ کی گئی بات نہیں ہے۔ ہر مچھلی اپنے لیے تیرتی ہے اور چکّر لگانے اور پانی میں آنے جانے کا اپنا ہی ایک سادہ اور سہل انداز رکھتی ہے۔ اس سے ہٹ کر دوسرے تالابوں میں بھی، اور تالابوں سے باہر کی دنیا میں بھی، جنگلوں میں گلیوں میں، مچھلی، پرندے اور انسان کو بھی اس نے دیکھ رکھا تھا۔۔۔ اور پھر آسمان پر ستاروں کو بھی دیکھا تھا کہ جو گردش کرتے ہیں، مدام چلتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔ مگر ایسی موافقت کے ساتھ کسی کو حرکت کرتے ہوئے ہر گز نہ دیکھا تھا۔ خزاں میں پتّے بھی اس طرح مل کر نہیں گرتے اور نہ ہی نوروز کا سبزہ گملوں میں اس طرح ایک ساتھ اُگتا ہے اور ستاروں کا ٹمٹمانا بھی تو اتنا ہم آہنگ نہیں ہوتا، البتہ بارش، ہاں شاید بارش اپنے قطروں کے تار کو یکدم برساتی ہے اور شاید سمندر کے اوپر آبی بخارات بھی ایک ہی لمحے میں اُٹھتے ہیں۔۔۔۔۔ مگر اس نے ایسا رنگ ڈھنگ نہ دیکھا تھا، واقعی اس طرح کسی کو نہ دیکھا تھا۔

یہ دونوں مچھلیاں اس حد تک ایک دوسرے میں پیوست، ہموار اور یکساں تھیں کہ گویا محرم راز بن گئی تھیں۔ ان کی یہ ہم آہنگ گردش ہم دم ہونے کی وجہ تھی یا پھر یہ قربت یکساں گردش کے باعث وجود میں آئی تھی۔۔۔۔ یا پھر شاید وہ ہم زاد تھیں۔ مگر کیا مچھلی بھی اپنا کوئی ہم زاد رکھتی ہے؟وہ سوچ میں ڈوب گیا۔۔۔۔۔

آدمی ان مچھلیوں کی آوازیں تو نہیں سن رہا تھا لیکن اسے یہ سوچنا بہت لطف دے رہا تھا کہ مچھلی بھی کوئی آواز رکھتی ہے، یا پھر سماعت کے لیے کان، تاکہ ایک مچھلی دوسری سے اس کی لَے اس حد تک قبول کر لے، مگر ان کی طرح دوسری مچھلیاں ایسا کیوں نہیں کرتیں؟

اسی اثنا میں ایک بوڑھی عورت ایک ننھے بچے کا ہاتھ تھامے اندر داخل ہوئی اور تالاب کے سامنے مچھلیوں کا نظارہ دیکھنے کے لیے کھڑی ہو گئی۔ بے دھیانی میں وہ آدمی کے اس منظر کے آگے کھڑی ہو گئی۔ عورت بچے کو بڑی توجہ سے انگلی کے اشارے سے مچھلیاں دکھا رہی تھی۔ آدمی بے چین ہو کر اٹھا اور منظر دیکھنے کے لیے تالاب کی طرف بڑھ گیا۔ مچھلیاں بہت خوب صورت تھیں، ان کی رفتار بہت آزاد اور سبک تھی اور تالاب میں بہت اچھی روشنی بھی ہو رہی تھی۔۔۔ یوں یہ سب کچھ مل کر ایک نہایت لطیف اور ہلکا پھلکا احساس پیدا کر رہا تھا۔

عورت اپنی انگلی کے اشارے سے بچے کو مچھلیوں کا یہ دل کش منظر دکھا رہی تھی۔ تبھی اس کے دل میں یہ خواہش جاگی کہ کیوں نہ وہ بچے کو کچھ اونچا کرے تاکہ وہ یہ بہتر طور پر سب کچھ دیکھ سکے، لیکن ضعیفی کے سبب اُس سے ٹھیک طور پر بچے کو اٹھایا نہ گیا۔

آدمی نے اخلاقاً آگے بڑھ کر بچے کو بازوؤں سے پکڑا اور فضا میں بلند کر دیا۔ معمر عورت ممنونیت سے بولی، ”شکریہ، جناب!“

تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ آدمی نے بچے سے کہا: ”اُن دو مچھلیوں کو دیکھو، ایک دوسرے کے ساتھ تیرتی کتنی خوب صورت لگ رہی ہیں۔“

وہ دونوں مچھلیاں اب ایک دوسرے کے سینہ بہ سینہ پانی میں معلق تھیں اور ان کے ننھے ننھے پَر نہایت نرمی اور یکساں اتار چڑھاؤ سے سطح آب پر حرکت کر رہے تھے۔ تالاب کی انتہا کی نرم روشنی علی الصبح کے خواب کی سی معلوم ہو رہی تھی اور اس کے اندر نصب کی گئی پتھر کی سِل کو ایک بلبلے کی صورت دکھا رہی تھی۔۔۔۔ نہایت صاف شفاف، پُر سکون اور ہلکا پھلکا سا بلبلہ۔۔۔ کبھی کبھار وہ دونوں مچھلیاں ایک دوسرے سے دُور ہوتیں تاکہ پھر سے ایک دوسرے کے نزدیک ہو جائیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پھسلیں۔

آدمی نے بچے سے کہا، ”دیکھو تو وہ دونوں کس خوب صورتی سے ایک دوسرے کے ساتھ تیر رہی ہیں۔“

بچے نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا، ”کون سی دو؟“

آدمی نے کہا، ”وہ دو بھئی۔۔۔۔۔ میں اُن دونوں کے متعلق کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔ اُن دونوں کی طرف دیکھو۔“ اور اپنی انگلی سے تالاب کی شیشے سے بنی اس منڈیر پر چوٹ ماری، جس پر کسی نے سوئی یا کیل سے کوئی یادگاری تحریر لکھ رکھی تھی۔

بچہ تھوڑی دیر کے بعد بولا، ”وہ دو تو نہیں ہیں۔“

آدمی نے کہا، ”وہ دو بھئی، ہاں۔۔۔۔ ہاں، وہ۔۔۔۔۔۔ وہ دو۔۔۔“

بچے نے کہا، ”وہی نا! وہ دو تو نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک دوسری کی پرچھائیں ہے کہ آئینے میں اس کا عکس پڑ رہا ہے۔“

آدمی نے قدرے توقف کے بعد بچے کو زمین پر اتارا اور فی الفور دوسرے تالابوں کی مچھلیوں کو دیکھنے چل دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close