محوِ حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔۔ 2030 کی دنیا کا متوقع منظرنامہ

ویب ڈیسک

2030 تک، دنیا میں یقینی طور پر بڑی تبدیلیاں آئیں گی، ٹیکنالوجی اور ثقافت دونوں میں۔۔ خاص طور پر، پچھلے 20 سالوں کی نسبت ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔

تو آئیں دیکھتے ہیں کہ کون سے رجحانات جاری رہیں گے، کون سے ختم ہو جائیں گے، اور سب کچھ کیسے آگے بڑھے گا۔

ایک بڑا رجحان، جو 2030 تک جاری رہنے کی توقع ہے، وہ ٹیکنالوجی کا ہماری روزمرہ کی زندگی میں بڑھتا ہوا انضمام ہے۔

اسمارٹ گھر، خود کار گاڑیاں، اور ورچوئل ریئلٹی اس کی چند مثالیں ہیں، اور یہ رجحانات آنے والے سالوں میں مزید تیز ہو جائیں گے۔

جیسے جیسے ٹیکنالوجی ہر جگہ موجود ہوگی، یہ مزید ذاتی نوعیت کی بھی ہو جائے گی، اور آلات و خدمات انفرادی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق ڈھل جائیں گے۔

یہ تیز رفتار ترقی اور ذاتی نوعیت کا عمل کئی منفی پہلو بھی لائے گا، کیونکہ معاشرہ مزید تنہائی کا شکار ہو جائے گا اور لوگ جنسی عدم دلچسپی کا شکار ہو جائیں گے، جس کی تفصیل آگے دی جا رہی ہے۔

ایک اور شعبہ جو 2030 تک بڑی تبدیلیوں کا شکار ہوگا، وہ روزگار کی منڈی ہے۔

آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت پہلے ہی بہت سی صنعتوں کو تبدیل کر رہے ہیں، اور یہ رجحان جاری رہے گا۔ بہت سے کام ختم ہو جائیں گے، جب کہ نئے بھی سامنے آئیں گے، یہ عمل ایک ہی رفتار سے نہیں ہوگا۔ یعنی جتنی نئی پیدا ہوں گی، اس سے زیادہ ملازمتیں ختم ہوں گی۔

اس صورتحال میں ’گِگ اکانومی‘ کی اہمیت بڑھے گی، جس میں زیادہ لوگ روایتی 9-5 ملازمتوں کی بجائے فری لانس یا کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کریں گے۔ اس سے موجودہ اقتصادی، کیریئر، اور ریٹائرمنٹ کے ماڈل میں مکمل تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔

شاید 2030 تک نہیں، لیکن اگلے 20 سالوں میں، موجودہ اقتصادی ماڈل کو یا تو تبدیل کرنا ہوگا یا یہ مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ ڈیل کی رپورٹ کے مطابق، 2030 تک 85% موجودہ ملازمین مکمل طور پر نئے پیشوں میں مصروف ہوں گے۔

تو آئیں ہم 2030 میں ہماری زندگیوں اور معاشرت کے بیشتر پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔

آبادی کے اعداد و شمار اور رجحانات

دنیا کی آبادی کا تخمینہ 2030 تک 8.5 ارب تک پہنچ جائے گا، جو اس وقت لگ بھگ 8.2 ارب ہے۔ یہ اضافہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک، بالخصوص افریقہ اور ایشیا میں ہوگا۔

بھارت نے پہلے ہی 2023 میں چین سے پہلا مقام چھین لیا ہے، اور توقع کی جاتی ہے کہ 2030 تک یہ مقام برقرار رہے گا۔

دوسری طرف، جیسے ہم نے پچھلے برسوں اور دہائیوں میں مشاہدہ کیا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں کمی جاری رہے گی، خاص طور پر جاپان اور مغربی یورپ کے ممالک میں۔

لہٰذا، اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2030 تک دنیا میں ہر چھ میں سے ایک شخص 65 سال سے زیادہ عمر کا ہوگا۔ یہ بہت سے مختلف پہلوؤں سے تشویشناک ہے، کیونکہ معاشرہ صرف اس وقت پھلتا پھولتا ہے جب ہر چیز، بشمول آبادی، مسلسل بڑھتی ہے۔ اگر آبادی کم ہوتی ہے تو دیگر چیزیں بھی کم ہونے کا امکان ہے، خاص طور پر معیشت۔

سب جانتے ہیں کہ ہم نے ایک ایسا معاشرہ بنایا ہے، جہاں بنیادی توقع مسلسل ترقی ہے۔ بنیادی طور پر، جدید معاشرے میں چند سہ ماہیوں میں کوئی ترقی نہ ہونا بڑے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب کہ کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ دنیا کی بڑی آبادی مسئلہ ہے، دیگر، جیسے ایلون مسک، کا خیال ہے کہ آبادی میں کمی انسانیت اور معاشرت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

ہم دیکھیں گے کہ کون صحیح ہے، لیکن جدید ممالک میں شرح پیدائش میں کمی وہ مسئلہ ہے، جس کا انسانیت نے پہلے کبھی سامنا نہیں کیا۔

 2030 تک تکنیکی ترقیات

مصنوعی ذہانت:
2030 میں، مصنوعی ذہانت (AI) آج سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوگی۔ اے آئی ہماری روزمرہ زندگی کے مختلف پہلوؤں میں زیادہ مربوط ہو جائے گی، جیسے اسمارٹ گھر اور خود کار گاڑیاں۔

2030 تک، ہمارے پاس ChatGPT 5.0 اور شاید 6.0 یا یہاں تک کہ 10.0 بھی ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ اے آئی AI کے ماڈلز آج کے مقابلے میں 1000 گنا یا 1000000 گنا زیادہ ہوشیار ہوں گے۔

2030 تک، توقع کی جاتی ہے کہ AI عالمی معیشت میں 15.7 ٹریلین ڈالر کا حصہ ڈالے گی۔

یقینی طور پر، 2030 تک پہنچنے میں ابھی چند سال باقی ہیں، لیکن ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اے آئی معاشرے کے ہر پہلو میں داخل ہو جائے گی۔

کوئنٹم کمپیوٹنگ:
کوئنٹم کمپیوٹنگ بہت سی صنعتوں میں ایک نیا موڑ لے آئے گی۔ اپنی بے مثال رفتار سے انتہائی پیچیدہ حسابات کرنے کی صلاحیت کے ساتھ، کوئنٹم کمپیوٹنگ فنانس، لاجسٹکس اور کرپٹوگرافی جیسے شعبوں میں انقلاب برپا کرے گی۔

2030 تک، توقع کی جاتی ہے کہ کوئنٹم کمپیوٹنگ کاروباروں اور محققین کے لیے زیادہ قابلِ رسائی ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں نئی ​​ترقی سامنے آئے گی۔

یہاں ایک دلچسپ حقیقت کا ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ 2019 میں، گوگل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ’کوئنٹم سپریمیسی‘ حاصل کر لی ہے، یعنی ایک ایسا حساب انجام دیا جسے دنیا کا سب سے طاقتور سپر کمپیوٹر 10,000 سال میں مکمل کرتا، صرف 200 سیکنڈ میں۔

ورچوئل ریئلٹی:
بدقسمتی سے 2030 تک ورچوئل ریئلٹی بے تحاشا ترقی کرے گی۔۔ لیکن ہم اسے بدقسمتی کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیونکہ ماہرین کے مطابق لوگوں پر اس کے کئی منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر، اگر ورچوئل ریئلٹی اتنی سستی ہو جاتی ہے کہ ہر شخص اسے خرید سکے، تو لوگ پورا دن اپنے گھروں میں رہ کر گیمز کھیلتے رہیں گے یا اپنے ورچوئل ’پارٹنر‘ کے ساتھ ’مل جل‘ رہے ہوں گے۔ جی ہاں، 2030 تک ورچوئل AI گرل فرینڈز اور بوائے فرینڈز بہت عام ہو جائیں گے۔۔

یہ صورتحال انسانی تعلقات کو بری طرح تبدیل کر سکتی ہے، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے۔

دوسری طرف، ورچوئل ریئلٹی تعلیم، انجینئرنگ، اور طب جیسے کئی شعبوں میں بہت مددگار ثابت ہوگی۔

یہ معاشرت پر زیادہ مثبت اثر ڈالے گی یا منفی؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔۔ لیکن زیادہ امکان ہے کہ لمبے عرصے میں یہ معاشرتی تعلقات اور دماغی صحت پر منفی اثرات ڈالے گی۔ بالکل جیسے سوشل نیٹ ورکس لوگوں کی ڈپریشن پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ ورچوئل رئیلٹی کی صورت میں یہ اثرات 100 گنا زیادہ ہوں گے۔

2030 میں جنسی عدم دلچسپی

ورچوئل ریئلٹی کے عروج کے ساتھ، بہت سے لوگ بغیر جسمانی رابطے کے اپنی جنسی اور رومانوی خواہشات پوری کرنے کا فیصلہ کریں گے۔

مزید یہ کہ مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس میں ترقی حقیقی جیسے جنسی گڑیا اور روبوٹس کے تخلیق کی طرف لے جائے گی، جس سے انسانی جنسی سرگرمیوں میں مزید کمی واقع ہو سکتی ہے۔

رومانوی تعلقات اور جنسیت کے حوالے سے اعداد و شمار ناقابلِ یقین ہیں۔۔ آئیے چند مثالوں پر نظر ڈالتے ہیں:

* تازہ ترین پیو ریسرچ کے مطابق، 60 فیصد سے زیادہ نوجوان مرد اس وقت غیر شادی شدہ ہیں!
* مردوں میں ٹیسٹوسٹیرون کی سطح میں گزشتہ 50 سالوں سے نمایاں کمی ہو رہی ہے!
* جنسی عدم دلچسپی والے مردوں کی تعداد 10 سالوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے!
•آج 44 فیصد Gen Z مرد بتاتے ہیں کہ انہیں اپنی نوعمری کے سالوں میں کوئی رومانوی تجربہ نہیں ہوا!
* 20 کی دہائی میں مرد خواتین کے مقابلے میں زیادہ رومانوی تعلقات سے دور، جنسی طور پر غیر فعال، دوستوں سے محروم، اور تنہا ہیں!
* صرف امریکہ کی بات کی جائے تو 18 سے 34 سال کے درمیان کے نصف سے زیادہ امریکیوں کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی مستقل رومانوی ساتھی نہیں ہے!

اور اس کا سادہ نتیجہ یہ ہے:
اگر یہ پہلے ہی ہر سال تیزی سے ہو رہا ہے، تو یہ 2030 تک اور اس کے بعد بھی جاری رہے گا بلکہ اس میں اضافہ ہوگا۔

دلچسپ حقیقت: شکاگو یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق، 2008 سے ہر سال بغیر جنسی سرگرمی والے بالغ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور نوجوان بالغ افراد کی تعداد میں جنسی عدم سرگرمی کا نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

2030 تک اقتصادی تبدیلیاں

ابھرتی ہوئی منڈیاں:
2030 میں عالمی معیشت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئیں گی، جس میں ابھرتی ہوئی منڈیوں کا کردار زیادہ اہم ہو جائے گا۔ ممکنہ طور پر بھارت، چین، اور برازیل جیسے ممالک میں اقتصادی ترقی کی بلند شرحیں جاری رہیں گی، جس سے طاقت کا توازن بدل جائے گا۔

یہ ترقی کئی عوامل کی وجہ سے ہوگی، جن میں انفراسٹرکچر میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری، صارفین کی بڑھتی ہوئی مانگ، اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت شامل ہیں۔

نتیجتاً، یہ ممالک عالمی تجارت میں اہم کردار ادا کریں گے اور دنیا کے منظر نامے پر زیادہ اثر و رسوخ حاصل کریں گے۔

بلومبرگ اکنامکس کے مطابق، چینی جی ڈی پی 2040 کی دہائی میں امریکہ کی جی ڈی پی کو پیچھے چھوڑ دے گی، تاہم، یہ شاید پہلے ہو جائے، شاید 2030 کی دہائی کے اوائل میں۔

یہ سب، یقیناً، موجودہ جنگوں اور عالمی بے امنی پر منحصر ہوگا۔

عالمی تجارت:
عالمی معیشت تجارت سے متاثر ہوتی رہے گی، اور ابھرتی ہوئی منڈیوں کے عروج کے ساتھ نئی تجارتی صف بندی پیدا ہوگی۔ 2030 تک، دنیا پہلے سے کہیں زیادہ جڑی ہوگی، اور تجارتی راستے مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔ اس تبدیلی کا ایک اہم محرک ای-کامرس کا عروج ہوگا، جو کاروباروں کو نئی منڈیوں تک پہنچنے اور صارفین کو وسیع تر مصنوعات تک رسائی فراہم کرے گا۔ اس سے عالمی تجارت میں مسابقت بڑھے گی اور کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔ 2030 تک، اندازہ ہے کہ ای-کامرس عالمی سطح پر تمام ریٹیل سیلز کا 30 فیصد حصہ بنائے گی۔

 2030 میں صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ

بایو ٹیکنالوجی:
2030 تک، بایو ٹیکنالوجی میں بہت ترقی ہو چکی ہوگی۔ اس سے یقینی طور پر نئی طبی علاج اور تھراپیز وجود میں آئیں گی۔ جین ایڈیٹنگ زیادہ درست ہو جائے گی، جس سے جینیاتی بیماریوں کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ ذاتی نوعیت کی دواؤں کی ترقی انفرادی افراد کے جینیاتی میک اپ کی بنیاد پر خاص علاج تیار کرنے کی راہ ہموار کرے گی۔

لیکن بدقسمتی سے یہ سب 2030 تک صرف ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا۔ زیادہ تر پسماندہ دنیا اب بھی کمزور صحت کی سہولیات سے دوچار ہوگی اور بہت سے لوگ اب بھی کسی قسم کا مناسب طبی علاج حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار ہوں گے۔

بایو مینوفیکچرنگ:
2030 میں بایو مینوفیکچرنگ طب کے بہت سے پہلوؤں کو تبدیل کر دے گی۔ جدید معاشروں میں، سائنسدان 3D بایو پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بہت سے انسانی اعضاء بنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ اس سے اعضاء کے عطیہ دہندگان کی ضرورت ختم ہو جائے گی اور ٹرانسپلانٹ کے مسترد ہونے کے خطرے کو کم کیا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ، بایو مینوفیکچرنگ مصنوعی خون اور دیگر طبی مصنوعات کی تخلیق کو ممکن بنائے گی، جس سے روایتی مینوفیکچرنگ طریقوں پر انحصار کم ہو جائے گا۔

جین ترمیم – CRISPR
جین ترمیم CRISPR ٹیکنالوجی آنے والے سالوں میں مزید ترقی کرے گی، جس سے جین ایڈیٹنگ بہت حد تک درست ہو جائے گی۔ اس سے جینیاتی بیماریوں کا علاج اور جینیاتی طور پر ترمیم شدہ جانداروں کی تخلیق ممکن ہو سکے گی۔

تاہم، اس ٹیکنالوجی کے ساتھ بہت سی مشکلات بھی ہوں گی۔ جیسا کہ ماہرین کو خدشہ ہے کہ جین ایڈیٹنگ کے معاشرتی اثرات ہو سکتے ہیں، خاص طور پر ایسی تبدیلیاں جو معاشرت میں دولت مند اور طاقتور افراد اور باقی عوام کے درمیان فرق کو مزید بڑھا سکتی ہیں۔ یعنی، امیر اور طاقتور افراد جینز کو اس طرح تبدیل کر سکتے ہیں کہ وہ کئی طریقوں سے ناقابل تسخیر بن جائیں۔ مثال کے طور پر: کم بیماریاں، زیادہ ذہانت، زیادہ ذہین اور ترقی یافتہ بچے، مضبوط نسلیں وغیرہ…

یہاں ایک دلچسپ حقیقت بھی سن لیجیے کہ سائنسدانوں نے مچھروں میں جینیاتی ترمیم کا استعمال کیا ہے تاکہ انہیں ملیریا کے خلاف مزاحم بنایا جا سکے، جو اس مہلک بیماری کے پھیلاؤ کو کم کر سکتا ہے۔

 2030 میں تعلیم اور افرادی قوت

آن لائن تعلیم:
2030 میں، آن لائن تعلیم معمول بن جائے گی، لیکن یہ بھی جدید دنیا اور جدید (اور امیر) تعلیمی اداروں کے لیے ہوگا۔ 80 فیصد دیگر ادارے اسی طرح کام کرتے رہیں گے جیسے پہلے کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ماہرین نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رسمی تعلیم شاید سو سال سے تبدیل نہیں ہوئی۔

تاہم، آنے والے سالوں میں، خاص طور پر ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے، بہت سی تبدیلیاں آئیں گی۔ یعنی، ٹیکنالوجی میں پیشرفت کے ساتھ، طلباء دنیا کے کسی بھی حصے سے اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ آن لائن تعلیم زیادہ انٹرایکٹو اور دلچسپ ہوگی، جس میں ورچوئل ریئلٹی اور آگمنٹڈ ریئلٹی ٹیکنالوجیز کو نصاب میں شامل کیا جائے گا۔

بہت سے اسکولوں میں روایتی کلاس روم کی ترتیب کی جگہ آن لائن کلاس روم لے لیں گے، جہاں طلباء اور اساتذہ حقیقی وقت میں بات چیت کر سکیں گے۔ کووڈ نے ہمیں اس منظر نامے کی ایک جھلک دی تھی۔ کون جانتا ہے شاید یہ وہی مستقبل کا ابتدائی خاکہ ہو۔

دلچسپ حقیقت: 2030 تک، اندازہ ہے کہ عالمی ای لرننگ مارکیٹ 686.9 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

ملازمتوں کی مارکیٹ میں تبدیلیاں:
2030 تک ملازمتوں کی مارکیٹ میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی۔ آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت بہت سی ایسی ملازمتوں کی جگہ لے لے گی جو اس وقت انسانوں کے ذریعے انجام دی جاتی ہیں۔ تاہم، جیسا کہ مضمون کے آغاز میں ذکر کیا گیا – نئے روزگار کا یہی حال نہیں ہوگا۔۔ کم از کم اتنی تیزی سے نہیں۔ یعنی، اگرچہ بہت سی نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی، لیکن یہ ان ملازمتوں کے لیے کافی نہیں ہوں گی جو ختم ہو جائیں گی۔

پھر بھی، ایک بات طے ہے – ایسی بہت سی ملازمتیں ہوں گی جو پہلے کبھی موجود نہیں تھیں، اور روزگار زیادہ لچکدار ہوگا۔ گیگ اکانومی بڑھتی رہے گی، زیادہ لوگ روایتی ملازمتوں کی بجائے خود مختار کام کرنے کا انتخاب کریں گے۔ ایسے مزید ’انفلوئنسرز‘ بھی ہوں گے، لیکن ان میں سے زیادہ تر اتنی کمائی نہیں کریں گے۔

یہ ماڈل، خواہ پرکشش ہو، طویل مدت میں کام نہیں کرے گا۔ کم از کم موجودہ معاشی اور ریٹائرمنٹ ماڈل کے ساتھ نہیں۔ یعنی، نام نہاد ’انفلوئنسرز‘ پنشن فنڈز میں اس طرح تعاون نہیں کریں گے، جیسے روایتی ملازمین کرتے ہیں۔ لہٰذا، اجتماعی ریٹائرمنٹ ماڈل کو نمایاں طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ بہت سی نئی ملازمتیں ہوں گی، جو پہلے کبھی موجود نہیں تھیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ہو سکتی ہیں: ورک فرام ہوم سہولت کار، فٹنس کمٹمنٹ کونسلر، سمارٹ ہوم ڈیزائن منیجر، انسان اور مشین کی ٹیم منیجر، الگورتھم جانبداری آڈیٹر، سائبر آفات کا پیشن گو، ہولوپورٹیشن ورکر، کوانٹم ڈیٹا تجزیہ کار، خلا کی سیاحت کے گائیڈ، ماحولیاتی تبدیلی کے ریورسل اسپیشلسٹ۔۔ دلچسپ ہے نا؟

 سماجی تبدیلیاں

شہرکاری (اربنائزیشن):
2030 میں، شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی ایک بڑا رجحان رہے گا کیونکہ زیادہ لوگ بہتر روزگار کے مواقع اور بہتر معیارِ زندگی کی تلاش میں شہروں کا رخ کریں گے۔ اس سے دنیا بھر میں میگا شہروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، اور 2030 تک 40 سے زیادہ شہروں کی آبادی 10 ملین سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2030 تک دنیا کی 60% سے زیادہ آبادی شہروں میں رہ رہی ہوگی۔

آبادی کی بڑھتی ہوئی کثافت کے ساتھ، شہروں کو زیادہ سمارٹ اور پائیدار بننے کی ضرورت ہوگی تاکہ ان میں رہنے والے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو سنبھالا جا سکے۔ 2030 تک کئی انتہائی جدید اور مستقبل کی شہروں کی تکمیل ہو جائے گی۔

2030 میں انسانی تعلقات:
اوپر ورچوئل ریئلٹی کا ذکر کرتے ہوئے مختصراً اس موضوع پر بات کی گئی ہے۔ یعنی، 2030 میں لوگ رشتوں اور میل جول کے طریقوں میں بڑی تبدیلیاں دیکھیں گے۔۔ اور وہ بھی بری تبدیلیاں!

حقیقی تعلقات اور جسمانی دنیا میں، لوگ اور زیادہ منقطع اور لاتعلق ہو جائیں گے۔ بہت سے لوگ پورے دن مختلف ورچوئل ریئلٹی آلات کا استعمال کریں گے۔ محبت اور رشتے، خاص طور پر نوجوانوں میں، بالکل مختلف ہوں گے۔

زیادہ سے زیادہ ایپلیکیشنز اور طریقے ہوں گے تاکہ لوگ آن لائن پارٹنرز تلاش کر سکیں۔ اس سے روایتی میل جول کے اصولوں سے دوری اور ٹیکنالوجی پر مبنی محبت تلاش کرنے کا رجحان پیدا ہوگا۔

دوسری بات جو مسئلہ بنے گی، وہ ہے ورچوئل ساتھیوں کا عروج۔۔ آج کل بھی بہت سے نوجوان کسی نہ کسی قسم کے ورچوئل ساتھی (بنیادی طور پر ایک چیٹ بوٹ جس کا 3D چہرہ ہوتا ہے) کا تجربہ کر چکے ہیں۔

تاہم، 2030 تک یہ ٹیکنالوجیز بہت ترقی یافتہ اور حقیقت کے قریب ہوں گی، اور اس سے بہت سے لوگ انہیں ایسے ہی استعمال کریں گے جیسے جواکین فینکس نے فلم Her میں کیا تھا۔ اس فلم میں، جواکین فینکس کا کردار تھیوڈور ٹومبلی ایک مصنوعی ذہانت کے آپریٹنگ سسٹم، سامنتھا، سے محبت کر بیٹھتا ہے، جسے اسکارلیٹ جوہانسن کی آواز میں پیش کیا گیا ہے۔ فلم میں ٹومبلی کے لیے اس تجربے کو اچھا دکھایا گیا تھا، لیکن حقیقی دنیا میں یہ معاشرے کے لیے شاید مثبت قدم نہ ہو۔۔ تاہم، یہ شاید ہو جائے گا۔ خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ دنیا میں تنہائی بڑھ رہی ہے۔۔ لہٰذا، بہت سے لوگ ورچوئل گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ رکھنے کے لیے ایک چھوٹی سی دولت خرچ کرنے کو تیار ہوں گے۔

لیکن یہ سب سرمائے کا گورکھ دھندہ ہے، کیونکہ ورچوئل ریئلٹی (VR) اور آگمنٹڈ ریئلٹی (AR) کی 2030 تک عالمی معیشت میں £1.4 ٹریلین کا حصہ ہوگا۔

 نقل و حمل (ٹرانسپورٹیشن):
2030 میں ٹرانسپورٹیشن آج کی نسبت کہیں زیادہ جدید ہو جائے گی۔ خودکار گاڑیوں کی ترقی سے لوگوں کے سفر کے طریقے بدل جائیں گے۔ عوامی نقل و حمل میں بھی بہتری آئے گی، جہاں سمارٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے راستوں اور شیڈولز کو بہتر بنایا جائے گا۔ تیز رفتار ٹرینیں اور ہائپر لوپس طویل فاصلے کے سفر کے لیے تیز اور زیادہ پائیدار نقل و حمل کی سہولیات فراہم کریں گے۔ یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ دنیا کے کئی شہروں میں ’روبو ٹیکسیز‘ متعارف ہو جائیں گی۔ 2030 تک یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ 15 فی صد نئی گاڑیاں مکمل طور پر خودکار ہوں گی۔

 خلاء کا استعمال

کمرشل خلائی سفر:
2030 تک، کمرشل خلائی سفر دولتمند عام لوگوں کے لیے زیادہ قابلِ رسائی اور سستا ہو جائے گا۔ خلائی سیاحت ایک منافع بخش صنعت بننا شروع ہو جائے گی، اور زیادہ کمپنیاں خلاء کے سفر کی پیشکش کریں گی۔ خلاء کے سفر کی قیمت میں نمایاں کمی آئے گی، جس سے زیادہ لوگوں کے لیے اس کا تجربہ کرنا ممکن ہو جائے گا۔ تاہم، اوسط طبقہ ابھی بھی کسی قسم کے خلائی سفر کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ لیکن نیم امیر لوگوں کے پاس شاید 2030 تک یہ موقع ہوگا۔

سیاحت کے علاوہ، کمرشل خلائی سفر کو سیٹلائٹ لانچز، مال برداری، اور سائنسی تحقیق جیسے دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ نجی کمپنیاں سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ مل کر نئی ٹیکنالوجیز تیار کرنے پر زیادہ زور دیں گی تاکہ خلائی سفر کو مزید موثر اور کم قیمت بنایا جا سکے۔

خلائی وسائل کا استحصال:
جیسا کہ ٹیکنالوجی ترقی کرتی جائے گی، کسی نہ کسی شکل میں خلائی وسائل کا استحصال حقیقت بن جائے گا۔ 2030 تک، ایسی کوششیں بڑھ جائیں گی کہ ایسٹیرائیڈز اور دیگر فلکیاتی اجسام سے پانی، معدنیات اور دھاتیں حاصل کی جائیں۔

وسائل کی کان کنی کے علاوہ، خلاء کو توانائی کی پیداوار کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ سورج سے توانائی حاصل کرنے والے سیٹلائٹس خلاء میں بھیجے جائیں گے تاکہ سورج کی توانائی کو جمع کر کے زمین پر منتقل کیا جا سکے۔ اس سے گھروں اور کاروباروں کو صاف اور قابل تجدید توانائی فراہم کی جا سکے گی۔

واضح رہے کہ یورپی خلائی ایجنسی نے سولیرس (SOLARIS) نامی ایک اقدام شروع کیا ہے تاکہ اس تصور کے قابلِ عمل ہونے کا جائزہ لیا جا سکے اور اسے تجارتی سطح پر لانے کے لیے درکار ٹیکنالوجی کو بہتر بنایا جا سکے۔ اس کا مقصد 2030 میں ایک سیٹلائٹ بھیجنا ہے جو توانائی جمع کر کے زمین پر منتقل کرے۔

تو قارئینِ کرام، یہ تھا ایک ایسی دنیا کا منظر نامہ، جو اگلے چند سالوں کے فاصلے پر انسان کی منتظر ہے۔۔ 2030 میں تکنیکی ترقی اور روزمرہ زندگی میں تبدیلیوں کا سال ہوگا۔

نتیجہ کے طور پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، اور آٹومیشن کے عروج کے ساتھ، ملازمتوں کی مارکیٹ میں تبدیلی آئے گی، بہت سی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی اور نئی ملازمتیں ابھر کر سامنے آئیں گی۔

ان تبدیلیوں کا معیشت پر بھی اثر پڑے گا، جہاں کمپنیاں مسابقتی رہنے کے لیے ٹیکنالوجی میں زیادہ سرمایہ کاری کریں گی۔ دنیا کے بڑے طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث تنازعات اور جنگوں کا بھی امکان ہے۔

لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کے طریقوں میں بھی تبدیلیاں آئیں گی۔ زیادہ سے زیادہ لوگ تنہا ہو جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں ورچوئل ریئلٹی اور ورچوئل تعلق کے ساتھیوں کا استعمال بڑھ جائے گا۔ اور شاید انسانوں کو انسان میسر نہ آ سکیں۔۔ اور مزید برآں، انسان بہت کچھ پا لے گا لیکن شاید انساں کو میسر نہ ہو انساں ہونا۔۔۔

نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں کیوروسٹی میٹرکس میں شائع ڈومگوئی پرنار کے ایک مضمون سے مدد لی گئی ہے۔ امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close