برطانوی معاشرہ جو طبقاتی تقسیم کا شکار رہا

ڈاکٹر مبارک علی

انگلش سوسائٹی تین طبقوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ امرا، سرمایہ دار یا بورژوا اور ورکنگ کلاس۔ یہ تینوں طبقے اپنے کردار کے لحاظ سے علیحدہ علیحدہ خصوصیات کے حامل تھے۔ اگرچہ ان میں تنازعات بھی رہے اور طاقت کا توازن بھی برقرار رہا۔

انگلش سوسائٹی میں سب سے اہم طبقہ امرا کا تھا۔ طبقاتی اہمیت کے لیے ضروری تھا کہ اس کا تعین کیا جائے کہ کس کے پاس کتنی زمین ہے، کیونکہ زمین ہی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھی، لہٰذا فیوڈل لارڈز بھی کئی حصّوں میں تقسیم ہوتے تھے۔

کم زمین رکھنے والا مقابلتاً سماجی طور پر کم اہمیت رکھتا تھا۔ فیوڈل لارڈز اپنی زمینوں پر رہا کرتے تھے۔ ان کی اپنی فوج ہوتی تھی۔ ان کے قلعے ہوتے تھے اور یہ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور اپنا وقت شکار یا دعوتوں میں صرف کرتے تھے۔

ایک قانون کے تحت جائیداد کا وارث بڑا لڑکا ہوا کرتا تھا۔ تاکہ یہ وراثت میں تقسیم نہ ہو۔ دوسرے لڑکے فوج اور چرچ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جایا کرتے تھے۔ جنگ ان کا مشغلہ تھا، جہاں وہ اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے تھے۔

جنگ کے اخراجات کے لیے بادشاہ ان سے قرضے لیا کرتا تھا۔ اس لیے جب 1215 میں بادشاہ کے مطالبات بڑھ گئے تو 25 فیوڈل لارڈز نے میگنا کارٹا کے نام سے ایک درخواست لکھی جس میں انہوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ دستاویز انگلش قانون کا اہم حصّہ بن گئی۔ اس وقت پارلیمنٹ کے اراکین بھی فیوڈل لارڈز ہوتے تھے جو برابر بادشاہ کے اختیارات کو چیلنج کرتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انگلستان کا بادشاہ استبدادی نہیں بن سکا۔

امرا کا یہ طبقہ موروثی ہوا کرتا تھا۔ یہ مراعات یافتہ ہوتے تھے اور شان و شوکت کے ساتھ اپنے محلات میں رہتے تھے۔ عام لوگوں میں ان کا بڑا اثر و رسوخ تھا۔ یہ اپنے طبقے میں کسی کو شامل نہیں کرنا چاہتے تھے۔

جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین ہندوستان سے بدعنوانیوں کے ذریعے دولت لے کر انگلستان آئے تو ان میں رابرٹ کلائڈ بھی شامل تھا۔

نوبل طبقے میں داخل ہونے کے لیے انہوں نے زمینیں خریدیں اور ہاؤس آف کومن کی رکنیت حاصل کی، رہائش کے لیے محلات تعیمر کرائے، لیکن اس کے باوجود انہیں اشرافیہ کا حصّہ نہیں بنایا گیا اور یہ نو دولتیے کہلائے جاتے رہے۔

فلسفی ایڈمنڈ برک کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین کا تعلق نچلے طبقوں سے تھا، اس لیے وہ چوری اور بد عنوانی میں ملوث رہے۔ جبکہ امرا کا طبقہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے مطابق کردار کا تعلق طبقے سے ہوتا ہے۔

انیسوی صدی میں سرمایہ دار صنعتی انقلاب کے بعد یہاں بورژوا طبقہ پیدا ہوا۔ اس کے اور امرا کے درمیان زبردست فرق تھا۔ بورژوا طبقہ مہم جو تھا اور نئی صنعتوں کا قیام کرنے، صنعتی اشیا کی مارکیٹنگ کرنے میں مہارت رکھتا تھا۔ خود کام کرتا تھا۔ اخراجات میں فضول خرچ نہیں تھا۔ سادہ زندگی گزارتا تھا۔ معاہدوں میں ایمانداری اور دیانت کے اصولوں پر قائم رہتا تھا۔ جب دوسری صنعتی کمپنیوں سے مقابلہ ہوتا تھا تو یہ اپنی صنعتی اشیا کا اعلیٰ معیار قائم رکھتا تھا۔

یہ سرمائے کو کسی ایک جگہ محفوظ نہیں رکھتا تھا بلکہ مسلسل نئی صنعتیں لگاتا رہتا تھا۔ اس لیے بورژوا طبقے نے سرمایہ دار پیدا کیے اور اس کی فیکٹری کی پیدوار دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اپنی مصنوعات کو معیاری بنانے کے لیے نئی ایجادات ہوتیں رہیں، اور فیکٹری میں نئی مشینوں کو روشناس کرایا جاتا رہا۔

تیسرا طبقہ ورکنگ کلاس کا تھا۔ یہ فیکٹریوں میں 12 سے 13 گھنٹے کام کرتے تھے، لیکن ان کو اپنی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ نا انصافی نے ورکنگ کلاس میں شعور پیدا کیا اور ابتدائی دور میں اپنی اصلاح کے ذریعے ڈھونڈے۔ مثلاً مزدوروں نے مل کر کوآپریٹیو سوسائٹی قائم کی تاکہ مارکیٹ کے مقابلے میں سستی اشیا فروخت کی جائیں۔

کوآپریٹیو سوسائٹی کے بعد مزدوروں نے اپنی یونین قائم کی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر مزدور حادثے میں زخمی ہو جائے تو یونین کے فنڈز سے اس کا علاج کروایا جا سکے۔ اگر وہ بےروزگار ہو جائے تو اس کی سوشل سکیورٹی کا انتظام ہو سکے۔

تیسرے مرحلے میں مزدوروں نے ٹریڈ یونینز کو منظم کیا۔ جنہوں نے مطالبات کیے تھے کہ آٹھ گھنٹے کام کے اوقات ہونے چاہییں۔ ہڑتال کا حق ملنا چاہیے۔ مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا رہنا چاہیے۔ ان ٹریڈ یونینز کی وجہ سے مزدوروں نے مظاہرے کیے۔ جلسے جلوس نکالے۔ مزدور راہنماؤں نے اپنی تقاریر کے ذریعے لوگوں میں جوش و جذبہ پیدا کیا۔

ان تینوں طبقات میں اگرچہ تضادات تھے۔ ان میں سے کچھ ایسی جماعتیں بھی تھیں جو فرانسیسی انقلاب سے متاثر تھیں اور مسائل کے حل کو انقلاب کے ذریعے پورا کرنا چاہتی تھیں، لیکن انگلینڈ فرانس کی طرح انقلاب سے دوچار نہیں ہوا اور اس کے حکمراں طبقے نے اصلاحات کے ذریعے طبقات میں توازن رکھا، اور ان کے درمیان موجود تفادات کو دور کیا۔

گریٹ ریفامز بل نے بورژوا طبقے کے لوگوں کو ووٹ کا حق دیا۔ ووٹ کا یہ حق 1864 اور 1884 میں مزید لوگوں کو دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم، صحت اور مزدوروں کے دیگر مسائل کے لیے جو بل پاس ہوئے انہوں نے سوسائٹی کے استحکام کو برقرار رکھا، اور وقت کے ساتھ ورکنگ کلاس کو معاشرے میں عزت و وقار مل گیا۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close