ادل بدل (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

مصباح نوید

”چوہدری جی! لٹیا گیا، کسے نوں منہ دکھانڑ جوگا نہیں رہیا۔۔۔“ واویلا سن کر گہری نیند سویا ہوا زمیندار ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ تیزی سے حویلی کے اندرونی حصے سے باہر کی طرف لپکا۔

نکلتے قد، گھنگریالے بالوں والا خوشرو چوہدری دلاور، جسے ہر کوئی نکا چوہدری کہ کر پکارتا تھا، ابھی اپنی پوری اٹھان کو نہیں پہنچا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد نیا نیا ہی شہر سے دیہات وارد ہوا تھا۔اس لیے ابھی سپید رنگت جھلسی نہ تھی، اس میں سرخی کی آمیزش موجود تھی۔ بدن بولی میں اس مرغے جیسی ترنگ تھی، جس نے حال ہی میں بانگ دینا شروع کیا ہو۔

چوہدری نے باہر دیکھا تو اس کا مزارع کرمو بغیر کُرتا بنیان، میلی کچیلی بدرنگی دھوتی پنڈلیوں سے اوپر اڑسے, زمین پر دوزانو بیٹھا اپنی ادھڑی پھٹی چپل اپنے ہی سر پر مارتا رو پیٹ رہا تھا۔

”کیا ہوگیا؟ کیا مصیبت نازل ہو گئی؟“ چوہدری نے جھلاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔

”کی دساں! چوہدری جی! اوہ حرامجادی مری زنانی، رات انھیرے چپکے سے غائب ہو جاتی ہے۔ سویرے ملا کی اذان کے ساتھ ہی واپس آتی ہے۔“

”نہیں رہتی تو دفع کر۔ عورت پیر کی جوتی۔۔ تنگ کرے تو اتار پھینک۔“ چوہدری غصے سے لال انگارہ ہوتے ہوئے بولا۔

”کئی بار اس حرامجادی کو سمجھایا لیکن نہیں باز آتی، تمہارے بھائی ہی کو حیا کرنی چاہیے۔“

”جمالا کہتا ہے میں کیا کروں! آپے آجاتی ہے۔۔ جمالے کی عورت بھی اسی چھنال کی وجہ سے گھر بار چھوڑ پیکے چلی گئی ہے۔“

”نہیں رہ سکتی جمالے کے بغیر تو اسی کے پاس رہنے دو۔“ ادھ کچی نیند سے بیدار ہوئے چوہدری کا پارہ بھی سورج کے ساتھ بلند ہو رہا تھا۔

کرمو گڑگڑایا ”تسی اپ دسو، کیسے چھوڑ دوں؟ پورے پندرہ ہجار حرامجادی کے باپ کو دیوے۔ اب تو میرے پاس نہ پیسہ ہے نہ رشتہ کہ وٹا سٹا ہی کر لوں۔ میری تو بانھ گئی نا چوہدری جی!“

کرمو کی بانھ تو جمالے کی بانھ بنی ہوئی تھی۔ اسی کے ساتھ مل کر مال ڈنگر سنبھالتی۔ دونوں مل کر گائے بھینسوں کے کیے چارہ کاٹتے ڈالتے، گوبر اٹھاتے، بھینسوں کو نہلاتے ہیں۔

ادھیڑ عمر بھدا کرمو سروقامت پھرتیلی بدراں کو ایک آنکھ نہ بھاتا۔ وہ اس کے لیے سڑک کنارے نصب بے تار کھمبے جیسا تھا، جس کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ کرمو اور جمالا دونوں بھائی، چوہدری دلاور کے مزارعے تھے۔ چوہدری کی حویلی کے ساتھ ہی بنے وسیع احاطے میں بنی ہوئیں ماچس کی ڈبیا جیسی کوٹھریوں میں رہتے تھے۔ ہر دوسرے دن کرمو کی دہائیاں سن سن کر چوہدری اوب سا گیا تھا۔

کرمو روتا پیٹتا فریادیں کرتا، ہر آئے گئے کے سامنے اپنے پندرہ ہزار کی گنتی کرتا، پر کسی کو کیا! لوگ مذاق اڑاتے ترس کھاتے، استغفار کرتے اور اپنی راہ لیتے۔

بدراں تو ساون کی بدلی کی طرح آب و برق کا ملاپ تھی۔ میدان میں بیٹھ کر کپاس کے ڈوڈوں سے روئی علیحدہ کرتے ہوئے قمیض اٹھا کر چھاتی اپنے گل تھوتھنے کاکے کے منہ کے ساتھ لگاتی اور چمک کے بولتی، ”یہ میرے یار کا ہے، بیکرمے کرمو کا نہیں۔“

الھڑ چھوکریوں کی کھی کھی میں کبھی کسی جہاں دیدہ کی گھرکی بھی شامل ہو جاتی لیکن لڑکیوں کی کھسر پھسر کبھی دبی دبی ہنسی کھلکھلاہٹ میں بدل جاتی۔ یہ سب کا سانجھا راز تھا۔ اس راز میں نوخیز جوانیوں کے ارمان اور حسرتیں لکن میٹی کھیلتے تھے۔

سلونی بدراں کے ستواں ناک کی نتھلی کے دائرے میں نتھنے کسی ہرنی کے نتھنوں کی طرح پھڑپھراتے رہتے۔ پتلی کمر، بھرپور چھاتی، بھاری سرین کے ساتھ کسی لکے کبوتر جیسی چال چلتی تو اس کی نادیدہ پائل کی چھن چھن میں کئی دل رقص کرنے کو جی اٹھتے، سانپ شوکتے، کتے بھی بہت بھونکتے تھے لیکن بدراں کو کب کسی کی پرواہ تھی! اس کی نگاہیں تو ہر دم جمالے ہی کی آرتی اتارا کرتیں۔

شام سرمئی آنچل سمیٹ رہی تھی۔ رات سیاہ بال بکھرائے بڑھے چلی آ رہی تھی۔ سیاہ رنگ کی چادر پہ نقش بڑے بڑے زرد پھولوں والی چادر اوڑھے، چوڑیاں چھنکاتی بدراں کرمو کی کوٹھری کے دروازے سے باہر نکلی۔ جمالے نے اپنی سائیکل نہلا دھلا چمکدار پتریوں سے سجا رکھی تھی۔ اس کی سائیکل پر دو فالتو کاٹھیاں بھی لگی ہوئی تھیں۔ ایک چھوٹی کاٹھی سائیکل چلانے والے کی سیٹ اور ہینڈل کے درمیانی راڈ سے منسلک تھی اور دوسری بڑی کاٹھی سائیکل کے پچھلے پہیے پر۔

ماں بیٹے کو دیکھتے ہی کھڑکھڑاتے کاٹن کے سوٹ اور سرسوں کے تیل میں چپڑے بال کھوپڑی پہ جمائے ہوئے جمالا پیڈل پر پاؤں رکھ کر سائیکل پر ایسے سوار ہوا، جیسے اسپ تازی پہ بیٹھا ہو۔ بدراں سے کاکے کو پکڑ کر اسے چھوٹی کاٹھی پہ بٹھایا۔ کاکے نے بڑی مشتاقی سے اپنے ننھے ہاتھوں سے سائیکل کی دستی کو پکڑ لیا۔ بدراں اچھل کر پچھلی سیٹ پر بیٹھی۔ بازو سے جمالے کی کمر کے گرد گھیرا ڈالا اور ٹھوڑی جمالے کے کندھے پہ جمائی۔ ’بلئے! چل میلے نوں چلیے‘ گنگناتے جمالے نے ایڑ لگائی اور سائیکل ہوا ہو گئی۔

کرمو مارنے کے لیے اپنی پھٹی چپل ڈھونڈتا ہی رہ گیا۔ جانے حرامجادی جاتے ہوئے پچھواڑے پھینک گئی تھی۔

اب کیا کرے؟ دہائی دیتا، کنکروں، کیکر کے کانٹوں اور کپاس کی خشک نوکدار چَھٹیوں پر سے ننگی پیری دوڑتا حویلی کے دروازے کی طرف لپکا: ”چوہدری جی لٹیا گیا برباد ہو گیا۔“

”واپس آنے دو اج کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔“ چوہدری حویلی کے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے بولا۔

چوہدری اور کرمو آدھی رات تک احاطے ہی میں بیٹھے رہے۔ چوہدری بان کی بنی ہوئی چارپائی پر کبھی لیٹتا اور کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتا۔ کرمو اس کی ٹانگیں دباتا اور کبھی سر کی چپی شروع کر دیتا۔

رات کے سناٹے میں گاؤں سے باہر برپا نوراں والے بابا کے مزار سے آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ڈھول اور چمٹے کی تال پر فنکار گا بجا رہے تھے۔ چاند کی تابندگی نے تاروں کی ٹمٹماہٹ مدھم کر دی تھی کہ بدراں کی ہنسی نے جلترنگ سا بجایا۔ چارپائی پہ دراز چوہدری اٹھ کر بیٹھ گیا۔ زمین پہ اکڑوں بیٹھا کرمو داخلی گیٹ کی نگاہ داری کر رہا تھا۔ احاطے کے بڑے گیٹ سے متصل چھوٹا دروازہ کھلا، سائیکل سوار اندر آئے تو چوہدری پر نظر پڑتے ہی ٹھٹھک گئے۔

”بدراں ادھر آ۔“ چوہدری کی آواز نے یکدم چھا جانے والے سناٹے کو توڑا۔

بدراں نظریں اٹھائے اپنے سوئے کاکے کو کندھے سے لگائے، بے خوفی سے چوہدری کے روبرو ہوگئی۔

”تو اپنی بے حیائی نہیں چھوڑ سکتی؟“ چوہدری غرّایا۔

بدراں نے چوہدری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ”میں کرمو نال نہیں رہنا۔“

چوہدری سٹپٹا گیا، ”دفع ہوجا حرامجادی۔ اس جمالے کا دماغ درست کرتا ہوں۔“

بدراں نے پلٹ کر جمالے کی طرف دیکھا اور پلٹ کر کرمو کی کوٹھری کی طرف خاموشی سے چل دی۔

جمالا ساکت اپنی جگہ کھڑا رہ گیا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے چوہدری نے آواز دے کر اپنے دو تگڑے نوکروں کو بلا لیا، جو رکھوالی کا کام بھی کرتے تھے۔ ”جمالے کو اٹھا کر ڈیرے لے جاؤ، لتر پولا کرو تاکہ عقل ٹھکانے آئے۔“ چوہدری حکم دے کر حویلی کے اندر چلا گیا۔

جمالے کی چیخ وپکار منت سماجت کسی نے نہ سنی۔ کرمو نے وہیں بیٹھے سویر کر دی۔ کوٹھری کی طرف جانے کی ہمت نہ کی۔ صبح جب جمالے کو چوہدری کے سامنے پیش کیا گیا تو اس کا سارا پنڈا جامنی تھا، اپنے پیروں پہ کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔۔

”چوہدری جی ماف کر دیو۔“ جمالا لڑکھڑاتی آواز میں بولا۔

”اب ٹھنڈ پڑ گئی ہے تو دفع ہو جاؤ۔اب دوبارہ کوئی بات نہ سنوں۔“ چوہدری نے تنبیہ کی۔

جمالا کانپتی ٹانگوں کے ساتھ اپنی کوٹھری چلا گیا۔ کئی دن نظر نہ آیا۔ کرمو اُس کے حصے کا کام بھی خوشی خوشی کرتا رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ چوہدری نے اپنے تئیں یہ معاملہ خوش اسلوبی سے نبٹا کر اپنے آپ کو بڑا چوہدری ثابت کر دیا تھا ورنہ لوگ تو ابھی تک اسے ’نکا‘ چوہدری ہی سمجھتے تھے۔ ابھی چوہدری نے اپنی مونچھوں کو بل دینا شروع ہی کیے تھے کہ کسی پیٹ کے ہلکے کھوجی نے آ کر چوہدری کے کانوں میں آتشیں سرگوشی انڈیل دی کہ بدراں نے آنا جانا چھوڑ دیا ہے۔ اب تو رہتی ہی جمالے کے ساتھ ہے۔ اس سرگوشی کی تیز آنچ نے چوہدری کو پگھلا کر پھر نکا چوہدری بنا دیا۔ اسی لمحے کرمو جمالے کی سنہری پتریوں اور کاغذی پھولوں سے سجی سائیکل پر سوار احاطے میں داخل ہوا۔

”اوئے! یہ سیکل ترے پاس کیسے؟؟؟؟“ چوہدری نے کھوکھلی آواز میں پوچھا۔

کرمو بے بسی کی بکل میں اپنی خوشی چھپاتے ہوئے بولا، ”چوہدری جی! حرامجادی باج نہیں آتی تھی۔ میں نے جمالے کو کہا ہم دونوں بھائی ہیں، صلح صفائی سے ادل بدل کر لیتے ہیں۔ میں نے سیکل لے کے بدراں دے دی۔“ اور پھر کرمو ذرادیر کو رکا اور لمبا سانس لے کر سمجھداری سے بولا، ”چوہدری ایس سیکل کی ہتھی تو اپنے ہاتھوں میں ہے نا جی۔“

اس دن کے بعد پھر کبھی چوہدری دلاور نے اپنے سر پر پگ نہ رکھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close