جولیا پاسٹرانا۔۔ دنیا کے لیے ایک ’عجوبہ‘ اور تماشا بننے والی میکسیکن خاتون کی اذیت ناک کہانی

ویب ڈیسک

جولیا پاسٹرانا، جو ’دا بیئر لیڈی‘ یا ’دی وومن وِتھ اے بیئرڈ‘ کے نام سے مشہور ہوئی، ایک ایسی تاریخی شخصیت ہے جس کی زندگی سماجی تضحیک، انسانی اقدار کی پامالی، اور نام نہاد مہذب معاشرتی طرزِ عمل پر سوالیہ نشان ہے۔

جولیا کی پیدائش 1834 میں میکسیکو کے ایک چھوٹے سے علاقے میں ہوئی، اور اس نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ عوامی نمائشوں میں گزارا۔ جولیا ایک ایسی جسمانی حالت کے ساتھ پیدا ہوئی تھی جسے ’ہائپرٹرائیکوسس‘ کہتے ہیں، جس میں جسم اور چہرے پر غیر معمولی بالوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے دنیا بھر میں تماشا بنا کر دکھایا گیا اور اس کے جسمانی حالات کو ’غیر معمولی‘ اور ’خوفناک‘ قرار دیا گیا۔ یوں جولیا انیسویں صدی کی مشہور انسانی عجوبوں میں سے ایک بن گئی۔ اس کی زندگی میں تو دنیا میں ’داڑھی والی عورت‘ کے طور پر اس کی نمائش کی ہی گئی لیکن یہ اذیت ناک سلسلہ اس کی موت کے بعد بھی جاری رہا۔ ذیل میں ہم سنگت میگ کے قارئین کے لیے ان کی قذیت ناک کہانی کو بیان کر رہے ہیں، جنہیں ان کی وفات کے 153 سال بعد 2013 میں دفنایا گیا۔

یہ 1834 کی بات ہے، جب جولیا پاسٹرانا مغربی میکسیکو کے پہاڑوں میں پیدا ہوئیں، تو ان کی والدہ کو فکر لاحق ہوئی کہ ان کی صورت مافوق الفطرت اثرات کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ مقامی قبائل اکثر نومالی، یعنی شکل بدلنے والے بھیڑیوں، کو پیدائشی مسائل اور جسمانی خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ اپنی بیٹی کو پہلی بار دیکھنے کے بعد، کہا جاتا ہے کہ جولیا کی ماں نے ان کا نام سرگوشی میں لیا۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنے قبیلے سے بھاگ گئیں یا نکال دی گئیں۔

دو سال بعد، میکسیکن چرواہوں نے ایک گمشدہ گائے کی تلاش کے دوران جولیا اور ان کی والدہ کو پہاڑ کے ایک غار میں چھپتے ہوئے پایا۔ انہیں قریبی شہر لے جایا گیا، جہاں جولیا کو ایک یتیم خانے میں رکھ دیا گیا۔ میٹھے مزاج کی، ذہین اور تقریباً پورے جسم پر سیاہ بالوں سے ڈھکی ہوئی، وہ مقامی طور پر مشہور ہو گئیں۔ ان کی انوکھی شکل اور دلکش شخصیت کے بارے میں سن کر ریاست کے گورنر نے انہیں اپنی تفریح اور خدمت کے لیے گود لے لیا۔ گورنر کے ساتھ رہتے ہوئے، انہوں نے بیس سال کی عمر تک گزارا، اور پھر اپنے اصل قبیلے کی طرف واپسی کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہ سفر کبھی مکمل نہ ہو سکا: ایک امریکی شَو مین، جسے ایم. ریٹس کے نام سے جانا جاتا تھا، نے انہیں راستے میں کہیں روک کر اپنی چرب زبانی سے اسٹیج پر ’پرفارم کرنے‘ کی زندگی گزارنے کے لیے قائل کیا۔

جولیا کی نمائش کا آغاز اس وقت ہوا جب اسے ایک کاروباری شخص تھیوڈور لینٹ نے خریدا۔ لینٹ نے جولیا کی نمائش کو ایک کاروبار بنا لیا اور اسے سرکسوں اور عوامی شو میں دنیا بھر میں نمائش کے لیے لے جانے لگا۔ اس کی زندگی کا بیشتر حصہ یورپ میں گزرا، جہاں مختلف ممالک میں اسے تضحیک آمیز القابات کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس کے چہرے اور جسم پر زیادہ بالوں کی وجہ سے اسے بہت زیادہ توجہ ملی، مگر اس توجہ کے پیچھے انسانی ہمدردی نہیں، بلکہ اسے ایک تماشا سمجھ کر لوگوں کا تجسس اور طنز شامل تھا۔

لینٹ نے جولیا کے ساتھ شادی بھی کر لی، مگر اس کا مقصد جولیا کی حفاظت یا محبت نہیں تھا۔ شادی کے بعد بھی وہ اسے تماشا بنا کر پیش کرتا رہا، اور جولیا کو معاشی اور جسمانی استحصال سے نجات نہ مل سکی۔

جولیا انیسویں صدی کی مشہور ترین انسانی عجوبوں میں سے ایک بن گئیں، جنہیں ’بندر عورت‘ ، ’ریچھ عورت‘ ، یا ’بابون لیڈی‘ جیسے ناموں سے جانا جاتا تھا۔ دسمبر 1854 میں نیو یارک شہر کے براڈوے پر واقع گوتھک ہال میں ان کی نمائش کا آغاز کیا گیا۔ وہ سرخ لباس میں ملبوس تھیں، ہسپانوی لوک گیت گاتی تھیں اور ہائی لینڈ فلنگ رقص کرتی تھیں۔

بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کو دیکھنے کے لیے ہال کا رخ کیا، حالانکہ یہ لوگ اصل میں ان کے گانے اور رقص دیکھنے نہیں آتے تھے بلکہ ان کے بالوں والے چہرے اور جسم، باہر کی طرف بڑھی ہوئی ٹھوڑی، غیر معمولی بڑے ہونٹوں اور چوڑے، چپٹے ناک کی وجہ سے آتے تھے۔ جلوس میں انہیں ’میکسیکو کے جنگلی علاقوں کی ریچھ عورت!‘ کہہ کر پیش کیا گیا، جبکہ بعض لوگوں نے کہا کہ وہ بندر کی طرح لگتی ہیں۔

اپنی کتاب ’اے کیبنٹ آف میڈیکل کیوریوسٹیز‘ میں جان بونڈیسن نے ایک معاصر اخبار کا حوالہ دیا ہے: ”اس ’عجوبہ فطرت‘ کی آنکھیں ذہانت سے چمکتی ہیں، جبکہ اس کی جبڑے، نوکیلے دانت اور کان انتہائی خوفناک ہیں۔۔۔ تقریباً پورا جسم لمبے، چمکدار بالوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس کی آواز شیریں ہے، کیونکہ یہ نیم انسانی وجود بالکل مطیع ہے اور ہسپانوی زبان بولتا ہے۔“

یہ قابل ذکر ہے کہ جولیا کو نصف انسان قرار دینے کا خیال میڈیا سے شروع نہیں ہوا۔ ڈاکٹر الیگزینڈر بی موٹ، جو نیو یارک کے معروف سرجن ویلنٹائن موٹ کے بیٹے تھے، نے نجی کمرے میں ان کا معائنہ کیا اور انہیں ’نصف انسان اور نصف اورنگوٹان کا مرکب‘ قرار دیا۔ دیگر ڈاکٹروں نے بھی اس سے اتفاق کیا۔ اس وقت اورنگوٹان امریکیوں کے علم میں سب سے بڑے اور سب سے خوفناک بندر تھے، جو کہ جنگلی، ابتدائی فطرت اور خطرناک جنسی جذبے کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ ایڈگر ایلن پو کی 1841 کی کہانی ’دی مرڈرز ان دی رو مورگ‘ میں اورنگوٹان ایک خوبصورت عورت کا گلہ تیز استرے سے کاٹ دیتا ہے، جس سے ان حیوانوں کا تعلق خوف، دلچسپی اور جنس سے جوڑا جاتا ہے۔ لیکن یہ تعلق نیا نہیں تھا: دو سو سال قبل، ڈچ ڈاکٹر جیکب بونٹس نے لکھا تھا کہ ”اورنگوٹان انڈین عورتوں کی خواہشات سے پیدا ہوتے ہیں، جو بندروں اور گھومنے پھرنے والے جانوروں کے ساتھ ناپاک تعلقات رکھتے ہیں۔“

اور جبکہ جولیا کی تشہیر میں اس کی نسوانیت کو اجاگر کیا گیا، جیسے کہ انیسویں صدی کی دیگر داڑھی والی عورتوں کی نمائندگی میں ہوتا ہے، اس میں اس کے حیوانی اور نسلی انوکھے پن کو بھی اجاگر کیا گیا۔ اس کی تشہیر میں اس کے قبیلے ’روٹ ڈگر انڈینز‘ کا ذکر کیا گیا کہ یہ ’ضدی اور ناقابلِ قابو‘ لوگ ہیں، جو جانوروں کے غاروں میں رہتے ہیں اور ریچھوں اور بندروں سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ ان باتوں سے ان کا مطلب واضح تھا: جولیا ہمارے دبے ہوئے حیوانی جبلتوں کی علامت تھی اور جانوروں سے جنسی تعلقات کا حقیقی نتیجہ!!

انگلینڈ میں، جہاں جولیا نے ایک نئے نمائش کار کے ساتھ مشرقی امریکہ اور کینیڈا کے کامیاب دوروں کے بعد سفر کیا، یہ انوکھا پن ایک مفید تشہیری حکمت عملی بنا رہا۔ لندن کے ریجنٹ گیلری میں جولیا کے شو کے لیے ایک پوسٹر، جہاں اسے 1857 میں روزانہ تین مرتبہ پیش کیا جاتا تھا، نے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اس کے ہونٹوں کو سرخ اور ناک کو بڑا دکھایا، جو افریقی امریکیوں کی نسلی تصاویر سے مشابہت رکھتے تھے۔ (یہاں تک کہ کم از کم ایک ڈاکٹر نے اعلان کیا کہ اس میں ’سیاہ فام خون کا کوئی نشان نہیں تھا۔‘) بارہ صفحات پر مشتمل تشہیری کتابچہ، جو تھیوڈور لینٹ نے تیار کیا تھا، اسے ’بابون لیڈی‘ کہہ کر مشہور کیا، اور دوبارہ ان کے والدین کے جانوروں کے ساتھ قریبی تعلقات کا ذکر کیا۔۔ مگر اس میں سامعین کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ جولیا میں ”عورت کی فطرت ہمارے اورنگوٹان کی فطرت پر غالب آتی ہے“ ، اور اسے ملنسار، ہوشیار اور مہربان قرار دیا گیا۔

حالانکہ جولیا کے بارے میں تشہیری مواد میں سائنسدانوں کی جانب سے اس کی دوہری فطرت کے سرٹیفیکیٹس شامل تھے، ابتدا سے ہی کچھ لوگ جانتے تھے کہ وہ مکمل طور پر انسانی ہے۔ اناٹومسٹ سیموئیل نیلینڈ جونیئر، جو بوسٹن نیچرل ہسٹوریکل سوسائٹی کے سابق کیوریٹر تھے، نے جولیا کا معائنہ کیا اور اسے مکمل انسانی اور ’ایک مکمل عورت، جو اپنی جنس کے تمام فرائض انجام دے رہی ہے.‘ قرار دیا۔ 1857 میں، زولوجسٹ فرانسس بک لینڈ نے لندن کے ایک ہوٹل کے کمرے میں اس کا معائنہ کیا اور اس کی ’خوفناک‘ چہرے کی خصوصیات کے باوجود اس کے ’انتہائی خوبصورت‘ جسم کی تعریف کی، اس کے بارے میں کہا ”اس کی آواز میٹھی ہے، موسیقی اور رقص میں بڑی دلچسپی ہے، اور تین زبانیں بول سکتی ہے۔“ انہوں نے مزید کہا: ”میرا خیال ہے کہ اس کی اصل کہانی یہ ہے کہ وہ محض ایک بگڑی ہوئی میکسیکن انڈین (ریڈ انڈین) عورت تھی۔“

انگلینڈ کے سب سے مشہور سائنس دان چارلس ڈارون لندن میں اسے دیکھنے نہیں گئے، لیکن اس کی موجودگی کے بارے میں اور اس کے دانتوں کا ایک نمونہ تیار ہونے کے بارے میں ضرور سنا، جس میں اس کے اوپری اور نچلے جبڑوں میں ایک بے قاعدہ دوہری قطار دکھائی دینی چاہیے تھی۔ اپنی کتاب ’ویری ایشن آف اینیملز اینڈ پلانٹس انڈر ڈومیسٹیکیشن‘ میں ڈارون نے جولیا کا موازنہ بے بال کتوں سے کیا اور یہ نظریہ پیش کیا کہ حیوانی دنیا میں جلد کی بیماری کا تعلق زیادہ دانتوں سے ہو سکتا ہے۔ جولیا کے پاس اضافی دانت نہیں تھے، بلکہ صرف مسوڑے موٹے تھے جس سے نمونے میں غلط تاثر پیدا ہوا۔ اگر کسی نے اس سے اس کے منہ کے بارے میں پوچھنے کی زحمت کی ہوتی تو وہ وضاحت کرتی کہ اس کے دانت عام تعداد میں ہیں۔ مگر زیادہ تر ڈاکٹروں نے جو اس کا معائنہ کرتے، اپنے سوالات لینٹ سے پوچھے اور جولیا خاموش رہی۔

خاموش مگر فائدہ مند، اور یہ وہی تھا جو لینٹ چاہتا تھا۔ جولیا کی نمائش نے لینٹ کو امیر بنا دیا، لیکن اس وقت تک اس میں حریف شو مینوں، ممکنہ طور پر پی ٹی بارنم سمیت، نے دلچسپی لینا شروع کردی۔ لینٹ نے فیصلہ کیا کہ اپنی زندہ، سانس لیتی ہوئی سرمایہ کاری کے ساتھ انتظام کو مزید مستقل بنائے؛ اس نے جولیا کو شادی کی پیشکش کی!

ہمیں نہیں معلوم کہ جولیا لینٹ کے بارے میں کیا سوچتی تھی، اگرچہ بونڈیسن کا ماننا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتی تھی اور ’جذباتی طور پر اس کے ساتھ لگاؤ‘ رکھتی تھی۔ یقیناً، جولیا کی پوری دنیا اس کے شو مین کے گرد گھومتی تھی: اسے دن کے وقت باہر جانے کی اجازت نہیں تھی تاکہ کہیں سڑک پر نظر آنا اس کی کمانے کی صلاحیت کو کم نہ کر دے، اور صرف رات کے وقت پردے پہنے ہوئے سرکس جاتی۔ اس کے بہت کم دوست تھے، اگرچہ اس نے ویانا کی اداکارہ اور گلوکارہ فریڈریکے گوسمین کے ساتھ تعلق استوار کیا، جس نے بعد میں کہا کہ جولیا پر ہمیشہ ’اداسی کی ایک ہلکی دھند‘ چھائی رہتی تھی۔ اس کے باوجود، جولیا نے لینٹ کی پیشکش قبول کی۔ اس نے ایک بار گوسمین سے کہا، ”[میرا شوہر] مجھ سے میری خاطر محبت کرتا ہے۔“

گوسمین کے علاوہ، چند لوگوں میں سے ایک جنہوں نے جولیا کو ایک انسان کے طور پر سنجیدگی سے لیا، جرمن سرکس مالک ہرمن اوٹو تھا۔ اس نے ویانا میں جولیا سے ملاقات کی اور اس سے طویل بات چیت کی، بعد میں اپنی کتاب ’فارنڈ وولک‘ (سفر کرنے والے لوگ) میں اس کے تاثرات درج کیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جولیا دنیا کے لئے ایک عجوبہ تھی، ایک بے قاعدگی جس کی پیسوں کے لئے نمائش کی گئی، جسے چند فنکارانہ کرتب سکھائے گئے تھے، جیسے ایک تربیت یافتہ جانور۔ [مگر] ان چند لوگوں کے لیے، جو اسے بہتر جانتے تھے، وہ ایک گرم دل، حساس، سوچنے والی اور روحانی طور پر بہت باصلاحیت شخصیت تھی، جس کا دل اور دماغ حساس تھا۔۔۔ اور اس کے دل کو بہت گہرا دکھ پہنچتا تھا کہ اسے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ان کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا تھا، اور پیسے کے لئے عجوبہ کے طور پر دکھایا جاتا تھا، اور محبت سے بھرے گھر کی روزمرہ کی خوشیاں بانٹنے سے قاصر رہتی تھی۔

1859 کی سردیوں میں، یہ جوڑا ماسکو گیا، جہاں لوگوں نے سرکس سالومانسکی میں ان کی نمائش کے لیے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس اگست میں، جولیا نے دریافت کیا کہ وہ حاملہ ہے۔ بچہ، جو مارچ 1860 میں مشکل زچگی کے بعد آیا، غیر معمولی طور پر بڑا تھا، اپنی ماں کی طرح بالوں سے ڈھکا ہوا اور اس کے نچلے چہرے کی خصوصیات اسی طرح تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ جولیا نے اسے گود میں اٹھایا اور رو پڑی۔

بچہ صرف پینتیس گھنٹے زندہ رہا، اور جولیا، جو ولادت کے دوران فورسیپس سے زخمی ہوئی تھی، اس کے چند دن بعد ہی زندہ رہی۔ موت کی سرکاری وجہ میٹرو-پیریٹونائٹس پیوریپیرالیس (بچے دانی کے آس پاس کے پیریٹونیم کی سوزش) بتائی گئی، لیکن آزاد ذرائع کے مطابق وہ دل ٹوٹنے سے مری۔ لینٹ نے تماشائیوں کو اس کے مرگ بستر پر داخل ہونے کی اجازت دی، جہاں کہا جاتا ہے کہ اس نے کہا ”میں خوشی سے مر رہی ہوں، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ مجھے اپنی خاطر محبت ملی ہے۔“

اپنی بیوی کو حاملہ کرکے، لینٹ کا شادی کے ذریعے اپنے سرمایہ کو محفوظ بنانے کا منصوبہ ناکام ہو گیا – یا بظاہر ایسا ہی لگا۔

لیکن 1860 ع میں جب جولیا کی موت ہوئی تو اس کی لاش کو محفوظ کرنے کے لیے جدید سائنسی طریقے استعمال کیے گئے، جس کے نتیجے میں اس کی ممی تیار ہوئی۔

اس اسپتال میں، جہاں جولیا نے بچہ جنم دیا، لینٹ کی ملاقات ماسکو یونیورسٹی کے پروفیسر سوکولوف سے ہوئی۔ سوکولوف حنوط کاری کے ماہر تھے اور حال ہی میں انہوں نے ایک تکنیک تیار کی تھی، جس میں ممی سازی کو ٹیکسڈرمے کے ساتھ ملایا گیا تھا، جس سے لاشیں اب بھی گلابی اور زندہ دکھائی دیتی تھیں۔ انہوں نے اور لینٹ نے ایک معاہدہ کیا، جس میں سوکولوف نے جولیا اور اس کے بیٹے کی لاشیں خریدیں، انہیں محفوظ کیا، اور یونیورسٹی کے اناٹومیکل انسٹیٹیوٹ میں نمائش کے لئے رکھ دیا۔ سوکولوف نے حنوط کاری کی تفصیلات کو خود تک محدود رکھا، حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ اس عمل میں انہیں چھ ماہ لگے۔ جب لاشیں کافی حد تک گلنے سے روکنے والے کیمیائی اجزاء سے سیر ہو گئیں، سوکولوف نے ماں اور بچے دونوں کو کھڑا کر دیا، بچہ ایک چھڑی پر بیٹھا ہوا، اس کے چہرے پر چوکنا تاثر تھا، اس کی ماں اپنے ہاتھ کمر پر رکھے، پاؤں چوڑے، چہرہ ایک طرف موڑے ہوئے کھڑی تھی۔ اس بااعتماد انداز میں اسے تصور کرنا ممکن ہو جاتا ہے کہ جولیا، بس لمحے کے لئے، کسی بھی خود اعتمادی سے بھرپور نوجوان عورت کی طرح دکھائی دے، جیسے وہ کسی دوست کا، بس کا، ٹیکسی کا یا دن کے اختتام کا انتظار کر رہی ہو۔۔

مگر جولیا کی کہانی کہیں زیادہ غیر معمولی تھی۔ اس کا جسم اناٹومیکل انسٹیٹیوٹ کے میوزیم میں صرف چھ ماہ تک رہا، اس سے پہلے کہ لینٹ، یہ سن کر کہ وہ اور اس کا بیٹا کتنے اچھے دکھ رہے ہیں، نے اپنے معاہدے میں موجود فرار کی ایک شق کا فائدہ اٹھایا اور انہیں واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ بظاہر اسے احساس ہوا کہ جولیا زندہ کے ساتھ ساتھ مردہ بھی پیسے کمانے والی ثابت ہو سکتی تھی!

تھیوڈور لینٹ نے اس کی ممی کو مختلف سرکسوں اور عجائب گھروں میں نمائش کے لیے لے جانے کا عمل جاری رکھا۔ اس کا مقصد صرف تجارتی فوائد حاصل کرنا تھا، اور اس کی انسانی حیثیت کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی۔

لینٹ نے 1862 میں لندن میں لاشوں کی نمائش کی، جہاں انہیں ایک شلنگ میں دیکھا جا سکتا تھا – اس سے کم قیمت میں جب کہ جولیا گانے اور رقص کرنے کے قابل تھی، مگر کم از کم اب وہ اسے طویل عرصے کے لئے دکھا سکتا تھا۔ دوبارہ سائنسدانوں نے اس کی جانچ کی: بکلینڈ نے دورہ کیا اور کہا ”چہرہ حیرت انگیز تھا، بالکل جیسے کسی عمدہ مومی مجسمے کا ایک بہت اچھا عکس ہو،“ جبکہ دی لینسٹ نے حنوط کاری کو ’بالکل کامیاب‘ قرار دیا۔ یوں اب ان لاشوں کو بھی نمائش کے لیے سفر کروایا گیا، اور جب یہ ویانا لائی گئیں، ہرمن اوٹو نے اپنے پرانے جاننے والے کو ”ریشم نما لال فاحشہ کے لباس میں دیکھا، جس کے چہرے پر خوفناک تبسم تھا۔“

جولیا کی ممی کی نمائش مختلف ممالک میں کی گئی، جہاں لوگ اسے دیکھنے کے لیے جمع ہوتے تھے۔ اس دوران، جولیا کو ایک عجیب و غریب تماشے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ اس کی ممی کو عجائب گھروں میں دکھایا جاتا تھا، جہاں اس کی حالت کو عوامی دلچسپی کا مرکز بنایا گیا۔ اسے ’دا بیئر لیڈی‘ کے نام سے جانا جاتا رہا، اور لوگ اس کے جسم کو دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔

جولیا پاسٹرینا کی موت کے بعد اس کی نمائش کا عمل نہ صرف ایک اخلاقی سوال اٹھاتا ہے بلکہ انسانی وقار کی پامالی کی ایک بدترین مثال بھی ہے۔ جولیا کی زندگی میں جو کچھ ہوا، اس کے مرنے کے بعد بھی یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

کچھ سال بعد کارلسباد میں، لینٹ کو ایک اور عورت کے بارے میں پتہ چلا، میری بارٹیل، جسے اس کی مرحوم بیوی کی طرح کی بیماری لاحق تھی۔ (آج جولیا کی بیماری کا سرکاری تشخیص ’جنرلائزڈ ہائپرٹریکوسس لانوجینوسا‘ ہے، جس سے اس کے چہرے اور جسم پر بال آتے تھے، اور ’جنجل ہائپرپلیشیا‘ ہے، جس سے اس کے ہونٹ اور مسوڑے موٹے ہو گئے تھے)۔ میری کو اپنے شو میں شامل کرنے کے ارادے سے، لینٹ نے ایک تھیلی بھر کر آلو بخارے باغ میں پھینکے، جہاں میری اپنے دن گزارتی تھی۔ کچھ دیر بعد، اس نے میری کے والد کو اس سے شادی کرنے پر راضی کر لیا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ کبھی میری کو نمائش میں نہیں لائے گا، لیکن یہ قسم زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ جلد ہی وہ اسٹیج پر ’زینورا پاسٹرانا‘ کے نام سے گانے اور رقص کرنے لگی، جولیا کی ’چھوٹی بہن‘ کے طور پر، جس کے پیچھے جولیا اور اس کے بیٹے کی حنوط شدہ لاشیں ایک خوفناک اثر کے طور پر موجود تھیں۔

لیکن شاید ’زینورا‘ نے آخر بازی جیت لی۔ یورپ اور امریکہ میں مزید نمائشوں کے بعد، یہ جوڑا سینٹ پیٹرزبرگ میں آباد ہو گیا، جہاں لینٹ پر پاگل پن کے دورے پڑنا شروع ہوئے۔ کم از کم ایک بار، وہ تقریباً ننگا دریائے نیوا پر ایک پل پر نمودار ہوا، بے ربط آواز میں چیخ رہا تھا، بینک نوٹ پھاڑ رہا تھا اور انہیں پانی میں پھینک رہا تھا۔ میری نے اسے ایک پاگل خانے میں داخل کرا دیا، جہاں وہ تھوڑے عرصے بعد مر گیا۔ جہاں تک میری کا تعلق ہے، وہ واپس جرمنی چلی گئی اور جولیا اور اس کے بچے کی حنوط شدہ لاشیں فروخت کر دیں، جو پھر یورپ بھر میں میلے، تفریحی پارک، عجائب گھر، اور خوف کے چیمبرز میں نمائش کے لئے چلتی رہیں۔

1921 میں، ہاکون لِنڈ، ناروے کے اُس وقت کے سب سے بڑے کارنیوال کے منیجر نے برلن میں ایک امریکی سے جولیا اور اس کے بیٹے کی لاشیں خریدیں۔ یہ 8000 دیگر اشیاء کے مجموعے کا حصہ تھیں، جس میں بڑے شیشے کے جاروں میں ڈوبے ہوئے جسمانی اعضاء، محفوظ شدہ سر، بگڑے ہوئے جنین، جڑواں بچوں کے جنین، دو سروں والے بچھڑے، ایک مکمل انسانی کھال جو تختے پر ٹھونکی ہوئی تھی، اور دیگر منتخب اشیاء شامل تھیں۔ لِنڈ نے ان کو ایک مومی عجائب گھر کے ساتھ نمائش میں دکھایا، جس میں جنسی امراض کے ماڈل شامل تھے، اور اسے ’ہیجینک اور اناٹومیکل نمائش‘ کا نام دیا۔ یہ نمائش 1920 کی دہائی میں ناروے میں ’انسانیت، خود کو جان‘ کے نعرے کے ساتھ سفر کرتی رہی۔

لیکن اس وقت تک انسانی عجائب کی نمائش کا کلچر بدلنے لگا تھا۔ جیسے جیسے انیسویں صدی کا اختتام قریب آتا گیا، ’عجوبہ‘ نمائشوں کی مقبولیت کم ہوتی گئی، اور لنڈ نے اپنی نمائش کو عوامی تعلیم کے پردے میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس نے سفید لیبارٹری کوٹ پہنے ہوئے میڈیکل طلباء کو گائیڈ کے طور پر ملازمت دی اور پوسٹرز آویزاں کیے جو کم از کم طبی اور سائنسی پس منظر کی معلومات فراہم کرنے کا تاثر دیتے تھے۔ تاہم، دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں نے اس نمائش کو فحش قرار دیا اور موم کے ماڈلز کو موم بتیوں کے لئے پگھلانے کا حکم دیا — ایک حکم، جس سے لنڈ بچ نکلا۔

جنگ کے بعد زندہ بچ جانے کے بعد، یہ لاشیں 1950 کی دہائی میں ذخیرہ گاہ میں رکھ دی گئیں۔ 1970 کی دہائی میں جب لاشیں دوبارہ چھوٹی نمائشوں کے لئے باہر آئیں، تو اکثر اخبارات میں غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ 1973 میں سویڈن نے ان کی نمائش پر پابندی لگا دی، کہ اب منافع کے لئے لاشوں کی نمائش نہیں کی جا سکتی۔ اس سے ان لاشوں کے سفر کے دن ختم ہو گئے، اور لِنڈ نے ان ممیوں کو اوسلو کے قریب کارنیوال کے گودام میں محفوظ کر دیا۔ تین سال بعد، کچھ نوجوانوں نے گودام میں گھس کر جولیا کا بازو توڑ ڈالا، یہ سوچ کر کہ وہ ایک پُتلا ہے۔ پولیس نے بعد میں لاشیں برآمد کر لیں، لیکن جولیا کا بچہ ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو چکا تھا۔۔ وہ کوڑے میں پھینک دیا گیا۔۔!

جولیا کی لاش دوبارہ عوامی شعور میں 1990 میں نمودار ہوئی، جب ناروے کے میگزین کرمنل ژورنالین کے صحافیوں نے اسے اوسلو کے انسٹیٹیوٹ آف فورینزک میڈیسن کے تہہ خانے میں بے یار و مددگار پڑا پایا۔ اس وقت سے جولیا کی لاش کا انجام ناروے کے اخباری مضامین اور سرکاری کمیٹیوں کا موضوع بن گیا۔ صحافی، ماہرین تعلیم اور دیگر حکام نے یہ فیصلہ کرنے کے لئے بہت سا وقت اور توانائی خرچ کی کہ آیا اسے دفن کر دیا جائے یا زمین کے اوپر رکھا جائے تاکہ سائنسدان اس کی بیماریوں کا مطالعہ کر سکیں۔ آخر کار ناروے کی وزارت برائے چرچ، تعلیم اور تحقیق نے فیصلہ کیا کہ اس کی باقیات کو زمین کے اوپر رکھا جائے، اور انہیں 1997 میں اوسلو یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف بیسک میڈیکل سائنس منتقل کر دیا گیا۔

2005 میں، لورا اینڈرسن بارباتا، میکسیکو سٹی میں پیدا ہونے والی، نیویارک میں مقیم ایک بصری فنکارہ، جو اس وقت اوسلو میں ایک ریزیڈنسی پر تھیں، نے جولیا کی لاش کی واپسی کے لئے یونیورسٹی کو درخواست دینا شروع کی۔ بارباتا کو جولیا کے حالات کے بارے میں دو سال پہلے پتہ چلا تھا، جب ان کی بہن نے ایک ڈراما پیش کیا تھا جس کا نام تھا ’دی ٹرو ہسٹری آف دی ٹریجک لائف اینڈ ٹریومفنٹ ڈیتھ آف جولیا پاسٹرانا، دی اگلیسٹ وومن ان دی ورلڈ‘ ، جو مکمل اندھیرے میں منعقد کیا گیا تھا۔

یونیورسٹی کے ابتدائی جوابات مایوس کن تھے، مگر بارباتا نے اپنی کوشش جاری رکھی، انہوں نے ایک اوسلو اخبار میں جولیا کے لئے ایک تعزیتی پیغام شائع کروایا اور اس کے لئے ایک کیتھولک ماس کی ادائیگی کا اہتمام کیا۔ 2008 میں، بارباتا کو ناروے کی قومی کمیٹی برائے انسانی باقیات پر تحقیق کے جائزہ کے سامنے اپنی بات رکھنے کا موقع دیا گیا، جس نے اتفاق کیا کہ ”یہ کافی غیر یقینی لگتا ہے کہ جولیا پاسٹرانا چاہتی کہ اس کا جسم ایک اناٹومیکل کلیکشن میں ایک نمونے کے طور پر رہ جائے۔“ جولیا کے آبائی صوبے سینالووا کے گورنر بھی اس میں شامل ہو گئے، اور ناروے میں میکسیکن سفیر نے بھی حصہ لیا، اور جولیا کی میکسیکو واپسی کے لئے ایک سرکاری درخواست دائر کی گئی۔

فروری 2013 میں، جولیا کی لاش — سفید تابوت میں سفید گلابوں سے ڈھکی ہوئی — آخر کار اس کی جائے پیدائش کے قریب ایک قصبے سینالووا دی لیووا کے قبرستان میں دفن کر دی گئی۔

جولیا پاسٹرانا کی زندگی اور موت ہمیں اس بات پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ معاشرتی اقدار اور انسانی ہمدردی کہاں کھو جاتی ہیں، جب انسانوں کو تماشا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔۔ جولیا کو ایک انسانی وجود سمجھنے کی بجائے ایک عجوبہ بنا کر پیش کیا گیا، اور اس کے جسمانی حالات کو اس کی شناخت بنا دیا گیا۔ یہ رویہ نہ صرف اس کی توہین تھی بلکہ اس کی معاشرتی تضحیک بھی تھی، جس نے اس بات کو واضح کیا کہ انسانی معاشرہ بظاہر کتنا بھی مہذب ہونے کا دعویٰ کرے، بعض اوقات غیر معمولی چیزوں کو سمجھنے اور قبول کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ جولیا کی زندگی اور موت کے بعد کی تضحیک، انسانی حقوق کی پامالی اور معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتی ہے۔

جولیا کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ کسی بھی انسان کی شناخت صرف اس کی ظاہری حالت پر منحصر نہیں ہوتی۔ ایک مہذب معاشرہ وہی ہے جو اپنی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے انسانی ہمدردی اور احترام کو ہر حالت میں قائم رکھے۔ جولیا کی زندگی کے واقعات، اس کا استحصال اور مرنے کے بعد اس کی لاش کا تماشا بنایا جانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کیسے بظاہر مہذب معاشرے نے انسانی وقار کو پامال کیا۔

جولیا پاسٹرینا کی کہانی انسانیت کی تاریخ ایک ایسا اندوہناک واقعہ ہے جو ہمیں اپنے رویوں اور اقدار پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

( اس فیچر کی تیاری میں پبلک ڈومین روویو میں شائع بیس لوو جوائے کے ایک مضمون سے مدد لی گئی ہے۔ ترجمہ ترتیب و اضافہ: امر گل )

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close