زیرِ زمین ایک عظیم سمندر کی دریافت، جس میں زمین کے سمندروں سے تین گنا زیادہ پانی موجود ہے!

ویب ڈیسک

حال ہی میں، سائنس کے میدان میں حیرت انگیز دریافتیں برق رفتاری سے سامنے آ رہی ہیں۔ بلیک ہول کے اندر کے اسرار سے لے کر ایک نئے آٹھویں براعظم اور شمالی امریکہ کی اس عظیم جھیل تک کے انکشافات ہو رہے ہیں، جو ’گریٹ لیکس‘ سے بھی بڑی ہے۔

یہ تمام دریافتیں کچھ عرصہ قبل تک ناقابلِ فہم لگتی تھیں، لیکن شاید سب سے حیرت انگیز دریافت یہ ہے کہ ہمارے قدموں تلے، زمین کی سطح کے نیچے، ایک وسیع سمندر موجود ہے!

زیر زمین ایک عظیم سمندر کی دریافت حالیہ سائنس کی دنیا میں ایک حیرت انگیز انکشاف کے طور پر سامنے آئی ہے۔ یہ سمندر زمین کی تہوں کے نیچے پایا گیا ہے اور اس میں موجود پانی کی مقدار ہمارے سیارے کے سطحی سمندروں سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔

نئی دریافت میں پتا چلا ہے کہ زمین کی سطح سے تقریباً 400 میل کی گہرائی میں ایک بڑا آبی ذخیرہ پایا گیا ہے۔
یہ زیر زمین سمندر کوئی عام پانی کا ذخیرہ نہیں ہے، بلکہ یہ پانی زمین کی تہوں میں ایک مخصوص قسم کی چٹان ’رنگوڈائٹ‘ (Ringwoodite) میں موجود ہے۔

واضح رہے کہ رنگ ووڈائٹ ایک معدنیات ہے جو پانی کو اپنے ساختی فارم میں قید رکھتی ہے۔ یہ معدنیات 410 سے 660 کلومیٹر گہرائی پر پائی جاتی ہے اور اس میں پانی کی موجودگی کا ثبوت پہلی مرتبہ برازیل اور افریقا کے درمیان پائی جانے والی ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت سے ملا۔

چونکہ رنگ ووڈائٹ ایک معدنیات ہے جو پانی کو اپنے ساختی فارم میں قید رکھتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پانی مائع حالت میں نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے چٹان کے ڈھانچے میں بائنڈ ہوا ہے۔ اس چٹان میں 1.5 فیصد تک پانی شامل ہوتا ہے جو کہ زمین کے اندرونی ماحول کے شدید دباؤ میں ممکن ہے۔ یہ خصوصیت زمین کے اندر پانی کو قید رکھنے کے قابل بناتی ہے اور اسی وجہ سے اس پانی کا سطح پر آنا نہایت مشکل ہے۔

یہ حیران کن انکشاف جہاں ہمارے زمین کے پانی کے چکر اور اس کے پیچیدہ جغرافیائی عمل کو ایک نئی جہت میں سمجھنے میں مدد دے رہا ہے، وہیں اس دریافت نے سائنسدانوں کے لیے کئی اہم سوالات کو بھی جنم دیا ہے اور مستقبل میں زمین کے وسائل اور موسمیاتی تبدیلی کے مطالعہ میں نئی جہتوں کو روشن کیا ہے۔

مثال کے طور پر زیر زمین اس عظیم سمندر کی دریافت سے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آیا یہ پانی کسی صورت سطح تک آ سکتا ہے یا یہ زمین کی ساخت اور موسمیاتی توازن میں کوئی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر یہ پانی کسی بھی طرح زمین کے سطحی ذخائر میں شامل ہوتا ہے، تو یہ سمندری پانی کی سطح میں تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے، جس کے اثرات عالمی موسمیاتی نظام پر ہوں گے۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ پانی ہماری زمین کی تاریخ اور اس کی تشکیل کے مراحل کو سمجھنے کے لیے ایک اہم سراغ فراہم کرتا ہے۔ نیز یہ تحقیق زمین کے اندرونی ماحول اور زندگی کے آغاز کے حوالے سے نئی معلومات فراہم کر سکتی ہے۔ زمین کے اندرونی پرت میں موجود پانی کی مقدار اور اس کے مختلف نظام کے ساتھ تعلق کا مطالعہ ہمیں مزید سمجھ بوجھ فراہم کر سکتا ہے کہ کس طرح یہ پانی زمین کی ٹیکٹونک سرگرمیوں اور آتش فشانی عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔

اس اہم دریافت سے پہلے، سائنسدانوں کو پہلے ہی سے علم تھا کہ پانی مینٹل چٹانوں mantle rock میں موجود ہو سکتا ہے، مگر یہ پانی ہماری عام ٹھوس، مائع یا گیس کی حالت میں نہیں ہے۔ یہ اسفنج کی طرح چوتھی حالت میں پایا جاتا ہے۔

اس تحقیق کا ذکر پہلی بار ایک سائنسی مقالے میں کیا گیا، جس کا عنوان تھا ”ڈی ہائیڈریشن میلٹنگ ایٹ دی ٹاپ آف دی لوئر مینٹل“ ۔ اس جامع مطالعے میں زیرِ زمین اس آبی مظہر کی تفصیلات کو نہایت باریکی سے بیان کیا گیا ہے۔

جیو فزسسٹ اسٹیو جیکبسن، جو اس تحقیقاتی ٹیم کے اہم رکن ہیں، وضاحت کرتے ہیں کہ ”رنگوڈائٹ ایک اسفنج کی طرح ہے جو پانی کو جذب کر لیتا ہے۔ رنگوڈائٹ کے کرسٹل ڈھانچے میں ایک خاص نوعیت ہے جو اسے ہائیڈروجن کو اپنی طرف کھینچنے اور پانی کو قید کرنے کے قابل بناتا ہے۔“ اس بیان سے رنگوڈائٹ کی اس منفرد خصوصیت کا پتہ چلتا ہے۔

جیکبسن نے مزید بتایا ”یہ معدنیات مینٹل کی گہرائی کے حالات میں وسیع مقدار میں پانی کو اپنے اندر سمو سکتی ہے۔“ ان کا مشاہدہ اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ شاید زمین کا پانی کا چکر پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور منسلک ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ”میرے خیال میں ہم اب پوری زمین کے پانی کے چکر کے شواہد دیکھ رہے ہیں۔ یہ دریافت سطح پر موجود پانی کی عظیم مقدار کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، جو ہمارے سیارے کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ کئی دہائیوں سے، سائنسی برادری اس پراسرار زیر زمین پانی کو تلاش کر رہی تھی۔“

سائنسدانوں نے اس زیر زمین خزانے کو کیسے دریافت کیا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا جواب زمین کے زلزلوں اور جھٹکوں میں موجود ہے۔ محققین، زمین کی زلزلہ جاتی سرگرمیوں پر تحقیق کرتے ہوئے، یہ جان پائے کہ زلزلے کا پتہ لگانے والے آلات سیسمومیٹرز زمین کے نیچے سے پیدا ہونے والی لہروں کو ریکارڈ کر رہے تھے۔

ڈیٹا کے باریک بینی سے تجزیے کے بعد، محققین نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ لہریں رنگوڈائٹ میں موجود پانی سے تعامل کر رہی تھیں۔ زیرِ زمین آبی جسم کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لئے، اگر رنگوڈائٹ چٹان میں محض ایک فی صد بھی پانی موجود ہو تو، زمین کی سطح پر موجود سمندروں کے تین گنا پانی کے برابر مقدار مینٹل میں پوشیدہ ہو سکتی ہے۔

اس ضمن میں یہ سوال اہم ہے کیا یہ پانی مستقبل میں انسان کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے؟ اگرچہ یہ سوال ابھی مبہم ہے کہ آیا انسان کبھی اس پانی کو استعمال کر سکے گا، لیکن یہ جاننا بھی ایک بڑا سائنسی کارنامہ ہے کہ زمین میں پانی کے ذخائر ہماری سوچ سے کہیں زیادہ ہیں۔ زمین کی تہوں کے نیچے پانی کا یہ عظیم ذخیرہ ایک قدرتی خزانہ ہے جس سے موسمیاتی نظام اور زمین کے استحکام کے بارے میں گہرائی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

بہرحال اس دریافت کے بعد یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ زمین کے نیچے اور بھی چھپے ہوئے وسائل موجود ہیں جن کے بارے میں انسان کو ابھی علم نہیں ہے۔ مستقبل میں مزید تحقیق سے ہمیں پتہ چل سکتا ہے کہ آیا یہ زیر زمین سمندر زمین کے ماحول پر کوئی خاص اثر ڈالتا ہے یا نہیں۔

اگرچہ ہماری زمین کے سمندر، دریا اور جھیلیں ہمیشہ سے انسان کو مسحور کرتی آئی ہیں، لیکن یہ خفیہ سمندر جو خاموشی سے زمین کے مینٹل کی گہرائی میں موجود ہے، اب سائنسدانوں اور متجسس ذہنوں کو زمین کے بارے میں ہمارے تصورات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

اس قسم کی دریافتیں ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ خلاؤں کے ساتھ ساتھ ہماری زمین میں بھی لاتعداد راز چھپے ہوئے ہیں اور سائنسی تحقیق کے آگے ابھی بھی کئی نئے دریچے اور اسرار باقی ہیں۔

حقیقت میں، اس بے مثال سائنسی دریافت کے دور میں، یہ حقیقت ہمیں حیران کر دیتی ہے کہ ہم جس دنیا میں بستے ہیں، اس کی باریکیوں کو جاننے کے لئے کتنی محنت اور تجسس درکار ہے، اور ہمارے سامنے کائنات کی وسعتیں بھی ہمیں مزید حیران کرتی ہیں۔

زیر زمین یہ عظیم سمندر ہمارے سیارے کا ایک نیا راز ہے جس نے زمین کی سائنس میں ایک انقلابی قدم کو جنم دیا ہے۔ یہ دریافت ہمیں ہمارے سیارے کی گہرائیوں اور اس کی وسعتوں کو نئے سرے سے سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

◼️ زمین کی پرت میں پانی کے دیگر پوشیدہ ذرائع

زمین کی پرت میں پوشیدہ پانی مختلف شکلوں اور مقامات میں پایا جاتا ہے، جو عموماً سطح سے کافی نیچے ہوتے ہیں۔ یہاں کچھ اہم ذرائع درج ذیل ہیں:

● معدنیات میں بند پانی:
زمین کی پرت میں کچھ معدنیات جیسے اولیوین، سرپینٹائن، اور مائیکا اپنے کرسٹل ڈھانچے میں پانی کو قید کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سرپینٹائنائزڈ چٹانیں (جو پیریڈوٹائٹ اور پانی کے تعامل سے بنتی ہیں) کیمیائی طور پر بند پانی پر مشتمل ہوتی ہیں، جو مخصوص جغرافیائی حالات میں، جیسے کہ میٹامورفک تبدیلی کے دوران، خارج ہو سکتا ہے۔

● گہری آبی ذخائر:
پانی صرف سطح کے قریب ہی نہیں ہوتا؛ یہ ہزاروں میٹر نیچے بھی پایا جا سکتا ہے، جنہیں ’گہرے آبی ذخائر‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ذخائر اکثر مسام دار چٹانوں میں پھنسے ہوتے ہیں اور قدیم پانی پر مشتمل ہو سکتے ہیں جو کبھی کبھار لاکھوں سال پرانا ہوتا ہے۔ ان ذخائر تک رسائی انتہائی گہرائی اور زیادہ دباؤ کی وجہ سے مشکل ہے، لیکن یہ نمایاں آبی ذخائر کا حصہ ہیں۔

● ذیلی خطے (سبڈکشن زونز) :
ٹیکٹونک پلیٹوں کی سرحدوں پر جہاں ایک پلیٹ دوسری کے نیچے دھکیلی جاتی ہے (سبڈکشن زونز)، سمندری پرت سے پانی مینٹل میں چلا جاتا ہے۔ اس میں سے کچھ پانی پرت کے اندر کیمیائی طور پر بند یا مسام دار جگہوں میں رہتا ہے، جب کہ کچھ ممکنہ طور پر آتش فشاں سرگرمی کے ذریعے دوبارہ سطح پر آ سکتا ہے۔

● چٹانوں میں مسام دار جگہیں اور شگاف:
زمین کی پرت میں شگاف اور مسام دار جگہیں ہوتی ہیں، جو پانی کو دراڑوں اور خالی جگہوں میں جذب ہونے دیتی ہیں۔ یہ پانی، جسے ’مسام دار پانی‘ کہا جاتا ہے، گہرائی میں ان چٹانوں میں پایا جا سکتا ہے جن میں زیادہ مسامیت ہوتی ہے، جیسے کہ ریتلا پتھر۔ یہ پانی ٹیکٹونک واقعات، جیسے کہ زلزلے یا ٹیکٹونک دباؤ کی تبدیلی کے دوران خارج ہو سکتا ہے۔

● مینٹل سے اخذ کردہ پانی:
اگرچہ یہ براہ راست پرت کا حصہ نہیں ہے، مینٹل میں موجود پانی پرت میں منتقل ہو سکتا ہے۔ یہ مینٹل سے اخذ کردہ پانی آتش فشانی سرگرمی کے ذریعے سطح پر پہنچ سکتا ہے یا آہستہ آہستہ پرت میں پھیل سکتا ہے، جس سے بعض علاقوں میں دستیاب پانی کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔ مینٹل میں یہ پانی عام طور پر اعلی دباؤ اور درجہ حرارت پر بننے والے معدنیات میں محفوظ ہوتا ہے۔

● قدیم سمندروں سے ہائیڈریٹڈ چٹانیں:
قدیم سمندروں کی تہہ میں بنی ہوئی چٹانیں اکثر سمندری پانی کو قید کر لیتی ہیں یا نمی جذب کر لیتی ہیں۔ جب یہ چٹانیں زمین کی پرت میں دفن یا دھنس جاتی ہیں تو یہ اپنے ساتھ پانی لے کر جاتی ہیں، جو زمین کی سطح کے نیچے مزید پانی کے ذخائر پیدا کرتی ہیں۔

● چٹانوں میں سیال شمولیات:
چھوٹے بلبلے یا پاکٹ جنہیں سیال شمولیات کہا جاتا ہے، چٹانوں میں بنتے وقت تھوڑے سے پانی کو قید کر سکتے ہیں۔ یہ شمولیات قدیم سمندری پانی یا دیگر جیولوجیکل عوامل کے ذریعے بنے پانی کی باقیات ہو سکتی ہیں، اور اگرچہ یہ انفرادی طور پر بہت چھوٹی ہوتی ہیں، لیکن مجموعی طور پر زمین کی پرت میں چھپے ہوئے پانی کے ذخائر میں اضافہ کرتی ہیں۔

یہ پوشیدہ پانی کے ذخائر جیولوجیکل عوامل جیسے کہ ٹیکٹونکس اور میگما کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور آتش فشاؤں کے پھٹنے یا چٹانوں کی میٹامورفزم کے دوران ماحول میں پانی خارج کر کے عالمی پانی کے چکر میں حصہ لیتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close