میاں بیوی کے درمیان جھگڑے تو شاید دنیا کی قدیم ترین حقیقتوں میں سے ہیں۔ یہ روزمرہ کا معمول ہے کہ ذرا سی بات بڑھ کر تنازعے کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ مثلاً، کبھی ٹی وی ریموٹ پر لڑائی، تو کبھی کھانے میں نمک کی مقدار پر بحث! شادی شدہ زندگی کی یہی خوبصورتی ہے کہ کہیں نہ کہیں بات بگڑ کر ایک دلچسپ موڑ لے لیتی ہے، اور پھر فریقین کے درمیان روٹھنے منانے کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔۔ لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ایک سادہ سا لفظ ’’اوکے‘‘ نہ صرف ایک شادی کو برباد کر سکتا ہے، بلکہ کروڑوں روپے کے نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے؟
جی ہاں، انڈیا میں ایک اسٹیشن ماسٹر اور اس کی بیوی کی پریشان کن شادی ایک دہائی طویل قانونی جنگ میں تبدیل ہو گئی، جس کا آغاز فون پر ہونے والے جھگڑے سے ہوا۔ یہ واقعہ ایک ایسی کہانی کی مانند ہے جیسے کوئی ڈراما اپنی پٹری سے اتر گیا ہو۔ آندھرا پردیش کے وشاکھاپٹنم میں اسٹیشن ماسٹر وینکٹگیری راؤ کی ذاتی زندگی صرف ایک ‘اوکے‘ کہنے کی وجہ سے اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ٹکرا گئی۔ اس جھگڑے کے نتیجے میں انڈین ریلوے کو صرف وقت کا نقصان ہی نہیں بلکہ 3 کروڑ روپے کی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔ اور اس عجیب و غریب واقعے نے اسٹیشن ماسٹر وینکٹگیری راؤ کی شادی شدہ زندگی میں بھی بھونچال مچا دیا۔
ان دنوں انڈیا میں اسٹیشن ماسٹر اور اس کی بیوی نہ صرف اپنی پریشان کن ازدواجی زندگی کے لیے میڈیا کی سرخیوں میں ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ان کی ذاتی مصیبتیں پیشہ ورانہ مسائل میں بدل گئیں، جس سے ان کی ذاتی زندگی میں مزید افراتفری پیدا ہوئی۔ اسٹیشن ماسٹر وشاکھاپٹنم کا رہائشی ہے، جبکہ اس کی بیوی درگ کی رہنے والی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، انڈین ریلوے کے ملازم وینکٹگیری راؤ کی شادی 12 اکتوبر 2011 کو ہوئی تھی، جس کے بعد اس کے لیے ذاتی اور پیشہ ورانہ سطح پر مسائل کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ ازدواجی جھگڑے کے دوران ایک بے ضرر لفظ ’اوکے‘ نے ایک دہائی پر محیط مسائل کھڑے کر دیے۔ اس دو حرفی لفظ نے اسٹیشن ماسٹر کی معطلی، ریلوے کے بڑے مالی نقصان اور طلاق کے طویل معرکے کو جنم دیا۔
بات شروع ہوئی جون 2012 کی رات، جب جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے شہر وشاکھاپٹنم میں ایک شفٹ کے دوران اسٹیشن ماسٹر کو اس کی بیوی کی فون کال موصول ہوئی۔ فون کال پر دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ بحث طول پکڑ گئی، اور راؤ نے بات ختم کرنے کی غرض سے ”گھر آکر بات کریں گے، اوکے؟“ کہہ کر کال کاٹ دی۔
لیکن ان کے کام کی جگہ کا مائیکروفون نادانستہ طور پر آن رہ جانے کے باعث، اس جملے کو ایک ساتھی سگنل مین نے سن لیا اور اس ’’اوکے‘‘ کو مال گاڑی چلانے کا اشارہ سمجھ لیا۔
یوں یہ بات ایک بڑی غلطی ثابت ہوئی اور عجیب و غریب واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، جب ریڈیو ٹرانسمیشن پر موجود اس کے ساتھی نے اس ’اوکے‘ کو مال گاڑی کے روانگی کا اشارہ سمجھا اور اسے ہری جھنڈی دکھا دی۔۔
نتیجہ اگرچہ کسی حادثے کی صورت میں نہیں نکلا لیکن مال گاڑی ایک ایسے علاقے میں چل پڑی، جہاں رات کے اوقات میں ٹرینوں کی آمدورفت پر پابندی تھی۔ یہ علاقہ ماؤسٹوں (نکسلیوں) کے زیر اثر تھا اور رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک یہاں ٹرینوں کا چلنا منع تھا۔
اس غلطی کی وجہ سے ریلوے کو 3 کروڑ روپے کا جرمانہ ہوا کیونکہ ٹرین نے غیر مجاز راستہ اختیار کیا جو رات کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتا تھا۔ نتیجتاً، اسٹیشن ماسٹر کو معطل کر دیا گیا، جس سے اس کی ازدواجی پریشانیاں بڑھ گئیں۔
غفلت کے باعث معطلی کا سامنا کرنے والے اسٹیشن ماسٹر کی پہلے سے کشیدہ ازدواجی زندگی بھی مزید بگڑ گئی۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اسٹیشن ماسٹر کی ازدواجی زندگی کئی سالوں سے مشکلات کا شکار تھی، جس کی ایک وجہ اس کی بیوی کے اپنے سابق ساتھی کے ساتھ جذباتی تعلق بھی تھی اور جس کے باعث اکثر گھر میں تنازعات ہوتے تھے۔
اختلافات دور کرنے کی کوششوں کے باوجود، ملازمت سے معطلی ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔۔ مسائل یہاں پر ختم نہیں ہوئے؛ گھر کی پریشانیوں اور معطلی نے ریلوے ملازم کو طلاق کے لیے درخواست دائر کرنے پر مجبور کر دیا۔ مگر بات یہاں بھی نہ رکی؛ راؤ کی بیوی نے اس کے اور اس کے والد، بڑے بھائی اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف ظلم، جہیز اور ہراسانی کے الزام میں IPC سیکشن 498A کے تحت مقدمہ درج کروا دیا۔
صورت حال اس وقت مزید خراب ہوئی جب خاتون نے سپریم کورٹ کا رخ کرتے ہوئے طلاق کے معاملے کو وشاکھاپٹنم سے پڑوسی ریاست چھتیس گڑھ کے شہر درگ منتقل کرنے کی درخواست کی، جہاں اس کا خاندان مقیم تھا۔
یوں یہ ایک طویل قانونی لڑائی میں تبدیل ہو گیا۔ اگلے کئی سالوں میں، یہ کیس متعدد عدالتوں سے گزرا، جس میں ان کے الزامات اور بے وفائی اور جہیز کے مطالبے کے الزامات نے ایک طویل قانونی الجھن پیدا کر دی۔
بالآخر 12 سال کی طویل قانونی لڑائی کے بعد، عدالت نے ثبوتوں کا جائزہ لیا اور بیوی کے ہراساں کرنے کے دعووؤں کو بے بنیاد قرار دیا۔ حال ہی میں، جسٹس راجنی دوبے اور سنجے کمار جیسوال نے اسٹیشن ماسٹر کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے 12 سالہ طویل قانونی لڑائی کے بعد طلاق کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ بیوی کے رویے نے شوہر کو ذہنی اذیت پہنچائی، اور راؤ کو طلاق دے دی گئی۔
ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ کیا کہ جسٹس راجنی دوبے اور جسٹس سنجے کمار جیسوال پر مشتمل ڈویژن بینچ نے یہ واضح کیا کہ سابق محبوب کے ساتھ مسلسل رابطے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جھگڑے، جن سے مہنگے ’اوکے‘ والے واقعے نے جنم لیا، شوہر کے لیے ذہنی اذیت کے مترادف ہیں۔
مشاہدے میں آیا کہ بیوی نے شادی کے بعد اپنے سابقہ محبوب سے تعلق برقرار رکھا، اسٹیشن ماسٹر پر بے وفائی کا جھوٹا الزام لگایا اور بے بنیاد جہیز اور ظلم کے الزامات لگائے۔
راؤ اور اس کی بیوی کی شادی اپریل 2011 میں ہوئی تھی۔ شادی کے آغاز سے ہی ان کے تعلقات میں کشیدگی تھی۔ راؤ کا الزام ہے کہ شادی کے فوراً بعد اس کی بیوی نے اعتراف کیا کہ اس کا انجینئرنگ کالج کے ایک لائبریرین سے تعلق ہے۔ بیوی کے خاندان نے یقین دہانی کروائی کہ وہ اپنے محبوب سے تعلقات ختم کر لے گی، لیکن معاملہ سلجھ نہ سکا۔
عدالت نے قرار دیا کہ بیوی کے اقدامات ذہنی اذیت کے مترادف تھے اور اس سے شوہر کو شدید جذباتی نقصان پہنچا۔ عدالت نے بیوی کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا، جس کی وجہ سے شوہر نے شادی کے خاتمے کی درخواست کی تھی۔
راؤ کا یہ کیس شاید ایک مثال بن جائے، لیکن یہ ایک سنجیدہ یاددہانی بھی ہے کہ ڈیوٹی کے دوران بیوی سے رات کو ہونے والے جھگڑے میں خاموشی ہی بہترین انتخاب ہے، کم از کم نوکری سے معطلی اور تین کروڑ روپے کی قیمت تو ادا نہیں کرنی پڑے گی!