کبھی ایسے اصول کے بارے میں سنا ہے جو اتنا پرانا ہو کہ ہر کوئی اسے ناقابلِ شکست سمجھتا ہو؟ تو ایک سائنسدانوں کی ٹیم اس تصور کو تبدیل کر رہی ہے اور کیمسٹری کے ایک اہم اصول کو غلط ثابت کر رہی ہے۔
کیمسٹری میں ایسے ہی اصولوں میں سے ایک بریڈٹ کا اصول Bredt’s rule بھی ہے، جو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے کیمیا کی درسی کتب میں پڑھایا جا رہا ہے۔ لیکن حالیہ تحقیق میں اس اصول کو غلط ثابت کر دیا گیا ہے، جس سے کیمسٹری کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوا ہے۔ اس دریافت کے بعد نہ صرف نصابی کتب کو از سرِ نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے بلکہ کیمسٹری کے طلباء اور سائنسدانوں کو بھی اپنے خیالات میں تبدیلی لانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
نیل گرگ، جو کیمیا اور بائیو کیمیا کے ممتاز پروفیسر ہیں، اس بنیادی اصول کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو پچھلے سو سال سے نامیاتی کیمیا organic chemistry کا حصہ رہا ہے۔
حال ہی میں جریدے سائنس میں شائع ہونے والے مطالعے میں نیل گرگ اور ان کے ساتھیوں نے UCLA میں یہ انکشاف کیا کہ بریڈٹ کا اصول یا قانون — جو 1924 سے کیمیاء کی درسی کتابوں میں موجود ہے — شاید اتنا مضبوط نہیں، جتنا ہم سمجھتے ہیں۔
لیکن اس سے پہلے کہ ہم دیکھیں کہ وہ کیسے تبدیلی لا رہے ہیں، آئیے ایک قدم پیچھے چل کر سمجھیں کہ یہ اصول ہے کیا۔
بریڈٹ کا اصول 1924 میں جرمن کیمیادان جولیئس بریڈٹ نے پیش کیا۔ اس اصول کے مطابق، آپ ایک چھوٹے، پل دار رنگ والے نظام کے پل پوزیشن پر ڈبل بانڈ نہیں لگا سکتے — یہ ایک ایسی مالیکیولر ساخت ہے جس میں دو رنگ ایک جیسے ایٹموں کو شئیر کر رہے ہوتے ہیں۔
بریڈٹ کا اصول کیمیا میں یہ کہتا ہے کہ چھوٹے، پل دار (bridged) مالیکیولز میں پل کی چوٹی پر یعنی "پل پوزیشن” پر ڈبل بانڈ نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پل دار مالیکیولز میں ایٹمز ایک تنگ اور چھوٹی جگہ میں جڑے ہوتے ہیں، اور وہاں ڈبل بانڈ کی سیدھی اور مسطح شکل کے لیے مناسب جگہ نہیں ہوتی۔
یوں سمجھیں جیسے کسی چھوٹے سے دائرے میں ایک سیدھی لکڑی کو موڑنے کی کوشش کی جائے — یہ لکڑی کو توڑے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح، پل دار مالیکیولز میں ڈبل بانڈ کے لیے وہ ضروری جگہ اور زاویے موجود نہیں ہوتے، اس لیے مالیکیول میں شدید تناؤ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔
زاویے گڑبڑا جاتے ہیں، اور مالیکیول کو ایک عجیب پوزیشن میں مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا، کہ جیسے ایک سیدھی لکڑی کو گول بنانے کی کوشش کی جائے بغیر توڑے — یہ ممکن نہیں ہوتا۔
بریڈٹ کا اصول اسی عدم استحکام کو بیان کرتا ہے، اور یہ اصول نامیاتی مالیکیولز، خاص طور پر اولیفنز Olefins کا مطالعہ کرنے والے کیمیادانوں کے لئے ایک رہنما اصول رہا ہے کہ وہ ڈبل بانڈز کو ایسی مخصوص جگہوں پر نہ رکھیں۔
اولیفنز وہ مرکبات ہوتے ہیں جن میں دو کاربن ایٹموں کے درمیان ڈبل بانڈ ہوتا ہے، اور ان کی عام طور پر ایک مسطح ساخت flat, planar structure ہوتی ہے۔ ۔ عملی طور پر، وہ پلاسٹک، ڈٹرجنٹ، اور چپکنے والی چیزوں کی تعمیر کے لئے استعمال ہوتے ہیں.
کئی دہائیوں سے، بریڈٹ کے اصول کو درست تسلیم کیا گیا اور اسی کے مطابق کیمسٹری کے اصول ترتیب دیے گئے۔ تاہم، اب یو سی ایل اے (UCLA) کے پروفیسر نیل گرگ کی ٹیم نے اس مفروضے کو چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے اس اصول کی حدود کو پرکھتے ہوئے، اس خیال کی نفی کی ہے۔ اس دیرینہ اصول کی حدود کو قبول کرنے کے بجائے، انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان مالیکیولز کو، جنہیں اینٹی بریڈٹ اولیفنز (ABOs) کہا جاتا ہے، بنایا جا سکتا ہے اور استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
نیل گرگ اور ان کی ٹیم نے یہ ثابت کیا کہ اینٹی بریڈٹ اولیفنز (Anti-Bredt Olefins – ABOs) نامی مالیکیولز نہ صرف بن سکتے ہیں بلکہ انہیں عملی استعمال میں بھی لایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تجرباتی طور پر ثابت کیا کہ مخصوص کیمیائی عمل سے اینٹی بریڈٹ اولیفنز تخلیق کیے جا سکتے ہیں، اور ان کی ساخت کو قید (trap) کر کے اس قدر دیر تک مستحکم رکھا جا سکتا ہے کہ ان پر تحقیق کی جا سکے اور انہیں نئی اشکال اور مرکبات کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
نیل گرگ نے نشاندہی کی کہ ”لوگ اینٹی بریڈٹ اولیفنز کی کھوج نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نہیں بن سکتے۔“
انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ایسے مالیکیول بنا سکتے ہیں جو بریڈٹ کے اصول پر عمل نہیں کرتے، اس لیے کیمیا دان اب مالیکیولز کے ساتھ نئے طریقوں سے کام کر سکتے ہیں جو خاص طور پر دواسازی کی تحقیق پر اثر انداز ہوں گے۔
ایک ذہین طریقہ اختیار کرتے ہوئے، محققین نے کچھ مالیکیولز جنہیں سیلائل (جعلی) ہالائڈز silyl (pseudo) halides کہا جاتا ہے، کو فلورائڈ ذرائع کے ساتھ ٹریٹ کیا۔ اس ردعمل کا مقصد یہ نایاب ABOs پیدا کرنا تھا۔
چونکہ یہ مالیکیولز انتہائی غیر مستحکم ہوتے ہیں اور جلدی سے بکھر جاتے ہیں، ٹیم نے ایک اور کیمیکل شامل کیا تاکہ انہیں ’پکڑا‘ جا سکے۔
اس طرح، وہ ABOs کو کافی دیر تک قید میں رکھ سکے تاکہ ان کا مطالعہ کر سکیں اور یہاں تک کہ انہیں نئے، قیمتی مرکبات بنانے کے لیے استعمال بھی کر سکیں۔
جہاں تک اینٹی بریڈٹ اولیفنز (ABOs) کو سمجھنے کی بات ہے تو اینٹی بریڈٹ اولیفنز وہ مرکبات ہیں، جو پل دار رنگ والے نظام کے پل پوزیشن پر ڈبل بانڈ کے ذریعے بریڈٹ کے اصول کو چیلنج کرتے ہیں۔
اینٹی بریڈٹ اولیفنز ABOs اپنی موجودگی کے ذریعے بریڈٹ کے اصول کو چیلنج کرتے ہیں، حالانکہ اس تناؤ کی وجہ سے ان میں فطری عدم استحکام موجود ہوتا ہے۔
یہ تناؤ والے مالیکیولز کے رویے میں قیمتی بصیرت فراہم کرتے ہیں اور ان کا مواد سائنس اور نامیاتی ترکیب میں ممکنہ استعمال ہو سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ کیوں اہم ہے۔۔ تو اینٹی بریڈٹ اولیفنز ABOs کو پیدا اور استعمال کر کے یہ ثابت کرتے ہوئے، ٹیم دوا کی دریافت کے نئے امکانات کھول رہی ہے۔
نیل گرگ نے وضاحت کرتے ہیں، ”فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں ایسے کیمیائی ردعمل تیار کرنے کا بڑا زور ہے جو تین جہتی ساختیں three-dimensional structures دیں، کیونکہ انہیں نئی ادویات دریافت کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔“
ان منفرد مالیکیولر ساختوں کو بنانے کی صلاحیت کا مطلب ہے کہ سائنسدان ان مرکبات کی ایک نئی دنیا کا مطالعہ کر سکتے ہیں جو پہلے ناقابلِ رسائی سمجھے جاتے تھے۔
نیل گرگ کا کام صرف اسی ایک اصول کو نہیں توڑتا — بلکہ یہ پوری سائنسی برادری کو یہ دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے دیرینہ مفروضوں پر نظرثانی کریں۔
نیل گرگ کہتے ہیں، ”ہمارے پاس ایسے اصول نہیں ہونے چاہئیں — یا اگر ہیں، تو انہیں صرف اس مسلسل یاد دہانی کے ساتھ ہونا چاہئے کہ یہ (حتمی) اصول نہیں بلکہ رہنما اصول ہیں۔ جب ایسے اصول ہوتے ہیں جنہیں بظاہر توڑا نہیں جا سکتا تو یہ تخلیقی صلاحیتوں کو تباہ کر دیتا ہے۔“
بریڈٹ کے اصول کو چیلنج کر کے، ٹیم کیمسٹری میں ایک زیادہ لچکدار اور اختراعی نقطہ نظر کی حمایت کر رہی ہے۔
وہ ہمیں یاد دلا رہے ہیں کہ سائنسی مفروضات حتمی نہیں ہیں اور ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں، جو آج ناممکن سمجھا جاتا ہے، وہ کل کا انقلاب بن سکتا ہے۔
تو یہ سوچتے ہوئے کہ سائنس کو مزید تخلیقی صلاحیت کی ضرورت ہے، ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ابھرتے ہوئے کیمیادانوں اور محققین کے لئے یہ کیا معنی رکھتا ہے؟
یہ مفروضات کو چیلنج کرنے اور حدود کو توڑنے کی ایک کال ہے۔ اگر ایک صدی پرانا اصول توڑا جا سکتا ہے، تو کون جانے کہ اور کون سے بظاہر ’ناممکن‘ کارنامے ممکن ہو سکتے ہیں؟
جیسا کہ نیل گرگ کا کہنا ہے، ”اس مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک صدی کی روایتی حکمت کے برعکس، کیمیادان اینٹی بریڈٹ اولیفنز بنا سکتے ہیں اور انہیں قیمتی مصنوعات بنانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔“
یہ دریافت کیمسٹری کی دنیا میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے ایک پرانا اصول ٹوٹ گیا ہے جس پر سالہا سال سے طلباء اور سائنسدان یقین کرتے آئے ہیں۔ اینٹی بریڈٹ اولیفنز کی تخلیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کیمسٹری میں کئی ایسے ’قوانین‘ یا ’اصول‘ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں کبھی ناقابلِ شکست سمجھا جاتا تھا، مگر نئی تحقیقات انہیں غلط ثابت کر سکتی ہیں۔
اینٹی بریڈٹ اولیفنز کی ایجاد اور ان کے بارے میں تحقیق نے کیمیادانوں کے لئے نامیاتی مرکبات کی ایک نئی دنیا کھول دی ہے، جس میں نئی ادویات کی تخلیق اور دیگر کیمیائی اعمال میں ان کا استعمال شامل ہے۔ یہ تحقیق کیمسٹری میں تخلیقی صلاحیتوں اور نئے تصورات کو فروغ دینے کے لئے ایک اہم پیغام ہے۔
یہ صرف ایک اصول کو توڑنے کا معاملہ نہیں ہے؛ بلکہ سائنسدانوں کے پاس ایسے آلات کو وسعت دینے کا موقع ہے جو دنیا کے سب سے اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، جیسے نئی ادویات کی تیاری۔
یہ دریافت نامیاتی کیمیا، فارماسیوٹیکل، اور بنیادی طور پر کسی بھی دوسرے مطالعے کے شعبے میں بے شمار امکانات کا سنگ بنیاد ہے۔
اینٹی بریڈٹ اولیفنز ABOs کو موثر طریقے سے پیدا اور قید کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کر کے، گرگ کی ٹیم نے مستقبل کی تحقیق کے لئے بنیاد رکھی ہے جو دوا سازی میں اہم پیش رفت کی طرف لے جا سکتی ہے۔
نیل گرگ اور ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اینٹی بریڈٹ اولیفنز مستقبل میں نامیاتی کیمیا اور دواسازی کے شعبے میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ ان مالیکیولز کو مخصوص کیمیائی عمل کے ذریعے تخلیق کیا جا سکتا ہے اور ان کی ساخت کو اس قدر دیر تک قید کر کے رکھا جا سکتا ہے کہ انہیں مزید تحقیق اور مرکبات کی تخلیق کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ اس سے نئی ادویات اور دیگر مفید مرکبات تیار کرنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔
تو، اگلی بار جب آپ کسی کو یہ کہتے سنیں کہ، ’یہ نہیں کیا جا سکتا۔‘ تو یاد رکھیں کہ کبھی کبھی، صرف ایک تازہ نقطہ نظر اور جمود کو چیلنج کرنے کی خواہش ہی درکار ہوتی ہے۔
کون جانتا ہے؟ آپ ہی سائنس کی کتابوں میں اگلے باب کو دوبارہ لکھنے والے ہو سکتے ہیں۔
نوٹ: مکمل مطالعہ جریدے سائنس میں شائع کیا ہوا۔ اس فیچر کی تیاری میں ارتھ ڈاٹ کام پر شائع ایرک رالز کے ایک مضمون سے مدد لی گئی ہے۔ ترجمہ، ترتیب و اضافہ: امر گل