پاکستان کے بہت کم سیاستدانوں کا ادب سے تعلق ہے، اکثر سیاستدان انتہائی ’غیر ادبی‘ طاقتوں کی مدد سے پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں۔ اپنی مودبانہ سیاست کی کامیابی کے بعد وہ تاریخ کے استاد بن جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ صرف ان کی مرضی کی تاریخ کو سچ سمجھا جائے۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ان چند سیاستدانوں میں سے ایک ہیں، جن کا ادب کے ساتھ تعلق زمانہِ طالب علمی سے قائم ہے۔ کچھ عرصہ قبل بلوچی زبان میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’جنت آباد‘‘ کے نام سے شائع ہوا، جنہیں عبدالحلیم حیاتان نے اردو میں ترجمہ کیا۔ چند دن قبل ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب کا تحفہ مجھ ناچیز کو پیش کیا تو بتانے لگے کہ وہ بلوچستان کی تاریخ پر بھی ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ یہ کتاب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
اچھا ہوا کہ اس کتاب کی تکمیل سے پہلے ہی حکومت پاکستان نے بلوچستان میں ایک اور فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 1947ء کے بعد سے بلوچستان میں کئی فوجی آپریشن ہو چکے ہیں۔ کسی آپریشن کے نتیجے میں امن قائم نہیں ہوا۔ دیکھتے ہیں کہ 2024ء میں جس آپریشن کا اعلان کیا گیا ہے، اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی کتاب اس لحاظ سے بڑی اہم ہوگی کہ وہ جس تاریخ کو اپنی کتاب میں سمو رہے ہیں، وہ اس تاریخ کا خود ایک کردار رہے ہیں۔ دورِ جوانی میں انہوں نے بلوچستان کی آزادی کے لئے ہتھیار اٹھائے، ریاست کے خلاف جنگ کی اور پھر ایک وقت آیا جب وہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی حیثیت سے ریاست کے خلاف لڑنے والوں سے مذاکرات کر رہے تھے۔ یہ مذاکرات کیوں کامیاب نہ ہوئے اور آج ڈاکٹر صاحب کہاں کھڑے ہیں؟ ان سوالات کا جواب سب کو معلوم ہے۔
دو تصاویر بلوچستان کے مسئلے پر ہر سوال کا جواب ہیں۔ پہلی تصویر میں نواب اکبر بگٹی اپنی جوانی میں قائد اعظمؒ محمد علی جناح کا استقبال کر رہے ہیں۔ بگٹی صاحب نے ناصرف تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا بلکہ شاہی جرگے میں پاکستان کے حق میں ووٹ بھی دیا۔ بعد ازاں وہ ملک فیروز خان نون کی اس حکومت میں وزیرِ داخلہ بنے، جس نے گوادر کو پاکستان میں شامل کیا۔ یہ کارنامہ سرانجام دینے کے چند ہفتوں بعد جنرل ایوب خان کے حکم پر بگٹی صاحب کو جیل پہنچا دیا گیا۔ جیل سے نکل کر وہ کبھی گورنر بنے ،کبھی وزیر اعلیٰ بنے۔ انہوں نے وفاق پاکستان کے ساتھ چلنے کی بہت کوشش کی لیکن جنرل پرویز مشرف نے انہیں پہاڑوں میں پہنچا دیا اور 2006ء میں وہ وفاق سے ناراض بلوچوں کے ’’شہیدِ بلوچستان‘‘ بنا دیئے گئے۔
دوسری تصویر نواب نوروز خان زرکزئی کی ہے۔ اس تصویر میں ان کے ساتھ میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاءاللہ مینگل نظر آ رہے ہیں۔ ان سب کو پولیس کی حراست میں جیل لے جایا جا رہا ہے۔ نواب نوروز خان نے 1958ء میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف مزاحمت شروع کی تھی۔ انہیں قرآن کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے اتارا گیا اور مذاکرات کی بجائے جیل پہنچا دیا گیا۔ 1964ء میں اس ستانوے سالہ بزرگ نے کوہلو جیل میں انتقال کیا۔ بعد میں میر غوث بخش بزنجو بلوچستان کے گورنر اور عطاءاللہ مینگل وزیر اعلیٰ بنے۔ دونوں نے اردو کو صوبے کی سرکاری زبان بنایا اور سرداری نظام کے خاتمے کے لئے صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کرائی لیکن ان دونوں کی حکومت کو ایک سال بھی پورا نہ کرنے دیا گیا۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’’افواہ اور حقیقت‘‘ میں تسلیم کیا کہ مینگل حکومت کے خلاف انہوں نے جو کچھ بھی کیا، وہ فوجی جرنیلوں کے دبائو کا نتیجہ تھا۔
2 اگست 1974ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر کوئٹہ میں مجید لانگو نامی نوجوان نے ایک دستی بم پھینکا تھا۔ بھٹو صاحب تو بچ گئے، مجید لانگو مارا گیا۔ آج بلوچستان میں ’مجید بریگیڈ‘ کے نام سے ایک گروپ خود کش حملے کر رہا ہے۔ اس گروپ نے اپنا نام اسی مجید لانگو کے نام پر رکھا ہوا ہے، جو 1974ء میں مارا گیا تھا۔ 2024ء میں ایک نئے فوجی آپریشن کے اعلان پر یہ عسکریت پسند بہت خوش ہیں کیونکہ اب انہیں نئی افرادی قوت بھی ملے گی اور مزید بیرونی امداد بھی ملے گی۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی بھی خوش ہیں۔ بلوچستان کے تنازعے نے انہیں وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اعلیٰ بنایا۔ تنازع مزید بڑھے گا تو سرفراز بگٹی اور مجید بریگیڈ دونوں کو مزید فائدہ ملے گا۔
بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ماضی قریب میں پہلا بڑا فوجی آپریشن 1916ء میں برطانوی فوج کے جنرل ڈائر نے کیا تھا۔ اسی ڈائر نے 1919ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں فائرنگ کا حکم دیا تھا۔ جنرل ڈائر کی کتاب ’’بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار‘‘ بتاتی ہے کہ پہلی جنگِ عظیم میں بلوچ قبائل جرمن حکومت کی مدد سے برطانیہ کے خلاف مزاحمت کو منظم کر رہے تھے، لہٰذا اس مزاحمت کو ختم کرنے کے لئے جنرل ڈائر نے برٹش بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کی سرحد پر ایک فوجی آپریشن کیا، جس میں شیعہ سنی اختلاف کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔
دوسرا بڑا آپریشن 1948ء میں خان آف قلات کے بھائی پرنس کریم کے خلاف ہوا۔ 13نومبر 2024ء کو سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے کالم میں سرفراز بگٹی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا، جس کے خلاف فوجی آپریشن نہیں پولیس آپریشن ہوا تھا۔ سہیل وڑائچ صاحب جنرل محمد اکبر خان کی کتاب ’’میری آخری منزل‘‘ پڑھیں تو انہیں پتہ چلے گا کہ جون 1948ء میں جنرل اکبر خان نے شہزادہ عبدالکریم کے خلاف آپریشن منظم کیا۔ کتاب کے صفحہ 283 پر بتایا گیا ہے کہ کرنل گلزار کو قلات اور کرنل شاہ کو چمن بھیجا گیا۔ اس معاملے میں اکبر بگٹی نے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ اس کتاب میں یہ واضح اشارے ملتے ہیں کہ برطانوی فوج کے کچھ افسران اور بھارتی حکومت افغانستان کے راستے سے پاکستان میں مداخلت کر رہی تھی لیکن خان آف قلات کی کوششوں سے بغاوت آگے نہ بڑھ سکی۔
نواب نوروز خان کی بغاوت کو سمجھنے کے لئے سکندر مرزا کا کردار سمجھنا ہوگا، جس نے خان آف قلات میر احمد یار کو خود بغاوت پر اکسایا تاکہ پاکستان میں مارشل لاء لگایا جا سکے۔ خان آف قلات کی کتاب Inside Baluchistan اب ناپید ہے کیونکہ اس کتاب پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
امید ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی آنے والی کتاب پاکستان کے اربابِ اختیار کے بلوچستان میں کردار کا غیر جانبدارانہ جائزہ لے گی۔
بلوچستان کے عوام کے مسائل کا حل نہ تو ایک آزاد بلوچستان ہے اور نہ ہی مودبانہ اور غلامانہ سیاست ہے۔ آزاد بلوچستان بنانے کے لئے تین ملک توڑنے ہوں گے۔ پاکستان، افغانستان اور ایران۔ یہ بہت مشکل ہے۔ بلوچوں کو ان کے وہ حقوق دینے کی ضرورت ہے، جس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا۔ مسئلے کا حل بلوچستان میں صاف اور شفاف انتخابات ہیں اور یہ حل فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)