کراچی کے مشہور زمانہ ریڈ لائٹ ایریا نیپیئر روڈ سے گزر کر جونا مارکیٹ اور لی مارکیٹ سے متصل بغدادی تھانے کو پیچھے چھوڑ کر گاڑی اب ٹوٹے پھوٹے خستہ حال رستے پر ہچکولے کھاتے ہوئے چلی جارہی تھی۔ یہ رستہ عرصہ پہلے شاید کبھی سڑک کہلاتی ہو گی جو اب وہاں ناپید تھی۔ علاقے میں حد نگاہ تک گندگی، کچرے کے ڈھیر، ابلتے گٹروں کا کیچڑ، بے ہنگم ٹریفک اور مفلوک الحال لوگوں کے مدقوق چہروں کی فراوانی تھی، لیکن چہروں پر امید کی رمق موجود تھی۔
رستے کے دونوں جانب تنگ و تاریک گلیوں میں چار پانچ منزلہ بوسیدہ اور بنا رنگ و روغن والے فلیٹوں کی قطاریں تھیں، جہاں دن کی تیز دھوپ میں بھی روشنی کی ایک کرن تک نہیں پھٹک رہی تھی پھر بھی فلیٹوں کے مکینوں نے کھڑکیوں کے جنگلوں پر گیلے کپڑے سوکھنے کی غرض سے ٹانگ رکھے تھے۔ ان گلیوں میں دن کے اجالے میں بھی کچھ ایسی دہشت اور وحشت کا راج تھا کہ دور سے دیکھتے ہی ایک ان جانا سا خوف ریڑھ کی ہڈی سے گزر کر جسم میں سرائیت کرتا محسوس ہوا تو مجھے چار دہائیوں قبل ملیر کی گلیاں یاد آگئیں۔ کچھ گلیوں میں بسے بسائے گھروں کے باوجود بھی ہُو کا عالم طاری تھا کیونکہ ان گلیوں نے یہاں بسنے والے ہزاروں مکینوں کی گینگ وار کی آڑ میں گردنیں کٹتی اور لاشیں گرتی دیکھیں ہیں۔
یہ علاقہ ”لیاری‘‘ ہے، کراچی کی ایک قدیم آبادی۔۔
جی ہاں وہی لیاری، جہاں کے باسیوں کے رگوں میں سیاسی دانش، علم و فن سے لگاؤ، فٹ بال، باکسنگ، موسیقی، شیدی رقص، موج مستی، گدھا گاڑی کی ریس اور دلیری صدیوں سے شامل رہے ہیں۔ لیاری کے باصلاحیت نوجوان کھلاڑیوں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے اسپورٹس کمپلیکس بنانے، سیاسی بصیرت سے مالا مال لیاری کے باشندوں کو مرکزی دھارے میں لانے اور ان کی محرومیاں کا ازالہ کرنے کے بجائے ریاستی اداروں نے اس علاقے کو گینگ وار کا اکھاڑا، منشیات فروشی کا اڈا اور سیاست کو جرائم کا کورگھ دھندا بنا ڈالا اور آنے والی کئی نوجوان نسلوں کو اس لت کی بھینٹ چڑھا دیا۔
لیاری کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے۔ موجودہ لیاری میں مکرانی، بلوچ اور کچھی آج بھی اکثریت میں ہیں، جب کہ مہاجروں، میمن، کاٹھیاواڑی، سندھیوں اور پشتونوں کی آبادیاں بھی قائم ہیں۔
چاکیواڑہ چوک پر قائم ’بلوچ اتحاد آفس‘ میں منعقدہ پروگرام ’سنگت ادبی دیوان‘ میں رمضان بلوچ، عیسٰی بلوچ، عبدالرشید حق گو، وحید نور اور رؤف روفی کے علاوہ درجنوں لیاری کی ادبی اور سیاسی شخصیات جمع تھیں۔ یہ سیاسی شعور سے مالامال اہل قلم و ادب لیاری کو دوبارہ سینچنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہاں بھی سب مرد حضرات اور عورت ندارد۔ مجھے لیاری کے ماضی کا ایک سلوگن یاد آیا ”بچیوں کو گھر سے نکالو۔ اسکول میں پڑھاؤ‘‘۔ آج لیاری کو اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے یہی سلوگن زوروشور سے اپنانا ہوگا۔ لیاری کا ایک بلوچ نوجوان صبیر احمد لیاری کے آرٹ چوک پر ‘’ڈریم ہاؤس‘ نامی ایک کمیونٹی سینٹر اسی غرض سے چلا رہا ہے، جس کی شاخیں لیاری اور اس کے گردونواح میں بھی قائم کی گئی ہیں۔
لیاری ایک الگ ہی مست دنیا ہے۔ بدحالی، غربت، عسرت، گینگ وار، منشیات فروشی اور حالیہ مذہبی انتہا پسندی کی ملاوٹ بھی باسیوں کی مستی بھری طبیعت و خوش مزاجی کا زیادہ کچھ نہ بگاڑ سکی۔ افسوس تو یہ ہے کہ آج امن کے بعد بھی لیاری کا پرسان حال کوئی نہیں اور اس کوتاہی میں پیپلز پارٹی کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ 2007ء میں رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیٹ، ارشد پپو اور پھر بابا لاڈلا و عزیر بلوچ کی دیرینہ دشمنی نے لیاری کو جرائم کی بستی میں بدل دیا ہو، لیکن بقول لیاری کے مقامی اور اہل دانش کہ نہ حقیقت اتنی سادہ ہے اور نہ ہی اتنی حالیہ! لیاری کی تباہی کا سرا جہاں پاکستان کی پہلی آمریت سے جڑتا ہے وہیں لیاری غنڈہ گردی یا داداگیری زمانہء برطانوی نوآبادیت سے ہی مشہور تھا لیکن حالیہ تشدد اور سفاکیت کی ایسی کوئی مثال نہ ملتی تھی۔ اس قدیم آبادی کی بربادی میں پیپلز پارٹی نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
سندھ کے پہلے گورنر سر چارلس نیپیئر کے نام سے منسوب ’نیپیئر روڈ‘ بازار حسن کا بڑا مرکز تھا اور یہاں بحری جہازوں کے عملہ سے لے کر شہر کے روساء اور شرفاء کا رات ہوتے ہی تانتا بندھ جاتا تھا۔ ان شوقین مزاجوں کو منزل مقصود تک پہچانے اور بھاؤ تاؤ کرنے کے لیے غنڈہ نما دلالوں کا ہونا بھی لازمی امر تھا۔ تقسیم سے قبل اور بعد میں غنڈہ گردی میں ’کالا ناگ‘ خاندان کے چار بھائیوں کی لیاری پر بالادستی قائم تھی، جن کا سرغنہ نبی بخش عرف کالا ناگ تھا۔ ان کی ایک بہن حاجیانی سکینہ بھی اپنے بھائیوں کی طرح دبنگ اور جی دار عورت تھی جسے آج بھی ”ملکہِ منشیات‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حاجیانی سکینہ وہ عورت تھی جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بابو ڈکیت اور مجید اسپیڈ سے اپنے نواسے کی ہولناک موت کا بدلہ لینے کی خاطر دوبدو لڑی اور مجید اسپیڈ کے ہاتھوں 2001ء میں بےدردی سے ماری گئی۔
کالا ناگ خاندان کا پانچواں سپوت رسول بخش ”پونے‘‘ کا مشہور بدمعاش ہوا کرتا تھا۔ یہ خاندان ذات کے میر اور سردار تھے۔ کالا ناگ خاندان کا تعلق ایران کے مغربی مکران کے قبیلے سرباز سے تھا لیکن برسہا برس قبل متحدہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ اس خاندان کی نسلیں لیاری کے مختلف علاقوں میں آج بھی رہائش پذیر ہیں۔ نبی بخش عرف کالا ناگ کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد عرصے تک کسی ایسے بدمعاش کا ظہور نہ ہوا۔
پاکستان بننے کے 11 سال بعد جنرل ایوب خان نے ملک پر پہلا مارشل لاء نافذ کیا۔ بندرگاہ ہونے اور مختلف اقوام و مذاہب میں رواداری کے سبب کراچی ایک کوسموپولیٹن شہر کا درجہ رکھتا تھا اور شہر کی اسی رنگا رنگی سے روشن خیالی اور سیاسی شعور کے سوتے پھوٹتے تھے۔ لیکن یہ خوبی آمریت کو کبھی وارے نہیں آتی۔
ساٹھ کی دہائی میں جب لیاری کے مکینوں کو ان کے اپنے آبائی گھروں کے مالکانہ حقوق سے دستبردار کر کے جبری طور پر ملیر میں دھکیلنے کا مژدہ سنایا گیا تو نوزائیدہ ملک پر شب خون مارنے والے پہلے آمر کے خلاف ککری گراؤنڈ میں پہلا احتجاجی مظاہرہ کر کے لیاری کی عوام نے اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دیا۔ککری گراؤنڈ میں ہی 1962ء میں لیاری کےعوام نے غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، عطا اللہ مینگل اور بلوچ شاعر گل نصیر کی معیت میں بلوچستان میں ہونے والی ناانصافیوں پر کھل کر احتجاجی مظاہرے کیے۔
تب ہی ایوب خان کی آمریت اور اشرافیہ کو لیاری کی جانب سے خطرے کی گھنٹیاں بجتی سنائی دینے لگیں۔ لیاری میں 60 کے عشرے میں جرائم پیشہ گروہوں میں دو بھائیوں شیرل اور دادل مسلم لیگی ہارون فیملی کے گارڈ ہونے کے علاوہ کئی مجرمانہ دھندوں میں بھی ملوث تھے، جو سیستان بلوچستان کے علاقے سرباز افشان سے ہجرت کر کے لیاری کے علاقے کلاکوٹ آن بسے تھے۔ (دادل کے بیٹے رحمان ڈکیت کے دور میں افشانی گلی کا خوب چرچا رہا تھا، جہاں ان کی رہائش اور کاروباری بیٹھک تھی۔)
نیپیئر روڈ میں ایک تنازعہ پر دادل اور شیرل نے اپنے ایک مخالف کو سرعام چاقو مار کر قتل کردیا، جس پر ان دونوں بھائیوں کی لیاری میں دھاک بیٹھ گئی اور وہیں سے ان کے وارے نیارے ہو گئے۔ یہ خبر جب آمر وقت کے کانوں میں پڑی تو آمریت کی غلام گردشوں میں کراچی کو مذہبی اور لسانی تصادم کی جانب دھکیلنے کا طویل مدتی منصوبہ تشکیل پایا ”لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘۔
دادل اور شیرل 1960ء میں دیگر بدمعاش گروہوں کی طرح صرف منشیات فروشی اور دلالی کرنے والے بدمعاش تھے لیکن طاقت کے مراکز نے دونوں بھائیوں کو ان دھندوں کو زوروشور سے جاری رکھنے کے علاوہ جمہوری طاقتوں کو کچلنے کے لیے بے دریغ وسائل اور امداد مہیا کی۔ لیاری میں 65 کے الیکشن میں مادر ملت کو بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ایوب خان نے جہاں شیرل اور دادل کو محترمہ کے خلاف پروپگینڈا کرنے کا ٹاسک سونپا وہیں نیشنل عوامی پارٹی کے جلسے جلوسوں میں بھگڈر مچانے، سانپ چھوڑنے اور دنگا فساد کروانے کے لیے بھی استعمال کیا۔
بلوچستان میں 1973ء میں کی جانے والی فوجی کارروائی پر بھی لیاری خاموش نہ رہا اور کھل کر اس کارروائی کے خلاف آواز اٹھائی۔ لیاری کہیں بلوچ مزاحمتی تحریک کا مرکز نہ بن جائے سو علیحدہ رکھنے کے لیے ریاست کے کرتا دھرتاؤں نے اسے جرم کی بھٹّی میں دھکیل دیا، جس میں پیپلز پارٹی بھی مقتدرہ حلقوں کے ساتھ شریک جرم رہی۔ جب تک بھٹو ایوب خان کا دست راست رہا لیاری کے عوام اس کی مخالف رہے لیکن وہی بھٹو جب پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے عوام کی صدا بنا لیاری نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا اور تبھی سے لیاری پی پی پی کے جیالوں کا گڑھ بن گیا۔
پھر سن 77 میں آتا ہے مذہب کا جھنڈا اٹھائے اگلا آمر ضیاء الحق جس کا دامن ذوالفقار علی بھٹو کے خون اور ملک کو افغان وار میں جھونکنے کے دھبوں سے رنگا ہے۔ ضیاء نے 80 کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری کو بیک وقت افغان اور گینگ وار کا تختہ مشق بنایا اور کہا جاتا ہے کہ یہ منصوبہ سندھ کے صوبائی وزیر غوث علی شاہ اور گورنر جنرل ایس ایم عباسی اور جہانداد خان کے ہاتھوں سرانجام پایا۔
لیاری میں پیپلز پارٹی کے مدمقابل ’بلوچ اتحاد‘ نام سے ایک پارٹی تشکیل دی گئی۔ دوسری جانب لیاری کی ریکسر لین بابو ڈکیٹ اور اللہ بخش کالا ناگ ٹو کو بخش دی جبکہ جہان آباد کو حاجی لالو گینگ کے حوالے کیا گیا۔ گل محمد لین طالبان کے تربیت یافتہ ملا سلطان کے حصے میں آئی۔ افغان جنگ اپنے ساتھ نہ صرف ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر ساتھ لائی بلکہ بربریت اور سفاکیت بھی گھر کی لونڈی بن گئی۔ لیاری میں مسخ شدہ، ڈرل زدہ، سگریٹ سے داغی گئی اور بوری بند لاشیں ملنا ایک معمول بن گیا تھا۔
پرویز مشرف پاکستان کا اگلا روشن خیال آمر، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے لیاری کی گینگ وار کو انتظامی بنیادوں پر منظم کیا اور لیاری کے ہر علاقہ کو ایک کمانڈر کے زیرنگیں کر کے گینگ وار کا مضبوط اور مربوط نیٹ ورک تشکیل دیا۔
سن دوہزار کے لیاری میں حاجی لالو کے بیٹے ارشد پپو، مجید اسپیڈ اور دادل کے بیٹے رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت کی انٹری ہوتی ہے۔ سیاست اور جرم کا گٹھ جوڑ مزید مضبوط کرنے کی خاطر رحمان ڈکیت کے گروہ کو مبینہ طور پر پیپلز پارٹی نے گود لیا اور ارشد پپو کو ایم کیو ایم کی آشیرواد حاصل ہوئی جبکہ غفار ذکری گروپ کو ’کچھی ایکشن کمیٹی‘ سونپ کر فعال کیا گیا دوسری جانب لیاری کے علاقے چاکیواڑہ، گل محمد لین، رانگی واڑہ، کلری اور سنگولین میں جہادی تنظیموں حرکتہ المجاہدین، جیش محمد اور لشکر جھنگوی کے زیر سایہ طالبانائزیشن کا عمل بھی جاری رکھا گیا۔
رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت نے 13 برس کی عمر میں جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا لیکن جب بابو ڈکیت کے ہاتھوں اس کے باپ دادل کا قتل ہوا تب حاجی لالو نے اپنے بیٹوں ارشد پپو اور یاسر عرفات سمیت رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت کو بھی اپنی سرپرستی میں جرائم کے تمام گُر سکھائے۔ جلد ہی علاقے میں اس تکون کا سکہ چلنے لگا اور یہ ِشیروشکر والے تعلقات 2002 تک قائم رہے۔ بابو ڈکیت کے قتل اور اپنی ماں کی اپنے ہاتھوں جان لینے کے بعد رحمان ڈکیت لیاری کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔
ارشد پپو کو اس کی بادشاہت کھٹکنے لگی اور جلد ہی دونوں کے دوستانہ تعلقات شدید دشمنی میں بدل گئے۔ اس لڑائی میں ایک گروہ لالو اس کے بیٹے ارشد پپو، یاسر عرفات اور مجید اسپیڈ کا بن گیا تو دوسری جانب رحمان بلوچ، بابا لاڈلہ، زاہدبلوچ، شریف کیچو، فیصل پٹھان شامل تھے۔ لیاری میں سیاسی اور سماجی شعور رکھنے والوں کا دانستہ قلع قمع کیا گیا اور ان کی جگہ سیاسی عناصر نے منشیات فروشوں، اسمگلروں اور غیرقانونی دھندوں میں ملوث افراد کو منظم بھی کیا اور پشت پناہی بھی کی۔
لیاری کے دونوں گروہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں کو موت کے گھاٹ اتارنے لگے۔ ڈرامائی حالات تب پیدا ہوئے جب 2003 میں رحمان ڈکیت کے رشتہ دار سنگولین کے رہائشی محمد فیض بلوچ کو ارشد پپو نے قتل کردیا جو عزیر بلوچ کا باپ جو ایک ٹرانسپورٹر تھا اور رحمان کے لیے چاکیواڑہ سے بھتہ بھی وصول کیا کرتا تھا۔ اس وقت عزیر بلوچ انٹر پاس کر کے ایک مقامی ہسپتال میں کام کر رہا تھا اور لیاری فٹ بال ٹیم کا بہترین کھلاڑی تھا اور ایک انٹرنیشنل فٹ بالر بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھا تھا۔ عزیر بلوچ کا لیاری گینگ وار یا جرائم کی دنیا سے صرف اتنا لینا دینا تھا کہ وہ لیاری کا باسی تھا۔ رحمان ڈکیت نے عزیر بلوچ کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اسے جرم کی دنیا میں جوش وخروش سے خوش آمدید کہاـ
رحمان ڈکیت نے 2008 میں مخصوص عناصر کی سرپرستی میں ’لیاری امن کمیٹی‘ کی بنیاد رکھی۔ رحمان نے لیاری میں لائبریری، اسکول اور کمیونٹی سینٹرز بھی قائم کیے اور منشیات کے ساتھ گٹکا بنانے کے کارخانے بھی کھولے۔ یہ وہ دور تھا جب پرویز مشرف حکومت اور ایم کیو ایم میں گاڑھی چھن رہی تھی۔ رحمان نے جب امن کمیٹی کے دفاتر شہر کے ان علاقوں میں بھی قائم کرنا شروع کیے جہاں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا تب ایم کیو ایم نے رحمان ڈکیت کے دیرینہ دشمن ارشد پپو کی حمایت شروع کردی۔ رحمان ڈکیت کے 2009ء میں ایس پی چوہدری اسلم کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد ”عزیر بلوچ‘‘ نے قیادت سنبھالی اور لیاری گینگ وار کا سربراہ بن گیا۔
اس وقت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے بھرپور تعاون سے ”پیپلز امن کمیٹی‘‘ بنائی اور سردار عزیر جان بلوچ کہلانے لگا۔ بتایا جاتا ہے کہ ذوالفقار مرزا نے امن کمیٹی کو مہاجروں، کچھی برادری اور ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی دی ہوتی تھی۔
عزیر بلوچ، بابا لاڈلا اور کالا ناگ کے پڑ نواسے شعیب عرف ڈاکٹر نے 2013ء میں پولیس کی مدد سے ارشد پپو کو اغوا کیا اور لیاری کے مشتعل ہجوم کے سامنے اس کے جسم کے ٹکڑے کر کے آگ لگادی ـ جس لیاری میں فیض احمد فیض نے حاجی عبداللہ ہارون کالج کا پرنسپل بننا خود کے لیے ایک اعزاز سمجھا تھا وہیں چند شر پسند عناصر کو استعمال کر کے انسانیت کی تذلیل کی جا رہی تھی۔ یہ وہی لیاری تھا جہاں فٹ بال کے مایہ ناز کھلاڑیوں نے جنم لیا لیکن نامساعد حالات اور ریاست کی عدم دلچسپی نے انہیں جرائم کی دلدل میں دھکیل دیا اور ایک وقت آیا کہ جب انہی نوجوانوں نے گلیوں میں انسانی کھوپڑیوں کو پیروں سے روندا۔
اب باری تھی عزیر بلوچ اور بابا لاڈلا کی لڑائی کی، اس سفاک لڑائی میں سینکڑوں معصوم فٹ بالر بچے اور وہ لوگ بھی مارے گئے جو علاقے میں امن کے لیے کوشاں تھے۔ عزیر اور لاڈلا کے بیچ ایسا تفرقہ اور نفرت پیدا ہوئی کہ لیاری میں پھر سے گینگ وار میں شدت پیدا ہو گئی۔ بابا لاڈلا کو روپوش ہونا پڑا کیونکہ ابھی ریاستی سرپرستی کا مرکز عزیر بلوچ کا گینگ تھا۔ جگہ جگہ عزیر بلوچ کی تصاویر اور عزیر زندہ باد پاک فوج پائندہ باد کے نعرے لکھے نظر آتے تھے۔ سیاسی جماعت کے کارندے عزیر بلوچ کے آگے پیچھے پانی بھرتے تھے۔
عزیر بلوچ نے لیاری کے ڈان کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور لیاری ہی نہیں بلکہ شہر کے کئی علاقوں میں اس کی حکمرانی قائم ہوگئی تھی۔ لیکن جس طرح ریاستی مشینری اپنے مہروں کو عروج بخشتی ہے ویسے ہی ان کے زوال کا بندوبست بھی کرتی ہے۔ اب وقت آگیا تھا کہ لیاری کے زخموں پر وقتی مرہم پٹی کی جائے سو لیاری آپریشن شروع کیا گیا۔ حالات کا دھارا الٹا بہتے دیکھ کر عزیر نے 2013 ء میں ایران چاہ بہار راہ فرار اختیار کی۔ وہی گینگسٹرز جو پچھلے کئی برسوں سے ریاستی اداروں کے ہاتھ نہیں آرہے تھے ایک کے بعد ایک پولیس مقابلوں میں چن چن کر مارے جانے لگے۔
تاہم 29 جنوری 2016ء کو عزیر بلوچ کو کراچی داخل ہوتے ہوئے گرفتار کر کے لاپتہ مقام پر منتقل کر دیا گیاـ چار سال بعد 6 جولائی 2020ء میں عزیر کے خلاف مکمل تفتیشی رپورٹ شائع کی گئی جو جے آئی ٹی کم اور آب بیتی زیادہ لگتی ہے۔ اس میں اس پر قتل کے 198 مقدمات بنائے گئے تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ لیاری آپریشن میں حصہ لینے والے تقریباً تمام ہی پولیس اہلکار ٹارگڈ کلنگ میں مارے جا چکے ہیں اور نومبر 2024ء تک عزیر بلوچ بھی اپنے اوپر قائم درجنوں مقدمات سے بری ہوچکا ہے۔ اب سیاسی اور غیر سیاسی طاقتوں کا اگلا پلان کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ـ
ماضی میں لیاری کی شناخت صبا دشتیاری، رمضان بلوچ ، ساقی، عبدالکریم بلوچ اور نور محمد لاشاری تھی تو آج کا لیاری کیفی خلیل اور ایوا بی سے پہچانا جارہا ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)