امّاں! تُو مر جا۔۔ (ترک ادب سے منتخب افسانہ)

بیکر یلدز [ترجمہ: کرنل (ر) مسعود اختر شیخ]

رات خاصی گزر چکی تھی مگر وہ ابھی تک جاگ رہا تھا۔ کمرے میں اندھیرا تھا لیکن وہ آنکھیں کھولے اپنی ماں کے بارے میں سوچ رہا تھا، جو کسی گاؤں میں نہیں بازو والے کمرے میں سو رہی تھی۔ نیند میں بچوں کی بڑبڑاہٹ اور بیوی کی روح سے اٹھتی غلیظ ہوا میں سانس لینے سے اس کی نیند اُچاٹ ہو چکی تھی۔ اُس کے دماغ پر دو عورتیں سوار تھیں۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا، دونوں کے ہاتھ میں ایک دوسرے پر تنے ہوئے خنجر۔۔ ان میں سے ایک اس کی ماں تھی اور دوسری بیوی، وہ نہ ایک دوسرے کو ختم کرتی تھیں، نہ اُسے پار لگاتی تھیں۔ وہ خود ان دونوں کے جھگڑے یعنی عشق اور شفقت کی جنگ کا بنیادی سبب تھا۔ لہٰذا وہ نہیں چاہتی تھیں کہ جس شے کی خاطر آپس میں لڑ رہی ہیں، اس کو ٹھکانے لگا دیں۔ دونوں میں سے ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ اسے اپنی طرف کھینچ لے جائے۔ دونوں کی جنگی طاقت کا منبع اُن کی اولاد تھی۔

وہ چپکے سے بستر سے نکلا۔ محتاط تھا کہ بیوی کی آنکھ نہ کھل جائے۔ اپنے بیڈ روم سے نکل کر ماں کے کمرے میں داخل ہوا، اس کمرے میں جہاں وہ دن کی روشنی میں بیوی کے جاگتے ہوئے داخل ہونے سے کتراتا تھا۔ ماں نماز پڑھ کر تسبیح کے دانے رولتی اپنی خیالی جنت کا راستہ طے کرتی کرتی سو چکی تھی۔

وہ ماں کے سرہانے بیٹھ گیا۔ کمرے میں جھانکتی چاندنی میں اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔ یہ چہرہ ملک کی آزادی کی جنگ کے زمانے کی یادگار تھا۔ تب وہ کتنی حسین ہوا کرتی تھی۔ لیکن بیٹے کے ذہن میں ہمیشہ ماں کے چہرے کا بڑھاپا ہی نقش ہوتا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جنہیں اپنی ماں کی جوانی کا چہرہ یاد رہتا ہوگا؟ کون ہے جو بچپن میں اپنی ماں کا چہرہ ہزار مرتبہ دیکھ چکنے کے باوجود جوان ہو کر اس کے جوان چہرے کا تصور کر سکے؟

کبھی اُس کی ماں کے بال کالے سیاہ اور گھنگھریالے ہوا کرتے تھے۔ اب وہی بال آٹے کی طرح سفید تھے، اُن کے گھونگر بھی ختم ہو چکے تھے۔ اُس کی جوانی کے لال گالوں میں اب کئی راستے کھدے نظر آتے تھے۔ اس کی پلکیں جو ہر وقت سرے سے سیاہ رہتی تھیں، اب سفید اور گھنی ہوگئی تھیں۔ چمک میں سورج کا مقابلہ کرنے والی آنکھیں اب موم بتی کی لو سے بھی چندھیا جاتی تھیں۔ انہی آنکھوں سے کبھی وہ سوئی میں باریک سے باریک دھاگا ڈال لیا کرتی تھی، لیکن اب موٹے سُوئے میں دھا گا ڈالنے سے بھی گھبراتی تھی۔ جوانی کے روئی جیسے نرم و گداز ہاتھوں کی پشت پر اب نسیں ہی نسیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ہاتھ چھ بچوں کو پال پوس کر جوان کر چکے تھے۔ یہ چھ بچے اس خاتون کی ہر خوبصورت شے اڑا لے گئے تھے، پیچھے ایک ہڈیوں کا ڈھیر، کچھ ڈھیلا ڈھالا گوشت اور نسیں باقی رہ گئی تھیں۔۔ اور ابھی دو سال ہی پہلے یہ ماں جوانی کی میٹھی میٹھی یادوں کو اپنی روح سے نوچ کر اپنے خاوند کے ہمراہ زیر زمین دفن کر چکی تھی۔

بیٹے نے رضائی میں لیٹی ماں کی طرف دیکھا جو کسی بچے کی طرح مختصر سی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی جوان بیوی جو ساتھ والے کمرے میں شب خوابی کا لباس پہنے سارے پلنگ پر چھائی محوِ خواب تھی، اچانک ایک پھنکارتے ناگ کی طرح اس کے ذہن میں اُبھری۔

اس نے اپنی عمر بھر کے دکھوں کی ساتھی ماں کو پکارا ”اماں!“

اُس کے لیے وہ دکھ باعثِ شرم تھا، جس کا اظہار وہ آج کرنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ ماں کے علاوہ اور کس کا سہارا لے کر اپنا دکھ بانٹ سکتا تھا، کیا ماں ہی دکھ درد کا تناور پیڑنہیں ہوتی؟ وہ سو رہی تھی۔ بیٹے نے دوبارہ اسے پکارا اور اپنا دکھ بیان کرنا شروع کیا۔

”امّاں! تُو مجھے پیار کرتی ہے ناں؟ اماں تو میری خوشیاں چاہتی ہے ناں؟ میں جانتا ہوں اماں دنیا بھر کی ماؤں کا پیار جمع کریں تو بھی تیرے پیار کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میری خوشیوں کی خاطر کون سا پہاڑ ہے جو تو نے سر نہیں کیا۔ کون سادر ہے جو تو نے گھسا نہیں دیا؟ یہ حقیقت ہے اماں۔۔ پر تُو اگر اب مجھے خوش دیکھنا چاہتی ہے تو میری بیوی کی آنکھوں میں آنکھیں نہ ڈالا کر، وہ یہ نہیں چاہتی۔ تیری شکل اس کی آنکھوں میں اترتی ہے تو سیدھی اس کے سینے میں جا پیوست ہوتی ہے۔ اس نے مجھے اپنے سینے میں قید کر رکھا ہے۔ تیرا وجود اسے خوفزدہ کرتا رہتا ہے۔ وہ خوب جانتی ہے کہ مجھے تیری طرح عمر بھر پیار نہیں کر سکے گی، اس لیے وہ تجھ سے جلتی ہے۔ امّاں! مجھے اس مشکل سے تُو ہی نکال سکتی ہے۔ مجھے بچالے اماں! سچ کہتا ہوں، اگر تُو مجھ سے واقعی پیار کرتی ہے اور میری خوشی چاہتی ہے تو تُو اب مر جا امّاں!“

اُس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا، کئی نئے خوف اس کی روح میں سرایت کر گئے ۔ وہ ماں کے اور قریب ہو بیٹھا۔ ”تو یہ بات ہے اماں! میرا پیار اب تجھ سے تیری جان کا سوال کر رہا ہے ماں! تیرا اس گھر میں قیام میرے اور میری بیوی کے درمیان حائل ہو رہا ہے۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا رہا ہے۔ میں اپنی بیوی کے منہ سے نکلنے والی ایسی کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا جو تیری میری باہمی محبت کے خلاف کہی جائے۔ میری بیوی بھی یہ نہیں چاہتی کہ وہ ہم ماں بیٹے کی محبت کے سائے میں دھندلاتی رہے۔ میں اور تو اپنے ماضی کے رشتے میں مضبوطی سے جکڑے ہوئے ہیں۔ ہماری مشترکہ یادیں روز مرہ کے دنیاوی مفادات سے کہیں بلند ہیں۔ اس کے مقابلے میں میری بیوی جو اپنے لڑکپن سے نوچ لئے جانے کے بعد، میری جیون ساتھی بننے کے دن سے اب تک مسلسل اپنے آپ کو اس نئے ماحول میں ہر دلعزیز بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے، بیچاری نہیں چاہتی کہ اپنے امیرانہ حال پر فقیرانہ ماضی کا پیوند لگا دیکھتی رہے۔ وہ اپنی اس معمولی سی کٹیا کو بھول چکی ہے جہاں اس کا لڑکپن گزرا تھا۔ اب وہ ایک ناقابلِ تعریف حرص کا شکار ہے، ڈرتی ہے کہ آج اس کے قبضے میں آئی ہوئی ساری نعمتیں اس سے چھن نہ جائیں۔ اس گھر میں تیرا وجود اس کی روح پر حاوی اندیشوں کو دو چند کر دیتا ہے کیونکہ تُو اُسے ماضی کی حقیقتیں یاد دلانے والا تاریخی گُر ز ہے جو ہر وقت اس کے سر کے او پر لٹکتا رہتا ہے۔ نئی اور پرانی نسلوں کے تفاوت کے باعث اٹھنے والے ہر طوفان میں آج تک تو ہی برحق ثابت ہوئی ہے ۔ کیونکہ اپنے ماضی سے تیرے بندھن اب تک پائیدار ہیں۔ تو اپنے ماضی پر فخر کرتی ہے، ہمارے خاندانی وسائل کی بہتات کو اللہ میاں کی دین سمجھتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جہاں آج میں کھڑا ہوں، مجھے وہاں پہنچانے میں تیرے صبر، شکر اور تیری ممتا کی بدولت حاصل کردہ وسائل نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔۔ اور اس کے لیے میں تیری قدر کرتا ہوں۔ اس گھر کی ہر اچھی اور خوبصورت شے تیری سالہا سال کی تگ و دو اور محنت کی مرہونِ منت ہے۔ اب میری بیوی یہاں آکر ان سب اشیاء پر اپنی ملکیت جمانا چاہتی ہے۔ ان میں تیری شراکت کسی حال میں برداشت نہیں کر سکتی۔۔“

”اس کی بھرپور درِ پردہ مزاحمت کے باوجود ہم ماں بیٹے کا باہمی پیار آج تک بدستور قائم ہے۔۔ لیکن امّاں جان لے کہ اب میرا صبر اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ میری بیوی تیرے سامنے منہ نہیں کھولتی تو میں اس کا احسان مند ہوتا ہوں۔ ابا مرحوم تیری پٹائی کیا کرتے تھے تجھے گالیاں دیتے تھے لیکن تُو ہمیشہ خاموشی سے برداشت کرتی رہتی تھی۔ کیا تو جانتی ہے کہ میں اپنی بیوی کی پٹائی نہیں کرنا چاہتا؟ اسے گالیاں دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اماں! میں یہ حرکتیں نہیں کر سکتا۔۔۔۔ جب کبھی وہ تند مزاجی کا مظاہرہ کرتی ہے تو میرا اٹھا ہوا ہاتھ اس کے چہرے پر نہیں پڑتا۔ میرے منہ میں آئی ہوئی تمام مغلظات واپس لوٹ جاتی ہیں۔ جانتی ہو کیوں؟ محض تیری خاطر۔۔ اس لیے کہ جب کبھی میں اسے سیدھا کرنے کا ارادہ کرتا ہوں، اس کی پہلی شرط یہی ہوتی ہے، اس گھر میں اپنی مرضی نہیں چلا سکتی، اونچی آواز میں ہنس نہیں سکتی۔۔ تجھے کھانے کی میز پر پرائے لوگوں کی طرح بیٹھا دیکھ کر اس کے اعصاب تن جاتے ہیں۔ آہ۔۔ اماں وہ کیا جانے کہ تیری انتڑیاں تو صرف ابا جان کی روٹیوں کی بھوکی ہوا کرتی تھیں کہ اب تو مجھ پر ترس کھا کر میری کمائی یوں ہی اڑانا نہیں چاہتی۔ میں یہ سب کچھ خوب سمجھتا ہوں مگر وہ نہیں سمجھتی۔۔

”امّاں! جب سے میں نے شادی کی ہے، تیرے گھٹنوں سے جڑ کر سونے کی حسرت پوری نہیں کر سکا۔ میری بیوی کی خوبصورت ٹانگوں سے شہوانی بُو اٹھتی ہے۔ ان پر سر رکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے میرے سر کے نیچے حساب لگانے کی مشین کے بٹن چل رہے ہوں۔۔ حالانکہ ٹانگوں میں ایسی کوئی بات نہیں۔ تجھے یاد ہے اماں! ہمارے سر چھپانے کے واحد کمرے میں جب دھوپ آتی تھی تو تُو مجھے اپنے گھٹنوں پر لٹایا کرتی تھی۔ میں اس وقت پانچ برس کا ہوں گا۔ مجھے کل کی طرح یاد ہے کہ میرا سر جنگ کے زمانے میں جوؤں سے اَٹّا ہوا تھا۔ تو میرے سر میں سرکہ ڈال کر جوئیں نکالا کرتی تھی۔ انہیں پکڑ پکڑ کر ’چیت‘ کر کے مار دیا کرتی تھی۔ اس ’چیت‘ کی آواز کو آج تک کوئی نغمہ میری روح سے بےدخل نہیں کر سکا۔ اور بات بھی ٹھیک ہے اماں! اس آواز میں جو بے پناہ محبت تھی، اس سے محبت کا اور کون سا نغمہ سبقت لے جاسکتا ہے بھلا؟ ہاں تو میرے سر میں سرکہ لگا کر صاف کرنے کے بعد تو اس میں نفیس ترین احساس کے بیج بود یا کرتی تھی۔ اب اس سرکہ کا کوئی اور ہی دعویدار پیدا ہو گیا ہے۔ میں نے تیرا دودھ پیتے ہوئے تیری چھاتیوں کو چچوڑ چچوڑ کر ستیاناس کر دیا، یہاں تک کہ وہ لٹک کر تیرے پیٹ تک پہنچ گئیں۔ جنگ کی قلتوں کے باعث تیری چھاتیوں میں دودھ کی بھی قلت تھی۔ مگر تو پھر بھی میری خاطر تگ و دو کر کے کسی نہ کسی طرح ان میں چند قطرے فالتو بھرنے کا اہتمام کر ہی لیتی تھی۔ جب میں انہیں جھنجھوڑتا تو تُو کبھی زبان سے اُف تک نہ کہتی ۔اب تیرے پوتے پوتیاں ان لٹکتی چھاتیوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اپنی ماں کی چھاتیاں دیکھتے ہیں جو ابھی تک اصلی حالت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔۔ کیونکہ ان کی ماں نے انہیں ہمیشہ دست بُرد سے بچا کر رکھا۔ ان کے ڈھلک کر بدنما ہو جانے کے ڈر سے اس نے اپنے ہر بچے کو قلیل عرصہ دودھ پلایا۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے میری بیوی کی غلیظ روح کا بدلہ میری اولاد سے لیا۔ اس کی چھاتیاں تو ڈھلکنے سے بچ گئیں مگر ان کے اندر دودھ پیپ بن کر بچوں کے سینے میں سرائیت کرتا رہا، جس کے باعث ان میں ابھی سے جھوٹ، فریب اور خود غرضی ،جیسی بُری خصلتیں پیدا ہو چکی ہیں۔۔۔

”امّاں! چونکہ تُو ان سب حرکتوں کے خلاف تھی، اس لیے جاہل کہلائی۔ تُو ان کے لیے جان کا عذاب بن گئی اور پھر اس گھر کے لئے ناقابلِ برداشت بوجھ سمجھی جانے لگی۔ میری بیوی کو جب غصہ آتا ہے تو یہی رٹ لگاتی ہے کہ نکالو اپنی ماں کو اس گھر سے، مجھے نہیں ضرورت ہے اس بڑھیا کی۔۔ امّاں! کاش میں تجھے یہ کہہ سکتا کہ تو اس گھر سے نکل جا، لیکن کیا کروں، میرے منہ سے یہ الفاظ نہیں نکل سکتے۔۔ اگر میں تجھے گھر سے نکال دیتا تو اپنی بیوی سے کہتا، ’واقعی تُو ٹھیک کہتی تھی میری جان! وہ بڑھیا واقعی بے شرم چیز تھی، اس نے ہماری خوشیوں کے پَر نوچ کر رکھ دیئے تھے۔‘ میرے یہ الفاظ میری بیوی کے لیے کس قدر خوش کُن ہوتے۔ لیکن اماں! ایک بات جو وہ بھول رہی ہے، یہ ہے کہ فرض کرو میں آج تجھے بازو سے پکڑ کر باہر کر دیتا ہوں اور ہم میاں بیوی اپنی اس خود غرضی کی دنیا میں اکھٹے ہو جاتے ہیں، تب میں اس کے سامنے ہر معاملے میں شیر بن جاؤں گا۔ اس کی کسی غلیظ حرکت کو معاف نہیں کروں گا۔ یہاں تک کہ اس کے منہ پر تھپڑ مارنے سے بھی گریز نہیں کروں گا۔ پھر تو وہ تیرا عذر پیش نہیں کر سکے گی۔ تیرے چلے جانے کے بعد میرا سارا صبر اس کی جان پر پڑے گا۔ تُو بات سمجھتی ہے ناں اماں؟ یعنی ہو سکتا ہے تیرے چلے جانے کے بعد مجھے اس کو کان سے پکڑ کر گھر سے باہر نکالنا پڑے۔ وہ اس وقت یہ حقیقت نہیں سمجھتی۔ محض تیری وجہ سے گھر میں مجھ سے اپنی من مانی کرواتی رہتی ہے۔“

وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا ۔ پھر اِدھر اُدھر کا جائزہ لیا اور ٹھنڈی آہ بھر کر بولا: ”آہ ماں۔۔ اور کتنی ہی باتیں ہیں، جن کی تجھے خبر نہیں۔۔ تجھے یاد ہے کہ تُو ہمیں اپنی شادی کا قصہ سنایا کرتی تھی؟ شادی کے وقت تو بالکل بچی تھی۔ کوئی بارہ تیرہ برس کی ہوگی۔ بابل کے گھر شادی کا جوڑا پہنے گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی کہ تیرے ماموں نے تیرا گھونگھٹ ایک طرف کر کے کہا تھا ’دیکھ زینب یہ شادی کا جوڑا تیرا کفن ہے، باہر کھڑی ڈولی تیرا جنازہ ہے۔ اب تو اس گھر کے لیے مر چکی ہے۔ سسرال میں اپنے گھر والوں کے لیے خواہ کتنی اداس کیوں نہ ہو، خبردار جب جی چاہے اٹھ کر ادھر کا رخ نہ کر لینا۔ تُو جتنی دیر بعد ادھر کا چکر لگائے گی اتنی ہی سسرال میں تیری عزت ہوگی۔ تُو بلند ہمت سمجھی جائے گی۔‘ یہ تھے وہ الفاظ جنہیں ذہن نشین کر کے تو مجلہ عروسی میں داخل ہوئی تھی، شادی سے پہلے تُو نے ابا جان کا کبھی نام تک نہ سنا تھا۔ شادی کے بعد ساس نندوں کے ظلم سہہ سہہ کر تیرا قد جتنا تھا، اتنا ہی رہ گیا۔۔

”اب ذرا میری شادی کی بھی داستان سن لے جو شرم کے مارے آج تک تجھ سے چھپاتا آیا ہوں۔ ایک روز میں سمندر میں نہانے کے لیے گیا۔ اپنی بیوی کو میں نے پہلی بار وہاں دیکھا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ میری نگاہیں اس کے حسین سڈول جسم پر جمی رہیں۔ چند روز بعد میں نے پھر اسے وہیں دیکھا اور پھر اس نے اپنا سب کچھ میرے نام سپرد کر دیا۔ حالانکہ تُو شادی کے کتنا عرصہ بعد تک بھی اپنے آپ کو ابا جان کے حوالے کرتے ہوئے ہچکچاتی رہی ہوگی۔ دیکھا امّاں! جو چیز جتنی جلدی ہاتھ لگ جائے، اس کے حصول کی خوشیاں اتنی ہی تیزی سے ہوا ہو جاتی ہیں۔“

اسے ساتھ والے کمرے میں آہٹ سنائی دی۔ ہو سکتا ہے، اُس کی بیوی سو رہی ہو مگر اس نے سہمے سہمے لہجے میں ماں کو پکارا: ”امّاں، میرا خیال ہے کہ وہ جاگ اٹھی ہے، کہیں ہم دونوں کو اکٹھا نہ دیکھ لے۔ اگر وہ رات کی اس گھڑی میں مجھے کسی فاحشہ کے ساتھ بھی دیکھ لے تو شاید اتنی برہم نہ ہو، جتنی ہم دونوں کو اکٹھا دیکھ کر ہوگی۔ وہ جب دیکھتی ہے کہ ماں بیٹے کی محبت میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں ہوئی تو حسد سے جل اٹھتی ہے۔ امّاں! تو نے مجھ میں کس قدر قباحتیں دیکھی ہیں، لیکن تو میرا ہر قصور معاف کر دیتی ہے۔ ہر بار تیرے محبت بھرے دل کے دروازے میرے لیے کھل جاتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ تجھے اپنے سر پر بٹھایا ہے۔ تیرے ہر ناز کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ تیرا میرا باہمی پیار کا رشتہ، خاص کر میرے لیے تیرا اپنی ساری زندگی وقف کر دینا ہی تو ہے، جو میری بیوی کو خوفزدہ کرتا ہے۔ کیونکہ میاں بیوی کے محبت کے رشتے میں وہ بات نہیں پائی جاتی جو ماں بیٹے کی محبت کا خاصہ ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ہم دونوں میاں بیوی کئی کئی روز ایک دوسرے سے نہیں بولتے۔ نہایت معمولی باتیں اپنے دلوں میں دبائے رکھتے ہیں اور پھر وقت آنے پر ایک دوسرے کے منہ پر دے مارتے ہیں۔ آخر ہم ٹھہرے جو اجنبی انسان۔۔ اجنبی نہ سہی، پھر بھی ہمارا ایک دوسرے کی تکمیل کا سلسلہ آپس کی پہلی ملاقات کے بعد ہی شروع ہوا تھا ناں۔ حالانکہ جہاں تک تیرا اور میرا معاملہ ہے، میں تجھے اپنی پیدائش کی پہلی گھڑی سے پہچانتا ہوں۔ تیری میری پہلی ملاقات کے وقت میری بیوی ابھی اس دنیا میں وارد ہونے کا موقع تلاش کر رہی ہوگی۔ اماں! وہ جانتی ہے کہ اس بُعد کو کسی طرح عبور نہیں کر سکتی، اس لیے وہ ہم دونوں کو قانونِ قدرت کے ہاتھوں شکست دینا چاہتی ہے۔ وہ بڑی بے صبری سے تیری موت کا انتظار کر رہی ہے، لیکن میری خواہش ہے کہ مجھے تیری موت کے لئے صبر نہ کرنا پڑے، بلکہ تو ایک دم ہی مر جائے۔ تیری موت تیری میری محبت کا بہت بڑا تاوان ہوگی، جو میری بیوی مجھے ادا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔۔

”اگر تُو مر جائے تو یہ تاوان ادا ہو جائے گا۔۔ مگر میں بھی اس کا انتقام لینے کے قابل ہو جاؤں گا۔ جب تک تو زندہ سلامت ہے، میں اس سے انتقام نہیں لے سکتا۔ اگر میں تیری زندگی میں ہی اسے سزا دوں گا تو وہ اپنا دکھ بھول بھال کر میرے دکھ کی آگ میں جھلسنے لگے گی۔ اس گھر میں ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ تجھے کوئی دکھ نہیں، حالانکہ میں جانتا ہوں اماں، تیرے دکھوں کی تعداد تیری عمر کے برسوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ تُو اس گھر کی سب کچھ ہوا کرتی تھی۔۔ اور اب یہ حالت ہے کہ تو اس گھر کے سب سے چھوٹے۔۔ سب سے چھوٹے، کوڑ کباڑ سے لدے کمرے میں چارپائی بچھائے زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔ تیری جیب میں وہی چند سکے ہوتے ہیں جو کبھی کبھار میں بیوی سے آنکھ چرا کر تجھے تھما دیتا ہوں۔ کون جانے تو ان پیسوں کو بچا بچا کر رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کرتی ہوگی۔ ان کے ختم ہو جانے کے خوف سے کیسے کانپ اٹھتی ہوگی۔۔

”تو میری پیاری اماں، اگر تُو واقعی مجھ سے پیار کرتی ہے اور تجھے میری مجبوریوں کا احساس ہے تو اب اللہ کو پیاری ہو جا۔ اور اگر تیرے مرنے کے بعد بھی میں اپنی بیوی سے انتقام نہ لے سکا تو سمجھوں گا کہ دنیا نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ پھر ایسی حالت میں انسان کیا کر سکتا ہے اماں؟ لیکن اماں میرا دل ابھی سے گواہی دے رہا ہے کہ قدرت انصاف سے ہی کام لے گی۔۔ اور ساتھ ہی میں اس لڑکی کے بارے میں بھی سوچ رہا ہوں، جو خود میرے بیٹے کی دلہن بن کر ایک روز میرے گھر آئے گی۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close