بھوپت ڈاکو سے امین یوسف تک: بغاوت سے عقیدت کے سفر کی کہانی

ویب ڈیسک

یہ کہانی ہے بھوپت ڈاکو کی، جونا گڑھ کے جنگلوں سے اٹھنے والے اُس شیر دل باغی کی، جس کا نام کبھی خوف کی علامت تھا اور جس کے قصے آج بھی لوک داستانوں کی طرح سنائے جاتے ہیں۔ مگر قسمت نے ایک ایسا موڑ لیا کہ وہی بھوپت، وقت کی گردشوں میں امین یوسف بن گیا۔

واضح رہے کہ ریاست جونا گڑھ کا شمار تقسیمِ ہند سے قبل کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے، جن کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا، لیکن انڈین حکومت نے ان کا یہ فیصلہ قبول نہیں کیا اور پھر یہ ہندوستان کا حصہ بن گئیں۔ نتیجتاً جونا گڑھ کے لوگوں نے بڑی تعداد میں انڈیا سے ہجرت کی اور پاکستان منتقل ہو گئے۔ ان کی اکثریت کراچی میں آباد ہوئی اور کراچی میں ان کی جماعت خاصی فعال ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو جونا گڑھ کے آخری وزیراعظم تھے۔

قیامِ پاکستان سے پہلے جونا گڑھ کی خوشحال ریاست ڈاکوؤں کے لیے خزانے کی جنت تھی۔ یہاں بھوپت کے ساتھ، قادو مکرانی، ہیرا اور جھینا جیسے نام بھی ظلم کے خلاف بغاوت کے استعارے بنے۔ بھوپت کے بارے میں دیومالائی کہانیاں مشہور ہیں کہ یہ امیروں کی دولت لوٹ کر غریبوں میں بانٹتا تھا۔ یہ انگریز سامراج کے خلاف تھا اور اس کے ساتھ ساتھ مہاجنوں اور بنیوں کے بھی۔۔

بھوپت کو ’سینھ‘ کہا جاتا تھا، جس کے معنی گجراتی میں شیر کے ہیں، اور ’باروٹیہ‘ ، یعنی وہ باغی جو اپنی آن بان کی خاطر طاقتوروں سے ٹکرا جائے۔

بھوپت کی زندگی جرائم اور بغاوت کا امتزاج تھی، مگر تقدیر کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ وقت کی آندھیوں نے اسے پاکستان کی سرزمین پر لا پھینکا، جہاں اسے نہ صرف قید کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ایک نئی پہچان ملی۔ بھوپت نے زندگی کے دھارے کو موڑتے ہوئے اسلام قبول کیا اور ’امین یوسف‘ کے نام سے اپنی کہانی کو ایک نئی سمت دی۔

یہ داستان صرف ایک ڈاکو کی نہیں، بلکہ انسان کے اندر چھپے ہوئے تغیر، بغاوت اور نجات کے سفر کی کہانی ہے۔ بھوپت سے امین یوسف بننے کا سفر یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی میں ہر کہانی کا ایک نیا باب کھل سکتا ہے، چاہے آغاز کتنا ہی تاریک کیوں نہ ہو۔

اقبال پاریکھ اپنی اپنی کتاب ’جونا گڑھ اجڑے دیار کی کہانی‘ میں بھوپت سنگھ عرف امین یوسف کے بارے میں لکھتے ہیں ”بھوپت کے والد کا نام مہرو جی تھا۔ بھوپت اور اس کا ساتھی دان سنگھ دونوں راجپوت تھے، بھوپت کا بچپن چالا رادھاری کے پرودی گاؤں میں گزرا تھا جہاں وہ اپنے ماموں کے پاس رہتا تھا۔ جب امر واڑہ کو واگھڑیا دربار کی گدی ملی تو بھوپت نے امر واڑہ سے نوکری کی درخواست کی۔ امر واڑہ نے بھوپت کی بہادری اور نڈر پن کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے باڈی گارڈ کے طورپر ملازم رکھ لیا۔ بھوپت میں کمال کی پھرتی اور ہمت تھی، وہ بلا کا نشانے باز تھا، اس کے علاوہ جیپ چلانا اور بندوق چلانا اسے خوب آتا تھا۔ وہ گُھڑ سواری میں بھی مہارت رکھتا تھا، کسی بھی مصیبت اور پریشانی میں وہ راستہ تلاش کر لیتا تھا، لڑائی کے دوران وہ خطرات سے کھیلنا اور بچ کر نکلنا جانتا تھا، وہ سرکس کے ہیرو جیسا تھا، شکل و صورت اور حلیہ تبدیل کرنے میں اسے خصوصی مہارت حاصل تھی، یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی اسے پکڑ نہیں سکتا تھا۔ بھوپت سیر و تفریح کا دلدادہ تھا، کبھی کبھی وہ جونا گڑھ کے ہریش سنیما کے منیجر کو اطلاع کر کے اپنے لیے نشست مخصوص کرواتا اور بھیس بدل کر فلم دیکھ لیا کرتا تھا“۔

اقبال پاریکھ ”جونا گڑھ، اجڑے دیار کی کہانی“ میں بھوپت کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں: ”کاٹھیاواڑ کے مشہور لیڈر سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بھوپت کو ’چھوٹے شیوا جی‘ کا خطاب دیا تھا۔ ولبھ بھائی پٹیل نے بھوپت کو انعام و اکرام کا لالچ دے کر مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا جس کے باعث واساور کی میمن برادری نے دہلی جا کر گاندھی جی سے شکایت کی کہ سردار پٹیل نے بھوپت کو ’چھوٹے شیواجی‘ کا لقب دیا ہے، اور اب وہ ہمیں بھی لوٹے گا۔ بھوپت کو جب یہ بات پتہ چلی تو کمال چالاکی سے گاندھی جی کو پیغام بھیجا کہ میں مسلمانوں کے خلاف نہیں ہوں، بلکہ ظالموں کے خلاف جنگ کر رہا ہوں۔ دوسری جانب بھوپت نے میمنوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے خلاف نہیں ہے بلکہ ظالم مہاجنوں اور بنیوں کا جانی دشمن ہے۔

دربار امر واڑہ کو بھوپت کی یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس نے کہنا شروع کر دیا کہ میں نے بھوپت گروپ تشکیل دیا تھا، جو ہمارے خلاف ہو گیا ہے اور میمنوں کی مدد کی باتیں کرتا ہے۔ لہٰذا دربار امر واڑہ نے بھوپت کے خلاف محاذ بنا لیا۔ اس نے بھوپت کو گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر وہ روپوش ہو گیا۔ بھوپت نے گرنار کے پہاڑی علاقے اور گیر کے جنگل میں پناہ گاہ بنا رکھی تھی۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ گرنار کی پہاڑیوں میں مجھے اس طرح کا تحفظ ملتا ہے، جس طرح بچے کو ماں کی گود میں حفاظت ملتی ہے۔

بھوپت اکثر سورٹھ کے دارالحکومت راجکوٹ میں اپنے بیوی بچوں سے ملنے جایا کرتا تھا۔ سورٹھ کی سر زمین پر بھوپت اور اس کے ساتھیوں نے ظلم و استبداد کے خلاف خون کی جنگ لڑی تھی۔ بھوپت ہندو تھا، لیکن وہ ہندو مہاجنوں اور بنیوں کو ظالم و جابر سمجھتا تھا۔ بھوپت بچپن سے ہی بہادر اور نڈر تھا، اور ہر ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ ظلم و جبر سے نفرت اس کی فطرت میں شامل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امیر ظالم بنیوں اور مہاجنوں کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ڈاکو بن گیا اور پھر اس نے ظالموں اور جابروں کو تباہ و برباد کرنے اور مظلوموں، غریبوں کی امداد کرنا اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا۔“

جونا گڑھ کی وادیوں میں بھوپت ڈاکو کا نام ایک خوفناک افسانہ تھا، مگر یہ صرف دہشت کی کہانی نہیں، بغاوت اور انصاف کا عجیب امتزاج بھی تھا۔ بھوپت ظلم کے خلاف جیتا تھا، جابر مہاجنوں اور دولت کے پجاری بنیوں سے لوٹ کا مال چھین کر غریبوں اور یتیموں میں بانٹ دیتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے سینکڑوں یتیم بچیوں کی شادیاں کروائیں۔ وہ ڈاکو ضرور تھا مگر اپنے اصولوں کا بھی پکا تھا۔

بھوپت کی انوکھی بات یہ تھی کہ وہ اپنی وارداتوں کی پیشگی اطلاع دیتا، اور حیرت انگیز طور پر پولیس اور انتظامیہ کی سخت ناکہ بندی کے باوجود کامیاب ہو جاتا۔ اس کے نام سے جونا گڑھ کی مائیں اپنے بچوں کو ڈرایا کرتی تھیں، مگر غریبوں کی دعائیں اسے ایک انوکھا تقدس بھی بخشتی تھیں۔

بھوپت ڈاکو کی کارروائیاں اس وقت کی انڈین حکومت کے لیے دردِ سر بن گئی تھیں اور وہ ہر صورت میں بھوپت کو گرفتار کرنا چاہتی تھی، لیکن کسی بھی طرح انہیں اس حوالے سے کامیابی نہیں مل سکی۔ وہ ہر صورت واردات کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتا تھا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا منہ دیکھتے رہ جاتے تھے۔ بھوپت کے لیے انڈیا میں زمین تنگ کر دی گئی، جس کے بعد اس نے انڈیا چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

اِس کہانی کو اقبال پاریکھ اپنی کتاب میں یوں بیان کرتے ہیں: ”بھارتی حکومت نے بھوپت کی گرفتاری کے لیے بھاری رقم بطور انعام مقرر کر رکھی تھی۔ جونا گڑھ میں عارضی حکومت قائم ہونے کے بعد ایک روز بھارتی فوج اور پولیس نے گرنار کی پہاڑیوں کو گھیرے میں لے لیا، جو بھوپت کی پناہ گاہ تھیں۔ بھوپت نے اپنی مخصوص وردی اور صافہ پہاڑی پر ایسے رکھ دیا کہ بھارتی فوج یہی سمجھی کہ وہ پہاڑی پر موجود ہے۔ اس طرح بھوپت اپنے مخصوص انداز میں بھارتی فوج اور پولیس کو دھوکہ دے کر راجھستان کے راستے پاکستان میں داخل ہو گیا۔“

یہ 1952 کی بات ہے، جب بھوپت اور اس کا گینگ انڈیا میں دہشت کی علامت بن چکے تھے۔ 82 جانوں کا حساب، سینکڑوں وارداتوں کی گرد اور پولیس کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے بھوپت کو مجبور کیا کہ وہ اپنی زندگی بچانے کے لیے ایک ناقابلِ یقین قدم اٹھائے۔ وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ سرحد پار کر کے پاکستان جا پہنچا، جہاں اسے گرفتار کر لیا گیا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ بھارت میں سینکڑوں جرائم کا ملزم بھوپت پاکستان میں کسی سنگین جرم میں ملوث نہ تھا۔ صرف بغیر اجازت داخل ہونے اور بغیر لائسنس ہتھیار رکھنے کا الزام لگا۔

غیر قانونی داخلے اور ہتھیار رکھنے کے جرم میں گرفتار ہونے کے بعد، بھوپت کا سامنا ایک مختلف انصاف کے نظام سے ہوا۔ عدالت نے اسے ایک سال کی قید کی سزا سنائی، گویا یہ وقت اس کی زندگی کی کتاب کا ایک نیا باب لکھنے والا تھا۔

یہ کہانی صرف ایک ڈاکو کی سرحد پار کرنے کی نہیں، بلکہ انسان کی بقا کی جستجو، حالات کے جبر، اور سرحدوں کے اُس پار کی ان کہانیوں کی ہے جنہیں وقت کی دھول کبھی چھپا نہیں سکتی۔ بھوپت کی کہانی یہ سکھاتی ہے کہ جب زندگی بند گلی میں داخل ہوتی ہے تو سرحد کے اُس پار بھی ایک نیا آغاز چھپا ہوسکتا ہے، چاہے وہ آغاز جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔

دوسری جانب جب بھارتی حکومت کو اس کی گرفتاری کی خبر ملی تو وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو نے ذاتی طور پر پاکستانی وزیرِاعظم محمد علی بوگرہ سے بھوپت کی حوالگی کی درخواست کی۔

مشہور کتاب ’دا پیپل نیکسٹ ڈور: دا کیوریس ہسٹری آف انڈیاز ریلیشن ود پاکستان‘ کے مصنف اور پاکستان میں انڈیا کے سفیر کے عہدے پر رہ چکے ڈاکٹر ٹی سی اے راگھون بتاتے ہیں ”اس کے بارے میں نے ایک فائل دیکھی تھی جو میرے پاس ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کے لیے آئی تھی تاکہ اسے نیشنل آرکائیوز میں بھیجا جاسکے۔ یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ اس کے بارے میں دونوں ممالک کے درمیان کئی بار اعلیٰ سطحی بات چیت ہوئی۔ مشکل یہ تھی کہ اس مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انڈیا کے پاس کوئی قانونی جواز نہیں کیونکہ تب تک دونوں ممالک کے درمیان ملک سے بھاگے ہوئے لوگوں کو واپس کرنے سے متعلق کوئی معاہدہ طے نہیں پایا تھا۔“

وہ لکھتے ہیں”جب انڈیا کے اس وقت کے سفارتخانے کی جانب سے بھوپت ڈاکو کو ملک واپس لانے کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں تو انہوں نے پاکستان کی حکومت پر یہ الزام لگایا کہ وہ سیاسی طور پر اتنی کمزور ہے کہ ووٹوں کی پرواہ کیے بغیر بھوپت کو انڈیا کو سونپنے کی ہمت نہیں کر سکتی۔“

بھارت کی جانب سے مستقل دباؤ اور میڈیا میں لگاتار اس پر بحث کی وجہ سے جولائی 1956 میں اس وقت کے انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کے درمیان اس بارے میں بات چیت ہوئی۔

اس کے بعد نہرو نے وزارت خارجہ کی فائل پر لکھا ”پاکستان کے وزیر اعظم نے میرے سامنے بھوپت کا معاملہ اٹھایا۔ میرے خیال سے اس بارے میں شروعات ان کی طرف سے ہوئی۔ مسٹر بوگرہ نے کہا وہ پوری طرح سے اس بات سے متفق ہیں کہ بھوپت کی حوصلہ افضائی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔ اسے انڈیا واپس بھیجے جانے کے بارے میں انہوں نے یہ کہ کر ہاتھ جھاڑ لیے کہ دونوں ممالک کے درمیان ملک سے بھاگ کر آنے والوں کو واپس کرنے سے متعلق معاہدہ ہی موجود نہیں ہے۔“

محمد علی بوگرہ نے پیشکش کی کہ ”ہم زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ بھوپت کو سرحد کے اُس پار دھکیل دیں، جہاں بھارتی پولیس اسے پکڑ لے۔“ لیکن قسمت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔ یہ پیشکش پریس میں لیک ہو گئی اور پاکستان نے اس پیشکش سے دستبردار ہوکر بھوپت کو اپنی زمین پر رہنے دیا۔

انڈین میڈیا میں اس وقت بھوپت سے متعلق خبریں چھائی رہتی تھیں۔ بلٹز نے اپنے اپریل 1953 کے ایڈیشن میں یہ سرخی جمائی ”کیا بھوپت پاکستانی فوج کے بھارتیہ ڈاکوؤں کو بھرتی کررہا ہے؟“

اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھوپت پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے کے لیے بھارتی ڈاکوؤں کو بھرتی کر رہا ہے اور ایک ٹاپ سیکرٹ مشن کے لیے انڈیا پاکستان سرحد کے نزدیک گھوم رہا ہے۔

ٹی ایس اے راگھون بتاتے ہیں ”میڈیا کی قیاس آرائیوں کے درمیان بھوپت کی حکمت عملی یہ تھی کہ کسی بھی صورت میں پاکستان اسے انڈیا کے حوالے نہ کرے، جہاں اسے پھانسی پر لٹکایا جانا تقریباً طے تھا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اس کے بعض حامیوں نے سڑکوں پر ڈرامے کر کے اس کے لیے چندا جمع کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے تقریباً 1500 روپے جمع کیے۔ اس زمانے میں یہ کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ اس سب سے بھوپت کی اتنی حوصلہ افزائی ہوئی کہ اس نے ایک فلم بنانے کا منصوبہ بنایا جس میں جوناگڑھ پر بھارتی فوج کی قبضے کو دکھایا جاتا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اس طرح کی فلم سے انڈیا کے خلاف پاکستان کے پروپیگینڈا کو فروغ ملے گا۔“

بھوپت کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ انڈیا بھیجے جانے سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے یہ وہ خود کو جونا گڑھ کی آزادی کے لیے لڑنے والا شخص بتائے۔ اس نے صوبے سندھ کی ایک عدالت میں یہ دلیل دی کہ اس نے آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا ہے اور اسی بنیاد پر رہائی کا مطالبہ کیا۔

بلٹز اخبار نے بھوپت کے ان دلائل کو شا‏ئع کرتے ہوئے لکھا ”جب میری ریاست جوناگڑھ پاکستان میں ضم ہو گئی تو بھارتی فوج نے اس پر حملہ کر دیا۔ ہم نے طاقت کا جواب طاقت سے دینے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے ساڑھے تین سالوں تک بھارتی فوج کا مقابلہ کیا لیکن آخر میں فتح ان ہی کی ہوئی۔ اس کے بعد مجھے انڈیا چھوڑنے اور پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ میں پاکستان کے تئیں وفادار ہوں جس نے مجھے پناہ دے کر میری زندگی بچائی۔ پاکستان کی حفاظت کے لیے میں اپنے جسم کے خون کی آخری بوند تک دینے کے لیے تیار ہوں۔“

ڈاکٹر ٹی سی اے راگھون بتاتے ہیں ”جوناگڈھ کے فریڈم فائٹر ہونے کی بھوپت کی دلیل آخرکار رنگ لائی اور اسے پاکستان میں پناہ دے دی گئی۔“

یوں بھوپت کی کہانی ایک افسانے سے حقیقت تک اور پھر حقیقت سے ایک زندہ روایت بن گئی، جہاں دہشت، بہادری، انصاف اور سیاست کی الجھی ہوئی ڈوریں ہمیشہ کے لیے یادگار بن گئیں۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا، اور بھوپت ڈاکو کی قسمت نے ایک حیران کن موڑ لیا۔ صرف ایک سال کی قید کے بعد، جب وہ آزاد ہوا تو وہ صرف ایک سابقہ ڈاکو نہیں تھا بلکہ ایک بدلا ہوا انسان تھا۔ قید کے دنوں میں اس کی ملاقات عالمِ دین مولانا محمد یوسف سے ہوئی، جن کی شخصیت نے بھوپت کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا۔ بھوپت نے اسلام قبول کرتے ہوئے اپنا نام ’محمد امین‘ رکھا، مگر اپنے مرشد سے عقیدت کے اظہار میں ان کا نام بھی اپنے ساتھ شامل کیا، یوں وہ ’امین یوسف‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔

آزادی کے بعد، امین یوسف کی زندگی نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ اس نے ایک مسلمان خاتون حمیدہ بانو سے شادی کی، جس سے اللہ نے اسے تین بیٹے اور چار بیٹیاں عطا کیں: محمد فاروق، محمد رشید، محمد یٰسین، نجمہ، بلقیس، پروین، اور بائی ماں۔ اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے امین یوسف نے کراچی کے پاکستان چوک پر ایک دودھ کی دکان کھولی اور ایمانداری سے روزگار کمانے لگا۔

زندگی نے ایک اور حیرت اس وقت دی جب 1960 کی دہائی میں اسے مشہور فلم ’جاگ اٹھا انسان‘ میں قادو مکرانی کا کردار ادا کرنے کی پیش کش ہوئی۔ مگر اپنی نئی شناخت کے احترام میں اس نے شوبز کی دنیا میں قدم رکھنے سے انکار کردیا۔ بعد میں یہ کردار محمد علی نے ادا کیا۔ بہرحال کچھ سالوں بعد، امیں یوسف حج کی سعادت بھی حاصل کر چکا تھا، گویا اپنے ماضی کے تمام گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا۔

امین یوسف کی زندگی صرف اعمال تک محدود نہ رہی بلکہ اس کی داستان ایک تحریری ورثہ بھی بن گئی۔ قید کے دوران، اس نے اپنی زندگی کی کہانی ’کالو وانک راوت وانک‘ نامی ساتھی سے گجراتی زبان میں لکھوائی، جس کا اردو ترجمہ جعفر منصور نے کیا۔ یہ کتاب 1957 میں سکھر سے اور 2017 میں کراچی سے شائع ہوئی، یوں بھوپت کی کہانی لفظوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔

بعد میں بھوپت کا پیچھا کرنے والے پولیس افسر وی جی کانٹکر نے بھی مراٹھی زبان میں ایک کتاب لکھی۔ انہوں نے بتایا کہ بھوپت ہر واردات کے بعد ایک تحریری پیغام میں پولیس کو وارننگ دے کر جاتا تھا جسے ’جاسا‘ کہا جاتا تھا۔

کانٹکر کہتے ہیں وہ انہیں ہمیشہ ’ڈیکرا‘ کر کے مخاطب کرتا تھا جبکہ وہ عمر میں ان سے دس برس چھوٹا تھا۔ ڈیکرا کا مطلب ہوتا ہے بیٹا۔

کانٹکر نے بھوپت کو پکڑنے کے لیے پیروں کے نشان پہچاننے والے ماہرین کی مدد لی تھی۔

ایک پولیس انکاؤنٹر میں اس کے ساتھی دیوایت کی موت کے بعد بھوپت نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ پاکستان بھاگنے کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے ایک ساتھی امر سنگھ کچھ دنوں کے بعد انڈیا واپس لوٹ آیا۔ بعد میں خبر آئی کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد بھوپت نے دودھ فروخت کرنے کا کاوربار شروع کر دیا۔

28 ستمبر 1996 کو کراچی میں امین یوسف کا انتقال ہوا۔ یہ ایک ڈاکو کی کہانی تھی جو زندگی کے دھارے کے ساتھ بدل کر نیکی، عقیدت اور ایمان کا استعارہ بن گیا۔ آج وہ کراچی کی خاک میں آسودۂ خواب ہے، مگر اس کی کہانی وقت کے افق پر ہمیشہ زندہ رہے گی۔

یہ خبر بھی پڑھیں:

کنفیشنز آف اے ٹھگ: مشہور ٹھگ امیر علی کی زبانی ہندوستان کے شاطر ٹھگوں کی داستان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close