ایجوکیشن سٹی میں آغا خان ہاسپٹل کی زہریلی ہوائیں

حفیظ بلوچ

کوئی مانے یا نہ مانے ہمارے لہو سے ہماری قبروں پہ ’ترقی‘ کی عمارت تعمیر ہو رہی ہے، چاہے وہ پچھلے پچھتر سال سے کراچی شہر کا پھیلتا کنکریٹ کا جنگل ہو، جس میں کراچی کے انڈیجینئس لوگوں کو اپنی ہی زمینوں، گھروں سے بےدخل کیا گیا، ان پچھتر سالوں میں قبضہ مافیا و بلڈر مافیاز کے ہاتھوں کتنے گوٹھ ختم ہوئے، کتنی زمینیں لوگوں سے چھینی گئیں، چاہے لیاری ندی کا قتل ہو یا ملیر دریا کی تباہی، بحریہ ٹاؤن کراچی ہو کہ ڈی ایچ اے، چاہے ملیر ایکسپریس وے ہو کہ سینکڑوں کمرشل ہاؤسنگ پراجیکٹس، غیر قانونی فیکٹریاں۔۔ ہمیشہ کراچی کے اصلی قدیم باشندے ہی قربانی کا بکرا بنے ہیں۔

ویسے بات صرف یہاں تک ہوتی کہ سرکار، سردار، سرمایہ دار، رہبر، رہزن ہی اپنے ہاتھوں میں خنجر لیئے ہمیں نوچ رہے ہیں تو بھی شاید اپنی قسمت کو رو لیتے مگر ایجوکیشن یا تعلیم کے نام پر جو ہمارے لوگوں ہماری زمینوں اور ہواؤں کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور کرنے والا آغا خان ہاسپٹل جیسا نیک نام ادارہ ہو تو کس کو پیٹیں، سر کو کہ جگر کو۔۔

’ایجوکیشن سٹی‘ کمرشل بنیاد پر صرف سرمایہ داروں دھندہ کرنے والے اداروں کے لیئے ملیر کی زمینوں کے بندر بانٹ کا نام ہے۔۔ یہ اس چراغ کی طرح ہے، جو روشنی دینے کا دعویٰ کرے، مگر اس کی لو ایسی ہو جو آس پاس سب کچھ جلا کر راکھ کر دے۔

اسی نام نہاد ایجوکیشن سٹی کے ایک طرف ڈی ایچ اے اور دوسری طرف بحریہ ٹاؤن کراچی ہے، ان کے لیئے ملیر ندی کے اندر ایکسپریس وے بنایا جا رہا ہے یعنی چاروں طرف ملیر کا استحصال ہو رہا ہے۔ وہ ملیر، جو کراچی کے لیے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھتا ہے۔ واحد بچا کچھا گرین بیلٹ اور جنگلی حیات کا مسکن!

ایجوکیشن سٹی کے اندر آغا خان کے ادارے نے جو زمینیں لی ہیں، کئی برسوں سے زمینوں پر باڑ لگا کر صرف زمینوں پر قبضہ کیئے ہوئے ہے۔ انہی زمینوں کے آس پاس کئی گاؤں ہیں، زرعی زمینیں ہیں، پچھلے آٹھ سال سے آغا خان ہاسپٹل کا سارا ویسٹیج ہر طرح کا زہریلہ فضلہ اسی ایجوکیشن سٹی میں آغا خان کی لی ہوئی زمینوں میں جلایا اور ڈمپ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آٹھ سے دس ایکڑ کے دائرے میں ہوائیں اسی ڈمپنگ کے دھوئیں سے زہریلی ہو چکی ہیں، اس زہریلی ہوا سے آس پاس کے گاؤں کئی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں، اموات ہو رہی ہیں۔

اس میں سب زیادہ متاثر خیر محمد خاصخیلی گوٹھ ہے، جو دو سو سال سے یہیں آباد ہیں، تین سو سے زائد خاندان اس گاؤں میں رہتے ہیں، دو اسکول ہیں، خیر محمد خاصخیلی گوٹھ ایجوکیشن سٹی میں آغا خان کی زمینوں سے ملحق ہے۔ اس کے ساتھ محمد رحیم خاصخیلی گوٹھ اور کوڈیر خاصخیلی گوٹھ واقع ہیں، جو براہ راست اس دھویں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ آغا خان کے ڈمپنگ بٹھی سے نکلنے والا دھواں، چاہے کسی بھی سمت میں پھیلے، یہ تین گاؤں زہریلے دھویں کی لپیٹ میں ہیں، باقی آٹھ سے دس کلومیٹر کے دائرے میں دیگر گاؤں بھی ہوا میں پھیلے اس دھویں سے متاثر ہوتے ہیں۔

پچھلے دنوں میں نے خیر محمد خاصخیلی گوٹھ کا دورہ کیا۔ میرے ساتھ تین اور دوست بھی تھے۔ زہر آلود دھوئیں کی وجہ سے ہم آدھے گھنٹے سے زیادہ گاؤں میں بیٹھ نہیں سکے، آنکھیں جلنے لگیں، گلا جام ہو گیا، متلی سی کیفیت ہونے لگی، اس کے ساتھ سر میں درد ہونے لگا۔ میرے باقی ساتھیوں کی حالت بھی ایسی ہی تھی۔

ابھی کچھ دن پہلے انڈیجینئس رائیٹس لیگل کمیٹی کی پروفیسر عبیرہ اشفاق اور کلائیمنٹ ایکشن سینٹر کے یاسر دریا کے ساتھ ایک ٹیم لے کر خیر محمد خاصخیلی گوٹھ گئے تھے۔ ہم ماسک وغیرہ لگا کر گئے مگر وہاں آدھے گھنٹے سے زیادہ ٹھہر نہ سکے۔ وہاں جو معلومات ملی، اس کے مطابق پچھلے دو سالوں میں 58 سے زائد اموات ہوئی ہیں، ہیپاٹائیٹس، دمہ اور خارش کی بیماریاں عام ہیں، غریب لوگ ہیں مقامی کلینک میں جا کر دوائی لے کر آ جاتے ہیں۔

خیر محمد خاصخیلی گوٹھ کے استاد نواب خاصخیلی کے مطابق پچھلے آٹھ سال سے ہم اس مصیبت میں مبتلا ہیں، کئی بار آغا خان والوں کو تحریری شکایت کی ہے، وہ آتے ہیں کہتے ہیں: یہ غلط ہو رہا ہے بند کریں گے۔۔ مگر بند نہیں کرتے۔ سر نواب نے میڈیکل کیمپ لگائے، منتخب نمائندوں کو اپنی درد کتھا بتائی مگر کسی نے کچھ نہیں کیا۔

سر نواب کا کہنا تھا ”ہم قسطوں میں مر رہے ہیں۔ ہمارا قتل ہو رہا ہے مگر کوئی کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ آغا خان والوں نے زمینیں لینے سے پہلے اور بعد ہم سے بہت سے وعدے کیئے، وہ وعدے کیا ہوئے نہیں پتہ۔۔ مگر ہمیں بیماریاں دے کر مار رہا ہے۔“

ایجوکیشن سٹی کے اندر چالیس سے زائد گاؤں ہیں، زرعی زمینیں ہیں۔ ایجوکیشن سٹی کے نام سے ملیر کی زمینوں کو مختلف تعلیمی اور پاسپٹلز کو نیلامی میں دیا جا رہا ہے۔ آغا خان ڈمپنگ سائیٹ موت بانٹ رہا ہے۔ بعید نہیں دوسرے ہاسپٹل والے بھی اپنے ڈمپنگ سائیٹ یہاں بنائیں۔

سندھ کی پیپلز پارٹی سرکار ہر طرح سے ملیر کو تباہ کیئے جا رہی ہے، موت بانٹ رہی ہے، زمینوں کو بنجر کیئے جا رہا ہے۔ لیز زمین جو ملیر کے انڈیجینئس لوگوں کا بنیادی حق ہے، وہ چھینی جا رہی ہے۔ ملیر دریا جو یہاں کے لوگوں کی زندگی کے لیے بنیادی اہمیت و حیثیت کا حامل ہے، اسے تباہ کیا جا رہا ہے۔ کھیرتھر نیشنل پارک ملیر کی زندگی کا بنیادی ستون ہے، اسے تباہ کیا جا رہا ہے اور اب رہی سہی ہوا اور فضا ہے، اسے بھی زہر آلود بنا کر ملیر کی سانسیں چھیننے کی کوشش جاری ہے۔

میری درخواست ہے تمام صحافیوں سے، وہ خود ایجوکیشن سٹی کا دورہ کریں اور حقائق دیکھ لیں، تمام انسانی حقوق کی تنظیموں سے گذارش ہے کہ اس انسانی تذلیل کا نوٹس لیں۔ سندھ کی تمام تنظیموں، قوم پرست، وفاق پرست پارٹیوں سے گذارش ہے کہ ملیر کے لوگوں کو پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کا طعنہ ضرور دیں، مگر یہ سندھ کے غریب لوگ اسی سرزمین کا حصہ ہیں، خدارا ان کی مالکی کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close