امن کا طالب (افسانہ)

اوپندر ناتھ اشک

(اونچے اونچے محلوں کی دلفریبی میں بدامنی کو مت ڈھونڈ! ان تنگ و تاریک گلیوں میں جا، جنہیں بھوک، اور مفلوک الحالی نے اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔)

سیاہ لبادے والا، بات بات کی آہٹ لیتا ہوا شہر کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔

اجین کے اونچے مکان آدھی رات کے سناٹے میں ہمالیہ کی بلند چوٹیوں کی طرح کھڑے تھے اور تاریکی انہیں ماں کی طرح اپنی گود میں چھپائے ہوئے تھی۔

چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں کوہستان کے تاریک دروں کی طرح خاموش تھیں۔

اب وہ شہر کے گنجان حصے کو چھوڑ کر وہاں آ گیا تھا، جہاں سے متوسط درجہ کے لوگ گزرنا بھی پسند نہیں کرتے۔

گلی میں، جس کے مکان پتھر کی بجائے مٹی کی ناہموار دیواروں کے بنے ہوئے تھے، کسی نے کہا، ’’پرماتما سنسار کو سُکھی رکھ!‘‘ اور پھر ایک لمبی سانس۔۔۔

لبادہ پوش چونک پڑا۔ ذرا اور آگے بڑھ کر اس نے آہستہ سے کہا، ’’کون آہ بھر رہا ہے؟‘‘

اس کے پاؤں کسی کے جسم سے ٹکرائے، وہ ٹھٹھک گیا۔

قریب ہی سے کسی نے تھکی سی آواز میں جیسے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’پرماتما سنسار کو سُکھی رکھ۔‘‘

لبادے والے نے پوچھا، ’’کون ہے؟‘‘ اب کے اس کی آواز ذرا اونچی تھی۔

’’سُکھ کا متلاشی۔۔۔ تم کون ہو؟‘‘

’’امن کا طالب۔۔۔‘‘ لبادہ پوش نے کہا۔

’’امن! سکھ؟‘‘ اور سکھ کا متلاشی طنز بھری ہنسی ہنسا۔۔۔ ’’ادھر امن، سکھ کہاں؟‘‘

’’میں بدامنی کی آماجگاہ ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘

’’تب تم ٹھیک جگہ پہنچ گئے ہو۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’یہیں بدامنی پیدا ہوتی ہے۔‘‘

’’یہاں؟‘‘

’’ہاں!‘‘

اور لبادہ پوش کے پاؤں کے پاس ہی سے ایک شخص اٹھ کھڑا ہوا، الف لیلیٰ کی کہانیوں کے دیو کی طرح، اس کے کپڑے خستہ اور ردی تھے۔ کچھ پیوند تھے کہ جن سے تن ڈھانپنے کا کام لیا گیا تھا۔ اس نے لبادہ پوش کی طرف دیکھا اور اس تاریکی میں بھی لبادہ پوش کو اس کی آنکھیں جیسے لبادے کو چیر کر دل میں پیوست ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔

اس شخص نے لبادہ پوش کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور گلی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اشارہ کیا اور بولا، ’’سمجھے؟‘‘

’’کیا؟‘‘

’’یہی بدامنی کی آماجگاہ ہے‘‘

’’یہ؟‘‘

’’ہاں!‘‘

’’یہاں کون رہتے ہیں؟‘‘

’’اجین کے مظلوم ترین لوگ!‘‘

’’مظلوم تریں لوگ۔۔۔ یعنی؟‘‘

’’محنت کرنے والے مفلس اور قلاش۔‘‘

’’محنت تو سبھی کرتے ہیں۔‘‘

’’لیکن سب مفلس نہیں۔۔ یہاں وہ لوگ رہتے ہیں، جو محنت بھی کرتے ہیں اور مفلس بھی ہیں۔ ان کی محنت ان عالیشان مکانوں کی صورت میں کھڑی ہے اور خود وہ ان خستہ گھروندوں میں رہتے ہیں۔ ان مکانوں کے مکیں بسیار خوری کا شکار ہو رہے ہیں، لیکن خود اِنہیں ایک وقت بھی پیٹ بھرنا میسر نہیں!“

لبادہ پوش خاموش رہا۔

اس نے اسے کندھے سے تھام لیا اور اسے گلی کے درمیان ایک دروازے تک لے گیا۔

’’دیکھو!‘‘

بوسیدہ دروازے کے سوراخوں سے لبادہ پوش نے آنکھیں لگا دیں۔

’’دیکھا؟‘‘

’’ہاں!‘‘

’’کیا دیکھا تم نے؟‘‘

’’ایک نحیف و ناتواں شخص کراہ رہا ہے اور ایک نوجوان اس کے جسم کو دبانے کی کوشش میں مصروف ہے!‘‘

’’اور دیکھو۔۔‘‘

وہ اسے ایک اور دروازے تک لے گیا۔

مکان کی چھت گری ہوئی تھی، دروازہ برائے نام تھا اور گرے ہوئے مکان کے ملبہ کو ایک طرف کر کے بوسیدہ سا ٹاٹ بچھائے، ایک ناتواں بڑھیا اس پر بیٹھی اونگھ رہی تھی۔ اس کا جسم سوکھ کر کانٹا ہو چکا تھا۔

وہ شخص لبادہ پوش کو پھر اسی مکان کے پاس واپس لے آیا، جس کے باہر وہ لیٹا ہوا تھا، اس کا دروازہ کھول کر وہ اسے اندر لے گیا۔

صحن میں وحشت چھائی ہوئی تھی۔ ٹوٹی سی کھاٹ پر ایک بچے کا پنجر پڑا تھا۔ اس کے چہرے پر حسرت برس رہی تھی۔

’’جانتے ہو یہ کون ہے؟‘‘ اس نے لبادہ پوش سے پوچھا۔

لبادہ پوش خاموش رہا۔

’’یہ میرا بچہ ہے،“ وہ کہنے لگا، ’’یہ میری آنکھوں کا نور ہے، جو اب تاریکی میں بدل چکا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے حاصل کرنے کے لئے لوگ سو سو منتیں مانتے ہیں، سو سو جادو جگاتے ہیں، دان کرتے ہیں، پن کرتے ہیں اور جسے پا کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔۔ لیکن میں اسے پا کر بھی سُکھی نہ ہو سکا اور اس کی موت پر اس کے لئے شمشان میں دو گز جگہ بھی حاصل نہیں کر سکا۔“

مرحوم بچے کے سرہانے طاق پر ایک دیا ٹمٹما رہا تھا، جس کی مدھم سی روشنی بچے کی نعش پر پڑ رہی تھی اور ماحول کچھ ایسا درد انگیز تھا کہ لبادہ پوش کا گلا بھر آیا۔ جانے کیوں، آنکھیں اس کی پرنم ہو گئیں۔

’’تم روتے ہو۔۔‘‘ اس شخص نے کہا، ’’اجنبی ہوتے ہوئے بھی تمہارا جی بھر آیا ہے۔۔ لیکن میں باپ ہو کر بھی نہیں روتا۔ اس لئے نہیں کہ مجھے رونا نہیں آتا۔۔ بلکہ اس لئے کہ میری آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے ہیں“ اور ایک گہری لمبی سانس بھر کر وہ اسے پھر باہر گلی میں لے آیا۔

پنچمی کا چاند نکل آیا تھا اور اس کی مدھم روشنی میں وہ دونوں پریشان روحوں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔

لبادہ پوش کے کندھے پر پھر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے کہا، ’’سمجھے؟‘‘

’’کیا؟‘‘ لبادہ پوش چونکا۔

’’بد امنی کی آماجگاہ کہاں ہے؟‘‘

’’بد امنی۔۔۔!‘‘

’’ہاں یہی بد امنی کی آماجگاہ ہے۔۔ پانی کی نامعلوم دھاروں کی طرح، جو بعد کو مل کر مہیب طوفانی ندی بن جاتی ہیں، یہاں بد امنی آہستہ آہستہ غیر مرئی طور پر جنم لیتی ہے اور پھر مہیب آندھی کی طرح ملکوں پر چھا جایا کرتی ہے۔‘‘

ایک لمحہ کے لئے دونوں چپ کھڑے رہے۔ ایک لمحہ۔۔۔ جو لبادہ پوش کو ایک صدی معلوم ہوا اور وہ شخص جانے، اِس گلی، اُس گلی کے گھروندے نما مکانوں اور ان مکانوں کے مکینوں کے پار کس چیز کو، جانے کس طوفان کو دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے کہا،
”یہیں دکھ اور بد امنی پیدا ہوتے ہیں، دیکھو، پہلے مکان میں جو بوڑھا ہے، وہ تین دن سے بیمار ہے، لیکن اسے دوائی میسر نہیں۔۔ اس کا لڑکا دو دن سے بھوکا ہے، لیکن اسے روٹی نہیں ملتی اور اپنے باپ کی بیماری کے سبب وہ کام پر نہیں جا سکتا۔۔

دوسرے مکان میں وہ بدنصیب بڑھیا رہتی ہے، جس نے اپنے تین جوان بیٹوں کو یکے بعد دیگرے دق سے مرتے ہوئے دیکھا ہے اور اب وہ بھیک مانگ کر گذارا کرتی ہے۔۔

اور تیسرا گھر مجھ بدبخت کا ہے۔ میری حالت بھی ان سے مختلف نہیں۔ ان سب گھروں میں ستم نصیب بستے ہیں اور یہی ملک میں بد امنی پھیلانے کا باعث ہیں۔ جیسے میرا بچہ مر گیا ہے اور مجھے چین حاصل نہیں۔ اسی طرح جب اس نوجوان کا باپ مر جائے گا اور وہ فاقہ زدہ، روٹی کی تلاش میں نکلے گا، تو جانے پریشانی میں وہ کیا کر گزرے۔۔“

’’لیکن تم خیراتی ہسپتالوں میں کیوں نہیں جاتے؟‘‘ لبادہ پوش کو جیسے اب زبان ملی، ’’وہاں غریبوں کو دوائی مفت تقسیم ہوتی ہے۔ شاہی لنگر خانوں میں ہر مفلس شخص کو کھانے کا سامان ملتا ہے۔ اور شاہی کارخانوں میں مزدوروں کو ملازمت ملتی ہے۔۔ راجہ کے راج میں ہر طرح کا انتظام ہے، تم اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ تو اس میں کس کا قصور ہے؟‘‘

’’کہاں ملتی ہے ہسپتالوں میں دوائی اور کہاں ہیں لنگر خانے؟‘‘ اس شخص نے اس لہجہ میں کہا، جس میں درد کے ساتھ طنز بھی ملا ہوا تھا، ’’پہلے راجہ کے جنگل کو جاتے ہی افسروں نے وہ اندھیر مچا رکھا ہے کہ غریب سسک سسک کر دن گزار رہے ہیں۔‘‘

’’مگر تمہیں نئے راجہ کے پاس جانا چاہئے تھا۔‘‘ لبادہ پوش نے کہا۔

’’نیا راجہ۔۔۔ جوانی اور غرور۔۔‘‘ اور وہ شخص خاموشی سے سامنے خلا میں دیکھتا رہا، لبادہ میں کچھ حرکت ہوئی، لیکن لبادہ پوش چپ کھڑا رہا۔ پھر اس شخص نے لمبی سانس لے کر کہا۔۔۔ ’’اور پھر جائیں تو اس کے پاس ہمیں بھٹکنے بھی کون دے گا؟ وہ آج کل وزیروں میں گھرا رہتا ہے، جو راجہ نہیں چاہتے، کٹھ پتلی چاہتے ہیں، جو ان کے اشارے پر ناچا کرے۔‘‘

کچھ لمحہ دونوں خاموش کھڑے رہے۔ ایک چھوٹا سا بادل کا ٹکڑا کہیں سے اڑتا اڑتا آ کر چاند پر چھا گیا۔

اچانک لبادہ پوش نے کہا، ’’میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘

سکھ کا متلاشی اس کی طرف متوجہ ہوا۔

’’تمہاری ذات کیا ہے۔ تم ان نیچ ذات کے لوگوں میں سے معلوم نہیں ہوتے۔‘‘

’’میں۔۔۔ میری کوئی ذات نہیں، ہم سب غریب مزدور ہیں۔ ہم پیشہ اور ہم ذات!‘‘

’’پھر بھی۔۔‘‘

’’میں براہمن تھا۔‘‘

’’براہمن!‘‘ لبادہ پوش چونکا۔

’’لیکن اب مزدور ہوں۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔

’’براہمن اور مزدور!؟‘‘

’’ہاں براہمن اور مزدور۔۔ میں براہمن تھا جب براہمنوں کے کام کرتا تھا اور اب مزدوروں کا کام کرتا ہوں تو مزدور ہوں۔ اعمال انسان کی ذات بناتے ہیں، جنم نہیں۔‘‘ اور وہ خاموش سامنے خلا میں، جیسے ماضی کے پروں کو چیر کر اپنی گزشتہ زندگی کی تصویر دیکھنے لگا۔

بادل کا ٹکڑا چاند پر سے گزر کر جیسے آسمان میں معلق ہو گیا۔

لبادہ پوش نے جیب سے مٹھی بھر اشرفیاں نکالیں اور انہیں براہمن کے ہاتھ میں دے کر کہا۔۔۔ ”براہمن دیوتا بچے کا دان کرم سنسکار کرو!“

برہمن نے آنکھ اٹھا کر دیکھا، لبادہ پوش آہستہ آہستہ جا رہا تھا۔

راجہ نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا،”نیند نہیں آتی۔“

خادماؤں نے پنکھے تیزی سے ہلانے شروع کر دیئے۔

’’کیا وقت ہوگا؟‘‘ راجہ نے پوچھا۔

’’تین پہر رات بیت چکی ہے مہاراج۔‘‘ ایک خادمہ نے ذرا اور جلد جلد پنکھا ہلاتے ہوئے کہا۔

’’گرمی بہت ہے۔‘‘

’’پنکھوں کی سرسراہٹ میں اور اضافہ ہو گیا۔‘‘

’’پنکھے بند کر دو۔۔‘‘

’’آگ برس رہی ہے مہاراج!‘‘

’’پرواہ نہیں!‘‘

خادماؤں نے پنکھے بند کر دیئے۔

راجہ لیٹ گیا۔ اسے نیند نہیں آئی۔ پنکھوں کے بغیر سونے کا اس کے لئے یہ پہلا ہی موقع تھا۔ اس کا تصور اسے غریبوں کی گلیوں میں لے گیا۔ اس نے کروٹ بدلی اور اٹھ کھڑا ہوا۔

خادمائیں ڈر گئیں۔

”جاؤ وزیر اعظم کو جگا کر کہو، کل دربار کا انتظام کریں، عام دربار کا۔۔ عالموں کا انتخاب ہوگا۔“

خادمہ چلی گئی۔

راجہ پھر لیٹ گیا۔

خادماؤں نے پھر پنکھے ہلانے کی کوشش کی۔

راجہ نے انہیں روک دیا۔

اس رات اسے نیند نہیں آئی۔ اس کے دل میں خیالات کا محشر بپا رہا اور وہ بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہا۔

دربار لگا ہوا تھا۔ راجہ بکرماجیت اپنے سونے کے سنگھاسن پر جلوہ افروز تھے۔

سب طرف خاموشی طاری تھی۔

سب راجہ کی جنبشِ لب کے منتظر تھے۔

’’بد امنی کی آماجگاہ کہاں ہے؟‘‘ راجہ نے پوچھا۔

کچھ لمحوں کے لئے سارے دربار میں خاموشی چھا گئی۔

’’جہاں عاقلوں کی قدر نہیں ہوتی۔‘‘

یہ کالی داس تھے۔ اجین کے مشہور شاعر! راجہ نے انہیں اپنے پاس بٹھا لیا۔ لیکن پھر پوچھا۔۔۔ ’’اور؟‘‘

’’جہاں عورتوں پر ظلم ہوتے ہوں۔‘‘

’’جہاں مذہب کے نام پر انسانوں کا خون بہایا جاتا ہو۔‘‘

’’جہاں قحط پڑتے ہوں۔‘‘

’’جہاں رعایا ان پڑھ ہو۔‘‘

’’جہاں لوگ عیش پسند ہوں۔‘‘

’’جہاں راجہ ظالم ہو۔‘‘

’’جہاں رعایا کے کسی حصہ کو اچھوت خیال کیا جائے۔‘‘

آٹھ عالم چنے جا چکے تھے۔ لیکن راجہ کی تسلی نہیں ہوئی۔ اس نے کہا، ”بدامنی کا سب سے بڑا سبب کیا ہے؟“

’’مفلسی۔‘‘ بھیڑ میں سے کسی نے کہا، ’’جہاں مفلسوں کا کوئی پرسان نہ ہو اور مزدوروں کو پیٹ بھر کر روٹی نہ ملے، وہیں بد امنی پھلتی پھولتی ہے۔‘‘

سب کی نگاہیں اس طرف اٹھ گئیں۔

راجہ تخت سے اتر پڑا۔

وہ شخص آگے بڑھ آیا۔ اس کی حالت نہایت ردی تھی۔ کپڑے خستہ اور بوسیدہ تھے۔ سر اور پاؤں ننگے تھے۔ لیکن گڑھوں میں دھنسی ہوئی آنکھوں میں اب بھی چمک باقی تھی جو دیکھنے والوں کو مرعوب کر دیتی تھی۔

راجہ نے اس کے پاؤں چھوئے اور کہا، ’’سکھ کے متلاشی کو پرنام کرتا ہوں۔‘‘

’’امن کے طالب سکھی رہو۔‘‘ اور نووارد مسکرایا۔

نورتن چنے جا چکے تھے۔ مصیبت زدوں کی امداد کا کام براہمن کے سپرد ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close