”غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک نہتے فلسطینی نوجوان کے قتل کا منظر میرے ذہن میں نقش ہو گیا ہے۔“ یہ کہنا ہے اسرائیل کے آرمڈ کورپس کے افسر 28 سالہ یوتم ویلک کا، جو ان اسرائیلی فوجیوں میں شامل ہیں جنہوں نے جنگ میں مزید حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو میں یوتم ویلک کا کہنا تھا، ”اسرائیل کے زیرِ قبضہ غزہ کے بفر زون میں داخل ہونے والے کسی بھی غیرمتعلقہ شخص کو گولی مارنے کے احکامات تھے، جہاں کم سے کم 12 افراد کو قتل ہوتے دیکھا، تاہم اس نوجوان کے قتل کو بھول نہیں پایا۔۔ اس نوجوان کا قتل، مجھے مسلسل بے چین رکھتا ہے۔ وہ پالیسی کے اس حصے کی نذر ہوا، جو وہاں قیام سے متعلق ہے اور جس میں فلسطینیوں کو انسانوں کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔“
وِلک ان اسرائیلی فوجیوں میں شامل ہیں جو اس جارحیت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور مزید خدمات انجام دینے سے انکار کر رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ انہوں نے ایسی چیزیں دیکھیں یا کیں، جو اخلاقی حدود پامال کرتی تھیں۔
200 کے قریب اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومت نے سیزفائر نہیں کیا تو وہ لڑنا بند کر دیں گے۔
اگرچہ یہ مہم ابھی چھوٹے پیمانے پر ہے تاہم اہلکار اس کو ’ٹپ آف دی آئس برگ‘ قرار دیتے ہوئے دوسرے اہلکاروں کو بھی آگے آنے کا کہہ رہے ہیں۔
جن اسرائیلی فوجیوں نے اس خط پر دستخط کیے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ‘بے دریغ مارنے اور ان کے مکانوں کو نذر آتش کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ کئی فوجیوں نے بتایا کہ انہیں ایسے گھروں کو بھی، جن سے کوئی خطرہ نہیں تھا، جلانے یا گرانے کا حکم دیا گیا تھا اور انہوں نے فوجیوں کو لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کرتے بھی دیکھا۔
ان کا انکار ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اسرائیل اور حماس پر لڑائی ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ جنگ بندی کے مذاکرات جاری ہیں، اور صدر جو بائیڈن اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں نے 20 جنوری کی تقریبِ حلف برداری سے پہلے ایک معاہدے کا مطالبہ کیا ہے۔
غزہ میں جنگ جاری رکھنے سے انکار کرنے والے سات فوجیوں نے اے پی سے بات کی، اور بتایا کہ کیسے فلسطینیوں کو بلا تفریق قتل کیا گیا اور گھروں کو تباہ کیا گیا۔ کئی نے کہا کہ انہیں ایسے گھروں کو جلانے یا مسمار کرنے کا حکم دیا گیا جو کسی خطرے کا باعث نہیں تھے، اور انہوں نے دیکھا کہ فوجیوں نے گھروں کو لوٹا اور نقصان پہنچایا۔
واضح رہے کہ اسرائیل میں فوجیوں کے لیے سیاست میں ملوث نہ ہونا ضروری ہوتا ہے اور وہ اپنی فوج کے خلاف شاذ و نادر ہی بات کرتے ہیں۔ اکتوبر 2023 میں اسرائیل نے غزہ میں بڑا فوجی آپریشن شروع کیا، تاہم جنگ بڑھنے کے ساتھ ساتھ تقسیم بھی بڑھی ہے، لیکن زیادہ تر تنقید اسرائیلی فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور یرغمالیوں کی بازیابی میں ناکامی پر مرکوز ہے، نہ کہ غزہ میں کیے گئے اقدامات پر۔
بین الاقوامی حقوق کے گروہوں نے اسرائیل پر غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کردہ نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کی گرفتاری کے مطالبات کر رہی ہے۔
ہزاروں فلسطینوں، جن میں غالب اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، کو بے دریغ شہید کرنے کے باوجود اسرائیل انتہائی ڈھٹائی سے نسل کشی کے اقدامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ کسی بھی مشتبہ کارروائی کی تحقیقات ہوتی ہیں اور ذمہ داروں کو سزا دی جاتی ہے۔ لیکن انسانی حقوق کے گروپوں نے طویل عرصے سے کہا ہے کہ فوج خود اپنی تحقیقات میں ناکام رہتی ہے۔
اسرائیلی فوج نے اے پی کو بتایا کہ وہ ڈیوٹی سے انکار کے اقدام کی مذمت کرتی ہے اور اس کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے، خدمات انجام دینے سے انکار پر فوجیوں کو جیل ہو سکتی ہے تاہم جن اہلکاروں نے خط پر دستخط کیے ہیں ان کے بارے میں دوسرے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی حراست میں نہیں لیا گیا۔
جن اہلکاروں نے اے پی سے بات کی ان میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ ان کو پچھتاوا ہے اور انہوں نے جو کچھ دیکھا اور کیا اس کے بارے میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی بات کی۔
آرمڈ کورپس کے افسر یوتم وِلک نے بتایا کہ جب وہ نومبر 2023 میں غزہ میں داخل ہوا تو اس نے سوچا کہ ابتدائی طاقت کا استعمال دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے، لیکن جب جنگ طول پکڑ گئی تو اس نے انسانی زندگی کی قدر کو مٹتے ہوئے دیکھا۔
پچھلے اگست جس دن فلسطینی نوجوان مارا گیا، وِلک نے کہا، کہ دیگر افراد بھی نیٹزریم کاریڈور میں، جو غزہ کے شمالی اور جنوبی حصوں کو تقسیم کرنے والی ایک سڑک ہے، بفر زون میں چلتے ہوئے مارے گئے۔
کچھ فوجیوں نے اے پی کو بتایا کہ انہوں نے غزہ میں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا، اسے ذہنی طور پر قبول کرنے میں وقت لگا۔ کئی دوسرے فوجیوں نے کہا کہ بعض واقعات ایسے تھے کہ ان کا فوری طور پر فوج کی نوکری چھوڑ دینے کو دل چاہا۔ دیگر نے کہا کہ وہ اس قدر غصے میں تھے کہ انہوں نے تقریباً فوراً خدمات انجام دینا بند کر دیا۔
اسرائیلی فوج کے طبی شعبے سے وابستہ 27 سالہ یووال گرین نے غزہ میں دو ماہ گزارنے کے بعد گزشتہ جنوری میں فوج کو چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے وہاں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا، اس کے ساتھ وہ زندگی نہیں گزار سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے گھروں کی بے حرمتی کی۔ ہسپتالوں کو نقصان پہنچایا۔ لوٹ مار کی، حتٰی کہ وہ عبادت گاہوں تک سے چیزیں لوٹ کر لے گئے۔
اس نے کہا کہ آخری حد اس وقت ہوئی جب اس کے کمانڈر نے فوجیوں کو ایک گھر جلانے کا حکم دیا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ نہیں چاہتا کہ حماس اسے استعمال کرے۔
گرین نے بتایا کہ وہ ایک فوجی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا، جلتی ہوئی پلاسٹک کی بو کے درمیان دم گھٹتا ہوا۔ اسے یہ آگ انتقامی محسوس ہوئی — اس نے کہا کہ اس نے کوئی وجہ نہیں دیکھی کہ فلسطینیوں سے مزید چھینا جائے جنہوں نے پہلے ہی بہت کچھ کھو دیا تھا۔ اس نے اپنی یونٹ کو اس مشن کے مکمل ہونے سے پہلے چھوڑ دیا۔
گرین نے کہا ”جو کچھ میں نے دیکھا، مجھے اس سے نفرت ہے۔“
اس نے کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے خدمات انجام دینے سے انکار کا عمل ہر طرف سے تشدد کے اس ظالمانہ چکر کو توڑنے میں مدد کرے۔
سولجرز فار دی ہوسٹیجز — وہ گروپ جس نے فوجیوں سے خط پر دستخط کروائے، رفتار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مہینے تل ابیب میں ایک تقریب منعقد کی گئی اور مزید دستخط جمع کیے جا رہے ہیں۔ ایک پینل میں فوجیوں نے غزہ میں اپنے مشاہدات کے بارے میں بات کی۔ منتظمین نے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے ایک اقتباس کے ساتھ پوسٹر سائز اسٹیکرز تقسیم کیے: ”ایک شخص پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غیر منصفانہ قوانین کی نافرمانی کرے۔“
میکس کریش، جو اس تنظیم کے منتظم ہیں، نے کہا کہ فوجی اپنی پوزیشنز کو تبدیلی کے لیے دباؤ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”ہمیں اپنی آواز کو ناانصافی کے خلاف بلند کرنے کے لیے استعمال کرنا ہوگا، چاہے وہ غیر مقبول ہی کیوں نہ ہو۔“
لیکن جارحیت میں حصہ لینے والے کچھ فوجی، جنگ میں حصہ لینے سے انکار کی اس تحریک کو توہین قرار دیتے ہیں۔ فوج کے مطابق، اس جنگ میں 830 سے زیادہ اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
بیالیس سالہ پیراٹروپر گیلاد سیگل، جنہوں نے 2023 کے آخر میں دو ماہ غزہ میں گزارے، نے کہا: ”یہ لوگ ہماری ’دفاع‘ کی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔“ ان کے بقول، فوج نے جو کچھ کیا، وہ ضروری تھا، بشمول ان گھروں کو مسمار کرنا جو ’حماس کے ٹھکانوں کے طور پر استعمال‘ کیے گئے تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ حکومت سے اتفاق یا اختلاف کرنا ایک فوجی کا کام نہیں ہے۔
یش گیول، جو کہ خدمات سے انکار کرنے والے فوجیوں کی تحریک ہے، کے ترجمان اشائی منوچن نے کہا کہ وہ 80 سے زیادہ ایسے فوجیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں، جنہوں نے جنگ سے انکار کیا ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ سیکڑوں اور بھی ہیں جو اسی طرح محسوس کرتے ہیں لیکن خاموش ہیں۔
کچھ فوجیوں نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تضاد اور پچھتاوے کا شکار ہیں اور اس سب کو سمجھنے کے لیے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے بات کر رہے ہیں۔
ٹراما تھیراپی کے ماہر ٹولی فلنٹ، جو جنگ کے دوران اب تک سینکڑوں اہلکاروں کی کاؤنسلنگ کر چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ کچھ اہلکاروں کو ’اخلاقی چوٹ‘ کا سامنا ہے اور اس کی وجہ وہ اندرونی ردعمل ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ کچھ ایسا کرتے یا دیکھتے ہیں جو ان کے عقائد کے خلاف ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسی صورت میں نیند کی کمی، گزرے وقت کی بار بار یاد اور کوئی کام نہ کر پانے کے احساسات پیدا ہو سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ایسی چیزوں کے بات اور ان کو تبدیل کرنے کی کوشش سے بہتری میں مدد ملتی ہے۔“
ایک سابقہ انفینٹری فوجی نے اے پی کو اپنے احساسِ جرم کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ”میں نے جنگ کے دنوں میں دو ہفتوں کے دوران ایسی تقریباً 15 عمارتیں دیکھیں جن کو غیرضروری طور پر جلایا گیا۔“
اس نے کہا کہ اگر وہ دوبارہ ایسا کر سکتا، تو وہ جنگ میں حصہ نہ لیتا۔
”اگرچہ میں نے ماچس نہیں جلائی، لیکن میں گھر کے باہر پہرہ دے رہا تھا۔ میں نے جنگی جرائم میں حصہ لیا،“ ایک اور فوجی نے کہا، جو انتقامی کارروائی کے خوف سے گمنامی کی شرط پر بات کر رہا تھا۔ ”مجھے واقعی افسوس ہے کہ ہم نے کیا کیا۔“