کسی بھی معاشرے میں زندگی کے کئی مقاصد ہوتے ہیں۔ کچھ افراد کی دلچسپی اس میں ہوتی ہے کہ دنیاوی سہولتوں کو حاصل کیا جائے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ اور دولت اکھٹی کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق کو غصب کیا جائے۔ بدعنوانی، غبن اور رِشوت کے ذریعے اپنا معیارِ زندگی بڑھایا جائے۔
مُتوسط طبقے کی زندگی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی محدود آمدنی میں زندگی گزاری جائے۔ نچلے طبقوں کی زندگی کا مقصد دو وقت کی روٹی کا حصُول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں چند افراد ایسے ہوتے ہیں جو ناانصافی کو برداشت نہیں کرتے ہیں اور ماحول کو بدلنے کے لیے اپنی فکر اور سوچ کے ذریعے لوگوں میں شعور پیدا کرتے ہیں اور غربت اور افلاس کی زندگی مثالی کردار بن جاتی ہے۔
امریکہ کے نسل پرست معاشرے میں افریقہ سے لائے ہوئے غلاموں کے ساتھ جس نفرت اور تعصب کا سلوک کیا گیا، وہ پوری انسانیت کی تذلیل تھی۔ امریکہ کی آزادی کے بعد بھی اِنہیں مساوی مقام نہیں دیا گیا۔ جب خانہ جنگی کے بعد غلامی کا خاتمہ ہوا، تب بھی اِنہیں ملازمت کے لیے دَربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں۔ اُنیسویں صدی میں افریقی رہنماؤں نے کچھ منصوبہ بندی کی، تا کہ افریقیوں کی معاشی اور سماجی حالت بہتر ہو۔ یہ مہم چلائی گئی کہ افریقی نوجوانوں کو مُختلف ہُنر اور پیشہ ورانہ علوم سکھائیں جائیں، تا کہ وہ خودمختار ہو کر اپنی زندگی گزار سکیں۔ یہ کوشش بھی کی گئی کہ کچھ زمین حاصل کر کے اُسے کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیا جائے، کیونکہ افریقیوں پر یہ تنقید کی جاتی تھی کہ سفید فاموں کے مقابلے میں وہ تہذیبی طور پر کم تر تھے۔ اس لیے یہ منصوبہ بنایا گیا کہ سفید فام لوگوں کے ساتھ مِل کر رہنا چاہیے تا کہ وقت کے ساتھ وہ تہذیبی طور پر بھی وہ برابر ہو جائیں۔
افریقی رہنما اس بات کے مخالف تھے کہ سفید فاموں کے خلاف کوئی مزاحمتی تحریک چلائی جائے کیونکہ سفید فام طاقتور تھے۔ ریاست اُن کے ساتھ تھی، جب کہ افریقی بےیار و مددگار تھے۔ اس لیے اُن کی تحریک کا خاتمہ یقینی تھا۔ اس ماحول میں جس افریقی رہنما نے اُن میں نیا جذبہ پیدا کیا اور افریقی شناخت دی وہ ولیم ایڈورڈ ڈو بوائس William Edward Du Bois کی شخصیت تھی۔ وہ سیاہ فام امریکی دانشور اور فلسفی تھے۔ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے برلِن یونیورسٹی میں دو سال کا وظیفہ دیا گیا، جہاں انہوں نے جرمن فلسفہ اور ادب کا مطالعہ کیا۔ امریکہ واپسی پر انہوں نے Harvard یونیورسٹی سے فلسفے میں Ph.D کی ڈگری حاصل کی۔
ڈو بوائس افریقی کمیٹی کی مختلف تحریکوں میں بھی شامل رہے۔ اُنہوں نے اندازہ لگایا کہ صرف سیاسی تحریکوں کے ذریعے افریقیوں کی حالت کو نہیں بدلا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان میں تاریخی اور فلسفیانہ سوچ کو پیدا کیا جائے۔ انہوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے افریقیوں میں شناخت کا نیا جذبہ پیدا کیا۔ The Souls of Black Folk اور Talented Tenth وغیرہ، ان کی چند مگر اہم کتابیں میں ہیں۔
ڈو بوائس کی سیاسی اور علمی سرگرمیوں کی وجہ سے امریکی حکومت ان سے ناراض ہو گئی تھی۔ سابق امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ Theodore Roosevelt نے ایف بی آئی (FBI) کے ایجنٹوں سے کہا کہ اس شخص پر نظر رکھو کیونکہ یہ کمیونسٹ ہے۔ اس کے بعد ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا جو انہیں آٹھ سال بعد واپس دیا گیا۔
اس کے بعد ہی ڈو بوائس نے پہلی مرتبہ افریقی مُلکوں کا دورہ کیا۔ وہاں وہ دیہاتوں اور گاؤں میں پھرتے رہے اور اپنی افریقی شناخت کو تلاش کرتے رہے۔ ان کو پورا اندازہ تھا کہ جب تک افریقیوں میں اتحاد پیدا نہیں ہوگا، وہ امریکی سامراج سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ان کی سیاسی حیثیت کو دیکھتے ہوئے روسی حکومت کی جانب سے انہیں لینن پرائز دیا گیا۔ انہوں نے لندن میں افریقی مُلکوں کی کانفرسیں کرائیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب دوسری عالمی جنگِ کے بعد افریقی ممالِک آزاد ہوئے تھے اور اُن میں قوم پرستی کا جذبہ تھا، جس کے ذریعے وہ سامراج کے ماضی سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔
گھانا کے صدر کوامے انکروما نے انہیں اپنے ہاں بلایا تا کہ ڈو بوائس ان کی نگرانی میں افریقی تاریخ اور کلچر کو افریقی نقطہ نظر لکھیں۔ انہوں نے encyclopedia of Africans لکھنے کا منصوبہ، جو اُس کی زندگی میں تو پورا نہیں ہوا، مگر بعد میں اسے افریقی مورخوں نے مکمل کیا۔ امریکی حکومت نے اِن کا پاسپورٹ ضبط کر لیا اور اُن کی امریکی شہریت منسوخ کر دی۔ اس کے بعد انہیں گھانا کی شہریت دی گئی اور 92 سال کی عمر میں اُن کی وفات ہوئی اور ریاست کی جانب سے اُن کی تدفین کی گئی۔
ڈو بوائس نے اپنے لیے تو کچھ حاصل نہیں کیا اور اپنا سارا وقت افریقی کمیونٹی کے حقوق کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ اُنہوں نے جو کچھ علمی سرمایہ چھوڑا تھا، وہ آج تک امریکی افریقیوں کے لیے رہنمائی کا باعث ہے اور تاریخ میں اُن کا نام اور اُن کے کارنامے زندہ رہیں گے۔
ڈو بوائس کے بعد امریکہ کی افریقی کمیونٹی میں کئی رہنما آئے، جن میں میلکم ایکس اور مارٹن لوتھر کِنگ شامل ہیں۔ دونوں کے قتل کے بعد افریقی امریکی کمیونٹی رہنماؤں سے محروم ہو گئی تھی اور آج تک امریکہ کی جمہوریت میں افریقیوں کو مساوی مقام نہیں مِلا ہے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)