ملیر کی سیاسی جدوجہد: مسائل، حکمت عملی اور مستقبل کی راہ

بشیر بلوچ

پاکستان میں اقتدار کی سیاست کرنے والی بیشتر جماعتیں عوامی طاقت کے بجائے بیرونی امداد اور ’مقتدر‘ حلقوں پر انحصار کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک عوامی حمایت محض منشور کی سیاہی تک محدود ہوتی ہے۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی اب ایک مخصوص طرزِ سیاست میں جکڑی جا چکی ہیں، جو مخصوص حالات میں متحرک ہوتی ہیں۔ البتہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سیاسی تحریکیں اب نئی نسل کے ہاتھوں میں آ چکی ہیں، جنہوں نے اپنے معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی سیاست کی بنیاد رکھی ہے۔

کراچی اور ملیر کے قدیم باشندوں کے مسائل پر سیاست کرنے والے گروہ تاحال مؤثر حکمتِ عملی ترتیب دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ان کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں، مگر کسی بھی سیاسی تحریک کی کامیابی کا دار و مدار عوامی نبض کو سمجھنے اور اس پر گرفت حاصل کرنے پر ہوتا ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے، جس میں یہ گروہ اب تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ جب ہم ان سیاسی سرگرمیوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ بیشتر گروہ محض نظریاتی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں، جبکہ کراچی اور بالخصوص ملیر کے مسائل کی مکمل تفہیم اور تجزیے سے قاصر ہیں۔

ملیر: جغرافیہ، نفسیات اور مسائل

اگر ہم ملیر کے جغرافیے کا تجزیہ کریں تو یہ مختلف حصوں اور نفسیات میں منقسم نظر آتا ہے:

ابراہیم حیدری اور ساحلی علاقے: یہاں کے مسائل ماہی گیری سے وابستہ معیشت، ماحولیاتی آلودگی، سمندری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان سے جڑے ہوئے ہیں۔

مرکزی ملیر (شرافی گوٹھ، ملیر سٹی، دیہہ تھانو): یہاں کے مسائل روزگار، صنعتی آلودگی، انفراسٹرکچر، بنیادی سہولیات اور آبادی کے بے ہنگم اضافے سے متعلق ہیں۔

درسانہ چھنہ، پپری، گھارو اور رزاق آباد: یہ علاقے بنیادی طور پر مرکزی ملیر سے کٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور یہاں بنیادی سہولیات کا فقدان نمایاں ہے۔

کوہستانی علاقے (کاٹھوڑ، گڈاپ اور ان کے مضافات): یہ علاقے مخصوص سماجی ڈھانچے اور نفسیات کے حامل ہیں، جہاں حالیہ برسوں میں ہاؤسنگ پروجیکٹس، پانی کی قلت اور جنگلات کے تحفظ جیسے اہم مسائل نے جنم لیا ہے۔

مؤثر سیاسی حکمت عملی کی ضرورت

ملیر جیسے وسیع و متنوع علاقے میں محض چند عمومی مسائل کو بنیاد بنا کر کوئی جامع سیاسی تحریک نہیں چلائی جا سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی کارکنان ہر علاقے کی شناخت اور وہاں کے روزمرہ کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حکمتِ عملی ترتیب دیں۔ اس کے لیے درج ذیل نکات اہم ثابت ہو سکتے ہیں:

ساحلی علاقوں میں ماہی گیروں کے معاشی اور سماجی مسائل، ماحولیاتی خطرات اور منشیات کے خاتمے کو سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے۔

مرکزی ملیر میں فیکٹری ملازمین کے حقوق، صنعتی آلودگی، صحت اور تعلیم جیسے معاملات پر کام کیا جائے تاکہ عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔

زرعی علاقوں میں ملیر (اب بھٹو) ایکسپریس وے، ندی نالوں سے ریت اور بجری کے بے دریغ نکالے جانے، چھوٹے ڈیموں کی تعمیر اور زرعی زمینوں کے تحفظ کو موضوع بنایا جائے۔

کوہستانی علاقوں میں ہاؤسنگ پروجیکٹس کے پھیلاؤ، پانی کے بحران اور جنگلات کے تحفظ کو بنیاد بنا کر عوامی جدوجہد کو منظم کیا جائے۔

عوامی شمولیت اور تحریک کی کامیابی

اگر سیاسی جدوجہد کو ان نکات کی روشنی میں آگے بڑھایا جائے تو عوام کو زیادہ مؤثر طریقے سے تحریک میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ جب عوامی مسائل براہِ راست تحریک کا حصہ بنیں گے تو لوگوں میں شمولیت اور وابستگی میں اضافہ ہوگا، جس سے ملیر کے باسیوں کی ایک متحد سیاسی قوت ابھر کر سامنے آ سکتی ہے۔ ایک طویل المدتی اور ساتھ میں ایک مختصر المدتی حکمتِ عملی ترتیب دے کر ہی کوئی تحریک عوامی پذیرائی حاصل کر سکتی ہے اور یہی وہ طریقہ ہے، جس کے ذریعے ملیر کے قدیم باشندے اپنے حقوق کا تحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close