
کہیں 900 نوری سال کے فاصلے پر، خلا کے بے کنار سنّاٹے میں، ایک دنیا آباد ہے۔۔ ایسی دنیا جو ہمارے تمام سائنسی اندازوں سے ماورا ہے۔ خود سائنسدانوں کے الفاظ میں، ”ہم نے پہلے کبھی ایسا کوئی نظام نہیں دیکھا۔“
یہ کوئی عام سیارہ نہیں، بلکہ ایک دیوہیکل، آگ برساتا، بادلوں کے پردے میں لپٹا، اور طوفانی ہواؤں سے گونجتا ہوا فلکیاتی عجوبہ ہے۔
ماہرینِ فلکیات نے پہلی بار اس پُراسرار دنیا، WASP-121b، یا جسے اب ’ٹائلوس‘ کہا جاتا ہے، کی فضا کا ایک تین جہتی (تھری ڈی) نقشہ تیار کیا ہے۔ یہ ایک ایسا سیارہ ہے جہاں ہوا کا ایک زبردست دھارا کیمیائی عناصر کو پیچیدہ اور ناقابلِ فہم طریقے سے حرکت دیتا ہے، گویا کوئی نادیدہ قوت ان ذرات کو کائناتی رقص پر مجبور کر رہی ہو۔
یہاں ایک طاقتور جیٹ اسٹریم (ہوائی جھکڑ) پورے نصف سیارے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ جب یہ ہوائیں سیارے کے سورج کی طرف والے رخ پر پہنچتی ہیں تو ان کا بہاؤ یوں بگڑ جاتا ہے، جیسے کوئی دیوہیکل سمندری طوفان خلا میں جنم لے رہا ہو۔
ماہرین کے مطابق، یہ مشاہدہ ہمارے لیے ایک زبردست پیش رفت ہے، جو بیرونی سیاروں (Exoplanets) کے موسمیاتی رازوں کو افشا کر سکتا ہے۔
لیکن یہ دنیا ہمارے موسمی ماڈلز کے مطابق نہیں چلتی۔ یہاں کے اصول کچھ اور ہیں، جیسے فطرت نے خود ہی ان قوانین کو چیلنج کر دیا ہو۔
ماہرین فلکیات نے یورپین سدرن آبزرویٹری کے ویری لارج ٹیلی سکوپ (وی ایل ٹی) کی مدد سے اس سیارے کی فضا کا مطالعہ کیا اور یہاں سے حاصل ہونے والے انکشافات پر حیران رہ گئے۔
یورپین سدرن آبزرویٹری کی ماہر جولیا وکٹوریا سائڈل کے الفاظ میں: ”یہ سیارہ کسی سائنسی افسانے کا حصہ لگتا ہے۔ اس کی فضا کی حرکت زمین اور دیگر سیاروں کے اصولوں سے بالکل مختلف ہے، ایسا منظر جو انسانی تصور سے کہیں آگے ہے۔“
ڈاکٹر جولیا سائڈل نے مزید کہا: ”جو کچھ ہم نے یہاں دیکھا وہ غیرمتوقع تھا یعنی ایک طاقتور ہوائی دھارا سیارے کے خطِ استوا کے گرد کیمیائی عناصر کو حرکت پذیر رکھتا ہے جب کہ یہاں کی فضا کی نچلی سطح پر ایک الگ بہاؤ گرم حصے سے ٹھنڈے حصے کی جانب ہوا کے بہاؤ کو منتقل کرتا ہے۔ ایسا موسمی نظام پہلے کسی سیارے پر نہیں دیکھا گیا۔ ہمارے نظامِ شمسی کے طاقتور ترین سمندری طوفان بھی اس کے مقابلے میں پرسکون لگتے ہیں۔“
ٹائلوس ہمارے سورج جیسے ایک ستارے کے اتنا قریب گردش کر رہا ہے کہ اس کا ایک سال صرف 30 گھنٹوں کے برابر ہے۔ یعنی، وہاں ہر طلوعِ آفتاب اور غروب ایک ناقابلِ تصور رفتار سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہاں موجود ہوا کے دھارے، زمین کے کسی بھی سمندری طوفان سے زیادہ شدید ہیں۔
سیارے سے حاصل کردہ ڈیٹا میں سب سے حیران کن دریافت یہ تھی کہ اس فلکیاتی طوفان کے درمیان، سائنس دانوں کو وہاں ٹائٹینیم کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں! یہ عنصر فضا کی نچلی تہوں میں چھپا ہوا تھا، جیسے صدیوں سے کسی راز کو محفوظ رکھے ہوئے ہو۔
سویڈن کی لُند یونیورسٹی اور یورپی رصدگاہ میں پی ایچ ڈی طالبہ بیبیانا پرینوتھ جنہوں نے اس تحقیق سے جڑی ایک اور تحقیق کی قیادت کی تھی، حیران ہو کر کہتی ہیں، ”یہ ناقابل یقین ہے کہ ہم اتنی دور موجود کسی سیارے کے کیمیائی اجزا اور موسمیاتی پیٹرن کا اتنی تفصیل سے مطالعہ کر سکتے ہیں۔“
سوچیے! ہم زمین پر بیٹھے، 900 نوری سال دور کسی سیارے کی کیمیائی ترکیب اور موسمیاتی پیٹرن کو سمجھ رہے ہیں۔ یہ کسی جادوئی کہانی جیسا نہیں لگتا؟
یہ تحقیق نیچر اور آسٹرونامی اینڈ آسٹروفزکس جیسے معتبر سائنسی جرائد میں شائع ہو چکی ہے، لیکن یہ صرف ایک آغاز ہے۔ ممکنہ طور پر، یہ ہمیں اس سے بھی زیادہ حیران کن انکشافات کی طرف لے جائے۔۔ کیا پتا، کسی ایسی دنیا کی طرف، جہاں کائنات کے سب سے بڑے راز چھپے ہوں؟