
ذرا تصور کریں، ایک بے کراں صحرا، جہاں ریت کے طوفان ہر شے کو نگل جاتے ہیں، جہاں زندگی ایک سراب کی مانند دکھائی دیتی ہے، اور جہاں کی ہوائیں انسانی آبادیوں تک خوف کی سرگوشیاں پہنچاتی ہیں۔ یہی تکلامکان ریگستان تھا، ”موت کا خشک سمندر“ ، جس کے بے رحم طوفانوں نے صدیوں تک زمین کو نگلنے کا سفر جاری رکھا۔۔ لیکن آج، اس صحرائی دیو کے قدم بہت حد تک رک چکے ہیں۔ چین نے جدید سبز ٹیکنالوجی اور انسانی عزم کی طاقت سے وہ کر دکھایا جو ناممکن لگتا تھا، ریت کو قید کر دیا، بربادی کو روکا، اور زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ یہ انسان اور صحرا کی جنگ کی کہانی ہے۔
کہتے ہیں کہ کچھ زمینیں بولتی نہیں، چیختی ہیں۔ تکلامکان ایسا ہی ایک صحرا ہے، ایک بے آواز چیخ، جو صدیوں سے سنائی دے رہی ہے۔ چین کے شمال مغرب میں واقع یہ ریگستان 3,37,600 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جو لگ بھگ جرمنی جتنا بڑا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں زمین سانس نہیں لیتی، ہوا ریت کے ذرات میں گھل کر سفاک بگولوں میں بدل جاتی ہے۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے متحرک ریتیلے صحراؤں میں سے ایک ہے، جس میں 85 فیصد علاقہ مسلسل حرکت کرتے ٹیلوں پر مشتمل ہے۔ یہ ریت کے پہاڑ دنوں میں اپنی شکل بدل لیتے ہیں، گویا زمین اپنی ہی زبان میں کوئی داستان لکھ رہی ہو۔ یہاں ریت کے ٹیلوں کی اونچائی 60 فٹ (18 میٹر) سے لے کر 300 فٹ (91 میٹر) تک ہوتی ہے۔ اس ریت کے سمندر میں چند مقامات پر دریائی مٹی کے چھوٹے ٹکڑے دیکھے جا سکتے ہیں۔ عموماً ریت کے ٹیلوں کے زیادہ ڈھلوان کنارے چلنے والی ہواؤں کے مخالف سمت میں ہوتے ہیں۔
مگر تکلامکان ہمیشہ ایک ویران قبرستان نہیں رہا۔ کبھی یہ مشہور شاہراہِ ریشم کا اہم سنگِ میل تھا۔ اس کے شمالی اور جنوبی کنارے پر ریشمی راستے کی دو شاخیں گزرتی ہیں، جن کے ذریعے مسافر اس بنجر ویرانے سے بچنے کی کوشش کرتے تھے۔ چین، وسطی ایشیا، ایران، اور یورپ کے بیوپاری اونٹوں کے قافلوں کے ساتھ اس کی ریت میں راستے تراشتے، بیش قیمت ریشم، مصالحے اور جواہرات لے کر اس کے بے رحم سینے پر سفر کرتے۔ یہ قدیم تجارتی قافلے اس صحرا کے سخت اور خشک ماحول سے بچنے کے لیے اس کے شمالی اور جنوبی کناروں پر واقع نخلستانی شہروں سے گزرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے تجارتی راستے بدلے، یہ صحرا قصے کہانیوں میں سمٹنے لگا، اور اس کا خوف حقیقت سے زیادہ افسانوں میں بستا گیا۔
چونکہ تکلامکان ہمالیہ کے بارش کے سائے میں واقع ہے، اس لیے یہاں سرد صحرائی آب و ہوا پائی جاتی ہے۔ اس کی سرد اور منجمد ہوائی کمیتوں سے نزدیکی، خاص طور پر سائبیریا کے قریب ہونے کی وجہ سے، سردیوں میں یہاں شدید سردی ریکارڈ کی جاتی ہے، جہاں درجہ حرارت بعض اوقات -20 °C (-4 °F) سے بھی نیچے گر جاتا ہے، جبکہ گرمیوں میں اس کا درجہ حرارت 50 ڈگری تک بھی جا پہنچتا ہے۔
اس کے نام کے حوالے سے اگرچہ زیادہ تر محققین اس بات پر متفق ہیں کہ مکان فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ’جگہ‘ ہے، لیکن تکلا کی لُغوی اصل کم واضح ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہ لفظ ایغور زبان میں فارسی کے لفظ ترک سے ماخوذ ہو، جس کے معنی ہیں ’چھوڑ دینا، ترک کرنا، پیچھے چھوڑ دینا، ترکِ سکونت‘ اور مکان۔
ایک اور ممکنہ توضیح یہ ہے کہ یہ ترکی زبان کے تقلار مکان سے آیا ہو، جس کا مطلب ہے ’ویران جگہ‘ یا ’کھنڈرات کی جگہ‘۔ چینی ماہرین وانگ گوووی اور ہوانگ وینبی نے اس نام کو تخاریوں (تارم بیسن کے ایک تاریخی قوم) سے جوڑا ہے، اور اس بنا پر ’تکلامکان‘ کا مطلب ’تخارستان‘ سے مشابہ قرار دیا ہے۔
ایغور محقق تورڈی میتورسن کارا کے مطابق، "تکلامکان” کا نام دراصل ’تَرکِ مکان‘ سے نکلا ہے۔ اس کا اولین ذکر 1867 میں سنکیانگ کے علاقے ہوتان میں لکھی گئی کتاب تواریخِ موسیقیون میں ’ترکِ مکان‘ کے طور پر ملتا ہے۔
عوامی لسانیات میں، یہ کہا جاتا ہے کہ ’تکلامکان‘ کا مطلب ہے ’واپسی کا راستہ نہیں‘ یعنی ’یہاں اگر ایک بار داخل ہو گئے تو باہر نہیں نکل سکو گے۔‘
تکلامکان صحرا میں پانی بہت کم پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا عبور کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ ریشمی راستے پر سفر کرنے والے تجارتی قافلے آرام اور پانی کی تلاش میں سرسبز نخلستانی شہروں میں قیام کرتے تھے۔
یہ صحرا کئی قدیم تہذیبوں کے قریب واقع تھا۔ اس کے شمال مغرب میں آمو دریا کا طاس، جنوب مغرب میں افغانستان کے پہاڑی درے جو ایران اور ہندوستان تک جاتے ہیں، مشرق میں چین، اور شمال میں قدیم شہر جیسے الماتے موجود ہیں۔
پہاڑوں سے آنے والے بارش کے پانی سے سیراب ہونے والے اہم نخلستانی شہروں میں جنوب میں کاشغر، میران، نیہ، یارکند، اور ہوتان (ہی تیان)، شمال میں کوچہ اور تورفان، مشرق میں لو لان اور دُنهوانگ شامل ہیں۔ آج ان میں سے کئی شہر، جیسے میران اور گاؤچانگ، ویران ہو چکے ہیں اور چین کے سنکیانگ خودمختار علاقے میں کم آبادی والے علاقوں میں کھنڈرات کی صورت میں باقی ہیں۔
تکلامکان کے مخصوص علاقوں میں ہالا-ما، آلانگ-ہا، اور مائی-کو-تسا-کو شامل ہیں۔ صحرا کے مغربی حصے میں مزرتاغ پہاڑیاں واقع ہیں۔
اس صحرا کے ریت میں دبے کھنڈرات میں ملنے والے آثارِ قدیمہ توخاری، ہیلینسٹک (یونانی)، ہندوستانی اور بدھ متی اثرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
بعد کے ادوار میں ترک قومیں یہاں آباد ہوئیں۔ ہان سلطنت کے دور سے، چینیوں نے وقتاً فوقتاً تکلامکان کے نخلستانی شہروں پر ریشمی راستے کی تجارت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے قبضہ کیا۔ تاہم، چینی حکمرانی کے ادوار ترک، منگول اور تبتی اقوام کے اقتدار کے ساتھ بدلتے رہے۔
آج اس علاقے کی آبادی زیادہ تر ترک نسل کے اویغور باشندوں اور ہان چینیوں پر مشتمل ہے۔
اس صحرا کو کئی محققین نے دریافت کیا، جن میں ساتویں صدی عیسوی کے بدھ مت راہب زوان زانگ اور بیسویں صدی کے ماہرِ آثارِ قدیمہ آرول اسٹائن شامل ہیں۔
فضائی مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ تکلامکان سے اٹھنے والی گرد بحرالکاہل تک پہنچتی ہے، جہاں یہ امریکہ کے مغربی حصے میں بادلوں کی تشکیل میں مدد دیتی ہے۔ مزید برآں، ہوا کے ذریعے سفر کرنے والی یہ گرد بارش کے ذریعے تکلامکان سے معدنیات کو مغربی امریکہ میں منتقل کر دیتی ہے۔
چین نے ہمیشہ تکلامکان کو ایک چیلنج کے طور پر دیکھا۔ 20ویں صدی میں یہاں دنیا کی سب سے مشکل سڑکوں میں سے ایک، تکلامکان ہائی وے تعمیر کی گئی، جو ریت کے بے قابو طوفانوں میں بھی قائم رہی۔ 21ویں صدی میں، جب ماحولیاتی تبدیلیوں نے صورتحال مزید خطرناک بنا دی، چین نے جدید ٹیکنالوجی اور سبز منصوبوں کے ذریعے اس صحرا کی بڑھتی ہوئی حدوں کو روکنے کا فیصلہ کیا۔ آج، ہزاروں کلومیٹر طویل سبز پٹی نہ صرف ریت کے حملے کو روکتی ہے، بلکہ یہاں نئی زندگی کے آثار بھی جنم لے رہے ہیں۔
چین نے صحرا کو عبور کرنے والی دو بڑی شاہراہیں تعمیر کی ہیں۔ تارم صحرا شاہراہ جنوبی کنارے پر ہوتان شہر کو شمالی کنارے پر لنتائی شہر سے جوڑتی ہے، جبکہ بائنگول-روچیانگ روڈ صحرا کے مشرقی حصے کو عبور کرتی ہے۔ اس صحرا کو گولمود-کورلا ریلوے بھی عبور کرتی ہے۔
چونکہ یہ ایک متحرک ریتیلا صحرا ہے، اس لیے ہواؤں کے زیرِ اثر یہاں کے ریت کے ٹیلے مسلسل اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ ریتیلے ٹیلے گھاس کے میدانوں اور رہائشی علاقوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
میمت سیمائے، قرا کاؤنٹی کا رہائشی لکھتا ہے: ”جب میں ایک صبح بیدار ہوا تو میں نے دیکھا کہ دروازہ کھولنا ممکن نہیں، کیونکہ رات بھر ریت کا ڈھیر جمع ہو چکا تھا۔ میرے کھیت بھی دب چکے تھے، لہٰذا میرے پاس نقل مکانی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔“
1978 میں چینی حکومت نے ’گرین گریٹ وال‘ منصوبہ شروع کیا، جس کا مقصد سنکیانگ سے ہیلونگجیانگ تک ایک جنگلاتی زنجیر بنانا تھا تاکہ صحرا کی توسیع کو روکا جا سکے۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے شجرکاری منصوبوں میں سے ایک ہے۔ 2024 میں، تکلامکان صحرا کے گرد 3,046 کلومیٹر طویل سبز رکاوٹ مکمل کی گئی، جس نے پورے صحرا کو سبزے سے گھیر لیا۔
آج چین نے دنیا کے مشکل ترین ریگستانوں میں سے ایک تکلامکان کے اس صحرا پر قابو پانے میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ تکلامکان ریگستان، تکلامکان، جسے اکثر ”موت کا سمندر“ کہا جاتا ہے، اب 3,050 کلومیٹر طویل سبز پٹی سے گھیر دیا گیا ہے، جس میں شمسی توانائی سے چلنے والی ریت کنٹرول ٹیکنالوجیز نصب کی گئی ہیں۔ یہ بلند حوصلہ منصوبہ تباہ کن ریت کے طوفانوں کو روکنے، بنیادی انفراسٹرکچر کی حفاظت کرنے اور سنکیانگ کے علاقے میں معاشی مواقع بڑھانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
تقریباً 337,600 مربع کلومیٹر پر پھیلا تکلامکان ریگستان دنیا کے سخت ترین ماحولیاتی حالات رکھنے والے علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ سالہا سال سے اس ریگستان سے اٹھنے والے ریت کے طوفان موسم، زراعت اور انسانی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہے تھے۔ ان مہلک اثرات سے بچنے کے لیے چین نے سبز پٹیاں اور شمسی توانائی سے چلنے والے ریت کنٹرول نظام متعارف کرائے ہیں، جو ریگستان کے کنارے کو ”مضبوطی سے باندھ“ دیتے ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف علاقے کے نازک ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے اہم ہیں، بلکہ ریلوے اور سڑکوں جیسے اہم بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہیں۔
یہ منصوبہ گزشتہ چار دہائیوں سے جاری ہے اور حال ہی میں ایک اہم سنگِ میل عبور کر چکا ہے، جب 2,761 کلومیٹر طویل سبز پٹی مکمل کی گئی۔ نومبر 2022 میں اس دیو ہیکل منصوبے کے آخری مرحلے کا آغاز ہوا، جس میں چھ لاکھ افراد کو متحرک کیا گیا۔ ان محنتی کارکنوں نے صحرائی ماحول میں زندہ رہنے والے درختوں جیسے صحرا کے چنار (Desert Poplars)، سرخ بید (Red Willows) اور ساکسال (Saxaul) کی شجرکاری کی۔ یہ پودے بنجر زمین میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ریت کو مزید آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔
ریگستان کی توسیع کو روکنے کے علاوہ یہ سبز پٹی علاقائی معیشت کے لیے بھی نئے مواقع پیدا کر رہی ہے۔ بعض پودے، جیسے صحرائی گلِ لیلا (Desert Hyacinth)، جو اپنی طبی خصوصیات کے لیے مشہور ہے، خطے میں اقتصادی فوائد فراہم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، 2022 میں ہوتان-روچیانگ ریلوے کی تکمیل ایک تاریخی سنگِ میل تھی۔ یہ 2,712 کلومیٹر طویل ریلوے لائن پورے ریگستان کا احاطہ کرتی ہے اور مقامی مصنوعات جیسے میوے اور لال کھجور کو چین کے دیگر علاقوں تک پہنچانے میں مدد دے رہی ہے۔
تکلامکان ریگستان میں ایک عظیم توانائی منصوبہ بھی زیرِ تعمیر ہے۔ چائنا تھری گورجز کارپوریشن یہاں ایک دیو ہیکل توانائی کمپلیکس تعمیر کر رہی ہے، جس میں 8.5 گیگاواٹ شمسی توانائی اور 4 گیگاواٹ ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی شامل ہوگی۔ اس منصوبے کی تکمیل اگلے چار سال میں متوقع ہے اور اس سے سنکیانگ کو قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں عالمی رہنما بنانے میں مدد ملے گی۔
سبز پٹیاں دنیا بھر میں صحرائی زمین کو زرخیز بنانے اور ماحولیاتی انحطاط کو روکنے کا مؤثر ذریعہ بنتی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، افریقہ میں عظیم سبز دیوار (Great Green Wall) کا منصوبہ صحارا ریگستان کی توسیع کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ چین کا تکلامکان سبز پٹی منصوبہ ان تمام خطوں کے لیے ایک ماڈل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو صحرائی زمین کے پھیلاؤ سے متاثر ہیں۔
جب تکلامکان ریگستان کے گرد سبز پٹی مکمل ہو جائے گی، چین اس کی مؤثریت کو مزید بہتر بنانے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ سبز پٹیوں اور شمسی توانائی کا امتزاج صحرائی زمین کے پھیلاؤ کو روکنے اور پائیدار توانائی کے استعمال میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دیتا ہے بلکہ مستقبل میں دنیا بھر میں صحرائی زمین کے خلاف اقدامات کے لیے ایک معیار بھی مقرر کرتا ہے۔
یہ بلند حوصلہ منصوبہ نہ صرف اختراعات، ثابت قدمی اور سبز ٹیکنالوجی کے امتزاج کی کامیابی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ دوسرے ممالک کے لیے ایک مثال بھی قائم کرتا ہے کہ وہ کس طرح نازک ماحولیاتی نظام کی حفاظت کرتے ہوئے اقتصادی ترقی اور قابلِ تجدید توانائی کے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ صحرا ہمیشہ سے انسانی صبر اور قدرتی طاقت کے درمیان ایک معرکہ رہا ہے۔ کبھی اس کے طوفان لوگوں کو خوفزدہ کرتے تھے، آج اسے قابو میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ صرف ایک ریگستان کو روکنے کی کہانی نہیں، بلکہ ایک نئے دور کی شروعات ہے، جہاں انسان اپنی عقل، محنت اور گرین ٹیکنالوجی کے ذریعے فطرت کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے جتن کر رہا ہے۔ تکلامکان، جو کبھی موت کی علامت تھا، اب زندگی، ترقی اور استقامت کی علامت بن چکا ہے۔ یہ منصوبہ ثابت کرتا ہے کہ اگر عزم پختہ ہو، تو ریت کے سمندر بھی رک سکتے ہیں اور اندھیرے میں روشنی کے نئے راستے کھل سکتے ہیں۔