ملیر کی کالونائزیشن

ڈاکٹر اصغر دشتی

ملیر میں آج جس قسم کی صورتحال ہے، جس طرح مقامی لوگوں سے ان کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں، ان کی تہذیب ،ثقافت، زبان اور وقار کو جس انداز میں ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے، اسے اگر ’ڈاکٹرائن آف ڈسکوری‘ اور ’ڈاکٹرائن آف ٹیرا نالیس‘ کے تناظر میں ملیر کی کالونائزیشن کہا جائے تو بے جان نہ ہوگا۔

ڈاکٹرائن آف ڈسکوری قبضہ گیری، لوٹ مار، معاشی استحصال اور دیگر اقوام کی زمینوں پر ملکیت کا ایک یورپی نوآبادیاتی اصول تھا جو پندرہویں صدی میں اپنایا گیا۔ جس کے تحت یورپی نوآبادیاتی ممالک کو غیر یورپی سرزمینوں پر اپنا دعویٰ کرنے کا حق حاصل تھا۔ اس اصول کے مطابق اگر کسی زمین پر یورپیوں/ مسیحیوں کی موجودگی نہیں ہے تو وہ زمین یورپی کالونائزرز کی جانب سے قبضہ کرنے کے بعد ”دریافت شدہ“ (Discovered) سمجھی جاتی تھی اور یورپی کالونائزرز کو وہاں کی خودمختاری اور ملکیت کا حق ملتا تھا۔

ڈاکٹرائن آف ٹیرا نالیس کی اصطلاح ”خالی زمین“ یا ”غیر آباد زمین“ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جس کے تحت یورپی نوآبادیاتی طاقتوں نے دعویٰ کیا کہ اگر کسی زمین پر مقامی لوگوں کا مالکانہ حق نہ ہو (یعنی یورپی تعریف کے مطابق وہ زمین ”آباد“ نہ ہو) ، تو وہ زمین قانونی طور پر کسی بھی یورپی نوآبادیاتی ملک کے لیے ”دریافت شدہ“ اور دعویٰ کرنے کے لیے دستیاب ہے۔

ان دونوں اصولوں کے تحت صدیوں سے آباد امریکی ایراواک (جنہیں کولمبس نے ’ریڈ انڈینز‘ کا نوآبادیاتی نام دیا۔ یعنی ایک پوری نسل کو کولونائزڈ کر کے ان کی شناخت کو ہی مسخ کر دیا گیا)، افریقی قبائل، کینیڈا کے انوئیٹ اور میٹس، نیوزی لینڈ کے مقامی ماوری اور آسٹریلیا کے ایبورجینلز کی زمینوں، کھیتوں، چراگاہوں، دریاؤں اور پہاڑوں پر بلاجواز قبضہ کر لیا گیا۔ مقامی لوگوں کا قتل عام کیا گیا، انہیں غلام بنایا گیا۔ اس اصول کے تحت نہ صرف ان کی زمینوں کو چھیننے کا جواز پیدا کیا گیا بلکہ ان کی زبان، شناخت، ثقافت، رسوم و رواج اور تاریخ کو بھی پامال کیا گیا۔ ان مقامی اقوام کو بے وقعت سمجھ کر ان کے ساتھ ظلم و ستم کا ایک نیا باب شروع کیا گیا، جس میں ان کی موجودگی اور حقوق کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔۔ اور آج اپنی دھرتی کے وارث اور مالک یہ تمام اقوام اجنبیوں کی طرح رہ رہے ہیں۔

بحریہ ٹاؤن اور ملیر ایکسپریس وے کے قیام کی شکل میں ملیر کے زرخیز، آباد اور تاریخی علاقوں پر قبضہ ایک بدترین استحصال ہے جو مقامی عوام کی سرزمین، ثقافت اور ماحولیاتی توازن کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کی کوشش ہے۔ یہ منصوبہ ملیر کے قدرتی وسائل، زرعی اراضی اور صدیوں سے آباد گوٹھوں کو تباہ کرنے کی سازش ہے، جہاں مقامی لوگ اپنے آباؤ اجداد کی زمینوں سے جڑے ہیں اور ان کی شناخت اسی زمین سے وابستہ ہے۔

ان منصوبوں نے اہلِ ملیر کے لیے ایک نیا استحصالی نظام قائم کیا ہے، جہاں مقامی عوام کو ان کی اپنی زمینوں سے زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ بے رحم ہاؤسنگ سوسائٹیز، ایکسپریس وے اور تجارتی منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اس قبضے نے علاقے کے ماحولیاتی توازن کو بری طرح پامال کرتے ہوئے مقامی لوگوں کی زندگیوں کو بھی غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ یہ صرف ایک قبضہ نہیں، بلکہ مقامی لوگوں کی زمینوں، پانیوں، کھیتوں، ثقافت اور ان کے تہذیب و وقار کا قتل ہے۔ اس کا نتیجہ ملیر کے مقامی عوام کے لیے نہ صرف تباہی، بلکہ نسلوں کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ صورتحال اس بات کا واضح پیغام ہے کہ ملیر کے قدرتی وسائل اور اراضی کو بے رحمی سے لوٹنے کا عمل جاری ہے اور مقامی عوام کی آواز کو دبانے کے لیے انہیں سماجی اور سیاسی طور پر کمزور کر دیا گیا ہے۔ یہ قبضہ ایک نوآبادیاتی دشمنی کی مانند ہے، جو ہماری ثقافت اور ہمارے وجود کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، اور اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو ہم اپنی سرزمین پر ہی اجنبی بن کر رہ جائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close