ایک خاموش خطرہ: ٹی بیگ جسم میں مائیکرو پلاسٹک کی منتقلی کی بڑی وجہ ہے!

ویب ڈیسک

چائے محض ایک مشروب نہیں، بلکہ بہت سی ثقافتوں میں روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ پاکستان میں چائے صرف ایک گرم مشروب نہیں، بلکہ مہمان نوازی، گپ شپ اور آرام کا ایک ذریعہ ہے۔ بازاروں میں گلاسوں میں لبریز چائے، گھروں میں چائے کے کپ کے گرد بیٹھے خاندان، اور دفاتر میں ٹی بریک، یہ سب ہمارے معاشرتی رویے کا ایک تسلسل ہیں۔

لیکن جس چائے کو ہم رغبت سے پیتے اور محبت سے پلاتے ہیں، کیا وہ ہماری صحت کے لیے بھی اتنی ہی محفوظ ہے؟ جدید تحقیق بتاتی ہے کہ چائے کے ساتھ، خاص طور پر ٹی بیگز کے ذریعے، مائیکرو اور نینو پلاسٹک کے اربوں ذرات بھی ہمارے جسم میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا انکشاف ہے جو ہماری روزمرہ کی زندگی میں چھپے خطرات کو بے نقاب کرتا ہے۔

ٹی بیگز: سہولت یا صحت کے لیے خطرہ؟

پرانے وقتوں میں چائے کی پتیاں ابال کر یا چھان کر پی جاتی تھیں، لیکن آج کے مصروف دور میں ٹی بیگز کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ 2022 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 5 ارب ٹی بیگز استعمال کیے جاتے ہیں، اور چائے پینے والے 51 فیصد افراد صرف ٹی بیگز پر انحصار کرتے ہیں۔ جبکہ 20 فیصد زیادہ تر ٹی بیگز کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔

آٹو نومس یونیورسٹی آف بارسلونا، اسپین کی ایک تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ ایک چھوٹے سے ٹی بیگ سے بھی اربوں کی تعداد میں مائیکرو اور نینو پلاسٹک کے ذرات پانی میں منتقل ہو سکتے ہیں، جو بعد میں ہمارے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔

یہ مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ 2023 میں سائنسدانوں نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کون سے ٹی بیگز سب سے زیادہ مضر صحت ہیں اور ان سے کتنی مقدار میں پلاسٹک خارج ہوتی ہے۔

تحقیق کے مطابق تین طرح کے ٹی بیگز کا جائزہ لیا گیا، جن میں سے پولی پروپائلین سے بنے ٹی بیگز سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے، جو ایک ملی لیٹر پانی میں 1.2 ارب مائیکرو پلاسٹک ذرات خارج کرتے ہیں۔ ان ذرات کا اوسط سائز 136 نینو میٹر ہوتا ہے۔

سیلولوز سے بنے ٹی بیگز ایک ملی لیٹر پانی میں 135 ملین ذرات خارج کرتے ہیں، جو پولی پروپائلین سے کم ہیں، لیکن پھر بھی خطرناک ہیں۔ جبکہ نائیلون سے بنے ٹی بیگز مندرجہ بالا سے کم نقصان دہ پائے گئے، جو 8.2 ملین ذرات خارج کرتے ہیں۔

اگرچہ نائیلون کے ٹی بیگز کم نقصان دہ ہیں، لیکن ان میں بھی مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

مائیکرو پلاسٹک کے انسانی جسم پر اثرات کی بات کریں تو سائنس ڈائریکٹ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق مائیکرو اور نینو سائز کے پلاسٹک ذرات انسانی صحت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ ذرات جسم کے مختلف اعضاء، خلیات اور بافتوں میں جذب ہو سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں: مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے، جینو ٹاکسٹی (DNA کو نقصان) کا خطرہ بڑھتا ہے، کینسر کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے اور نظامِ ہاضمہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ خطرات محض نظریاتی نہیں بلکہ جدید سائنسی تحقیق سے ثابت شدہ ہیں۔

پاکستان میں چائے اور صحت کا بحران

یوں تو پاکستان کا قومی مشروب گنے کا رس ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ چائے ہی سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مشروب ہے۔ پاکستان میں ہر بالغ فرد اوسطاً ڈیڑھ کلو چائے سالانہ استعمال کرتا ہے، اور ملک چائے کی درآمد میں دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے۔

2022 کے اعداد و شمار کے مطابق، صرف چھ ماہ میں پاکستانیوں نے 194 ارب روپے کی چائے پی۔ چائے کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ، مائیکرو پلاسٹک کا مسئلہ بھی ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔

کیا پیپر ٹی بیگز بھی خطرناک ہیں؟

فیصل آباد انجینئرنگ یونیورسٹی کے محقق زین قاضی کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر چائے کھلی پتّی کی صورت میں استعمال کی جاتی ہے، لیکن دفاتر اور اپر کلاس گھرانوں میں ٹی بیگز کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

کچھ کمپنیاں پولی پروپائلین کے استعمال سے سستے اور معیاری نظر آنے والے ٹی بیگز بناتی ہیں، لیکن ان میں تقریباً 30 فیصد پلاسٹک ہوتی ہے۔ جیسے ہی یہ ٹی بیگ گرم پانی میں ڈالے جاتے ہیں، یہ بڑی مقدار میں مائیکرو پلاسٹک خارج کرتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

ماہرین کے مطابق مارکیٹ میں کچھ فلٹر پیپر سے بنے ’سٹرنگ اینڈ ٹیگ‘ ٹی بیگز بھی موجود ہیں، جو پلاسٹک پولیمر سے پاک ہوتے ہیں۔ یہ ٹی بیگز اسٹپل یا سلائی کے ذریعے بند کیے جاتے ہیں اور ان میں مائیکرو پلاسٹک کا اخراج نہیں ہوتا۔

لیکن جعل سازی کے اس دور میں مکمل یقین کرنا مشکل ہے۔ زین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اور بین الا قوامی سطح پر بھی بہت سی چائے کی کمپنیاں جعل سازی سے سٹرنگ اینڈ ٹیگ ٹی بیگ تیار کرتے ہوئے ان میں پلاسٹک شامل کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہیں ”جب ٹی بیگ خریدیں تو چیک کریں کہ ٹی بیگ کے کنارے مڑے ہوئے تو نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ یقینا مضر صحت ٹی بیگز ہیں کیونکہ مڑے ہوئے کنارے پلاسٹک پولیمر سے بنے ٹی بیگ کی نشاندہی کرتے ہیں۔“

ہم کیا کر سکتے ہیں؟

دنیا بھر میں پلاسٹک کا استعمال اس قدر بڑھ چکا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو جو مائیکرو پلاسٹک سے پاک ہو، اس کا سب سے آسان حل یہی ہے کہ لوگ چیزیں خریدتے وقت ان کے مضر اثرات سے متعلق مکمل معلومات حاصل کریں اور بڑی برانڈز پر اندھا دھند اعتماد نہ کریں۔ کچھ اقدامات ایسے ہیں جو ہمیں اور ہمارے ارد گرد کے لوگوں کو محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:

● کھلی پتّی والی چائے کا استعمال زیادہ کریں۔
● اگر ٹی بیگ ہی استعمال کرنے ہیں تو ایسے ٹی بیگز استعمال کریں جو فلٹر پیپر سے بنے ہوں اور بغیر کسی پولیمر کے ہوں۔
● مارکیٹ میں دستیاب ’بائیوڈیگریڈیبل‘ ٹی بیگز کی تلاش کریں۔
● پلاسٹک کے خطرات سے متعلق شعور بیدار کریں اور غیر ضروری پلاسٹک کے استعمال سے گریز کریں۔

معتدل استعمال کے ساتھ چائے اگرچہ بذاتِ خود نقصان دہ نہیں، لیکن اس کے ساتھ آنے والے مائیکرو پلاسٹک کے ذرات ہماری صحت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ جب ہم ایک کپ چائے کے مزے لے رہے ہوتے ہیں، تو اس کے ساتھ پلاسٹک کے ہزاروں ذرات بھی ہمارے جسم میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں۔

ہمیں اپنی روزمرہ کی عادات پر نظر ثانی کرنی چاہیے، اور اگر ممکن ہو تو قدرتی طریقوں سے چائے بنانے کو ترجیح دینی چاہیے۔ اگرچہ یہ ایک قدرے محنت طلب قدم ہو سکتا ہے، لیکن صحت کے لیے یہی ضروری ہے۔

چائے کا ایک کپ ہمارے دن کو بہتر بنا سکتا ہے، لیکن اگر وہی کپ ہماری صحت کے لیے خطرہ بن جائے، تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کیا پی رہے ہیں اور کیسے پی رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close