
صورت خان بگٹی کی آنکھوں میں ویرانی ہے، لہجے میں شکستگی، ”میں اپنی بیوی کو ڈیرہ بگٹی سے 200 کلومیٹر دور رحیم یار خان لے جا رہا تھا۔ میرے دل میں ایک ہی دعا تھی کہ وہ اور ہماری آنے والی بچی دونوں ہی سلامت رہیں۔۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ راستے میں میری بیوی اور ننھی پری دونوں ہی مجھ سے جدا ہو گئیں۔“
یہ صرف ایک کہانی نہیں، بلوچستان کے درجنوں اضلاع میں ہر سال سیکڑوں مائیں ایسے ہی خاموشی سے زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں، جن کا کوئی نوحہ لکھنے والا نہیں۔
علاج کے نام پر سفرِ مرگ
ڈیرہ بگٹی کا ضلعی ہسپتال، ہسپتال کے نام پر اینٹوں کی ایک ایسی عمارت ہے، جہاں بنیادی طبی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ لیڈی ڈاکٹرز اور گائناکالوجسٹ کی غیر موجودگی نے حاملہ خواتین کو ایک مستقل خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہاں کی مائیں ہسپتال نہیں، سڑکوں پر زندگی دیتی ہیں، ایمبولینس میں دم توڑتی ہیں یا گھروں میں غیر تربیت یافتہ دائیوں کے رحم و کرم پر اپنی جان ہار دیتی ہیں۔
”یہاں کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں، کوئی بلڈ بینک نہیں، کوئی زچہ و بچہ سینٹر نہیں۔“ یہ کہنا ہے سماجی کارکن عبدالغفار بگٹی کا، جو کئی برسوں سے اس مسئلے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2024 میں صرف ڈیرہ بگٹی میں 30 خواتین زچگی کے دوران انتقال کر گئیں، اور یہ سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہیں۔
رحیم یار خان: ایک ہسپتال، سینکڑوں مجبور زندگیاں
ڈیرہ بگٹی اور دیگر بلوچ اضلاع میں اسپتال کم، مگر رحیم یار خان کا ایک اسپتال سب کے لیے آخری امید ہے۔ لیکن یہ امید بھی اکثر راستوں کی خستہ حالی کے باعث دم توڑ جاتی ہے۔
”چار گھنٹے کا سفر سیکیورٹی چیک پوسٹوں اور خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے آٹھ سے نو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ اکثر مریض راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہے۔“ عبدالغفار بگٹی نے تلخ حقیقت بیان کی۔
یہ صرف ڈیرہ بگٹی کا مسئلہ نہیں، پورے بلوچستان میں یہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔
ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کے مطابق، بلوچستان میں دورانِ زچگی اموات کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں ہر ایک لاکھ میں سے 184 مائیں زچگی کے دوران انتقال کر جاتی ہیں، لیکن بلوچستان میں یہ تعداد 198 تک جا پہنچی ہے۔ یہ ملکی اوسط سے 40 فیصد زیادہ ہے۔
ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں، ”دوران زچگی پیچیدگیوں میں خون کا زیادہ بہنا، بلند فشار خون اور انفیکشنز عام ہیں۔ اگر فوری طبی امداد نہ ملے تو ماں اور بچہ دونوں کی جان چلی جاتی ہے۔“
محکمہ صحت بلوچستان کے ایک اعلیٰ افسر نے انکشاف کیا کہ 36 اضلاع میں سے 22 میں ایک بھی ماہر امراضِ نسواں نہیں۔ کاغذات میں کچھ ڈاکٹروں کی تعیناتی تو دکھائی جاتی ہے، مگر حقیقت میں وہ کوئٹہ جیسے بڑے شہروں میں تعینات ہونا پسند کرتی ہیں۔
ایک حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے تین لاکھ کی آبادی والے ضلع ڈیرہ بگٹی میں ایک بھی لیڈی ڈاکٹر نہیں، جبکہ صوبے کے 980 میں سے 739 لیڈی ڈاکٹرز صرف کوئٹہ میں موجود ہیں۔ چاغی، ڈیرہ بگٹی، بارکھان جیسے اضلاع مکمل طور پر محروم ہیں۔
دوسری جانب حیران کن طور پر محکمہ صحت بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر امین خان مندوخیل، حکومتی اقدامات کا دفاع کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زچہ و بچہ کی صحت سے متعلق چار پروگرامز چل رہے ہیں اور لیڈی ڈاکٹرز کے لیے خصوصی فنڈز رکھے جا رہے ہیں۔
لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ بلوچستان میں 45 ہزار سے زائد طبی عملہ ہونے کے باوجود 4400 اسامیاں خالی پڑی ہیں۔
ڈیرہ بگٹی وہی علاقہ ہے جس سے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کا تعلق ہے، لیکن ان کے اپنے ضلع میں خواتین دوران زچگی مر رہی ہیں اور کوئی سننے والا نہیں۔
یہ صرف حکومت کی ناکامی نہیں، یہ پورے سماج کے اجتماعی ضمیر کا سوال ہے۔ کیا بلوچستان کی بیٹیاں اور مائیں یونہی سڑکوں پر، گھروں میں، ایمبولینس میں تڑپ کر مرتی رہیں گی؟ کیا ان کے حصے میں کبھی کوئی امید، کوئی روشنی آئے گی؟
یا پھر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا اور ہم اگلے سال پھر ایک نئی رپورٹ میں چند اور ماؤں کے مرنے کی خبریں لکھ رہے ہوں گے؟