علم پر اجارہ داری کے نقصانات

ڈاکٹر مبارک علی

علم کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ نئے خیالات اور افکار کے ذریعے معاشرے میں ترقی کا باعث بنتا ہے۔ تاریخ میں قدیم دور سے موجودہ زمانے تک ہم علم کو ایک دوسری شکل میں بھی دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی ایک طبقہ اِس پر اپنی اجارہ داری قائم کر لے تو اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے طبقوں کو اس سے محروم رکھتے ہوئے اور اُن پر حکومت کر کے انہیں ماتحت بنا کر رکھا جائے۔

ہندوستان میں برہمن ذات کا علم پر تسلط تھا۔ وہ پیدائش سے لے کر موت تک تمام مذہبی رسومات ادا کرتی تھی، جبکہ باقی ذاتیں اُن کے زیرِ نگیں ہوتی تھیں۔ برہمن کے علاوہ دوسری ذاتوں کو ویدوں کا علم حاصل کرنا ممنوع تھا۔ برہمنوں کے علاوہ بَنیوں، مہاجن، سُود خور اور سرکاری عہدیداروں کا مذہبی علم پر تسلّط تھا۔ وہ عام لوگوں کی جہالت سے فائدہ اُٹھا کر اپنے ہی کھاتوں میں قرض، سود پر دی ہوئی رقم کا غلط اندراج کر کے اُن سے سالہا سال ادائیگی کی رقم وصول کرتے تھے۔ سرکاری عہدیداراں لگان اور دوسرے ٹیکسوں سے عوام کی محنت سے کمائی ہوئی رقم کو اپنے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے وصول کرتے تھے۔

یورپی مُلکوں میں بھی فیوڈل لارڈز کسانوں کو دیے گئے ٹیکس اور لگان کی رقم کو رجسٹروں میں لکھتے تھے۔ جن کی ادائیگی کسانوں پر قانونی طور پر فرض تھی۔ تاہم جب بھی کسان بغاوت کرتے تھے تو وہ فیوڈل لارڈز کے محلوں پر حملہ کر کے قرض کے رجسٹروں کو جلا دیتے تھے۔ 1789ء کے فرانسیسی انقلاب میں جب دیہاتوں میں بغاوتیں ہوئیں تو باغیوں نے نہ صرف فیوڈل لارڈز کے محلات کو جلایا بلکہ اُن رجسٹروں کو بھی جلا دیا جن پر اُن کے قرضوں کی تفصیل درج تھی۔

حکمراں طبقہ اُس علم سے بھی خوفزدہ رہتا تھا جو اُن کے نظامِ اقتدار کو بدلنے کی بات کرتا تھا۔ ایسے مصنفوں کی کتابوں اور تحریروں کو مِٹا دیا گیا اور صرف اُس علم کی سرپرستی کی گئی جس نے ریاستی اداروں کو تحفظ دیا۔ اِن ریاستی دانشوروں میں مورخ فلسفی، شاعر، ادیب اور آرٹسٹ شامل تھے۔ یورپ میں اس علم کو روکنے کے لیے اُن کی اشاعت پر پابندیاں لگائی گئیں۔ پرنٹنگ پریس جو ایسے اِنقلابی مواد چھاپتی تھیں اُن کو بھی بند کر دیا گیا۔

1815ء میں نیپولین کی شکست کے بعد یورپ میں یہ قانون پاس ہوا کہ طالبعلم لائبریری سے جو کتابیں پڑھنے کے لیے حاصل کرے ان کی فہرست بنائی جائے۔ علم پر پابندی کا یہ ماڈل ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکی مُلکوں کے آمروں نے استعمال کیا اور صرف اُس علم کو قائم رکھا، جو اُن کے نظریات کی حمایت کرتا تھا۔ اس کے دو نتائج نکلے۔ ایک علم کی آزادی پر پابندی لگی اور معاشرے ذہنی طور پر پسماندہ ہوتے چلے گئے۔ جن مُلکوں میں علمی آزادی تھی۔ وہ آگے بڑھتے گئے اور تخلیقی علم کی وجہ سے دوسری قوموں پر اپنی ذہنی برتری کو برقرار رکھا۔

علم کے ساتھ ہی عام طور سے عقل اور دلیل کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یعنی دلیل، عقل اور عقیدے کے درمیان فرق کو قائم کیا جاتا ہے اور اس پر زور دیا جاتا ہے کہ فیصلے عقل اور دلیل سے کرنے چاہییں، لیکن یورپی سامراج نے عقل اور دلیل کو نئے مفہوم کے ساتھ اُسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ مثلاً جب امریکہ میں ریڈ انڈین کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا تو یہ دلیل دی گئی کہ چونکہ وہ اس قابل نہیں کہ خالی زمینوں پر کاشتکاری کر سکیں اور اس لیے یورپی لوگوں کے لیے زمینوں پر قبضہ کرنا اور اُنہیں قابلِ کاشت بنانا، ترقی کے لیے ضروری ہے۔

جب یورپی سامراج ایشیا اور افریقہ میں آئے تو یہاں یہ دلیل دی گئی کہ یہ مُلک تہذیبی لحاظ سے پسماندہ ہیں، یورپی سامراج اِنہیں مہذب بنائے گا۔ اس دلیل کے تحت اُنہوں نے اپنے سامراجی اقتدار کو جائز قرار دے دیا۔ سامراجی اقتدار میں مشنریز بھی آئے۔ مسیحی مذہب کی تبلیغ کرتے ہوئے اُن کی دلیل یہ تھی کہ اس مذہب نے یورپ کی اقوام کو مُہذب اور ترقی یافتہ بنایا، جبکہ ایشیا اور افریقہ کے مذاہب تعصّبات اور تہمات کا مجموعہ ہیں، اور اسی لیے یہ اُن کی ترقی میں رکاوٹ ہیں، لہٰذا ان کے مذہب کو تبدیل کر کے اِنہیں مہذب قوم بنانے کی ضرورت ہے۔

عِلم اور عقل اور دلیل کے اِس تجزیے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِن کی کوئی ایک جامع تاریخ ممکن نہیں ہے۔ طاقتور اقوام اِنہیں نئے معنی دے کر اپنے مُفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اخلاقی قدریں ہیں جو طاقتور قوموں کو کمزورں پر استحصال سے روک سکیں؟۔ اب تک تاریخ نے اخلاقیات میں نہ ناانصافی کو روکا ہے نہ ہی ظُلم و ستم کو، اور نہ قتل و غارت گری کو۔ اِن کو جائز ثابت کرنے کے لیے، عقل اور دلیل کو ایک نئے مفہوم میں پیش کیا جاتا ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close