
نیویارک کی ایک چمکتی شام، کم کارڈیشین اپنی SKIMS بوتیک کی افتتاحی تقریب میں ایک عجیب و غریب امتزاج کے ساتھ جلوہ گر ہوئیں: ایک پاؤں میں اسٹیلٹو اور دوسرے میں ڈیزائنر پلاسٹر۔ وہ ایک خاص قسم کے اسکوٹر پر بیٹھ کر چلتی آئیں، جیسے یہ کوئی سرخ قالین کا نیا فیشن ہو۔ مگر یہ صرف فیشن نہیں تھا، یہ ایک بیانیہ تھا، ایک ڈیجیٹل اسٹیج پر لائیو پرفارمنس۔ چوٹ اب صرف جسمانی درد نہیں رہی، بلکہ ایک ”کانٹینٹ کیٹیگری“ بن چکی ہے، جسے کیمرے کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، ایڈیٹ کیا جاتا ہے، اور لاکھوں ناظرین کی واہ واہ سمیٹتا ہے۔
جی ہاں سوشل میڈیا کی چمک دمک میں یہ منظر صرف ہمدردی کے جذبات ابھارنے کے لیے نہیں تھا؛ یہ ویوز، لائکس، اور شیئرز کا ایک نیا ذریعہ تھا۔
اور کم اکیلی نہیں۔ 2024 میں، ریپر کِڈ کڈی نے کوچیلا فیسٹیول میں اپنی زخمی ٹانگ کو سرجیکل بوٹ اور بیساکھیوں کے ساتھ ایک وائرل داستان میں بدل دیا۔ ان کی ہر تصویر، ہر ویڈیو، ایک نئے باب کا آغاز تھی، جہاں چوٹ محض جسمانی اذیت نہیں بلکہ ڈیجیٹل شہرت کا ذریعہ بن گئی۔ یہ کوئی ڈاکٹری رپورٹ نہیں، بلکہ ایک ”ویژول جرنی“ تھی، جذباتی، گلیمرس اور مکمل طور پر انسٹاگرام زدہ!
لیکن اس دلکش ڈیجیٹل تمثیل کے نیچے ایک تلخ سوال دبا ہوا ہے: کیا یہ رجحان ہماری صحت یابی میں مدد دے رہا ہے یا اسے نقصان پہنچا رہا ہے؟
یہ نیا رجحان محض مشہور شخصیات تک محدود نہیں رہا۔ اب سوشل میڈیا پر عام افراد بھی اپنی چوٹوں کو ڈیجیٹل ڈائری میں بدل رہے ہیں۔ کوئی سپر مارکیٹ میں بیساکھی کے ساتھ گھوم رہا ہے، تو کوئی میڈیکل بوٹ پہن کر جم میں پسینہ بہا رہا ہے۔ ہیش ٹیگز جیسے #BrokenFootClub اور #InjuryRecovery آن لائن برادریوں میں بدل چکے ہیں
ان ہیش ٹیگز کے تحت آپ کو وہ دنیا نظر آتی ہے جہاں چوٹوں پر گفتگو ایک زندہ کمیونٹی بن چکی ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنی کہانی سناتا ہے: کوئی بتاتا ہے کہ کیسے اس نے دوبارہ سیڑھیاں چڑھنا سیکھا، تو کوئی ورزش کے دوران پٹھوں میں درد کے ساتھ اپنی پیش رفت دکھاتا ہے۔
اس کا ایک مثبت پہلو ضرور ہے۔ یہ ویڈیوز اور پوسٹس ان لوگوں کے لیے حوصلہ افزا ہو سکتی ہیں جو خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں، جو یہ سوچتے ہیں کہ شاید وہی واحد فرد ہیں جو اس اذیت سے گزر رہے ہیں۔ اگر کسی نے گھٹنے کی سرجری کے بعد بیت الخلا تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی، تو وہ لمحہ کسی دوسرے مریض کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔
اور یہ بھی سچ ہے کہ کچھ ڈاکٹرز، فزیوتھراپسٹ اور پوڈیئٹرسٹ سوشل میڈیا پر حقیقی اور سائنسی بنیادوں پر مبنی مشورے دیتے ہیں۔ ان کی ویڈیوز، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو کسی ماہر کے پاس نہیں پہنچ سکتے، گراں قدر رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
لیکن یہ تصویر یکطرفہ نہیں۔ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ وائرل ہونے والے ”شفا یابی کے سفر“ عموماً متاثر کن کم اور خطرناک زیادہ ہوتے ہیں۔
ایسی ویڈیوز جن میں لوگ بیساکھیاں جلدی چھوڑ دیتے ہیں، بغیر تیاری کے دوڑنا شروع کر دیتے ہیں، یا صرف ’ویوز‘ کی خاطر غیر ضروری رسک لیتے ہیں، یہ سب نہ صرف گمراہ کن ہیں بلکہ ممکنہ طور پر نقصان دہ بھی۔ ان میں وہ حصہ غائب ہوتا ہے جہاں جسم کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں درد بار بار لوٹتا ہے، جہاں سوجن ختم ہونے میں ہفتے لگتے ہیں، اور جہاں شفا کی رفتار سست اور غیر دلکش ہوتی ہے۔
اصل میں، جسم کو دوبارہ حرکت میں لانے کے لیے ایک منظم اور طبی اعتبار سے منظور شدہ منصوبے کی ضرورت ہوتی ہے: آہستہ آہستہ وزن ڈالنا، ہلکی حرکت، خاص زاویے پر ورزش، اور وقت کے ساتھ طاقت کی واپسی۔
اگر اس فطری عمل کو صرف اس لیے تیز کرنے کی کوشش کی جائے کہ آپ بھی کسی مشہور شخصیت کی طرح ”سجی سنوری“ واپسی کر سکیں — تو اس کا نتیجہ کچھ یوں ہو سکتا ہے: صحت یابی میں تاخیر، دائمی درد، دوبارہ چوٹ، جوڑوں کی پیچیدگیاں، خاص طور پر گھٹنوں، کولہوں اور کمر میں!
2025 کی ایک تازہ تحقیق، جس نے ٹک ٹاک پر اچانک ہونے والی گھٹنے کی چوٹوں سے متعلق مواد کا تجزیہ کیا، میں یہ چونکا دینے والا انکشاف ہوا کہ اکثر ویڈیوز غیر ماہر افراد کی تیار کردہ تھیں اور ان میں معلومات یا تو ادھوری تھیں یا مکمل طور پر غلط۔
اسی تحقیق میں کہا گیا کہ یہ ویڈیوز مریضوں کی توقعات کو بگاڑتی ہیں۔ جب کسی کو لگتا ہے کہ وہ تین ہفتے میں دوڑنے کے قابل ہو جائے گا، اور وہ ایسا نہیں کر پاتا تو وہ مایوسی، اضطراب اور خطرناک فیصلوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ رجحان صرف افراد کو نہیں بلکہ معالجین کو بھی متاثر کرتا ہے، جو پھر ان پیچیدہ نتائج سے نمٹنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر طبی معلومات کا غیر محتاط استعمال ایک ابھرتا ہوا خطرہ ہے۔ خاص طور پر وہ مواد جو پروفیشنل دیکھ بھال کو ’شارٹ کٹ‘ سے بدلنے کی کوشش کرتا ہے، مریضوں کو مزید پیچیدہ مسائل میں مبتلا کر سکتا ہے۔
چوٹ کوئی فیشن نہیں!
سچ یہ ہے کہ شفا ایک نجی اور پیچیدہ عمل ہے، نہ کہ کوئی وائرل چیلنج۔ اس کی رفتار آپ کے جسم کی سننے اور سمجھنے پر منحصر ہے، نہ کہ کیمرے کے زاویے یا فالورز کی گنتی پر۔
جو لوگ مشہور شخصیات کو اسٹائلش پلاسٹر میں دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک مکمل میڈیکل ٹیم، پرائیویٹ تھراپسٹ، ذاتی ریہیب ماہر، اور بے حد وسائل موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ عام لوگ ایک بستر، ایک تکلیف دہ رات اور اکثر ایک ناکافی ہسپتال کے سہارے ہی اپنی جنگ لڑتے ہیں۔
تو پھر کیا کیا جائے؟ اس کے جواب میں سماجی اور طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کو ایک آلہ سمجھیں، منزل نہیں، مشورہ لینے سے پہلے ماخذ کی تصدیق کریں، دوسروں کی کہانیوں کو ترغیب کے طور پر لیں، موازنہ کے طور پر نہیں۔ اپنے جسم کی سنیں، وہ آپ کو سب سے سچا سچ بتائے گا!
آخر میں ایک حقیقت یاد رکھیں: شفا یابی کا سفر آپ کی اپنی رفتار پر ہے، نہ کہ کسی انفلوئنسر کے الگورتھم پر۔
جہاں سوشل میڈیا آپ کو حوصلہ دے سکتا ہے، وہیں یہ ایک دباؤ کا منبع بھی بن سکتا ہے۔ اس لیے اگر آپ زخمی ہیں، تو کیمرہ کو اپنی زندگی کا مرکز نہ بننے دیں۔ بجائے اس کے کہ آپ چوٹ کو ”کانٹینٹ“ میں ڈھالیں، اس محفوظ طریقے سے ٹھیک کرنے کی سعی کریں۔
کیونکہ اصل جیت وہ نہیں جو اسکرین پر نظر آئے، بلکہ وہ ہے جو جسم اور روح میں خاموشی سے اُبھرتی ہے، آہستہ، محتاط اور مکمل۔
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں کنورسیشن میں شائع کریگ گوین (سینئر لیکچرر، پوڈیئٹری، کارڈف میٹروپولیٹن یونیورسٹی) کے ایک آرٹیکل سے مدد لی گئی ہے۔ امر گل